افغانستان اور مشرق وسطیٰ:کل کے ‘دہشت گرد’ طالبان آج امن کے نقیب!

عربوں کو اسرائیل کا ہم نوا بنانے کے بعد ٹرمپ کو انتخابات میں یہودیوں سے حمایت کی امید

مسعود ابدالی

بین الافغان امن مذاکرات اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے لیے مسلم ممالک پر صدر ٹرمپ کا زبردست دباؤ آج کل عالمی افق پر بے حد نمایاں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اخلاص پر شبہ کی کوئی وجہ نہیں لیکن افغانستان کے لیے صدر کے خصوصی نمائندے جناب زلمے خلیل زاد کا یہ انکشاف کہ افغان امن معاہدے کا حتمی فیصلہ صدارتی انتخاب کے بعد ہوگا، تحفظات کو جنم دے رہا ہے۔ یہ بات جناب زلمے خلیل زاد نے اس وقت کہی جب قطر سے مواصلاتی اخباری کانفرنس کے دوران واشنگٹن کے ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ اگر 3 نومبر کو جو بائیڈن امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو کیا خلیل زاد صاحب نئی انتظامیہ کا حصہ بن کر افغان امن مشن کو جاری رکھیں گے۔ اس پر صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے نے کہا کہ وہ پر امید ہیں کہ 3 نومبر تک افغان امن کے حوالے سے خاصی پیشرفت ہو چکی ہو گی لیکن حتمی فیصلہ انتخابات کے بعد ہی ہوگا۔ اگر صدر ٹرمپ دوسری مدت کا انتخاب جیت جاتے ہیں تب تو انتظامیہ کے تسلسل کی بنا پر مذاکرات میں خلل نہیں پڑے گا لیکن اگر ان انتخابات میں جو بائیڈن کامیاب ہوئے تو مذاکرات تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انتخاب ہار جانے کے بعد بھی جو بائیڈن کے حلف اٹھانے تک ڈونلڈ ٹرمپ ملک کے آئینی صدر رہیں گے لیکن امریکہ میں شکست خوردہ صدر بقیہ مدت کے لیے غیر موثر و مفلوج بطخ (Lame duck) کہلاتا ہے یعنی اخلاقی اعتبار سے اسے کلیدی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ جو بائیڈن صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی سے متفق نہیں اور بہت ممکن ہے کہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں وہ بساط لپیٹ کر نئے باب کا آغاز کر دیں۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے عرض کیا تھا کہ انتخاب جیتنے کے لیے صدر ٹرمپ خارجہ پالیسی کے حوالے سے کچھ چشم کشا پیش رفت چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک مدبر سیاست دان بن کر ابھریں۔ افغانستان سے فوجوں کی واپسی ان کے 2016 کے منشور کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر بش نے بے مقصد جنگ شروع کی تھی جسے صدر اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن نے امریکہ کے لیے دلدل بنا دیا لیکن وہ اپنی گفتگو و معاملہ سازی کی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر متحارب گروہوں کو سب کے لیے قابل قبول بندوبست پر رضا مند کر کے اپنی فوج کو وہاں سے با عزت طور پر نکال لیں گے۔ٹرمپ انتظامیہ نے ڈاکٹر اشرف انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر جس طرح قطر میں مذاکرات کی میز سجائی تھی اس سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ امریکی صدر انتخابات سے پہلے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا دینا چاہتے ہیں لیکن زلمے خلیل زاد کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انتخابی شکست کی صورت میں صدر ٹرمپ شعلوں میں لپٹا افغانستان جو بائیڈن کے حوالے کرکے گھر کی راہ لیں گے۔

اگر زلمے خلیل زاد کے بیان کو نظر انداز کر دیا جائے تو بین الافغان مذاکرات کی صورت حال فی الحال امید افزا ہے۔ مذاکرات کے آغاز کی تاریخ بھی بڑی تاریخی نوعیت کی ہے کہ 12 ستمبر 2001 کو امریکی صدر بش نے افغانستان کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا اور اس کے ٹھیک 19 سال بعد 12 ستمبر 2020 کو امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے (سابق دہشت گرد) ملا عبدالغنی برادر کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکی عزم کا اظہار کیا ہے۔ ستم ظریقی کہ 11 ستمبر کو دہشت گردی کے واقعہ المعروف نائن الیون کا ظہور ہوا اور اس کے صرف 24 گھنٹے بعد ابتدائی تحقیق سے بھی پہلے امریکہ نے افغانستان پر حملے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت تک حملہ آوروں کی شناخت تو دور کی بات ان کی تعداد کا تعین بھی نہیں ہوا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جو 19 دہشت گرد اس خون آشامی کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے، ان میں سے ایک بھی افغانی نہ تھا۔ یہ وقت اس موضوع پر بات کرنے کے لیے مناسب نہیں ہے کیوں کہ دنیا بھر کے افغان دوست ان مذاکرات کی کامیابی اور اس کے نتیجے میں ایک پرامن، مستحکم و خوشحال افغانستان  کے لیے دعا گو ہیں۔

امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب سے امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو، قطر کے وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی، طالبان کے نائب امیر ملا عبد الغنی برادر، افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ سمیت کئی شخصیات نے خطاب کیا۔ تاریخی اجلاس میں ہندوستان و پاکستان کے حکام بھی موجود تھے۔ بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے قطری وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ فریقین ہر طرح کی تقسیم سے بلند ہو کر ایک ایسے معاہدے تک پہنچیں گے جس میں کوئی فاتح ہو نہ مفتوح اور حقیقی فتح افغان عوام کی ہونی چاہیے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے طالبان کو تشدد اور کابل انتطامیہ کو کرپشن ترک کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے سیاسی نظام کے حوالے سے امریکہ کی کوئی ترجیح نہیں اور امریکی قوم افغان عوام کے فیصلے کا احترام کرے گی۔ کابل انتطامیہ کے عبد اللہ عبد اللہ نے انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی پر اصرار کیا ہے۔ طالبان کے نائب امیر ملا عبد الغنی برادر نے اپنے خطاب میں ملک میں اسلامی نظام رائج کرنے پر زور دیا ہے۔ ملا صاحب کا کہنا تھا کہ معاہدہ کرتے ہوئے اسلام کو مدِ نظر رکھا جائے اور دین مبیں کو ذاتی وگروہی مفادات پر ترجیح دی جائے۔

افتتاحی اجلاس میں افغان حکومتی وفد کی اولین ترجیح جنگ بندی تھی، لیکن طالبان نے موقف اختیار کیا کہ فائر بندی سے پہلے وہ عوامل ختم کرنے ضروری ہیں جس کی وجہ سے جنگ جاری ہے۔ ملا برادر نے کہا کہ ہم بھی جنگ بندی چاہتے ہیں۔ لیکن جنگ بندی کافی نہیں بلکہ جنگ و خونزیری ختم ہونی چاہیے۔ ملا صاحب نے کہا کہ سب سے اہم نکتہ افغانستان کا نظام ہے۔ اسلامی افغانستان پر مخلصانہ اتفاق رائے کے بعد ہی جنگ ختم ہو گی۔باقاعدہ مذاکرات سے پہلے 13 ستمبر کی شام طالبان اور کابل انتظامیہ کے رابطہ گروپ کا اجلاس ہوا جس میں ایجنڈے، اجلاس کے دورانیے اور دوسری تفصیلات طئے کے گئیں۔ رابطہ اجلاس میں کابل انتظامیہ کی جانب سے معصوم استناکزئی اور محترمہ فوزیہ کوفی سمیت 14 ارکان نے شرکت کی جب کہ طالبان کی جانب سے عباس استناکزئی کی سربراہی میں 5 ارکان شریک ہوئے۔ حسن اتفاق کہ کابل وفد کے سربراہ اور طالبان وفد کے نائب سربراہ دونوں کا تعلق پشتونوں کے استناکزئی قبیلے سے ہے۔

رابطہ اجلاس کی روداد بیان کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ڈاکٹر نعیم وردک نے کہا ‘افتتاحی اجلاس کی طرح آج بھی کابل انتظامیہ نے فوری جنگ بندی پر اصرار کیا لیکن طالبان نے اپنا موقف دہرایا کہ اسلامی نظام حکومت پر اتفاق سے پہلے طالبان تلواریں نیام میں نہیں ڈالیں گے’۔ طالبان رہنما عبد السلام حنفی نے کہا کہ فائر بندی کافی نہیں ہے، جنگ ختم ہونی چاہیے۔ وفد کے سربراہ عباس استناکزئی نے اجلاس کو بتایا کہ طالبان نے چند وزارتوں یا شرکت اقتدار کے لیے ہزاروں مجاہد قربان نہیں کیے۔اسلامی افغانستان ہماری منزل ہے جس کے  کے لیے ہم مزید قربانی دینے کو تیار ہیں۔طالبان وفد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ گفتگو خوش گوار ماحول میں ہوئی اور دونوں فریقین نے ایک دوسرے کا موقف تحمل اور کھلے دل سے سنا۔ خیال ہے کہ اگلے اجلاس میں طالبان وفد کے قائد مولوی عبدالحکیم حقانی اسلامی افغانستان کا آئینی تعارف پیش کریں گے۔

امن مذاکرات کے ساتھ قطر میں صحافتی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔ دنیا بھر کے میڈیا کے ساتھ متنوع افغان میڈیا وہاں موجود ہے۔ دونوں وفود کے ارکان کو دلچسپ و دو ٹوک اور کسی حد تک سخت سوالات کا سامنا ہے۔ طالبان کے ترجمان ملا سہیل شاہین اور ڈاکٹر نعیم وردک بہت خندہ پیشانی سے سخت سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔ افتتاحی اجلاس کے فوراً بعد جب طالبان سے پوچھا گیا کہ ‘ان کے 21 رکنی وفد میں ایک بھی خاتون شامل نہیں، کیا ملا خواتین کو اپنے برابر نہیں سمجھتے تو ڈاکٹر وردک نے مسکراتے ہوئے کہا ‘کابل انتظامیہ کے 48 رکنی وفد میں صرف 5 خواتین ہیں، کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ خواتین کو مردوں کا دسواں حصہ سمجھتے ہیں’۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفد میں خواتین کی شمولیت سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی بات کی جائے۔ وراثت میں ان کے حصے کو آئینی تحفظ دیا جائے، خواتین کو کام کرنے کی اجازت کافی نہیں۔ ہم خواتین کے کام کی جگہ کو محفوظ اور نسوانی عزت و وقار اور اقدار کے مطابق بنائیں گے۔ اسلامی عقائد و اقدار کے عین مطابق افغان بچیوں کو پہلی جماعت سے لے کر اعلیٰ ترین تعلیم کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ جب بی بی سی پشتو کی محترمہ شازیہ حیا نے سہیل شاہین سے پوچھا کہ کیا خاتون صحافی طالبان رہنماؤں سے انٹرویو کر سکیں گی؟ تو شاہین صاحب نے کہا کہ اگر خواتین صحافی باوقار لباس میں ہوں تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔افغان وفد کے ترجمان نادر نادری کو بھی سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک صحافی نے نادری صاحب سے پوچھا ’ آپ لوگ کہتے تھے کہ طالبان کو پنجابی مشورے دیتے ہیں، کیا طالبان وفد میں کوئی پنجابی یا پاکستانی بھی ہے؟‘ نادر نادری نے بہت متانت سے کہا کہ یہ وقت متازعہ امور کو اٹھانے کا نہیں۔ ہم یہ بحث کرنے یہاں نہیں آئے، ہم ساتھ بیٹھ کر تمام تنازعات کا منصفانہ حل تلاش کرنے قطر آئے ہیں۔ ایک صحافی نے نادری صاحب کو یاد دلایا کہ آپ ان لوگوں سے مذاکرات کرنے آئے ہیں جن کے گھروں اور کھیتوں پر آپ 19 سال امریکہ سے بمباری کرواتے رہے تو انہوں نے کہا کہ میرے بھتیجے کو طالبان نے ہلاک کیا ہے لیکن جنگ میں یہی کچھ ہوتا ہے اسی لیے ہم یہاں جنگ ختم کرنے آئے ہیں۔

باقاعدہ مذاکرات کا آغاز پیر کو ہونا تھا لیکن رابطہ اجلاس میں تاخیر کے سبب اب خیال ہے کہ دونوں فریق منگل یا بدھ کو بات چیت کا باقاعدہ آغاز کریں گے جو امن مذکرات کا اصل، جان گسل اور سخت ترین مرحلہ ہوگا۔ کہا جا رہا ہے کہ طالبان کو فائر بندی پر راضی کرنے کے لیے امریکہ کابل انتظامیہ سے ان طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کر رہا ہے

جن کے نام امریکہ طالبان معاہدے میں شامل نہیں تھے۔ افغان امن ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے لیکن ابتدائی اجلاس میں فریقین نے جس لچک اور ’حسن سماعت‘ کا ثبوت دیا ہے اس سے کچھ امید بندھتی نظر آرہی ہے۔اب کچھ گفتگو صدر ٹرمپ کے معاہدہ ابراہیم پر جو افغان امن کی طرح صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک اور اہم ستون ہے۔ امریکی مقتدرہ میں اسرائیلی ترغیب کار (Lobby) بہت سرگرم اور میڈیا پر ان کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ اسرائیل مخالف کا ٹھپہ لگ جانے کے بعد امریکی ایوان سیاست میں ثبات وقرار بہت مشکل ہے۔ صدر ٹرمپ کی مشرق وسطٰی پالیسی کے معمار ان کے جوان سال داماد جیرڈ کشنر اور اسرائیل میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ فریڈمین ہیں۔ یہ دونوں حضرات راسخ العقیدہ یہودی ہیں۔ جیرڈ کشنر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ان کے اماراتی ہم منصب محمد بن زید کے قریبی احباب میں شمار ہوتے ہیں۔

13 اگست کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے ساتھ ہی سعودی عرب نے اسرائیلی طیاروں کے لیے اپنی فضائی سرحدیں کھول دیں اور ساتھ ہی کہا جانے لگا کہ جلد ہی بحرین، پاکستان، کویت، سعودی عرب، عمّان اور سوڈان بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں۔ لیکن پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے دوٹوک اعلان کیا کہ ’اگر تمام اسلامی دنیا اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر لے تب بھی پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا‘۔ دوسری طرف سوڈان کی حکومت نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ منتخب حکومت ہی کر سکتی ہے اور خرطوم کی عبوری حکومت کو اس قسم کے فیصلے کا اختیار حاصل نہیں۔ سعودی عرب، کویت اور عمّان کی طرف سے بھی خاموشی رہی۔ تاہم صدر ٹرمپ بار بار کہتے رہے کہ تمام خلیجی اور زیادہ تر مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں۔4 ستمبر کو امریکہ کے دورے پر آئے یورپ کے مسلم اکثریتی ملک کوسووو کے وزیر اعظم عبداللہ ہوتی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر دیا اور اسی نشست میں کوسووو ور بوسنیا کے ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کرنے والے سربیا نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا وعدہ کیا جس پر ہوتی صاحب نے فرمایا ‘کوسووو اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں ہی کھولے گا’ یعنی کوسووو بیت المقدس میں سفارت خانہ قائم کرنے والا پہلا مسلم اکثریتی ملک ہوگا۔

اس کے ایک ہفتے بعد 11 ستمبر کو صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ اسی ہفتے ایک اور عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے۔ صدر ٹرمپ نے فخر سے کہا کہ 19 سال قبل آج ہی کے دن امریکہ دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا اور نائن الیون سے جنم لینے والی نفرت کا اس سے موثر کوئی اور ردِ عمل نہیں ہو سکتا۔ دوسرے ہی دن بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ بن سلمان الخیلفہ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے فون پر بات کرتے ہوئے اسرائیل سے دوستی گانٹھ لی۔ بحرین کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے داماد اول نے کہا کہ معاہدہ ابراہیم کے بعد عرب و مسلم ممالک فلسطینی مفادات سے بالا تر ہو کر اپنے قومی مفاد کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں۔ گویا معاہدہ ابراہیم کا کلیدی نکتہ فلسطینیوں کو سفارتی وسیاسی طور پر تنہا کرنا ہے۔ ایک سال پہلے سعودی عرب کی تجویز پر عرب لیگ نے فیصلہ کیا تھا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے عرب ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کریں گے۔ اعلامیے میں مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دینے کے ساتھ 1967 کی جنگ میں قبضہ کیے گئے مقبوضہ عرب علاقوں سے اسرائیلی انخلا کی شرط بھی عائد کی گئی تھی۔

 متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات اور فضائی حدود چوپٹ کھول کر اسرائیل کے لیے سعودی عرب مہر ومحبت کے اشاروں سے فلسطینی خود کو دیوار سے لگا محسوس کر رہے ہیں۔ اسرائیل اور مصر کی ناکہ بندی کا شکار غزہ کے شہری اور اسرائیلی فوج و قابض آباد کاروں کے نرغے میں غرب اردن کے نہتے نوجوان فی الحال تو مزاحمت جاری رکھنے کے لیے پر عزم نظر آرہے ہیں لیکن عرب و مسلم ممالک کی پشت پناہی سے محروم ہو کر ان کے لے لمبے عرصے تک ڈٹے رہنا آسان نہ ہوگا۔ امارات کے بعد بحرین اور کوسووو کے اسرائیل سے تعلقات صدر ٹرمپ کی زبردست سفارتی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔ جس کا انہیں انتخابات میں یقیناً فائدہ ہوگا۔ امریکی یہودیوں کی غالب اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی ہے لیکن اس پیش رفت سے اسرائیل کے حامی یہودی رائے دہندگان صدر ٹرمپ کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے غرور سے چُور اپنے مخصوص لہجے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان سے پہلے مشرق وسطیٰ کی بری حالت تھی تاہم اب امن کی منزل قریب آچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے لیکن ان کی قیادت جراءت سے محروم ہے۔

ادھر ناروے کے قدامت پسند رکن پارلیمان Christian Tybring-Gjedde نے امریکی صدر کو 2021 کے نوبل امن انعام  کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ کمیٹی کے نام اپنے خط میں فاضل رکن پارلیمان نے مشرق وسطیٰ امن  کے لیے ’گرانقدر‘ خدمات سر انجام دینے پر صدر ٹرمپ کو اس انعام کا مستحق گردانا ہے۔نارویجین رکن پارلیمان کا کہنا ہے کہ معاہدہ ابراہیم صدرٹرمپ کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ یادش بخیر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مصر کے سابق صدر انوار السادات کو بھی نوبل امن انعام دیا گیا تھا۔جہاں صدر ٹرمپ کو انتخابات کا سامنا ہے وہیں نیتن یاہو بھی داخلی محاذ پر مشکل میں ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم پر بے ایمانی وبدعنوانی کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔ ان کے مخالفین Crime Minister کے کتبے اٹھائے ان کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ کرونا وائرس کے ظہورِ جدید سے ملکی معیشت شدید دباؤ میں ہے۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں صومعات کی بندش پر ان کے مذہبی اتحادی سخت ناراض ہیں۔ جیسے یہ کامرانیاں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے طاقت کا ٹیکہ ثابت ہو رہی ہیں ویسے ہی عظیم الشان سفارتی کامیابی بحران میں مبتلا اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے لیے بھی تازہ ہوا کے خوش گوار جھونکے سے کم نہیں۔بحرین سے سفارتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بن یامین نیتن یاہو نے کہا کہ مصر کے بعد دوسرے عرب ملک (اردن) سے امن معاہدہ کرنے میں 5 سال لگ گئے جبکہ تیسرے عرب ملک (عرب امارات) سے معاہدہ 26 سال بعد ہوا لیکن ہم سے دوستی کرنے والے تیسرے اور چوتھے عرب ملک کے درمیان صرف 29 دن کا وقفہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم کا چہرہ خوشی سے تمتمارہا تھا۔

[email protected]

(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)