ڈیجیٹل آلات کی اسیری۔ ٹوٹتے بکھرتے انسانی تعلقات

اسمارٹ فون کی لت کا صحت ، کارکردگی اور تخلیقی صلاحیت پر اثر

شہمینہ سبحان۔ سعودی عرب

 دور حاضر کی یہ دنیا جدید آلات و افکار کی دنیا ہے۔ ایک ماڈرن دنیا، جہاں ڈیجیٹل آلات کا ایک طوفان، بلکہ طوفان بد تمیزی کہنا مناسب ہوگا بپاہے۔ اسمارٹ فونس، لیپ ٹاپس، کمپیوٹرس، آئی پیاڈ، دیگر الکٹرانک ڈیوائسس وغیرہ سب انسان کی ضروریات بن چکے ہیں ان کے بغیر اٹھنا بیٹھنا بلکہ زندہ رہنا تقریباً نا ممکن ہوگیا ہے۔

 یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ان آلات نے علم کے نئے ذرائع کھولے ہیں ان کے ذریعے سے نت نئے علوم سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور صلاحیتوں کا فروغ بھی ہوتا ہے۔ لیکن جہاں اس سے انسان کی کئی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں وہیں یہ ضرورتیں اگر ‘ضرورت’ ہی کے دائرے میں محدود رہیں تو پھر ٹھیک ہے ورنہ دائرے سے باہر نکل جائیں تو پھر سرکشیاں جنم لینے لگتی ہیں اور سرکشیاں کبھی اچھے انجام سے دوچار نہیں کرتیں۔

 مثال کے طور پر اگر کسی انسان کے پاس بہت سا روپیہ ہے اور اس کی ضرورتیں پوری ہونے کے بعد بھی باقی بچ جاتا ہے تو پھر اس سے وہ سہل پسندیاں، عیش کوشیاں اور آرام خریدنے لگتا ہے اور پھر یہ آرام بھی کچھ ہی عرصے میں بے آرام‘ کر جاتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ ڈیجیٹل آلات کا بھی ہے۔ ان آلات نے انسانی زندگی کے تمام ہی گوشوں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس کا آغاز ٹی وی سے ہوا پھر انٹرنیٹ کی آمد ہوئی، ٹیلیفون جو گھر کے کسی حصے میں لگا ہوتا تھا وہ ہوتے ہوتے اتنا چھوٹا ہوگیا کہ اب ایک مٹھی میں آسانی سے سما جاتا ہے جس میں ایک پوری دنیا موجود ہوتی ہے۔

 اب انسانوں کے ساتھ ساتھ آلات کی ایک دنیا بھی اس ‘دنیا ‘ میں بستی ہے۔ ٹیلی ویژن کے آنے کے بعد مختلف دیگر آلات کی ایجادات نے آج کے انسان کو اتنا مصروف کر دیا ہے کہ وہ اپنے اطراف بسنے والے اپنے ارد گرد رہنے والوں سے مکمل بے خبر رہتا ہے۔ ان آلات نے انسانوں کے درمیان رشتوں کی اہمیت باقی نہیں رکھی۔ گھر کے بالکل ساتھ رہنے والے پڑوسی سے لا تعلق اور خوش حالی و بد حالی اور صحت و بیماری جیسے سارے ہی معاملات سے بے گانہ کر دیا ہے۔ اپنے موبائل فون میں لگے ہوئے شخص کو اس بات کی فکر ہی نہیں رہتی کہ اس کے اطراف کی دنیا کدھر جا رہی ہے بلکہ وہ خود کدھر جا رہا ہے۔ بھرے مجمع میں وہ خاموش سی دبی سی مسکراہٹ، آنکھیں اسکرین پر جمی ہوئی، بے نیازی اور لاپروائی کے ساتھ کو3 شخص ایک مہذب دنیا کا باشندہ تو نہیں کہلایا جاسکتا۔ پھر ان آلات کی اسیری نے انسانی نسل کے سب سے بڑے اثاثے ‘بچوں‘ پر جو اثر ڈالا ہے وہ ایک الگ داستاں ہے۔

 دور جدید کے یہ بچے رم جھم سی بارشوں میں کاغذی کشتیوں کو پانی میں بہانے، کھلونوں سے دِل بہلانے، تتلیوں کے پیچھے دوڑنے یا مٹی کے گھروندے بنانے یا شام کے اوقات میں گھر کے قریبی میدانوں میں جا کر کھیلنے والے نہیں رہے اور نہ ہی یہ بچے جِنوں اور پریوں سے متعلق گھڑی گئی داستانوں کے سننے پر یقین کرتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ یہ شاید انسانی تاریخ کے ذہین ترین بچے ہیں۔ یہ حقیقی دُنیا میں اتنا وقت نہیں گزارتے جتنا ڈیجیٹل آلات کے ساتھ اپنے دن و رات کا بیشتر حصہ گزارتے ہیں۔

 ان کی کائنات اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر جیسے ڈیوائسز تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ویڈیو گیمز، کارٹونز اور دوسرے آن لائن مواد دیکھنے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر اپنے والدین سے زیادہ دسترس رکھتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق، آج ترقی یافتہ ممالک میں ہر 3 میں سے ایک بچہ بات چیت کے قابل ہونے سے قبل ہی اسمارٹ فون کے استعمال سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے اور بچوں کی یہ عادت اُن کے رویوں، رشتوں، سماجی و ثقافتی بندھنوں اور تعلیم پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس صُورتِ حال میں بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو بھی یہ سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت پہلے سے کئی گُنا بڑھ گئی ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ کے علاوہ بھی ایک اور دُنیا ہے اور وہ ہے انسانی احساسات و جذبات کی دُنیا۔ انسانوں سے رابطے بے جان آلات میں مگن رہنے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ آج دُنیا بھر میں ڈیجیٹل ڈیوائسز کے استعمال کی عادت وبا کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور اس کے منفی نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں جن میں بچوں کی تعمیری و تخلیقی صلاحیتوں کی تباہی و پامالی قابلِ ذکر ہے۔ اس تشویش ناک صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے بعض ممالک نے بچوں کے اسکرین ٹائم کو محدود کرنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں، لیکن عدم آگہی یا غفلت کی وجہ سے ہمارے ملکوں میں اس رجحان کو کم کرنے کے لیے کوئی قابل قدر کام نہیں ہو رہا ہے۔ہمارے لیے سب سے پہلے تو یہ ماننا ضروری ہے کہ نئی نسل کا دماغ گزشتہ نسلوں سے قطعاً مختلف ہے۔ ٹی وی دیکھنے والی نسل صرف دیکھنے اور سُننے کی عادی تھی، جب کہ آج بچے ایک ہی وقت میں اپنے حواسِ خمسہ کو یک سوئی سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ گزشتہ دَور کے بچوں کی بہ نسبت اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر کم توجہ دے پا رہے ہیں۔ یہ اسکول سے آتے ہی اسمارٹ فونز میں محو ہو جاتے ہیں۔ کبھی ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں تو کبھی کارٹونز دیکھتے ہیں اور ان سے دِل بھر جائے تو موسیقی سُننے اور دوستوں سے گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے والدین اور بہن بھائیوں سے لا تعلق، انہیں نہ کھانے پینے کی کوئی فکر ہوتی ہے نہ پڑھائی کی اور جب گھر سے باہر نکلیں گے تب بھی ارد گرد کے مناظر کو اشتیاق سے دیکھنے کے بجائے اسکرین ہی پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ دو چار انچ کی اسکرین نے انسان کو اپنے ارد گرد کی دُنیا سے بے تعلق کر کے رکھ دیا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں فحش مواد بھی پایا جاتا ہے جس کا دیکھا جانا آج کے معاشرے میں عام بات ہو چکی ہے۔ بچے، بڑے سب اس میں شامل ہیں۔ اخلاقی نشو ونما اور انسانی صحت کی بہتری کے لیے ان سے خود بچنا اور بچوں کو بچائے رکھنا ہر فرد کی ذمہ داری بلکہ یہ ایک معاشرتی ذمہ داری ہے۔ گھر کے ذمہ دار افراد کو اس پر توجہ دینا اور بالخصوص بچوں کی خبر گیری کرتے رہنا لازم ہے۔ رپورٹس کے مطابق دنیا کے کئی ملکوں میں تقریباً 58 فیصد بچے فحش مواد دیکھتے ہیں۔ یونیسف کی ایک سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں انٹرنیٹ کا ہر تیسرا صارف بچہ ہے اس وجہ سے ان کے بہتر مستقبل کے لیے ان کو محفوظ آن لائن مواد فراہم کرنا اداروں کی ذمہ داری ہے اور حکومتی سطح پر اس کے اقدامات کیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔

 نیند اور بینائی کم ہونے کا خدشہ بھی اس ڈیجیٹل دنیا اور آلات کے استعمال کرنے کا ایک منفی نکتہ ہے

اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی سے نیند کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے۔ دماغ میلاٹونین نامی وہ ہارمون بنانا ترک کر دیتا ہے جو نیند کا سبب بنتا ہے۔ نیز، میلاٹونین کی مقدار متاثر ہونے سے ڈیپریشن یا پژمردگی اور موٹاپے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ دوسری جانب نیند کی کمی سے مثانے کے کینسر کے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یادداشت پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی پردۂ چشم کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے بینائی کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یوکرین میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، وائرلیس آلات سے خارج ہونے والی تاب کار شعائیں کینسر سے لے کر الزائمر اور رعشہ تک جیسے امراض کا سبب بنتی ہیں۔ یاد رہے کہ موبائل فون کا استعمال سب سے پہلے ناروے اور سوئیڈن میں شروع ہوا تھا۔ ان ممالک میں ہونے والی ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی شعاعوں کا انسانی صحت سے گہرا ربط ہے۔ سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے کانوں کے آس پاس کینسر کے پھوڑے بننے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، جب کہ اسرائیلی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موبائل فونز سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی لہریں مَردوں کو بانجھ پن میں مبتلا کر سکتی ہیں۔ماہرین کے خیال میں موبائل فون کا ضرورت سے زیادہ استعمال آنکھوں، گردن، پٹھوں اور جوڑوں کے درد سمیت دماغی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔ ہانگ کانگ کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق موبائل فون یا ٹیبلٹ کا مسلسل استعمال ہاتھوں، کلائیوں اور انگلیوں میں درد کا باعث بنتا ہے، جب کہ ایک ہاتھ سے موبائل فون استعمال کرنے والوں میں یہ شکایت عام ہے۔ نیز، گردن اور ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

2002 سے 2014 تک 42 ممالک کے 2 لاکھ بچوں پر کیے گئے عالمی ادارے کے سروے میں کہا گیا ہے کہ عموماً بچے دو گھنٹے سے زائد وقت ان ڈیوائسز کے ساتھ گزارتے ہیں جب کہ کمپیوٹر استعمال کرنے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے اسکاٹ لینڈ سرِ فہرست ہے۔

دُنیا بھر کی طرح ایشیا میں بھی اسمارٹ فون کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے شہری موبائل فون تک عدم رسائی کی صورت میں ہونے والی شدید پریشانی ’’نوموفوبیا‘‘ کا شکار ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سیلفی اِسٹک اور انواع و اقسام کی ایموجیز کی ایجاد سے ایشیائی ممالک میں اسمارٹ فون کی لت تیزی پھیل رہی ہے اور اس میں زیادہ تر نوجوان مبتلا ہیں۔

ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق جو بچے موبائل فون کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں یا اسکرین کو اپنی آنکھوں کے بہت قریب رکھتے ہیں ان میں بھینگے پن کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کیے گئے ایک تجربے میں ماہرین نے چند بچوں کو روزانہ 4 سے 8 گھنٹوں تک اسمارٹ فون استعمال کرنے اور اسکرین کو اپنی آنکھوں سے 8 سے 12 انچ دور رکھنے کی ہدایت کی تو دو ماہ بعد ان میں سے اکثر بچوں میں بھینگے پن کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔ بعد ازاں، جب ان بچوں کی موبائل فون استعمال کرنے کی عادت چھڑوائی گئی تو بھینگے پن کی علامات بھی ختم ہو گئیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ صارفین کو 30 منٹ سے زیادہ دیر تک موبائل فون کی اسکرین کو مسلسل نہیں دیکھنا چاہیے۔ سائنسی جریدے ’’انٹرنیشنل کارڈیالوجی‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2 سے 10 برس کی عمر کے وہ بچے جو دن میں دو گھنٹے سے زائد وقت اسکرین کے سامنے یعنی ٹی وی، اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں، ان کے خون کے دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ان میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ دیگر بچوں کے مقابلے میں 30 فی صد زیادہ ہوتا ہے۔ جب کہ دو گھنٹے سے زائد اسکرین ٹائم کے ساتھ غیر متحرک طرزِ زندگی رکھنے والے بچوں میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ 50 فی صد زیادہ ہوتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق غیر متحرک طرزِ زندگی یا بیٹھے بٹھائے انجام دی جانے والی سرگرمیاں، جن میں ٹی وی دیکھنا، کمپیوٹر استعمال کرنا اور ویڈیو گیمز کھیلنا وغیرہ شامل ہیں، کئی افراد کو مختلف قسم کی جسمانی و نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیتی ہیں۔

ڈیجیٹل آلات کے متعلق سب سے اہم اور ضروری بات یہ کہ اس کے استعمال کے لیے وقت کا تعین کیا جائے تاکہ روز مرہ کے کاموں میں خلل پیدا نہ ہو ضروری کام متاثر نہ ہوں۔ استعمال جب بھی کیا جائے تو کچھ تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں کے ارتقاء کا اہتمام کیا جائے جیسے:

٭  غیر ضروری اور لا یعنی چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔

٭  جب کوئی اہم بات چیت ہو رہی ہو اور آپ لوگوں کے درمیان ہوں تب اگر کسی کو کوئی ضروری پیغام بھیجنا ہو تو اجازت لے کر دوسری طرف ہو جائیں۔

٭ یہ ہدایتیں گھر کے بڑے لوگوں کے لیے ہیں اگر بڑے عملاً یہ کر دکھائیں گے تب ہی یہ بات بچوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے ہمہ وقت

 فکر مند ہوں۔

٭ 18 ماہ سے کم عمر بچوں کو اسکرین والے آلات سے دور رکھیں، دو سے پانچ سال کے بچوں کا اسکرین ٹائم والدین کی موجودگی میں ایک دن میں ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے.

ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا نے بچوں کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے استعمال کے باعث 27 فی صد کم عمر بچے ڈیپریشن کا شکار ہیں اور الیکٹرانک ڈیوائسز پر زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے ان میں خود کشی کا خطرہ 35 فی صد بڑھ گیا ہے۔ سرچ انجنز پر انحصار صارفین کے حافظے کی کم زوری کا باعث بھی بن رہا ہے۔ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد پر کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے ایک تہائی افراد کو معلومات حاصل کرنے کے لیے کمپیوٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مذکورہ ریسرچ میں برطانیہ میں ایسے افراد کی سب سے زیادہ تعداد سامنے آئی اور تقریباً نصف سے زائد افراد کی معلومات تک رسائی کے لیے پہلا انتخاب انٹرنیٹ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی پر انحصار طویل المدتی حافظے کی نشو ونما میں رُکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ ’’ڈیجیٹل ایمنیسیا‘‘ (بُھولنے کی بیماری) کے شکار افراد اہم ترین معلومات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بہ وقتِ ضرورت یہ ڈیجیٹل آلات کے ذریعے فوراً حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اہم ترین معلومات کے علاوہ یادگار لمحات کی اہم تصاویر وغیرہ بھی ڈیجیٹل ڈیوائسز میں محفوظ رکھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ جب کہ ان کے گم یا خراب ہونے کی صورت میں یہ تمام تر مواد ضائع ہو جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

مغربی ممالک کے متعدد تعلیمی اداروں کا ماننا ہے کہ دَورِ حاضر کے بچوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ کس کی بات توجہ سے کیسے سُنی جاتی ہے اور دوسرے بچوں کے ساتھ کیسے کھیلا جاتا ہے، کیوں کہ یہ بچے اپنا زیادہ تر وقت حقیقی دنیا سے دور ڈیجیٹل ورلڈ میں گزارتے ہیں۔ حقیقی دنیا سے دور رہنے کی وجہ سے کئی طلبہ تعلیم میں قطعی دِل چسپی نہیں لیتے اور یہ آلات ان کے سمجھنے کی صلاحیت کو بری طرح تباہ کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آئی پیڈ جیسے آلات کتاب کا نعم البدل نہیں ہو سکتے اور طلبہ کو اپنی زندگی میں تخیل بھرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، ڈیجیٹل ڈیوائسز سماجی مہارتوں جیسا کہ دوست بنانے، کسی کام کی ذمے داری لینے، سلیقہ مند بننے، شائستہ گفتگو کرنے اور جذبات اور غصے پر قابو پانے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور ایسے طلبہ تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔ نیز، ان کی قوتِ گویائی اور سماعت دونوں ہی نارمل نہیں رہتیں۔ یہ سماجی اونچ نیچ کو نہیں سمجھ پاتے اور ان کی دماغی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ فیس بک کا مسلسل استعمال کرنے والے خوشی و غمی کے احساس سے عاری ہو کر حسد اور رشک جیسے جذبات کا شکار ہو جاتے ہیں اور پُرتشدّد و غیر سماجی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ویڈیو گیمز کھیلنے والوں میں اکثر مایوسی اور ڈپریشن کی شکایات عام ہیں۔

ڈیجیٹل ورلڈ کے موجدین، امیر ترین افراد، ہائی ٹیک اداروں کے سربراہان اور دنیا کی دیگر اہم ترین شخصیات اپنے بچوں کو ٹیکنیکل یا اسکرین ڈیوائسز سے پاک ماحول فراہم کرتے ہیں یا ان کے محدود استعمال کی اجازت دیتے ہیں۔

جو معاشرہ اپنے آنے والی نسل کی تربیت کی طرف سے غافل ہو یا غلط قسم کی تربیت کرتا ہو اس کی تباہی یقینی ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ انتہائی اہم کام ہے۔ جو لوگ اللہ کو اپنا رب مان لیں اور اس کی ہدایت کو اپنی زندگی کا قانون تسلیم کرلیں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کو بھی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کریں اور ان کی پرورش اس طرح کریں کہ یہ باتیں ان کے اندر رچ بس جائیں۔

بچوں کی تربیت کی ذمہ داری خاص طور پر خواتین پر ہے۔ یہ کام بچے کے پیدا ہونے کے مہینے دو مہینے کے بعد ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ بچہ اسی وقت سے اپنے ماحول کے اثرات قبول کرنے لگتا ہے۔ اگرچہ بچہ نہ ہماری بات سمجھتا ہے اور نہ ہماری کسی ہدایت پر عمل کرسکتا ہے لیکن پھر بھی وہ سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ بہت سی بہنوں کے ذہن میں تربیت کا مفہوم اتنا ہی ہوتا ہے کہ بچے کو سکھایا اور پڑھایا جائے لیکن یہ تو تربیت کی ایک شکل ہے۔ سب سے پہلے بچے کی تربیت کے لیے جس طرف توجہ کی ضرورت ہے وہ اس کے ماحول کی اصلاح ہے اور اس ماحول میں سب سے زیادہ اہم مقام خود آپ کو اور بچے کے باپ کو حاصل ہے۔ بچے کی خاطر آپ کو اپنا مزاج بدلنا ہوگا۔ غصے کی بات چیت، چھوٹوں کے ساتھ حقارت کا برتاو، بد زبانی، نوکروں کے ساتھ سخت کلامی، بات بات پر چڑچڑا پن اور سب سے زیادہ خود بچے کے ساتھ بد مزاجی کا برتاؤ یہ سب باتیں بچے کی اخلاقی تربیت کے لیے زہر ہیں۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ اس بارے میں آپ کا کام کس قدر سخت ہے۔ یوں سمجھیے کہ بچے کی خاطر خود اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اور قدم قدم پر اپنے ہر کام کی خود نگرانی کرنا ہوگا۔

بچے کو جھوٹ کی عادت نہ پڑے۔ اس کے لیے بڑی بڑی نصیحتیں اور ہر وقت کی تنبیہ اور نگرانی کام نہ دے گی بلکہ آپ کو ہر موقع پر یہ ثبوت دینا پڑے گا کہ آپ خود بالکل جھوٹ نہیں بولتی ہیں۔ حد یہ کہ جھوٹ موٹ بھی کوئی جھوٹ آپ کے منہ سے نہ سنائی دے۔ بچوں کو بہلانے کے لیے ان کو چپ کرنے کے لیے جو بات بات پر کہا جاتا ہے ’’رو مت ہم تمہیں چیز دیں گے‘‘ ’’دیکھو وہ کون آیا‘‘، ’’ہائیں اسے نہ چھونا ابا ماریں گے‘‘۔ ’’خبردار باہر نہ جانا پکڑنے والا بیٹھا ہے‘‘ اسی طرح کی بے شمار باتیں صبح سے شام تک بچوں کے سامنے ہوا کرتی ہیں اور ایسی باتیں کرنے والے بچے کے یہ نادان دوست بالکل نہیں جانتے کہ وہ انہیں جھوٹ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ آپ کو سخت نگرانی کرنا ہوگا کہ اس طرح کی باتیں نہ آپ کے منہ سے نکلیں اور نہ دوسرے لوگ بچوں کے سامنے اس طرح کی گفتگو کریں۔

اس کے بعد جب بچہ بولنے اور سمجھنے کے لائق ہو جائے تو آپ اس کے دل میں خدا کا تصور، اس کے خالق اور مالک ہونے پر ایمان اور اس کے سننے اور جاننے کی صفات کا زندہ یقین پیدا کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ کچھ اور بڑے ہونے پر رسولؐ خدا کی ذات کا تعارف، ان کی عظمت اور بڑائی کا صحیح تصور، تمام انبیا علیہم السلام کی باتیں، ان کے کام، انسانی تاریخ میں ہدایت قبول کرنے اور گمراہی اختیار کرنے کے نتائج آپ بڑی آسانی سے ہلکی پھلکی باتوں کے ذریعہ ان کے دلوں میں اتار سکتی ہیں۔ بزرگان دین کی زندگی کے صحیح واقعات، اسلام کی خاطر جینے اور مرنے کی جدوجہد کی داستانیں سنا کر آپ ان کے دلوں کو بہت آسانی سے گرما سکتی ہیں۔ خدا اور اس کے رسولؑ کی محبت، ثواب اور عذاب کا تصور، آخرت کی کامیابی کی دُھن غرض یہ کہ اسلامی انقلاب کی مکمل روح جس آسانی سے آپ ان کے دلوں میں پیدا کر سکتی ہیں وہ کسی اور سے ممکن نہیں۔ آپ کی سیدھی اور سادہ باتیں دلوں پر جس قدر گہرا نقش بٹھا سکتی ہیں وہ بڑے ہو کر بڑی بڑی کتابوں اور بڑی بڑی فسلفیانہ دلیلوں سے قائم نہیں ہو سکتا۔

آپ کے کاموں میں سب سے اہم کام اپنے بچوں کی صحیح تربیت ہی ہے۔ یہ کام اتنا ضروری اور اہم ہے کہ اس کے مقابلے میں مردوں کے وہ سب کام جو وہ تبلیغ اسلام اور اقامت دین کے سلسلے میں گھروں سے باہر کرتے ہیں شاید ہی کچھ زیادہ وزن رکھتے ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ کسی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کس قدر دشوار ہوتی ہے اور اگر اس کام کو انتہائی صبر اور دانش مندی سے نہ کیا جائے تو اکثر مایوسی ہی ہوتی ہے۔ پچھلے دور میں مسلمانوں کی اصلاح کی بہت سی کوششیں نا کام ہو چکی ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کام کرنے والوں میں صبر کی کمی تھی اور ان کے نزدیک اصلاح کے پروگرام میں تربیت کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ کسی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کے لیے جو کام کیا جائے اس میں بڑوں کے ساتھ نئی نسل کی صحیح تربیت پر پوری توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑوں کی اصلاح سے مایوس ہو کر صرف نئی پود ہی کی اصلاح سے ساری امیدوں کو وابستہ کرنا پڑتا ہے۔ ہماری نئی نسلیں اس لحاظ سے بہت بد قسمت ہیں کہ ان کے گھروں میں اور گھروں سے باہر مدرسوں، محلوں اور شہروں میں اب نہ قرآن کی آوازیں کانوں میں آتی ہیں اور نہ نمازوں، روزوں اور دوسرے دینی مشاغل کے وہ مناظر سامنے آتے ہیں جو اب سے پہلے کافی عام تھے۔ اب نہ وہ اپنی آنکھوں سے گھر والوں کو نمازوں کا پابند دیکھتے ہیں اور نہ کسی دوسری جگہ ہی ان کو ایسی صحبتیں میسر آتی ہیں جہاں وہ دین کا اثر قبول کر سکیں۔ آئندہ چل کر جب کاروبار کی باگ ڈور ان نسلوں کے ہاتھ میں آئے گی تو آپ خود ہی فیصلہ کر سکتی ہیں ان میں اسلام کا رنگ کہاں سے آئے گا۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ کے گھروں کی چار دیواری میں، آپ کے روزہ مرہ کے معمولات میں اور گھروں سے باہر زندگی کے روز کے کام کاج میں اسلام کس طرح نمودار ہو تاکہ ہماری نسلیں اسے اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا دیکھیں اور اس کا اثر قبول کریں۔

بچوں کی تربیت کے لیے یہ بات انتہائی مفید ثابت ہوگی کہ آپ کی اور آپ کے گھر کے دوسرے افراد کی زندگیاں زیادہ سے زیادہ اسلامی زندگی کا نمونہ ہوں۔ آپ کے بچوں کے کانوں میں بار بار قرآن کی آواز پڑے۔ وہ آپ کو اور دوسروں کو پانچوں وقت کی پابندی کے ساتھ نمازیں ادا کرتا ہوا دیکھیں اپنی فطرت کے مطابق اپنے بڑوں کی تقلید کریں۔ وہ توحید کا پیغام سنیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات بار بار انہیں ذہن نشین کرائی جائیں۔ آخرت کی زندگی کا تصور ان کے ذہنوں پر نقش ہوجائے۔ وہ زندگی کی حقیقت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کی اصل کامیابی کے راز سے باتوں باتوں میں آگاہ ہو جائیں۔ پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی قدر و قیمت ان کے دل میں بیٹھ جائے۔ وہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمدؐ کا نام نامی بار بار سنیں اور ان کے دلوں میں آپ کی ذات گرامی سے عقیدت و محبت پیدا ہونے لگے۔ ان میں نیکی اور بدی کی تمیز کا مادہ پیدا ہو جائے وہ نیکی پر خود عمل کرنے لگیں اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کر سکیں، وہ برائی سے خود بچیں اور دوسروں کو بچانے کا خیال رکھیں۔ جنت اور دوزخ کا تصور ان کے سامنے زندہ حقیقت بن کر آنے لگے اور خدا کو راضی کرنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی تمنا ان کے دلوں کو گرمانا شروع کر دے۔یہ ہیں وہ ذمہ داریاں جو آپ کو اپنی اولاد کے سلسلے میں ادا کرنی ہیں۔ آپ کے بچے اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں جو اس لیے آپ کے سپرد کیے گئے ہیں کہ آپ انہیں پال پوس کر اس حال میں بڑا کریں کہ وہ اپنے مالک کو پہنچانتے ہوں۔ اس کی خوشی اور ناخوشی کا قدم قدم پر خیال رکھتے ہوں اور اس قابل ہوں کہ جب وہ بڑھ کر زندگی کا کاروبار سنبھالیں تو اللہ کی زمین کو نیکیوں اور بھلائیوں سے بھر دیں اور ہر قسم کے فساد، خونریزی، جنگ اور اللہ کی بغاوت سے زمین کو پاک کر دیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کو اللہ کا فرماں بردار اور رسول اللہ کا اطاعت گزار بناتے ہیں تو وہ آپ کے لیے خیرِ جاریہ ہیں۔ ان کے دم سے جب تک دنیا میں نیکیوں کے پھیلنے اور برائیوں کے دینے کا سلسلہ جاری رہے گا آپ کو اس کا اچھا بدلہ ملتا رہے گا۔ آپ ہی بتائیے کہ اللہ پر ایمان لانے اور آخرت پر یقین رکھنے کے بعد اس سے اچھا سرمایہ اور کیا ہو سکتا ہے جس کی آپ تمنا کریں۔

یہ تو وہ صورت ہے جس میں آپ کی اولاد آپ کے لیے نعمت اور ہمیشہ کی زندگی کے لیے سرمایہ ثابت ہو سکتی ہے لیکن اگر خدا نخواستہ آپ نے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتی اور اپنی اولاد کی اس ’’خودرو‘‘ طریقے پر پرورش کی جو آج کل بہت عام ہے تو یقین رکھیے کہ آپ کے اس سرمایہ کو شیطان کے ایجنٹ لوٹ لے جائیں گے جو ہر وقت اسی گھات میں لگے ہوئے ہیں۔ پھر آپ کی اولاد خدا کی باغی بن کر اٹھے گی۔ اللہ کی زمین میں ظلم اور فساد کا علم بلند کرے گی اور ایسی صورت میں اس کے دم سے جتنی برائیاں پھیلیں گی ان سب میں آپ بھی حصہ دار ہوں گی اور خدا محفوظ رکھے پھر یہی اولاد آپ کے لیے دائمی عذاب کا موجب ہوگی۔ آپ کی اولاد آپ کے لیے نعمت بھی بن سکتی ہے اور عذاب بھی اور یہ سب کچھ آپ اس کی تربیت پر موقوف ہے جو آپ اپنے بچوں کو دیں گی۔

اگر ہم ڈیجیٹل ورلڈ کے مرکز، سیلیکون ویلی سے وابستہ دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے والی قد آور شخصیات اور دنیا کے اہم افراد کی ذاتی زندگی اور ان کے بچوں کے معمولات پر نظر ڈالیں تو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ انہوں نے کس طرح اپنے بچوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسز سے دور رکھا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان مصنوعات کے تخلیق کار ان کے نقصانات صارفین سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں جانتے ہیں۔

سابق امریکی صدر، بارک اوباما کہتے ہیں کہ جب تک ان کی بیٹیاں اسکول میں زیرِ تعلیم تھیں تب تک انہیں ٹی وی دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے اپنی صاحب زادیوں کو تفریح کی خاطر کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت دی۔ مائیکرو سافٹ کے بانی اور طویل عرصے تک دنیا کے امیر ترین فرد کا اعزاز رکھنے والے بِل گیٹس بھی ٹیکنالوجی کے استعمال کے معاملے میں اپنے بچوں پر خاصی سختی کرتے ہیں اور ان پر 14 سال کی عمر تک موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد رہی۔ جب کہ وہ آج بھی کھانے کی میز پر موبائل فون نہیں لا سکتے اور سونے سے قبل بس ایک معینہ وقت تک ہی اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ بِل گیٹس کا کہنا ہے کہ آپ کو ہمیشہ یہ بات مدِ نظر رکھنا پڑتی ہے کہ ٹیکنالوجی کو بہتر انداز میں کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں بچے اس کا زائد یا غلط استعمال تو نہیں کر رہے ہیں۔آج دُنیا بَھر کے ممالک ڈیجیٹل ڈیوائسز سے لاحق خطرات کو بھانپ چُکے ہیں اور اس رجحان پر قابو پانے کے لیے ضابطے اور قوانین بھی وضع کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تائیوان نے 2015 میں دو سال کی عمر تک کے بچوں کے ڈیجیٹل ڈیوائسز استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور 18 برس سے کم عمر بچوں کو ان آلات کا بہ وقتِ ضرورت اور ایک مخصوص وقت میں ہی استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔ اس قانون پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں والدین پر دو ہزار ڈالرز سے زاید جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ چین میں ڈیجیٹل آلات کے استعمال کو وبائی صورت اختیار کرتے دیکھ کر تائیوان نے بچوں کو اس لت سے بچانے کے لیے یہ قانون بنایا ہے۔ ہمیں اجتماعی سطح پر بھی کوئی قانون وضع کرنا چاہیے لیکن انفرادی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ ڈیجیٹل ڈیوائسز پر وقت گزارنے کے لیے اپنی زندگی کے معمولات کو ترتیب وار متعین کریں اور بچّوں پر بھی نظر رکھیں تاہم، سختی کی نہ جائے اُن کی بہتر تربیت ہی انہیں اس آن لائن یلغار سے بچا سکتی ہے اور وہ اسمارٹ فون یا انٹرنیٹ کو بہتر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے بہترین حل یہ ہے کہ تمام ڈیجیٹل آلات کے سوئچ آف ہونے کا ایک وقت مقرّر کریں۔ کھانے کی میز پر ڈیوائسز استعمال نہ کریں۔ ریسٹورینٹ اور دورانِ سفر موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی عائد کریں۔ اسمارٹ فون یا انٹرنیٹ کے استعمال کا ایک وقت طے کریں۔ ذاتی معلومات کو آن لائن شیئر کرنے سے گریز کریں۔ اپنی تصاویر اور پاس ورڈز کسی کو نہ دیں۔ اگر کبھی کوئی نازیبا پیام موصول ہو تو ذمہ دار افراد کو مطلع کریں۔ موبائل فون جیب میں نہ رکھیں اور سوتے وقت اسے بستر سے دُور رکھیں اور سب سے اہم یہ ہے کہ والدین بچوں کو اسمارٹ فون دینے سے قبل اُن کے پختہ ذہن ہونے کا انتظار کریں، تاکہ وہ اسے ذمّے داری کے ساتھ استعمال کر سکیں۔ اپنے بچے کو اسمارٹ فون دیتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی راز داری کی سیٹنگز سخت نہ ہوں۔ ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں۔ بچوں کی غیر موجودگی میں یا پھر ان کو اعتماد میں لے کر اُن کے موبائل فونز یا کمپیوٹرز وغیرہ چیک کریں۔ اپنے بچوں کو انٹرنیٹ کے متعلق تفصیل سے بتائیں۔ انہیں اس کے فوائد اور نقصانات دونوں سے آگاہ کریں۔ بچوں کو خود ڈیجیٹل ڈیوائسز کا استعمال سکھائیں۔ ان آلات کے ذریعے اپنے تعلیمی مسائل حل کرنے اور معلومات حاصل کرنے کا طریقہ بتائیں۔ بچوں کو انٹرنیٹ پر منعقد ہونے والے تعلیمی مقابلوں میں شریک ہونے کی ترغیب دیں اور اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ یاد رہے کہ بچوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسز کے استعمال سے متعلق کھل کر بتانا نہایت ضروری ہے ان کو ان آلات کے غلط استعمال اور برے اثرات سے آگاہ کریں اور ان میں ڈیجیٹل ڈیوائسز کے صحیح اور غلط استعمال کی تمیز پیدا کریں۔ آن لائن کے ساتھ ساتھ آف لائن سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لے کر اپنی خود اعتمادی میں اضافہ کریں۔ نتائج سے زیادہ کاوش کی تعریف کرنے کا مزاج عام کیا جائے اور مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ سوشل میڈیا پر کی گئی تعریف و تحسین میں گُم رہنے کے بجائے حقیقی احساسات کو اہمیت دیں۔ دیگر سرگرمیوں اور دلچسپی کے عوامل میں بھی ایک دوسرے کی معاونت کریں تاکہ مختلف قسم کی تعمیری سرگرمیوں سے مثبت تقویت حاصل ہو۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے ہم نے ہمیشہ غلط امیدیں وابستہ کیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ پوری دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں اسکولز میں انٹرنیٹ کا عمومی استعمال طلبہ کی تعلیمی استعداد میں بہتری لانے کا سبب بنا ہو۔ جرمن ماہرین کا کہناہے کہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سمیت اس نوع کی دیگر اسکرین ڈیوائسز کا استعمال 5 مراحل سے گزرنے کے بعد نشہ بنتا ہے۔ پہلے مرحلے میں کوئی بچہ یا فرد صرف آزمائش کے لیے ان پر ویڈیو گیم کھیلتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اُسے اس کھیل میں لطف آنے لگتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں گیم کھیلنا اُس کی عادت بن جاتی ہے، جب کہ چوتھے اور پانچویں مرحلے میں یہ عادت خطرناک حدوں کو چُھونے لگتی ہے اور تب اسے ’’لت پڑنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب کوئی شے باقاعدہ نشہ بن جائے تو دماغ پر اس کے اثرات منشّیات ہی کے مانند مرتّب ہوتے ہیں اور انسان بے خودی کے عالم میں خود کو کسی اور ہی دُنیا کا باسی محسوس کرتا ہے۔ تاہم، یہ رجحان اس وقت زیادہ خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے کہ جب کوئی انٹرنیٹ صارف ہر چند لمحوں بعد فیس بک پر اپنے فرینڈز کی نئی پوسٹس اور اپنی پوسٹس کو ملنے والی پزیرائی کا جائزہ لینے لگے اور اپنی ہر سرگرمی، تصویر کی شکل میں فیس بک پر شیئر کرنا ضروری سمجھے۔

منشّیات کے عادی افراد کی طرح اسمارٹ فون کی لت میں مبتلا صارفین میں بھی مندرجہ ذیل علامات پائی جاتی ہیں:بِلاوجہ اسمارٹ فون کی اسکرین تکتے رہنا۔ڈیوائس سے جدائی کے تصور سے ہی پریشانی اور بے چینی محسوس کرنا۔اسمارٹ فون پر وقت گزاری کو سماجی تعلقات پر فوقیت دینا۔ اسمارٹ فون چیک کرنے کے لیے بار بار جاگنا۔ تعلیم یا کام کی کارکردگی میں کمی آنا۔ نت نئی ایپس سے متاثر ہونا وغیرہ۔

بیڈ رومز میں کسی بھی قسم کی ڈیجٹیل ڈیوائس نہیں ہونی چاہیے۔ بڑوں کے زیرِ استعمال ڈیجیٹل ڈیوائسز کو بچّوں سے دور رکھنا ضروری ہے۔ اسکرین ڈیوائسز کو استعمال کرنے کے بعد بند کر دینا چاہیے تاکہ بچوں کی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔ سواری اور ڈائننگ ٹیبل کو ٹیکنالوجی فری بنائیں۔کھانے سے قبل ہر قسم کی ڈیجیٹل ڈیوائسز آف کر دیے جائیں تاکہ اہلِ خانہ آپس میں گفتگو کر سکیں۔

اسکرین سے مناسب فاصلہ قائم رکھنا ممکن بنائیں اور وقتاً فوقتاً اسکرین سے نظر ہٹانے کا عادی بنائیں۔

آنکھوں کے عضلات کو آرام دینے کے لیے فاصلے پر رکھی اشیا کو دیکھیں اور یہ احساس اپنے اندر اور اپنے اطراف واکناف و خاندان میں، بچوں میں ہمیشہ تازہ رکھیں کہ ڈیجیٹیل ورلڈ سے باہر بھی احساسات و جذبات اور خوبصورت انسانی رویوں کی ایک دنیا ہے۔