اولاد کی تربیت

مولانا ابوسلیم عبدالحئی  ؒ

جو معاشرہ اپنے آنے والی نسل کی تربیت کی طرف سے غافل ہو یا غلط قسم کی تربیت کرتا ہو اس کی تباہی یقینی ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ انتہائی اہم کام ہے۔ جو لوگ اللہ کو اپنا رب مان لیں اور اس کی ہدایت کو اپنی زندگی کا قانون تسلیم کرلیں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کو بھی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کریں اور ان کی پرورش اس طرح کریں کہ یہ باتیں ان کے اندر رچ بس جائیں۔

بچوں کی تربیت کی ذمہ داری خاص طور پر خواتین پر ہے۔ یہ کام بچے کے پیدا ہونے کے مہینے دو مہینے کے بعد ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ بچہ اسی وقت سے اپنے ماحول کے اثرات قبول کرنے لگتا ہے۔ اگرچہ بچہ نہ ہماری بات سمجھتا ہے اور نہ ہماری کسی ہدایت پر عمل کرسکتا ہے لیکن پھر بھی وہ سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ بہت سی بہنوں کے ذہن میں تربیت کا مفہوم اتنا ہی ہوتا ہے کہ بچے کو سکھایا اور پڑھایا جائے لیکن یہ تو تربیت کی ایک شکل ہے۔ سب سے پہلے بچے کی تربیت کے لیے جس طرف توجہ کی ضرورت ہے وہ اس کے ماحول کی اصلاح ہے اور اس ماحول میں سب سے زیادہ اہم مقام خود آپ کو اور بچے کے باپ کو حاصل ہے۔ بچے کی خاطر آپ کو اپنا مزاج بدلنا ہوگا۔ غصے کی بات چیت، چھوٹوں کے ساتھ حقارت کا برتاو، بد زبانی، نوکروں کے ساتھ سخت کلامی، بات بات پر چڑچڑا پن اور سب سے زیادہ خود بچے کے ساتھ بد مزاجی کا برتاؤ یہ سب باتیں بچے کی اخلاقی تربیت کے لیے زہر ہیں۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ اس بارے میں آپ کا کام کس قدر سخت ہے۔ یوں سمجھیے کہ بچے کی خاطر خود اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اور قدم قدم پر اپنے ہر کام کی خود نگرانی کرنا ہوگا۔

بچے کو جھوٹ کی عادت نہ پڑے۔ اس کے لیے بڑی بڑی نصیحتیں اور ہر وقت کی تنبیہ اور نگرانی کام نہ دے گی بلکہ آپ کو ہر موقع پر یہ ثبوت دینا پڑے گا کہ آپ خود بالکل جھوٹ نہیں بولتی ہیں۔ حد یہ کہ جھوٹ موٹ بھی کوئی جھوٹ آپ کے منہ سے نہ سنائی دے۔ بچوں کو بہلانے کے لیے ان کو چپ کرنے کے لیے جو بات بات پر کہا جاتا ہے ’’رو مت ہم تمہیں چیز دیں گے‘‘ ’’دیکھو وہ کون آیا‘‘، ’’ہائیں اسے نہ چھونا ابا ماریں گے‘‘۔ ’’خبردار باہر نہ جانا پکڑنے والا بیٹھا ہے‘‘ اسی طرح کی بے شمار باتیں صبح سے شام تک بچوں کے سامنے ہوا کرتی ہیں اور ایسی باتیں کرنے والے بچے کے یہ نادان دوست بالکل نہیں جانتے کہ وہ انہیں جھوٹ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ آپ کو سخت نگرانی کرنا ہوگا کہ اس طرح کی باتیں نہ آپ کے منہ سے نکلیں اور نہ دوسرے لوگ بچوں کے سامنے اس طرح کی گفتگو کریں۔

اس کے بعد جب بچہ بولنے اور سمجھنے کے لائق ہو جائے تو آپ اس کے دل میں خدا کا تصور، اس کے خالق اور مالک ہونے پر ایمان اور اس کے سننے اور جاننے کی صفات کا زندہ یقین پیدا کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ کچھ اور بڑے ہونے پر رسولؐ خدا کی ذات کا تعارف، ان کی عظمت اور بڑائی کا صحیح تصور، تمام انبیا علیہم السلام کی باتیں، ان کے کام، انسانی تاریخ میں ہدایت قبول کرنے اور گمراہی اختیار کرنے کے نتائج آپ بڑی آسانی سے ہلکی پھلکی باتوں کے ذریعہ ان کے دلوں میں اتار سکتی ہیں۔ بزرگان دین کی زندگی کے صحیح واقعات، اسلام کی خاطر جینے اور مرنے کی جدوجہد کی داستانیں سنا کر آپ ان کے دلوں کو بہت آسانی سے گرما سکتی ہیں۔ خدا اور اس کے رسولؑ کی محبت، ثواب اور عذاب کا تصور، آخرت کی کامیابی کی دُھن غرض یہ کہ اسلامی انقلاب کی مکمل روح جس آسانی سے آپ ان کے دلوں میں پیدا کر سکتی ہیں وہ کسی اور سے ممکن نہیں۔ آپ کی سیدھی اور سادہ باتیں دلوں پر جس قدر گہرا نقش بٹھا سکتی ہیں وہ بڑے ہو کر بڑی بڑی کتابوں اور بڑی بڑی فسلفیانہ دلیلوں سے قائم نہیں ہو سکتا۔

آپ کے کاموں میں سب سے اہم کام اپنے بچوں کی صحیح تربیت ہی ہے۔ یہ کام اتنا ضروری اور اہم ہے کہ اس کے مقابلے میں مردوں کے وہ سب کام جو وہ تبلیغ اسلام اور اقامت دین کے سلسلے میں گھروں سے باہر کرتے ہیں شاید ہی کچھ زیادہ وزن رکھتے ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ کسی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کس قدر دشوار ہوتی ہے اور اگر اس کام کو انتہائی صبر اور دانش مندی سے نہ کیا جائے تو اکثر مایوسی ہی ہوتی ہے۔ پچھلے دور میں مسلمانوں کی اصلاح کی بہت سی کوششیں نا کام ہو چکی ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کام کرنے والوں میں صبر کی کمی تھی اور ان کے نزدیک اصلاح کے پروگرام میں تربیت کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ کسی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کے لیے جو کام کیا جائے اس میں بڑوں کے ساتھ نئی نسل کی صحیح تربیت پر پوری توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑوں کی اصلاح سے مایوس ہو کر صرف نئی پود ہی کی اصلاح سے ساری امیدوں کو وابستہ کرنا پڑتا ہے۔ ہماری نئی نسلیں اس لحاظ سے بہت بد قسمت ہیں کہ ان کے گھروں میں اور گھروں سے باہر مدرسوں، محلوں اور شہروں میں اب نہ قرآن کی آوازیں کانوں میں آتی ہیں اور نہ نمازوں، روزوں اور دوسرے دینی مشاغل کے وہ مناظر سامنے آتے ہیں جو اب سے پہلے کافی عام تھے۔ اب نہ وہ اپنی آنکھوں سے گھر والوں کو نمازوں کا پابند دیکھتے ہیں اور نہ کسی دوسری جگہ ہی ان کو ایسی صحبتیں میسر آتی ہیں جہاں وہ دین کا اثر قبول کر سکیں۔ آئندہ چل کر جب کاروبار کی باگ ڈور ان نسلوں کے ہاتھ میں آئے گی تو آپ خود ہی فیصلہ کر سکتی ہیں ان میں اسلام کا رنگ کہاں سے آئے گا۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ کے گھروں کی چار دیواری میں، آپ کے روزہ مرہ کے معمولات میں اور گھروں سے باہر زندگی کے روز کے کام کاج میں اسلام کس طرح نمودار ہو تاکہ ہماری نسلیں اسے اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا دیکھیں اور اس کا اثر قبول کریں۔

بچوں کی تربیت کے لیے یہ بات انتہائی مفید ثابت ہوگی کہ آپ کی اور آپ کے گھر کے دوسرے افراد کی زندگیاں زیادہ سے زیادہ اسلامی زندگی کا نمونہ ہوں۔ آپ کے بچوں کے کانوں میں بار بار قرآن کی آواز پڑے۔ وہ آپ کو اور دوسروں کو پانچوں وقت کی پابندی کے ساتھ نمازیں ادا کرتا ہوا دیکھیں اپنی فطرت کے مطابق اپنے بڑوں کی تقلید کریں۔ وہ توحید کا پیغام سنیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات بار بار انہیں ذہن نشین کرائی جائیں۔ آخرت کی زندگی کا تصور ان کے ذہنوں پر نقش ہوجائے۔ وہ زندگی کی حقیقت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کی اصل کامیابی کے راز سے باتوں باتوں میں آگاہ ہو جائیں۔ پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی قدر و قیمت ان کے دل میں بیٹھ جائے۔ وہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمدؐ کا نام نامی بار بار سنیں اور ان کے دلوں میں آپ کی ذات گرامی سے عقیدت و محبت پیدا ہونے لگے۔ ان میں نیکی اور بدی کی تمیز کا مادہ پیدا ہو جائے وہ نیکی پر خود عمل کرنے لگیں اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کر سکیں، وہ برائی سے خود بچیں اور دوسروں کو بچانے کا خیال رکھیں۔ جنت اور دوزخ کا تصور ان کے سامنے زندہ حقیقت بن کر آنے لگے اور خدا کو راضی کرنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی تمنا ان کے دلوں کو گرمانا شروع کر دے۔یہ ہیں وہ ذمہ داریاں جو آپ کو اپنی اولاد کے سلسلے میں ادا کرنی ہیں۔ آپ کے بچے اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں جو اس لیے آپ کے سپرد کیے گئے ہیں کہ آپ انہیں پال پوس کر اس حال میں بڑا کریں کہ وہ اپنے مالک کو پہنچانتے ہوں۔ اس کی خوشی اور ناخوشی کا قدم قدم پر خیال رکھتے ہوں اور اس قابل ہوں کہ جب وہ بڑھ کر زندگی کا کاروبار سنبھالیں تو اللہ کی زمین کو نیکیوں اور بھلائیوں سے بھر دیں اور ہر قسم کے فساد، خونریزی، جنگ اور اللہ کی بغاوت سے زمین کو پاک کر دیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کو اللہ کا فرماں بردار اور رسول اللہ کا اطاعت گزار بناتے ہیں تو وہ آپ کے لیے خیرِ جاریہ ہیں۔ ان کے دم سے جب تک دنیا میں نیکیوں کے پھیلنے اور برائیوں کے دینے کا سلسلہ جاری رہے گا آپ کو اس کا اچھا بدلہ ملتا رہے گا۔ آپ ہی بتائیے کہ اللہ پر ایمان لانے اور آخرت پر یقین رکھنے کے بعد اس سے اچھا سرمایہ اور کیا ہو سکتا ہے جس کی آپ تمنا کریں۔

یہ تو وہ صورت ہے جس میں آپ کی اولاد آپ کے لیے نعمت اور ہمیشہ کی زندگی کے لیے سرمایہ ثابت ہو سکتی ہے لیکن اگر خدا نخواستہ آپ نے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتی اور اپنی اولاد کی اس ’’خودرو‘‘ طریقے پر پرورش کی جو آج کل بہت عام ہے تو یقین رکھیے کہ آپ کے اس سرمایہ کو شیطان کے ایجنٹ لوٹ لے جائیں گے جو ہر وقت اسی گھات میں لگے ہوئے ہیں۔ پھر آپ کی اولاد خدا کی باغی بن کر اٹھے گی۔ اللہ کی زمین میں ظلم اور فساد کا علم بلند کرے گی اور ایسی صورت میں اس کے دم سے جتنی برائیاں پھیلیں گی ان سب میں آپ بھی حصہ دار ہوں گی اور خدا محفوظ رکھے پھر یہی اولاد آپ کے لیے دائمی عذاب کا موجب ہوگی۔ آپ کی اولاد آپ کے لیے نعمت بھی بن سکتی ہے اور عذاب بھی اور یہ سب کچھ آپ اس کی تربیت پر موقوف ہے جو آپ اپنے بچوں کو دیں گی۔

اگر ہم ڈیجیٹل ورلڈ کے مرکز، سیلیکون ویلی سے وابستہ دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے والی قد آور شخصیات اور دنیا کے اہم افراد کی ذاتی زندگی اور ان کے بچوں کے معمولات پر نظر ڈالیں تو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ انہوں نے کس طرح اپنے بچوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسز سے دور رکھا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان مصنوعات کے تخلیق کار ان کے نقصانات صارفین سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں جانتے ہیں۔

سابق امریکی صدر، بارک اوباما کہتے ہیں کہ جب تک ان کی بیٹیاں اسکول میں زیرِ تعلیم تھیں تب تک انہیں ٹی وی دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے اپنی صاحب زادیوں کو تفریح کی خاطر کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت دی۔ مائیکرو سافٹ کے بانی اور طویل عرصے تک دنیا کے امیر ترین فرد کا اعزاز رکھنے والے بِل گیٹس بھی ٹیکنالوجی کے استعمال کے معاملے میں اپنے بچوں پر خاصی سختی کرتے ہیں اور ان پر 14 سال کی عمر تک موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد رہی۔ جب کہ وہ آج بھی کھانے کی میز پر موبائل فون نہیں لا سکتے اور سونے سے قبل بس ایک معینہ وقت تک ہی اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ بِل گیٹس کا کہنا ہے کہ آپ کو ہمیشہ یہ بات مدِ نظر رکھنا پڑتی ہے کہ ٹیکنالوجی کو بہتر انداز میں کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں بچے اس کا زائد یا غلط استعمال تو نہیں کر رہے ہیں۔آج دُنیا بَھر کے ممالک ڈیجیٹل ڈیوائسز سے لاحق خطرات کو بھانپ چُکے ہیں اور اس رجحان پر قابو پانے کے لیے ضابطے اور قوانین بھی وضع کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تائیوان نے 2015 میں دو سال کی عمر تک کے بچوں کے ڈیجیٹل ڈیوائسز استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور 18 برس سے کم عمر بچوں کو ان آلات کا بہ وقتِ ضرورت اور ایک مخصوص وقت میں ہی استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔ اس قانون پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں والدین پر دو ہزار ڈالرز سے زاید جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ چین میں ڈیجیٹل آلات کے استعمال کو وبائی صورت اختیار کرتے دیکھ کر تائیوان نے بچوں کو اس لت سے بچانے کے لیے یہ قانون بنایا ہے۔ ہمیں اجتماعی سطح پر بھی کوئی قانون وضع کرنا چاہیے لیکن انفرادی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ ڈیجیٹل ڈیوائسز پر وقت گزارنے کے لیے اپنی زندگی کے معمولات کو ترتیب وار متعین کریں اور بچّوں پر بھی نظر رکھیں تاہم، سختی کی نہ جائے اُن کی بہتر تربیت ہی انہیں اس آن لائن یلغار سے بچا سکتی ہے اور وہ اسمارٹ فون یا انٹرنیٹ کو بہتر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے بہترین حل یہ ہے کہ تمام ڈیجیٹل آلات کے سوئچ آف ہونے کا ایک وقت مقرّر کریں۔ کھانے کی میز پر ڈیوائسز استعمال نہ کریں۔ ریسٹورینٹ اور دورانِ سفر موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی عائد کریں۔ اسمارٹ فون یا انٹرنیٹ کے استعمال کا ایک وقت طے کریں۔ ذاتی معلومات کو آن لائن شیئر کرنے سے گریز کریں۔ اپنی تصاویر اور پاس ورڈز کسی کو نہ دیں۔ اگر کبھی کوئی نازیبا پیام موصول ہو تو ذمہ دار افراد کو مطلع کریں۔ موبائل فون جیب میں نہ رکھیں اور سوتے وقت اسے بستر سے دُور رکھیں اور سب سے اہم یہ ہے کہ والدین بچوں کو اسمارٹ فون دینے سے قبل اُن کے پختہ ذہن ہونے کا انتظار کریں، تاکہ وہ اسے ذمّے داری کے ساتھ استعمال کر سکیں۔ اپنے بچے کو اسمارٹ فون دیتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی راز داری کی سیٹنگز سخت نہ ہوں۔ ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں۔ بچوں کی غیر موجودگی میں یا پھر ان کو اعتماد میں لے کر اُن کے موبائل فونز یا کمپیوٹرز وغیرہ چیک کریں۔ اپنے بچوں کو انٹرنیٹ کے متعلق تفصیل سے بتائیں۔ انہیں اس کے فوائد اور نقصانات دونوں سے آگاہ کریں۔ بچوں کو خود ڈیجیٹل ڈیوائسز کا استعمال سکھائیں۔ ان آلات کے ذریعے اپنے تعلیمی مسائل حل کرنے اور معلومات حاصل کرنے کا طریقہ بتائیں۔ بچوں کو انٹرنیٹ پر منعقد ہونے والے تعلیمی مقابلوں میں شریک ہونے کی ترغیب دیں اور اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ یاد رہے کہ بچوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسز کے استعمال سے متعلق کھل کر بتانا نہایت ضروری ہے ان کو ان آلات کے غلط استعمال اور برے اثرات سے آگاہ کریں اور ان میں ڈیجیٹل ڈیوائسز کے صحیح اور غلط استعمال کی تمیز پیدا کریں۔ آن لائن کے ساتھ ساتھ آف لائن سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لے کر اپنی خود اعتمادی میں اضافہ کریں۔ نتائج سے زیادہ کاوش کی تعریف کرنے کا مزاج عام کیا جائے اور مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ سوشل میڈیا پر کی گئی تعریف و تحسین میں گُم رہنے کے بجائے حقیقی احساسات کو اہمیت دیں۔ دیگر سرگرمیوں اور دلچسپی کے عوامل میں بھی ایک دوسرے کی معاونت کریں تاکہ مختلف قسم کی تعمیری سرگرمیوں سے مثبت تقویت حاصل ہو۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے ہم نے ہمیشہ غلط امیدیں وابستہ کیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ پوری دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں اسکولز میں انٹرنیٹ کا عمومی استعمال طلبہ کی تعلیمی استعداد میں بہتری لانے کا سبب بنا ہو۔ جرمن ماہرین کا کہناہے کہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سمیت اس نوع کی دیگر اسکرین ڈیوائسز کا استعمال 5 مراحل سے گزرنے کے بعد نشہ بنتا ہے۔ پہلے مرحلے میں کوئی بچہ یا فرد صرف آزمائش کے لیے ان پر ویڈیو گیم کھیلتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اُسے اس کھیل میں لطف آنے لگتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں گیم کھیلنا اُس کی عادت بن جاتی ہے، جب کہ چوتھے اور پانچویں مرحلے میں یہ عادت خطرناک حدوں کو چُھونے لگتی ہے اور تب اسے ’’لت پڑنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب کوئی شے باقاعدہ نشہ بن جائے تو دماغ پر اس کے اثرات منشّیات ہی کے مانند مرتّب ہوتے ہیں اور انسان بے خودی کے عالم میں خود کو کسی اور ہی دُنیا کا باسی محسوس کرتا ہے۔ تاہم، یہ رجحان اس وقت زیادہ خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے کہ جب کوئی انٹرنیٹ صارف ہر چند لمحوں بعد فیس بک پر اپنے فرینڈز کی نئی پوسٹس اور اپنی پوسٹس کو ملنے والی پزیرائی کا جائزہ لینے لگے اور اپنی ہر سرگرمی، تصویر کی شکل میں فیس بک پر شیئر کرنا ضروری سمجھے۔

منشّیات کے عادی افراد کی طرح اسمارٹ فون کی لت میں مبتلا صارفین میں بھی مندرجہ ذیل علامات پائی جاتی ہیں:بِلاوجہ اسمارٹ فون کی اسکرین تکتے رہنا۔ڈیوائس سے جدائی کے تصور سے ہی پریشانی اور بے چینی محسوس کرنا۔اسمارٹ فون پر وقت گزاری کو سماجی تعلقات پر فوقیت دینا۔ اسمارٹ فون چیک کرنے کے لیے بار بار جاگنا۔ تعلیم یا کام کی کارکردگی میں کمی آنا۔ نت نئی ایپس سے متاثر ہونا وغیرہ۔

بیڈ رومز میں کسی بھی قسم کی ڈیجٹیل ڈیوائس نہیں ہونی چاہیے۔ بڑوں کے زیرِ استعمال ڈیجیٹل ڈیوائسز کو بچّوں سے دور رکھنا ضروری ہے۔ اسکرین ڈیوائسز کو استعمال کرنے کے بعد بند کر دینا چاہیے تاکہ بچوں کی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔ سواری اور ڈائننگ ٹیبل کو ٹیکنالوجی فری بنائیں۔کھانے سے قبل ہر قسم کی ڈیجیٹل ڈیوائسز آف کر دیے جائیں تاکہ اہلِ خانہ آپس میں گفتگو کر سکیں۔

اسکرین سے مناسب فاصلہ قائم رکھنا ممکن بنائیں اور وقتاً فوقتاً اسکرین سے نظر ہٹانے کا عادی بنائیں۔

آنکھوں کے عضلات کو آرام دینے کے لیے فاصلے پر رکھی اشیا کو دیکھیں اور یہ احساس اپنے اندر اور اپنے اطراف واکناف و خاندان میں، بچوں میں ہمیشہ تازہ رکھیں کہ ڈیجیٹیل ورلڈ سے باہر بھی احساسات و جذبات اور خوبصورت انسانی رویوں کی ایک دنیا ہے۔