عید آزاداں، شکوہ ملک و دیں۔عید محکوماں ہجومِ مومنیں

جنکے اسلاف تلواروں کے سائے میں سجدے کیا کرتے تھے  وہ بموں کی بارش میں تراویح اداکررہے ہیں۔

مسعود ابدالی

 

گزشتہ چھ ماہ سے یہ کیفیت ہے کہ جب بھی کچھ لکھنے بیٹھے غزہ کے علاوہ اور کوئی موضوع سوجھتا ہی نہیں۔ دودن پہلے ہم نے  اپنے اس ‘خللِ دماغ’ کا فرائیڈے اسپیشل کے ایک ذمہ دار  سے ذکر کیا تو موصوف بولے ‘ہماری بھی یہی حالت ہے  یعنی ہوئی جن سے توقع خستگی میں داد پانے کی ۔۔ وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہِ تیغِ ستم نکلے

یہ تحریر جس و قت قلمبند کی جارہی ہے اسکے ایک دن بعد دنیا بھر میں افق پر عید کا چاند تلاش کیا جارہا ہوگا۔یہ خیال آتے ہی ہمیں علامہ اقبال کا وہ شعر یاد آگیا جسے ہم نے سرنامہِ کلام بنایا ہے۔  اس وقت اس کرہ ارض پر بحیرہ روم کے کنارے آباد تنگ سی غزہ نامی پٹی کے سوا ساری دنیا، سامراج کے زیراقتدارو زیراثر بلکہ محکوم ہے۔

مکمل تباہی اور بھوک کے باوجود غزہ میں مایوسی نام کو نہیں۔استقبالِ رمضان کیلئے بچوں نے اپنے خیموں کو برقی قمقموں سے سجایا تھا اور اب عیدالفطر کی تیاری بھی اسی جوش و خروش سے ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں  کاکہنا ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں سارا غزہ  تلاوت قرآن سے  گونجتا بلکہ جھومتا نظر آرہا ہے۔ ایک کارکن کا کہنا تھا کہ تاریک راتوں میں جب بچے اور بچیوں کی خوش الحانی کانوں میں اطمینان کا  رس گھول رہی ہو،  اس وقت اسرائیلی بموں اور توپوں کے دھماکوں سے پردہ سماعت پر جو کراہیت طاری ہوتی ہے اسکا اظہار ممکن نہیں۔ جنکے اسلاف تلواروں کے سائے میں سجدے کیا کرتے تھے  وہ بموں کی بارش میں تراویح اداکررہے ہیں۔

غزہ میں سحر و افطار کی بھی اپنی ہی شان ہے، جنگلی گھاس سے بنی چٹنی کیساتھ روٹی کے دونوالوں کی سحری اور افطار میں گھاس کا سوپ۔ سوپ کو’خوش مزہ’ بنانے کیلئے اس پر لیمون کے چند قطرے چھڑک لئے جاتے ہیں۔ آبنوشی کے ذخائر یاتو تباہ ہوگئے یا ان میں بارود کی آمیزش ہے چنانچہ نالوں اور جوہڑوں کے پانی کو چھان کر پینے کے قابل بنالیا گیا ہے۔

اسکے باوجود طنطنے کا یہ عالم کہ جب صحافیوں نے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی سے قطر اور قاہرہ میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں پوچھا تو موصوف جھلا کر بولے ‘ ہم تو قیدیوں کی رہائی کے عوض جنگ بندی کیلئے تیار ہیں لیکن مستضعفین، غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ عرب مصالحت کاروں حتیٰ کہ اپنے میزبان (قطر) کی بات بھی نہیں مان رہے ‘۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق موساد کے سربراہ نے وزیراعظم نیتھن یاہو کو مطلع کر دیا ہے کہ طاقت کے بل پر قیدیوں کو چھڑانا ممکن نہیں اور نہ ہی بمباری کے ذریعے مستضعفین پر دباو موثر ہوگا۔اپنے پیاروں کی رہائی کیلئے اسرائیل کو لچک پیدا کرنی ہوگی جن میں شمالی غزہ کو گھیراو ختم کرنا شامل ہے۔ فوج کی سات اکتوبر پوزیشن پر واپسی کے معاملے کو بھی ہمیں ناک کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان سے اپنے فوجی دستے واپس بلالئے ہیں۔ پسپا ہوئی سپاہ کو مزاحمت کاروں نے راکٹوں کی سلامی پیش کی۔ تمام راکٹوں  کو امریکی ساختہ دفاعی نظام نے ناکارہ کردیا لیکن  اس ‘واردات’ نے  اسرائیلیوں کا یہ دعوی غلط ثابت کردیا کہ مزاحمت ماروں کے تمام راکٹ لانچر ٹھکانے لگادئے گئے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم سے فون پر بات کرتے ہوئے صدر بائیڈن  نے کہا کہ  امن مذاکرات جاری رکھنے کیلئے بے گھر افراد کی گھروں کو واپسی کے معاملے پر اسرائیل کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ وہ عرض تو یہ کرنا چاہتے تھے کہ دلدل سے نکلنا ہے تو غزہ سے فوج واپس بلالو لیکن  یہ کہتے ہوئے  زبان جل جانے کاخطرہ تھا اسلئے مظلوم بے گھروں کی آڑ لے لی۔اور تو اور اب برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے بھی کہدیا کہ غزہ میں ‘خوفناک’ جنگ کا فوری خاتمہ ضروری ہے۔ یہ وہی ذاتِ  شریف ہیں جو غزہ حملے کے بعد اسلحے سے لدے طیارے میں تل ابیب پہنچے اور نیتھن یاہو سے ہاتھ ملاتے ہوئے رعونت بھرے لہجے میں بولے Finish them all BB۔اسرائیلی وزیراعظم کو پیار سے بی بی پکارا جاتا ہے۔ امریکی کانگریس کی اسپیکر محترمہ نینی پلوسی سمیت 57 ارکان کانگریس نے صدر بائیٖڈن کے نام خط میں مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کیلئے اسلحے کی فراہمی معطل کردیجائے۔

عبرانی ذرایع ابلاغ پر نقصانات کے جو تازہ اعداد وشمار شایع ہوئے ہیں اسکے مطابق  غزہ پر حملے کے بعد سے اسرائیل کے 600 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور اگر 7 اکتوبر کو مستضعفین کے حملے میں ہونے والے نقصانات کو  شامل کرلیا جائے تو تعداد 3000 سے زیادہ ہے جن میں کئی جرنیل بھی شامل ہیں۔  1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں تل ابیب کا جانی تقصاان 800 کے قریب تھا جبکہ 1973 کی 19 دن جاری رہنے والی جنگِ کپور المعروف جنگ رمضان میں 2500 صیہونی سپاہی مارے گئے۔ وزیراعظم نیتھن یاہو کی جانب سے کامیابی اور دشمن کو کچل دینے کے دعویٰ اپنی جگہ لیکن فوج میں اضطراب، تھکن اور جھنجھلاہٹ کے آثار بہت واضح ہیں۔ اسرائیلی عسکری انٹیلیجنس کے سربراہ میجر جنرل ہارون خلیفہ (Aharon Haliva) نے اپنے کمانڈروں سے گفتگو  کرتے ہوئے صاف صاف کہدیاکہ ‘ہمیں پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے جبکہ برا وقت جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا’ (حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)

جمعۃ الوداع کو مزاحمت کاروں نے تابڑ توڑ حملے کرکے کئی ٹینکوں کو تباہ اور 14 اسرائیلی سپاہیوں کوہلاک کردیا۔ اسرائیلی فوج کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ خان یونس میں  مزاحمت کار ایک سرنگ سے اچانک نکلے اور وہاں سے گزرتے فوجی قافلے کو نشانے پر ر کھ لیا۔اس کاروائی  میں کپتان سمیت چار اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ خلیجی میڈیاکے مطابق علاقے میں اسرائیلی ٹینکوں کے ایک قافلے کو بھی نشانہ بنایا گیا اور جلتے ہوئے ٹینکوں میں  14فوجی جھلس کر ہلاک ہوگئے۔ غزہ کی سرنگیں اسرائیلی فوجیوں کیلئے ڈراونا خواب بن گئی ہیں۔ جعلی سرنگیں انکے لئے آگ کے الاو تو سانپ کی طرح پھیلی اور بل کھاتی ‘اصلی’ سرنگوں سے اچانک موت کے فرشتے نمودار ہوجا تے ہیں

اسرائیلی حکمرانوں کی پریشانی ذرایع ابلاغ پر قدغن سے بھی ظاہر ہورہی ہے۔ غزہ کے بارے میں اسرائیلی فوج کے شعبہ اطلاعات سے منظوری کے  بغیر کچھ چھاپنے یا دکھانے کی اجازت نہیں۔ یکم اپریل کو اسرائیلی کنیسہ نے غیرملکی ذرائع ابلاغ کو بند کرنے کا قانون دس کے مقابلے میں 70 ووٹوں سے منظور کرلیا۔ اسکا اصل ہدف چونکہ الجزیرہ ہے اسلئے یہ قانون الجزیرہ ایکٹ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بل فروری میں پیش ہواتھا لیکن پہلی خواندگی (reading) کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑگیا۔ اب عجلت کا یہ عالم کہ وزیراعظم  نے جو ہرنیا کے آپریشن کیلئے ہسپتال میں تھے، بستر علالت سے اپنی پارٹی کے whipکو ہدائت کی کہ بل کی فوری منظوری کیلئے تمام جماعتوں سے رابطہ کیا جائے۔ قانون کے تحت ملکی سلامتی کے خلاف خبریں نشر اور شائع کرَے والے غیر ملکی اداروں پر 45 دن کی پابندی لگائی جاسکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر بندش کا دورانیہ بڑھایا بھی جاسکے گا۔

نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اسرائیل کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے کولمبیا نے نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت (ICJ)کے روبرو جنوبی افریقہ کی درخواست میں فریق بننے کی استدعا کردی۔عدالت کے نام خط میں کہا گیا ہے کہ کولمبیا کے عوام فلسطینیوں کی نسل کشی پر سخت مضطرب ہیں، ہمیں بھی اپنا موقف پیش کرنے اجازت دی جائے

دنیا کی بیچینی کے ساتھ، حکومتوں کے جبر کے باوجود عرب ممالک میں جذبات کے عوامی اظہار کی خبریں بھی آرہی ہیں۔جمعہ الوداع پر مظاہروں کا ذکر جو تین مختلف شہروں میں ہوئے لیکن ردعمل بالکل ایک ساتھا۔ مسجد اقصٰی میں نماز کے بعد لوگوں نے القدس ہمارا ہے کہ نعرے لگائے جس پر 16 افراد کو اسرائیلی فوج نے گرفتار کرلیا۔ عین اسی وقت  قاہرہ میں بھی لوگ سڑکوں پر تھے ۔ پولیس نے 10 افراد کو نیتھن یاہو کے خلاف توہین آمیز کتبے لہرانے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔اسی دوران اردن کے دارالحکومت عمان میں ہزاروں افراد نے اسرائیل سفارتخانے کی عمارت پر دھرنا دیا جنکا مطالبہ تھا کہ اسرائیل سے تعلقات توڑ لئے جائیں ۔ لاٹھی چارج اورآنسو گیس استعمال کرکے مجمع کو منتشر کرنے کےساتھ 10 مظاہرین دھر لئے گئے۔

نوشتہ دیوار دیکھتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی ‘تعاون’ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ریاض نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات پر رضامندی کی دوٹوک تردید کرتے ہوئےکہا کہ جب تک 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزادو خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوجاتی، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوہفتہ قبل خبر آئی تھی کہ سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ سے فون پر گفتگو میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔دوسری جانب  اسپین کے وزیراعظم پیدرو سنچیز نے اعلان کیا کہ  انکا ملک جولائی تک فلسطین کو آزادوخودمختار ریاست تسلیم کرلیگا۔

غزہ میں امداد تقسیم کرنے والی غیر سرکاری امریکی تنظیم  ورلڈ سینٹرل کچن کے کارواں پر حملے کا مغربی دنیا سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ یکم اپریل کو ہونے والے اس واقعہ میں سات کارکن ہلاک ہوئے۔ان لوگوں کا تعلق آسٹریلیا، پولینڈ، کینیڈا، برطانیہ اور فلسطین سے تھا۔اسرائیل کی جانب سے غلطی کے اعتراف اور دو فوجی افسران کی برطرفی  آسڑیلیا اور پولینڈ کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی۔ پولستانی وزیراعظم نے کہا کہ یہ اقدامات کافی نہیں، مارے جانے والے ہمارے شہری کے ورثا کو ہرجانہ ادا کیا جائے۔ ورلڈ سینٹرل کچن کے بانی ہوزے آندرے (José Andrés ) کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا غزہ آپریشن درحقیقت انسانیت کے خلاف جنگ ہے۔

ملکی اور غیر ملکی دباو کے باوجود نیتھن یاہو اور انکے قدامت پسند اتحادیوں کی رائے تبدیل ہوتی نظر نہیں آتی اور اہل غزہ کو آتش و آہن سے شکست دینے میں ناکامی پر وہ بھوک کا ہتھیار استعمال کرنے کیلئے پرعزم نظرآتے ہیں۔ صدر بائیڈن سے انکی گفتگو کے بعد اسرائیلی کابینہ نے غزہ میں انسانی امداد کے لئے اشدود کی بندرگاہ استعمال کرنے اجازت دیدی ہے۔ اسی کیساتھ شمال میں معبر بیت حانون (Erez Crossing)اور جنوب میں معبر کریم ابوسالم (Karem Sholom Crossing)بھی کھول دی جائیگی۔اشدود کی بندرگاہ Erezکراسنگ کے قریب ہے جہاں سے الخدمت اور مسلمان ممالک کے دوسرے رفاحی اداروں کیلئے امداد پہنچانا مشکل ہے کہ مسلم دنیا کا بڑا حصہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔کریم ابوسالم اردن سے قریب ہے لیکن وہاں بھی راستے میں اسرائیل کا بڑا علاقہ حائل ہے۔سب سے آسان راستہ مصری سرحد پر رفح کراسنگ ہے جسے اسرائیل نے بند کررکھا ہے۔

امریکی میڈیا کچھ اس طرح خبریں رہا ہے جیسے صدر بائیڈن کی ڈانٹ ڈپٹ نے اسرائیل کو معقولیت پر مجبور کیا لیکن معاملہ کچھ اور ہے یعنی صدر بائیڈن کی کمزور شخصیت اور سیاست میں انکے دوغلے پن سے فائدہ اٹھاکر اسرائیلیوں نے اپنا الو سیدھا کرلیا۔اب امدادی سامان مصر کے بجائے اسرائیل سے آئیگا جو انکے وفادار و سہولت کار فلسطینی اور عرب فوجی تقسیم کرینگے تاکہ مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں کی جاسوسی ہوسکے۔ اسکا ایک بڑا مقصد امداد کے نام پر رفح سے شہریوں کا انخلا ہے تاکہ حملے کی صورت میں اسرائیل اور امریکہ کو یہی کہنے کا موقع ملے کہ مزاحمت کاروں سے جنگ میں اسرائیل شہری نقصان کم سے کم کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے

اور میک ڈونالڈ کے بائیکاٹ سے متعلق ایک دلچسپ خبر پر گفتگو کا اختتام۔۔۔۔ مک ڈونالڈز نے اسرائیل میں اپنے تمام ریستوران لائیسنس یافتہ (Franchise) ادارے سے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہاں  مک ڈونالڈ کے 225 ریستوران 30 سال سے ایک نجی کمپنی Alonyal Limited چلا رہی ہے۔ غزہ حملے کے آغاز پر مک ڈونلڈز نے اسرائیلی فوجیوں کو مفت KOSHER(حلال) برگر پیش کئے اور فوجی فاونڈیشن کو عطیہ بھی دیا۔ گزشتہ ہفتے میک ڈونلڈ کارپوریشن نے  تمام کے تمام 225 ریستوران  واپس خرید لئے۔ کمپنی  نے غیر مبہم وضاحتی بیان جاری کیا جس میں  کہا گیا ہے کہ  ‘مک ڈونلڈز کارپوریشن غزہ کے معاملے پر کسی بھی حکومت کی مالی اعانت یا حمایت نہیں کر رہی ہے ، اور ہمارے مقامی لائسنس یافتہ کاروباری شراکت داروں کی طرف سے تمام کارروائی میک ڈونلڈز کی منظوری کے بغیر آزادانہ طور پر کی گئی تھی۔

(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)

[email protected]