رمضان وعید الفطر کا پیغام اور تکثیری سماج میں مسلمانوں کا کردار

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکرو احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک کی سعادت نصیب فرمائی۔اس ماہ مبارک سے استفادہ کا بھر پور موقع عنایت فرمایا۔ہم نے اس ماہ میں خدا کے آگے سجدے کیے یعنی صرف اپنے جسمانی وجودہی کو اللہ رب العزت کے سامنے نہیں جھکایا بلکہ اپنی خواہشات کو اور زندگی کے جملہ معاملات کو بھی اللہ کے حکم کے مطابق ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔نتیجہ میں ہمیں اللہ کا قرب حاصل ہوااور اس کی رحمتیں اوربرکتیں ہم پر سائیہ فگن ہوئیں۔ہمیں یہ موقع بھی ملا کہ ہم اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں شب قدر تلاش کریں،اللہ کی مغفرت حاصل کریں،گناہوں سے توبہ کریں اور اپنے نامہ اعمال کو ایک بار پھر پاک و صاف کر لیں۔یہ تمام مواقع میسر آئے اور ہم نے اپنی استطاعت کی حد تک ان سے استفادہ بھی کیا۔لیکن اب جبکہ ماہ رمضان المبار ک ہم سے دور ہونے جا رہا ہے، اس کے بعد کی زندگی کیسی گزرے گی؟یہ ہمیں اور آپ کو آج ہی طے کر لینا چاہیے ۔یعنی اس ماہ رمضان المبارک کے بعد کی زندگی اور اس کے شب و روز کے اعمال کیا اور کیسے ہوں گے ؟وہی جو اس ماہ میں رہے یا ان تمام لمحات کو بھلاتے ہوئے ہم ایک بار پھر معصیت میں ملوث ہو جائیں گے؟یہ فیصلہ انفرادی طور پے بھی اور ملت کو اجتماعی سطح پر بھی طے کرنا چاہیے ۔

آئیے اس موقع پر عہد کریں کہ ! اپنی زندگی میں نماز کا خا ص اہتمام کریں گے۔کسی بھی وقت کی نماز قضا نہیں کریں گے، اگر قضا ہو بھی گئی تو اس کو جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ قرآن کو اپنا دستور حیات بنائیں گے، اس کو پڑھیں گے اور اس کے لیے اپنے روز و شب میں سے کوئی مخصوص ٹائم ضرور نکالیں گے ،تاکہ اس کو سمجھیں اور اس میں مزید غور و فکر اور تدبر کے مواقع حاصل ہوں۔سیرت رسو ل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں گے اورحدیث کی مستند کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کا ترتیب کے ساتھ مطالعہ کریں گے۔لوگوں کے لیے امن و امان کا ذریعہ بنیں گے، اپنے رشتہ داروں، قرابت داروں اور جاننے والوں کے کام آئیں گے، ان کی مدد کریں گے،اور اِن اعمال کے بدلہ اُن سے کسی طرح کا بھی صلہ نہ چاہیں گے۔اللہ کی زمین پر اللہ کی کبرائی بیان کریں گے، اِس کے لیے سعی وجہد کریں گے اور اُس کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرڈالیں گے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو”(آل عمران:۱۳۹)۔اور یہ سب کچھ صرف اس لیے کریں گے تاکہ اللہ تعالی ہم سے راضی ہو جائے ،یہی ہماری خواہش ہے اور یہی ہمارا نصب العین ۔

عید الفطر کی آمد ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ یہ وہ سعادت ہے جبکہ ہمارے رب نے رمضان المبارک میں انجام دی جانے والی عبادات کو قبول فرمالیا ہے۔اور یہی وہ خوشی کا لمحہ ہے جس کے ساتھ ہم عید کی خوشیاں اپنے اہل و عیال، رشتہ دار، دوست احباب و تمام انسانوں کے ساتھ مل کر مناتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ بھی دیگر مذاہب کے ماننے مختلف تہوار مناتے ہیں۔ان تہواروں میں جہاں وہ ایک جانب اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں وہیں دوسری جانب اُن کے عقائد و افکار اور طور طریق کی عکاسی بھی ہوتی ہے اوریہی تہوار مذہب کا ترجمان بھی بنتے ہیں۔ تہواروں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کے نتیجہ میں یا تو اُس مذ ہب اور اُس کی فکرسے قربت پیدا ہوتی ہے،دل اس کی جانب مائل ہوتا ہے یا اِن طور طریقوں کو دیکھ کر کراہیت محسوس ہوتی ہے اور دوری اختیار کرنے کا جی چاہتا ہے۔ لیکن اسلام وہ عالمگیر دین ہے جو قیامت تک تمام اقوام عالم کو کامیابی و فلاح کا پیغام دیتا رہے گا۔اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب نیکی کر کے تجھے خوشی ہو اور برائی کرنے سے رنج ہو ،تو، تو‘ مومن ہے۔بندہ مومن ہر کام کرنے سے قبل اور بعد میں اپنے دل کا جائزہ لیتا ہے ۔اس کے بعد یا تووہ مطمئن ہو جاتا ہے یا پھر توبہ و استغفار کا رویہ اختیارکرتا ہے۔یہی اطمینان اور توبہ و استغفار کا رویہ جہاں ایک جانب بندہ مومن کے لیے دنیااور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے وہیں دیگر لوگوں کے لیے اس کی زندگی اسلام سے متعارف ہونے اور اس سے قرب حاصل کرنے کاذریعہ بن جاتی ہے۔اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ دنیا میں موجود خدا کے تمام بندے اُس خالق برحق کے احکام کی جملہ مسائل میں تعمیل کریں جس نے اُنہیں تخلیق کیا ہے۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی رویوں سے اسلام کو مکمل طور پر پیش کریں،ورنہ وعظ و تذکیرکی مجلسیں سجتی رہیں گی،اس کے باوجود نہ مسلمانوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی بندگان خدا کے افکار و اعمال میںتبدیلی ممکن ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ عید الفطرکا دن مومنین کو پورے ایک ماہ رمضان المبارک کی عبادات کے بعد نصیب ہوتا ہے۔رمضان المبارک میں وہ اپنے آپ کو ظاہر ی اور باطنی طور پر پاک کرتے ہیں اور اللہ کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہوتا ہے۔صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے ،سعدؓ بن اوس انصاری اپنے والد حضرت اویسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ و سلم نے ارشاد فرمایا :جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو خدا کے فرشتے تمام راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے مسلمانو! رب کے پاس چلو جو بڑا کریم ہے ،نیکی اور بھلائی کی راہ بتاتا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اس پر بہت انعام سے نوازتا ہے، تمہیں اس کی طرف سے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کی ۔تمہیں اس کی طرف سے تراویح پڑھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے تراویح پڑھی سو اب چلو اپنا انعام لو۔ اور جب لوگ عید کی نماز پڑھ لیتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے۔اے لوگو! تمہارے رب نے تمہاری بخشش فرمادی پس تم اپنے گھروں کو کامیاب و کامران لوٹو یہ عید کا دن انعام کا دن ہے۔ اس اجر و انعام اور رحمت و مغفرت کے تعلق سے یہ اضافہ بھی ملتا ہے کہ ، جب لوگ عید گاہ میں آجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: جن مزدور وں نے اپنا پورا کام کیا ہو اُس کی مزدوری کیا ہے! فرشتے عرض کرتے ہیں اُس کی مزدوری یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے، تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ جن لوگوں نے روزے رکھے اور نمازیں پڑھیں ان کے عوض میں، میں نے انہیں مغفرت سے نوازدیا۔یہ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا کرم ہی ہے کہ وہ ہمیں دنیا میں بھی خوشیاں مہیا کراتا ہے،اُن اعمال کے بدلہ جو ہم نے خالص اس کی رضا کے لیے انجام دی ہیں اور آخرت کا اجر تو اس سے زائد ہے اور وہی اجرِ عظیم ہے۔ہم نے رمضان میں روزے رکھے اورعبادات انجام دی ہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر دیر کیے ہمیں ہماری مزدوری اور اجرت عطافرمادی۔یہی اللہ کی سنت ہے اور اسی طریقہ کو مسلمانوں کو بھی اختیارکرنا چاہیے۔

ہندوستان جہاں کے ہم شہری ہیں وہ ایک ایسا ملک ہے جہاں بے شمار تہذیبیں عرصہ دراز سے آباد ہیں اور بڑے پیمانے پر تہذیبی تنوع پایا جاتا ہے۔تکثیری سماج میں رہنے بسنے والوں کے لیے لازم ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان آپسی محبت و الفت کا ماحول پروان چڑھائیں نیز وہ معاشرے، سماج اور ملک کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔اسی پس منظر میں رنگ و نسل کے تنوع کی موجودگی، سماج کے لیے مفید اس وقت ثابت ہو سکتی ہے جبکہ مختلف گروہ مختلف قسم کی صلاحیتیں رکھتے ہوں اور ان گوناگوں صلاحیتوں سے پورے سماج کو فائدہ پہنچاتے ہوں۔ رنگ و نسل کے فرق کو ناپسندیدہ سمجھنا ایک غلط رجحان ہے۔ اسلام نے اس غلط رجحان اور اس پر مبنی تعصب کو ختم کیا ہے۔سید قطب لکھتے ہیں:”یہ وہ خدا پرست امت ہے جس کے ہراول دستے کی شان یہ تھی کہ اس میں عرب کے معزز خاندان کے چشم و چراغ ابوبکر شامل تھے۔ تو حبش کے بلال او روم کے صہیب اور فارس کے سلمان بھی موجود تھے۔ بعد کی نسلیں بھی ہر دور میں اسی دل نشین انداز اور حیرت انگیز نظام کے جلو میں یکے بعد دیگرے منصہ شہود پر ابھرتی رہیں۔ عقیدہ توحید اس امت کی قومیت رہی ہے، دارالاسلام اس کا وطن رہا ہے اور اللہ کی حاکمیت اس کا امتیازی شعار رہا ہے اور قرآن اس کا دستورِ حیات رہا ہے”(معالم فی الطریق۔ باب: نہم)۔مزید لکھتے ہیں :”اسلامی معاشرے ہی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں اجتماع کا بنیادی رشتہ عقیدے پر استوار ہوتا ہے اور اس میں عقیدہ ہی وہ سند ہوتا ہے جو کالے اور گورے اور احمر و زرد، عربی اور رومی، فارسی اور حبشی اور ان تمام اقوام کو جو روئے زمین پر آباد ہیں، ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتا ہے، جس کا پروردگار صرف اللہ ہے”(ایضاً۔ باب: ۷)۔

اس پس منظر میں برٹانیکا ریفرنس انسائیکلوپیڈیا میں بیان کردہ اِس خیال سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ جہاں تک رنگ و نسل کے تنوع کا تعلق ہے، اس نوعیت کے تنوع کی موجودگی، کسی سماج کے لیے ایک مفید شے ہے۔اس کے برخلاف کثرتیت (Pluralism) کی تشریح میں برٹانیکا ریفرنس انسائیکلوپیڈا میں جو نقطہ نظر درج ہے اس کے مطابق تو سماج میں ہر قسم کا تنّوع پسندیدہ ہے۔ لیکن اسلامی نقطہ نظر کے مطابق رنگ و نسل اور قبیلہ و برادری کا تنوع تو انسانی سماجوں کے لیے مفید ہے۔ لیکن دین اور عقیدے کے اختلاف کو کوئی پسندیدہ شئے نہیں قرار دیا جا سکتا۔ خود اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کے کافرانہ طرزِ عمل کو پسندیدہ نہیں قرار دیا ہے۔ بلکہ اس پر اپنی”عدم رضا” کا اظہار کیا ہے۔یہی اندازِ فکر اہل ایمان کا بھی ہونا چاہیے۔اس سیاق میں اس مقبولِ عام خیال پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو اکثر سننے میں آتا ہے۔ "ہمارا ملک مختلف مذاہب کا گلدستہ ہے۔ اس کی رونق کے لیے اس میں مختلف قسم کے پھولوں کی موجودگی ضروری ہے۔ اگر ایک ہی طرح کے پھول ہوں تو گلدستے میںحسن نہیں آ سکتا”۔یہ خیال کثرتیت (Pluralism) کے اس مقبولِ عام مفہوم کی نمائندگی کرتا ہے جس کے مطابق دین اور عقیدے کا اختلاف و تنوع ایک پسندیدہ شئے ہے۔ لیکن اسلام کا نقط نظر یہ نہیں ہے۔ جو مسلمان دانشور (غالباً بِلا غور و فکر ) مختلف ادیان کے وجود کو گلدستے سے تعبیر کرتے ہیں ان کو اپنے اِس خیال پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ حق اور باطل دونوں کو پھول سے تشبیہ دینا حق اور باطل کے فرق کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ بطور امرِ واقعہ تو حق اور باطل دونوں کا وجود تسلیم کیا جانا چاہیے لیکن دونوں کو یکساں پسندیدہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔(اقتباس:تکثیری سماج  از ڈاکٹر محمد رفعت)۔یہ وہ وہ افکار و تصورات ہیں جن میں خصوصاً ملک عزیز ہند کی اکثریت مبتلا ہے تو وہیں دوسری جانب دیگر ممالک جہاں مسلمان کہیں اکثریت تو کہیں اقلیت کی حیثیت سے موجود ہیں، ان تمام مقاما پر ان خیالات کا اظہار بہت منظم انداز سے کیا جا رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ان خیالات کے منفی رویوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات مسلمان بھی ان خیالات کو فروغ دینے کا پرزور ذریعہ بن جاتے ہیں۔

عیدِ سعید کا پیغام :

تکثیری سماج میں مسلمانوں کی موجودگی کا لازمی تقاضہ ہے کہ وہ ان مواقع پر جبکہ وہ خوشی کا اظہار کرتے ہیںیا دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کے تہوار جنہیں عید الفطر اور عید الالضح کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، چاہیے کہ ان دیگر مذاہب کے لوگوں کو اپنی خوشی میں شریک کریں جو ان سے وابستہ ہیں۔چونکہ وہ ہمارے پڑوسی ہیں،آس پاس رہتے ہیں،آفس اور دیگر معاشی معاملات میں وقتاً فوقتاًوہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں،لازم ہے کہ ہم ان سے قربت استوار کریں۔اور فی الوقت عید سعید سے بہتر موقع کوئی اور نہیں ہو سکتا جب کہ ہم ان سے اور وہ ہم سے مزید قریب ہوں۔یہ قربت اور تعلقات ہی ہیں جو انسانوں میں جذبہ خیر خواہی اور ہمددری پیدا کرتے ہیںجس کی آج اشد ضرورت ہے۔مسلمانوں کو اس بات کا مخصوص اہتما م کرنا چاہیے کہ وہ عید گیٹ ٹو گیدر کے پروگرام منعقد کریں۔اپنے گھر پر، اپنے محلے میں یا کچھ مزید بڑے پیمانے پر۔ان مواقع پر درج ذیل باتوں کا تذکرہ لازماً کیا جانا چاہیے :

  1. i) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک باپ اور ماں(حضرت آدمؑ اور حواؑ) سے پیدا کیا ، لہذا تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ii)  اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنے دین پر عمل کرنے کے لیے اور اپنی تعلیمات سے آگاہی کے لیے اپنے پیغمبر بھیجے جو اس کی ٹھیک ٹھیک تعلیمات لوگوں تک پہنچاتے تھے ۔iii)  ان پیغمبروں کا سلسلہ پہلے انسان حضرت آدمؑ سے ہوا اور آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔جن کے بعد اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔iv)  اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد قرآن حکیم اور اپنی سنت احادیث کی شکل میں چھوڑ کر گئے ہیں، ان پر عمل آوری ہی دراصل دنیا و آخرت کی نجات کا ذریعہ ہے۔v)  فی الوقت جن مسائل سے ہم دوچار ہیں وہ انسانوں کی انسانوں پر ظلم و زیادتی اور جبر و استبداد کی وجہ سے ہیں۔اور ان سے چھٹکارے کا ذریعہ انسانوں کے بنائے قوانین ہیں جو حقوق اللہ اور بعض مواقع پر حقوق العباد کی ادائیگی میں رکاوٹ ہیں۔vi)  حقوق اللہ کی ادائیگی یا وہ فرائض جو انسان پر لازم ہیں،ان ہی میں یہ رمضان المبارک کے روزے بھی ہیں۔یہ روزے انسان میں مکمل نظم و ڈسپلن برقرار رکھنے کا ذریعہ ہیں جس کے بعد اللہ کے ہر چھیوٹے اور بڑے حکم کی عمل آوری میں انسان کو آسانی ہوتی ہے۔vii)  اور یہ عیدِ سعید دراصل وہ انعام ہے جو ایک بندہ اپنے رب ِ اعلیٰ کے احکامات پر اور ماہ رمضان کے تمام ارکان کو ادا کرنے کے بعد حاصل کرتا ہے۔یہی وہ موقع ہے جب کہ اللہ بندے سے راضی اور بندہ اللہ سے راضی ہو جاتا ہے اور دنیا و آخرت کی تمام خوشیا ں اسے حاصل ہوتی ہیں۔

آج جن حالات سے ہم دوچار ہیں، اسلام اور مسلمانوں پر جس طرح تہمتیں لگائی جا رہی ہیں، بہت ہی قوت و طاقت کے ساتھ ان کے خلاف جس طرح منظم سازشیں کی جا رہی ہیں،دہشت اور خوف و ہراس جو چار سو نظر آرہا ہے وہ دراصل ان ہی لوگوں کا پیدا کردہ ہے جو خود کو امن کا علمبر دار قرار دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف ممالک میں رہنے بسنے والے افراد، ان کی صلاحتیوں اور ذخائر پر اپنی برتری اور تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔جس کی بہت واضح نذیر گزشتہ سالوں میں جاری دنیا کے مختلف ممالک پر جبر و استبداد ہے۔ جس کے نتیجہ میں بھوک و افلاس   سے آج انسان بری طرح تڑپ رہا ہے لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔یہ وہی طاقتیں ہیں جنھوں نے نہ صرف جاپان کے ہیروشیما پر ایٹم بم برسائے بلکہ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ایک ایک ممالک کی آزادانہ حیثیت کو چلیجز کرتے رہے ہیں۔نتیجہ میں انسانوں کی ایک کثیر تعداد اور ان کی آنے والی آئندہ نسلوں کو مفلوج بنا دیاہے۔یہ وہ امن کے علمبردار ہیں جو ایک طرف جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں تو دوسری طرف ذاتی مفاد کی آڑ میں اپنے ناپاک ایجنڈوں پر کار بند ہیں۔

اس لیے لازم ہے کہ ان جھوٹے دعویداروں پر یقین نہ کیا جائے۔اسلام جس امن کا علمبردار ہے اور جس کی مثالیں اس کے دور اقتدار میںبہت ہی واضح انداز میں موجود ہیں ، ان احکامات و تعلیمات اور نظام کو نافذالعمل بنایا جائے۔غربت و افلاس اور اخلاقی اقدار کی پامالی جو آج بہت نمایاں ہو چکی ہے اور جس میں ہر شخص مبتلا ہے، اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔سود پر مبنی نظام معیشت جس نے غربت کے ازالے کی بجائے اس کو مزید فروغ دیا اور اضافہ ہی کیاہے،انسانوں کے درمیان ناہمواریاں قائم کیں اور طرہ یہ کہ بھوک و افلاس کے پیمانے قائم کیے۔ اُس نظام معیشت کے خلاف آواز بلند کی جائے۔دوسری جانب اخلاقی پستی میں مبتلا معاشرہ جس نے مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی قدر و منزلت کو ہر سطح پر پامال کیا ہے، اس سے نجات حاصل کی جائے۔اور ان دونوں ہی بنیادوں پر بھر پور چوٹ کی جائے تاکہ اسلامی معیشیت جو سود سے پاک ہے اور اسلامی معاشرہ جو اخلاقی اقدار کا علمبردار ہے اس کے فروغ میں آسانی ہو۔امن و امان قائم ہو اور دنیا میں مالک برحق کی کبریائی بیان کرنا آسان ہوجائے۔اس خالق برحق کی کبریائی جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور ہر چیز ان کے ماتحت کر دی ۔لازم ہے کہ انسان بھی اللہ کے تابع ہو جائے ۔ تب ہی ممکن ہے کہ وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو ں جن کی خواہش ہم اپنے دلوں میں بسائے بیٹھے ہیں۔نہیں تو خواب خواب ہی بن کر رہ جائیں گے اور یہ معاشرہ مزید گمراہیوں اور ظلالتوں میں مبتلا ہوتاچلا جائے گا۔پھر یہ ہماری بے توجہی اُس فسادفی الارض کا سبب بنے گی جو ہرشخص کے لیے نقصان دہ ہے۔لازم ہے کہ قبل از وقت ہم بیدار ہو جائیں!

اس عید سعید کے موقع پر ہمیں اپنے ان تمام اسلام پسند بھائیوں کو نہیں بھلانا چاہیے جو آج حددرجہ ظلم و زیادتیوں اور تشدد کا شکار ہیں۔ ان میں بطور خاص فلسطینی مسلمان بھائی ہیں ساتھ ہی دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمان۔یہ وہ مسلمان ہیں جن پر صرف اس بنا پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلام کو ماننے والے ہیں،جو اپنی بقا اور وجود کی جدو جہد میں مصروف ہیںیا اسلامی تشخص کے فروغ میں سرکرداں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حامی و مدد گار ہواور ان کو دنیا ہی میں وہ کامیابی عطا فرمادے جس کے بعد ان کا ہر غم ہلکا ہوجائے ۔ نیز ملت اسلامیہ کے وہ تمام لوگ جو کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں اللہ کے دین کے قیام کی جدو جہد میں مصروفِ عمل ہیں اور باطل قوتیں ان کی سرکوبی میںلگی ہوئی ہیں، ایسے تمام لوگوں کے لیے بھی ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سعی کو قبول فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے اور وہ فتح نصیب فرمائے جس کا وعدہ اُس نے اپنے نیک بندوں سے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وقت جلد آئے جب کہ اسلام کو غلبہ نصیب ہو اور اللہ کی زمین پر اللہ کی کبریائی بیان کی جائے۔  اللہ اکبر  اللہ اکبر   لا الہ الا اللہ   واللہ اکبر   اللہ اکبر   وللہ الحمد!

[email protected]

maiqbaldelhi.blogspot.com