وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے جاگنے کا وقت

دلی میں ملینیم پارک کے قیام کے لیے ’قبرستان اہل اسلام‘ کی 10 ایکڑاراضی پر قبضے اور اس کی بحالی کی کہانی۔۔!

افروز عالم ساحل

دیہی ہندوستان ہو یا شہری ہندوستان ،اوقاف کی بیش قیمتی املاک پر قبضوں کی کہانیاں چہارسو بکھری ہوئی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی دارالحکومت دلی میں قبرستان ’اہل اسلام ‘ کی بھی ہے جس کی زمین پر ایک خوبصورت پارک واقع ہے۔ قانون حق اطلاعات  (آر ٹی آئی) سے حاصل ہونے والےاہم دستاویز کے مطابق دلی کے آوٹر رنگ روڈ پر سرائے کالے خاں کے قریب واقع دلی کا مشہور اندرپرستھ ملینیم پارک اسی قبرستان کی زمین پر ہے۔

نمائندہ دعوت نے سب سے پہلے سال 2007 میں دلی وقف بورڈ میں آرٹی آئی داخل کرتے ہوئے اس تعلق سے معلومات طلب کیں تو بورڈ نے کہا کہ اس پارک میں قبرستان کا صرف ایک ’’چھوٹا‘‘ حصہ استعمال ہوا ہے۔ دوبارہ آرٹی آئی داخل کرتے ہوئے اس بارے میں مزید پوچھنے پر دلی وقف بورڈ نے بتایا کہ دلی حکومت نےاس ملینیم پارک کے لیے ’اہل اسلام قبرستان‘ کی 10ایکڑ زمین لی ہے، باقی 4 ایکڑ زمین دلی وقف بورڈ نے قبرستان اہل اسلام کی منیجنگ کمیٹی کو دی ہے۔

واضح رہے کہ 34ایکڑ پر محیط اس پارک کا کام سال 2000میں شروع ہوا اور سال 2002 میں یہ پارک پوری طرح تیار ہونے پر اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کے ہاتھوں عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔

آرٹی آئی کے ذریعے دلی وقف بورڈ سے موصولہ اس اہم جانکاری کے بعد راقم الحروف نے خود ’قبرستان اہل اسلام کمیٹی‘ کے سکریٹری حاجی میاں فیاض الدین سے ملاقات کی اور اس پورے معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کی حاجی فیاض الدین نے بتایا کہ ہندوستان کے صدر جمہوریہ کی جانب سے لینڈ اینڈ بلڈنگ ڈپارٹمنٹ نے ان کے والد حافظ ظہورالدین کو 19 ستمبر 1964 کو مسلمانوں کی تدفین یعنی قبرستان بنانے کے لیے 14 ایکڑ زمین دی تھی۔ یہ قبرستان وقف کی حیثیت سے وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے اور نگران،ایک کمیٹی کو بنایا گیا تھا۔ 1987 میں جب دلی وقف بورڈ کے چیئرمین امتیاز احمد خان تھے تو اس زمین پر مٹی بھرنے کی ذمہ داری انہوں نے قبول کی تھی۔ تب فیاض الدین نے 5مارچ 1988 کو اس کام کے لیے 25,000روپئے کی رقم دی تھی۔ وقف بورڈ کو اس زمین کی بھرائی میں تقریباً تین سال لگے تھے۔ اسی زمین پر ایک دفتر بھی بنایا گیا تھا۔ لیکن جب فیاض الدین نے مطالبہ کیا کہ معاہدے کے مطابق زمین انہیں واپس کی جائے تو وقف بورڈ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس دوران زمین قبرستان کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ فیاض الدین کے پاس اس زمین کی تمام دستاویز موجود ہیں جو انہوں نے راقم الحروف کو ثبوت کے طور پر دکھائی ہیں۔

حاجی فیاض الدین کے مطابق سال1999-2000 میں جب ہارون یوسف بورڈ کے چیئرمین اور قاضی اظہار احمد چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) تھے، تب اندرپرستھ ملینیم پارک کے بننےکے کام کا آغاز ہوا۔ اسی دوران لیفٹیننٹ گورنر کے پریس سکریٹری اسرار احمد، دلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے افسران اور وقف بورڈ کے افسران کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں فیاض الدین کے بار بار انکار کےباوجود بھی وقف بورڈ نے اس معاہدے کے ساتھ زمین پارک کے لیے دی کہ 10 ایکڑ اراضی پر کوئی مستقل ڈھانچے تعمیر نہیں کیے جائیں گے۔ نیز یہ معاہدہ بھی کیا گیا کہ اگر مستقبل میں قبرستان کو 4 ایکڑ سے زیادہ اراضی کی ضرورت ہوئی تو یہ زمین قبرستان کو واپس مل جائے گی۔

 کوویڈ 19 کے شکار لوگوں کی تدفین

ملک میں جب کوویڈ 19 کا دور شروع ہوا تو سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس بیماری سے مرنے والے لوگوں کی تدفین کہاں ہوگی؟ اس پریشانی کے مدنظر دلی وقف بورڈ نے کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تدفین کے لیے اسی اندرپرستھ ملینیم پارک کا جدید قبرستان اہل اسلام کو مختص کیا۔ تب سے دلی میں کورونا وائرس کی وجہ سے مرنے والوں کی تدفین اسی قبرستان میں ہورہی ہے۔

 قبرستان پر وشو ہندو پریشد کی نظر

اب اس اندرپرستھ ملینیم پارک پر وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی نظر ہے۔ ان کا الزام ہے کہ کوویڈ مریضوں کے لاشوں کو دفنانے کے نام پراندرپرستھ کے ملینیم پارک کی اراضی پر قبضہ کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ اس سازش کے پیچھے دلی وقف بورڈ ہے اور انہیں دلی سرکار کے کچھ لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ دلی وقف بورڈ نے پارک کی زمین پر کورونا کے نام سے تجاوزات کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس پارک میں کورونا کے مشتبہ افراد کی تدفین کرواتے ہوئے اسے قبرستان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں وی ایچ پی نے دلی کے لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل کو ایک خط بھی لکھا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پارک کی گیٹ سے ’’جدید قبرستان اہل اسلام‘‘کے بورڈ کو ہٹایا جائے۔ اس خط کے بعد وی ایچ پی اور ان کے نظریہ سے وابستہ افراد سوشل میڈیا پر اس قبرستان کے تعلق سے مہم چلا رہے ہیں۔ کئی بار قبرستان میں لوگوں کو جانے سے روکا بھی گیا ہے۔

مہم سے کوئی فرق نہیں پڑے گا  : امانت اللہ خان

دلی اسمبلی کی مائنارٹی ویلفیئر کمیٹی کے چیئرمین، اوکھلا سے رکن اسمبلی اور دلی وقف بورڈ کے سابق چیئرمین امانت اللہ خان سے جب ہفت روزہ دعوت نے اس قبرستان سے متعلق سوال کیا تو وہ بتاتے ہیں کہ ’’جدید قبرستان اہل اسلام‘‘ دلی وقف بورڈ کی زمین ہے۔ اس قبرستان کے کچھ حصہ پر خود ڈی ڈی اے نے گذشتہ ۲۰ سالوں سے قبضہ کر رکھا تھا۔ کسی کی جانب سے کسی بھی طرح کی مہم سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ڈی ڈی اے سے قبرستان کی 10ایکڑ زمین واپس لینے کے لیے دلی وقف بورڈ کیا کر رہی ہے؟ اس سوال پر امانت اللہ خان بتاتے ہیں کہ ڈی ڈی اے نے قبرستان کی لی ہوئی زمین واپس دے دی ہے۔ اس کی کاغذی کارروائی مکمل ہوچکی ہے، بس ابھی وقف بورڈ کو اس زمین کا قبضہ نہیں ملا ہے لیکن جلد ہی اسے بھی حاصل کرلیا جائے گا۔

یاد رہے کہ  20 مارچ 2020 کو پرنسپل سکریٹری (محصول) کے دفتر نے ایک خط میں کہا کہ امانت اللہ خان وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 14(1) کے مطابق 11 فروری کو اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی بورڈ کے رکن اور چیئرمین نہیں رہے۔ اب وہ دلی وقف بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے کوئی فیصلہ لینے یا کسی چیک پر دستخط کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ امانت اللہ خان دوبارہ دلی وقف بورڈ کے چیئرمین بن سکتے ہیں کیونکہ انہیں پھر سے دلی وقف بورڈ کا رکن منتخب کر لیا گیا ہےجس کا باضابطہ اعلان اور سرٹیفکیٹ گذشتہ 8 ستمبر کو دیا گیا۔ امید کی جارہی ہے کہ جلد ہی بورڈ ممبران اپنے درمیان سے چیئرمین کا انتخاب کریں گےاورگذشتہ 5 ماہ سے مخلوعہ وقف بورڈ کو اپنا چیئرمین نصیب ہوگا۔

 پارک کے قریب دلی وقف بورڈ کا  یونیورسٹی کےقیام کا منصوبہ

دلی وقف بورڈ نے اسی ملینیئم پارک کے قریب  وقف کی 30 ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی ہے۔ بورڈ اس زمین پر اپنی یونیورسٹی کھولنے کا ارادہ سال 2016 میں ہی ظاہر کرچکا ہے۔ اس یونیورسٹی کو مشہور مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان کے نام سے موسوم کرنے کی تجویز ہے۔

وقف بورڈ نے زمین کے استعمال کو ’’گرین‘‘ سے تبدیل کرکے ’’ادارہ جاتی‘‘ کرنے کے لیے دلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے بھی رابطہ کیا ہے تاکہ یونیورسٹی قائم کی جاسکے۔امانت اللہ خان کے مطابق ’’دلی حکومت نے تعاون کرنے کا وعدہ کیا ہے اور جب ڈی ڈی اے زمین کا زمرہ تبدیل کردے گا تو ہم تعمیر شروع کردیں گے۔‘‘

چونکہ وقف املاک اور اراضی قوانین کے مطابق صرف مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، لہذا یونیورسٹی میں مسلم کمیونٹی کے طلباء کے لیے کوٹہ اور محفوظ نشستیں رکھی جائیں گی۔ اس یونیورسٹی کا خرچ پورے دلی شہر میں پھیلی ہوئی مختلف وقف املاک سے موصولہ کرایہ سے پورا ہوگا ۔اس ضمن میں دلی وقف بورڈ اپنی آمدنی بڑھانے کی کوشوں میں لگ گیا ہے۔

زمین کی بازیابی کے لیے جماعت اسلامی ہند کی کوششیں

 یہ عجیب معاملہ ہے۔ دلی میں رہنے والوں کے لیے ہر روز نئے مکانات تعمیر ہورہے ہیں۔ عالیشان محل تعمیر کئے جارہے ہیں۔ لیکن جن آبا و اجداد نے اس زمین کو  آباد کیا اور شہر کو رونق بخشی لیکن دنیا کو الوداع کہہ چکے ہیں تو ان کے لیے دو گز زمین کا حصول ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ زندہ قومیں اپنے مردوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہی ہیں؟ یہی ایک سوال تھا جس کے مد نظر جماعت اسلامی ہند کے انتظار نعیم صاحب نے جدوجہد کی اوران کی طویل جدوجہد کامیاب رہی۔

انتظار نعیم تمام کاغذات دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ پچھلے 6تا7سالوں سے اس کے لیے مسلسل کوشش کر رہے تھے۔ آخر کار انہیں اب کامیابی ملی ہے۔ ڈی ڈی اے 10 ایکڑ زمین قبرستان کی انتظامی کمیٹی کو سونپنے کے لیے راضی ہوگئی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ دلی کی دیواروں پر لگنے والے پوسٹروں سے یہ بات علم میں آئی کہ دلی کی دیگر سینکڑوں وقف جائیدادوں کی طرح ’قبرستان اہل اسلام‘ کو ڈی ڈی اے کی نظربدلگ گئی ہے۔ میں نے دلی وقف بورڈ سے آرٹی آئی کے ذریعے صورتحال معلوم کی اور قبرستان کے سکریٹری حاجی فیاض الدین سے متعلقہ دستاویز حاصل کئے۔ حکومت ہند اور قبرستان کمیٹی کےمابین طے شدہ معاہدہ میں یہ اہم بات درج ہے کہ یہ زمین قبرستان کے علاوہ کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جا سکے گی۔ جو اس کے تحفظ کی مضبوط ضمانت ہے۔ لیکن اس معاہدہ  کی واضح ہدایت و رہنمائی کے باوجود ڈی ڈی اے نے دلی وقف بورڈ کو اپنے فریب میں مبتلا کرکے قبرستان کے درمیانی چار ایکڑ کو چھوڑ کر اس کے شمال اور جنوب کے حصوں کو میلینیم پارک کے تزئین کاری میں شامل کرلیا۔

انتظار نعیم نے اس جانکاری کو حاصل کرنے کے بعد ڈی ڈی اے، اس کے مختلف محکمہ جات، وزارت شہری ترقیات کے وزیر و مختلف افسران، قومی اقلیتی کمیشن، دلی کے وزیراعلیٰ اور لیفٹننٹ گورنر سے تین سال تک مسلسل مراسلت و ملاقاتیں کیں۔ بالآخر قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین وجاہت حبیب اللہ نے سال 2013 میں ڈی ڈی اے، وزارت شہری ترقیات اور وقف بورڈ کے نمائندہ کی موجودگی میں انتظار نعیم کا موقف سننے کے بعد ڈی ڈی اے کو 20 دن کے اندر میں 14 ایکڑ قبرستان کی حدبندی کرنے کی ہدایت کی، ایسی ہی ایک ہدایت مرکزی حکومت کے وزارت شہری ترقیات نے بھی ڈی ڈی اے کو دی لیکن ڈی ڈی اے نے ان ہدایات پر فوری طور پر عمل درآمد سے گریز کیا۔ لیکن جماعت اسلامی ہند کی جانب سے  انتظار نعیم مسلسل لگے رہے۔ نتیجے میں 23 مئی 2014 کو قبرستان کی 14 ایکڑ زمین کی پیمائش ہوئی تاکہ پوری زمین قبرستان کمیٹی اپنی تحویل میں لےسکے لیکن پیمائش میں رقبہ کم ہونے کے سبب یہ طے ہوا کہ پیمائش دوبارہ کی جائے تاکہ14 ایکڑ کی تکمیل ہوسکے۔ لیکن انتظار نعیم کے مطابق دوبارہ پیمائش ابھی تک نہیں ہوسکی ہے۔

انتظار نعیم بتاتے ہیں کہ میں نے اس جانب دلی اقلیتی کمیشن کو بھی متوجہ کیا تھا۔ کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے فوری اقدام پر وزارت شہری ترقیات نے کمیشن کو مکتوب اور علاقے کا تفصیلی نقشہ ارسال کیا جس میں قبرستان کی موجودگی کی نشاندہی واضح طور پر ہوتی ہے۔ وقف کے معاملے میں کب کام شروع کیا؟ اس سوال پر انتظار نعیم بتاتے ہیں کہ وقف کے تحفظ کو جماعت اسلامی ہند کے کاموں میںترجیح حاصل رہی ہے۔ ایمرجنسی کے زمانے میں جب میںجیل سے لوٹا تو 400 سال پرانی مسجد مہر علی پر قبضے کی کہانی میرے سامنے آئی، میں نے اس کو خالی کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ تب سےہی وقف کے تحفظ کے کام میں لگا ہوا ہوں۔

انتظار نعیم 18سال تک ریڈیئنس ویکلی کے ڈائرکٹر رہے۔ الفلاح اسلامک سوسائٹی، الفلاح اسلامک اسکول، مدھور سندیش سنگم ٹرسٹ اور مولانا مودودی میموریل فاؤنڈیشن کے بانیوں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے بانی رکن کے ساتھ ساتھ قریب 25سالوں تک اس کے جنرل سکریٹری و نائب صدر رہیں۔ دعوت ویکلی کے اعزازی اسسٹنٹ ایڈیٹر اور اردو ماہانہ پیش رفت کے مینیجنگ ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ درجنوں کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری میں بھی خاصا دلچسپی رہی۔ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان، یو اے ای، قطر، کویت، سعودی عرب اور یونائیٹیڈ کنگڈم جیسے ملکوں میں مشاعرہ پڑھ چکے ہیں۔ جماعت میں اسسٹنٹ سکریٹری رہتے ہوئے انہوں نے 1400 آرٹی آئی داخل کر کے کئی اہم مسئلوں کی جانکاری حاصل کی ہے۔

کیسے بچے گا وقف؟ کیا کہتے ہیں انتظار نعیم؟

انتظار نعیم کہتے ہیں کہ دلی میں وقف کی راکھ میں اب بھی بہت سی چنگاریاں موجود ہیں۔ مسلمان غفلت سے اٹھیں، بیدار ہوں اور رضائے الٰہی اور خدمت انسانیت کی غرض سے مخلصانہ و بےغرض کوششیں کرنے کا فیصلہ کرلیں تو حالات آج بھی کچھ درست ہوسکتے ہیں۔ اوقاف و مساجد بڑی حد تک محفوظ ہوسکتی ہیں، ورنہ تاریخ کو ہم پر طعنہ زن ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ:

۱۔ اخبارات، جمعہ کے خطبات اور نشستوں اور جلسوں کے ذریعہ اوقاف کے مسائل مسلسل اٹھائے جائیں۔

۲۔ قصائد اور سپاسنامے پیش کرنے کے بجائے چیئرمین وقف بورڈ کو وقف کے مسائل سے آگاہ کیا جائے اور ان سے عوام کو اوقاف کی صحیح صورت حال بتاتے رہنے اور اس کی تحفظ کی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔

۳۔ ممبران وقف بورڈ بھی اوقاف کے سلسلے میں اپنا فریضہ اخلاص کے ساتھ ادا کرنے کی جانب متوجہ رہیں۔

۴۔ اوقاف کا سروے جاری رکھا جائے۔

۵۔ بورڈ کے ذریعہ ایک ایک وقف جائداد کا ریکارڈ رکھنے اور ان کی حفاظت کا سامان کرنے کا اہتمام کیا جائے اور غصب شدہ جائدادوں کے حصول کی تمام ممکن تدابیر کی جائیں۔

۶۔ دلی کے ایم پی، ایم ایل اے اور کارپوریٹر حضرات سے اوقاف کے تحفظ کے لیے اپنی کوششوں سے عوام کو باخبر رکھنے کا مطالبہ کیا جائے۔

۷۔ مرکزی حکومت سے مسلسل مطالبہ کیاجائےکہ وہ ایکٹ میں ترمیم کرکے آثار قدیمہ کے زیراہتمام تمام مساجد کو پنج وقتہ نمازوں کے لیے آزاد کرے اور حکومت کے تحت کام کرنے والے تمام سرکاری اداروں کے ذریعہ غصب شدہ جائدادیں وقف بورڈ کو واپس کرنے کے احکامات جاری کرے اور اس پر عمل در آمد کی مانیٹرنگ کرے۔

۸۔ مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ وقف ایکٹ میں ایسی ترمیمات کرے جو اوقاف کے منشا کی تکمیل اور ان کی حقیقی تحفظ کر سکیں اور ایسی ترمیمات سے گریز کرے جن سے اوقاف کو نقصان ہوسکتا ہے۔

۹۔ وقف بورڈ ایسے اماموں کو بر طرف کرے جو مساجد کا استحصال کر رہے ہوں اور ایسی لیز اور کرایہ داریاں بھی ختم کرے جو بورڈ کی شرائط کی خلاف ورزی کرکے وقف جائداد کو نقصان پہونچا رہی ہوں۔

۱۰۔ دلی وقف بورڈ، اوقاف کے مسائل اور اپنی کارکردگی سے اخبارات وغیرہ کے ذریعہ عوام کو باخبر رکھے تو یہ اوقاف کے مفاد میں ہوگا۔

۱۱۔ دلی میں تمام مسلم تنظیموں، جماعتوں، اہم شخصیات اور عوام کے اشتراک سے وقتاًفوقتاً وقف کانفریسیں منعقد کی جائیں، جن میں اوقاف کے تحفظ و ترقی پر گفتگو اور منصوبہ بندی ہو۔