عصر حاضر کے ایک ممتاز سیرت نگار کی رحلت

پروفیسر محمدیٰسین مظہر صدیقیؒ کی وفات پراُن کی ایک شاگر دہ کے احساسات

تہمینہ ظفر فلاحی، علی گڑھ

  دو روز قبل 15؍ ستمبر  2020کو ظہر کے وقت جیسے ہی یہ اندوہناک خبر موصول ہوئی کہ معروف سیرت نگار پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی ؒ وفات پا گئے ہیں دل دھک سے ہو گیا اور انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد کرنے کے بعد زبان پر یہ الفاظ تیرنے لگے کہ اب میں کس کو فون کروں گی؟ تاریخ اور سیرت سے متعلق اپنے اشکالات اور سوالات بلا تکلف کس کے سامنے رکھوں گی؟ اب کون میرے سوالوں کا تسلی بخش جواب دے گا اور کون سیرت سے متعلق اہم مصادر، مراجع اور مستند کتابوں کی طرف میری رہ نمائی کرے گا؟ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔

 سیرت کے مضمون سے اپنی دلچسپی کے سبب میرا پروفیسر مرحوم کے ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے بلکہ یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات میں دوبارہ 2017میں داخلہ لینے کے بعد سے ہی استاد و شاگرد کا تعلق قائم ہوگیا تھا (میرے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ’’حقوق نسواں پر اسلام اور ہندو مت کا تقابلی مطالعہ‘‘ ہے) مجھے جب بھی کسی مختلف فیہ یا متنازع معاملے میں الجھن اور اشکال ہوتا فوراً آپ کو فون کر لیتی۔ بسا اوقات آرام کا وقت ہوتا مگر انہوں نے کبھی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے دیکھا کہ جب میں اپنا مسئلہ رکھتے ہوئے مختلف کتابوں کا حوالہ دیتی تو وہ خوش ہوتے اور تفصیل سے سمجھاتے، لیکن جب میں بغیر کسی حوالے کے عمومی انداز میں سوال کرتی تو شفقت سے ڈانٹتے ہوئے کہتے ’’ارے پہلے پڑھیے پھر پوچھیے، آپ لوگ مطالعہ نہیں کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کچھ پوچھ کر معلوم ہو جائے‘‘۔ ان کی اس شفقت آمیز ڈانٹ میں بھی ایک لطف تھا جس سے ہم لوگ محظوظ ہوتے تھے۔ وہ ہمیشہ ان بنیادی کتب کا مطالعہ کرنے کی تاکید کرتے تھے جو مصادر اور مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں ۔۔۔۔

 مختلف سیمیناروں، یونیورسٹی سیرت کمیٹی کی جانب سے منعقد ہونے والے سیرت پاک کے جلسوں اور ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ میں ان کے انتہائی عالمانہ اور قیمتی خطابات سے ہمیشہ استفادہ کیا۔

سلطان العلماء اکیڈمی فیصل آباد پاکستان سے شائع ہونے والی مولانا محمد اسحاق کی تصنیف ’مقصد حسین‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے جب بعض تاریخی روایات سے خلفائے راشدین اور بعض صحابہ کی شان میں گستاخی محسوس ہوئی تو عادت کے مطابق ان سے فون پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ سب من گھڑت اور بالکل فرضی روایات ہیں۔ تاریخ طبری کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس میں جھوٹی روایات کی بھر مار ہے۔

ہمارے شعبہ کی ریسرچ اسکالر مرشدہ عثمانی اپنی پی ایچ ڈی کے موضوع کے سلسلے میں مشورہ کے لیے ان کے پاس گئیں تو بڑی شفقت اور تپاک سے پیش آئے۔ مطالعہ کے لیے چند کتابوں کی نشان دہی کی اور اپنا ایک مقدمہ پڑھ کر سنایا جس میں ان کی والدہ اور اہلیہ کا تذکرہ تھا۔ والدہ کے ذکر پر آب دیدہ ہوگئے اور آواز پست ہو گئی۔ فرمایا کہ ’’اگر سیرت میں دلچسپی ہے اور کام کرنا چاہتی ہیں تو سیرت رسول کی روشنی میں محروم کمزور اور پس ماندہ طبقات کے حقوق کے موضوع پر کام کیجیے میں اس سلسلے میں آپ کا مکمل تعاون کروں گا۔ آج اس کی ضرورت بہت زیادہ ہے اور اس عنوان پر زیادہ تفصیل سے تحقیقی کام اب تک نہیں ہوا ہے‘‘

ایک بار بعض ناموں کے سلسلے میں اصلاح کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ابو لہب کی باندی جسے اس نے رسول اللہ کی ولادت کی خوش خبری سن کر آزاد کر دیا تھا اور جو آپ ؐ کی رضاعی ماں تھیں‘ ان کا نام عام طور پر لوگ ثوبیہ لکھتے ہیں ‘مگر صحیح تلفظ ثُوَیبہ ہے۔ اسی طرح ایک اور نام ’شرجیل‘ عام طور پر رائج ہے مگر اس کی اصل ’شُرحبیل ہے۔

ان سے آخری بار گفتگو 26؍ جولائی 2020 کو ہوئی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ رسول اللہ ؐ کے پاس جو بھی بنیادی ضرورت کا سامان تھا وہ مختلف قریبی صحابہ کے پاس رکھا ہوتا تھا۔ آپ ؐ کے پاس کوئی ایسا وسیع مکان نہیں تھا جس میں آپ کے متعلقات اور ذاتی سامان رکھے جا سکتے تھے۔ ازواج مطہرات کے چھوٹے چھوٹے حجرے تھے جو بالعموم خالی رہتے تھے۔

اپنے دفاع اور دشمن سے مقابلے کے لیے تیاری کے سلسلے میں سیرت پاک کا اسوہ پہلی بار ان سے آخری گفتگو کے نتیجے میں میرے سامنے آیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’رسول اللہ ؐ کے متروکات میں جس کا ذکر بلاذری کے علاوہ شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ میں وضاحت سے موجود ہے اسلحے خاص اہمیت کے حامل ہیں جن کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ سیرت النبی ؐجلد دوم میں شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ؐکے متروکات میں 9عدد تلواریں، 7زرہیں، 6 کمانیں، ایک ترکش اور ایک ڈھال کے علاوہ 5 برچھیاں بھی تھیں۔ میری ڈائری میں درج تفصیلات کے مطابق گزشتہ برس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز میں 5؍ تا 19؍ جولائی 2019 کو طلبہ کی علمی، فکری اور نظریاتی پختگی اور رہ نمائی کے لیے منعقد ہونے والے

پندرہ روزہ پروگرام ’سمر اسکول آن اسلامک اسٹڈیز ‘ کے افتتاحی جلسے میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی نے فرمایا تھا ’’اسلام بنیادی عقائد اور فرائض کے سلسلے میں لچک اور مداہنت کو قبول نہیں کرتا۔ قرآن و سنت کے نصوص ابدی اور ناقابل تبدیل ہیں مگر اُن کی تفہیم و تشریح اور تعبیر میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اضافہ و ترمیم کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ اسلامک اسٹڈیز کا مضمون مذہب اسلام کی مختلف تعبیرات و تشریحات کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اور تاریخ اسلام کے مختلف مراحل میں اسلامی تہذیب و تمدن کا ارتقا اس کے مطالعہ کا خصوصی میدان ہے‘‘

 اسی پندرہ روزہ پروگرام میں ’سیرت نگاری میں علی گڑھ کا حصہ‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے ایک سیشن میں خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی میں شعبۂ عربی کے استاذ پروفیسر ابوسفیان اصلاحی نے سرسید احمد خاں اور شبلی نعمانی کے بعد پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی کا ان کی کتابوں کے حوالوں کے ساتھ بطور خاص تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ’’ان کی عظیم الشان خدماتِ ِسیرت دور جدید میں ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہیں اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی ہم پلہ ہیں‘‘

 11؍ جولائی 2019 کو پروفیسر صدیقی کے خطاب کا عنوان تھا ’’اقلیتوں کے لیے نبی اکرم ؐ کا اسوہ‘‘ جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’’رول ماڈل وہ ہوتا ہے جو سماجی، مذہبی اور سیاسی ہر اعتبار سے لیڈر ہو۔ 622ء میں ہجرت کے بعد آپ ؐ ایک سیاسی رہ نما اور قائد کے طور پر ابھرے تھے۔ مواخات، میثاق مدینہ، غزوات و سرایا اور متعدد قبائل سے معاہدے آپؐ کی معیاری لیڈر شپ کی دلیل ہیں۔ عربوں کی روایت کے مطابق ’اخوت‘ خونی رشتوں کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی مگر رسول اللہ ؐنے اِس کے علاوہ دین اور عقیدے کی بنیاد پر بھی مؤاخات کرائی ۔ رسول اللہ ؐ کی حیات طیبہ میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کے لیے بھی معاشرتی، معاشی، سیاسی اور عائلی پہلوؤں سے بہترین نمونہ اور کامیابی کا نسخہ موجود ہے۔ چنانچہ آج دنیا کی ترقی یافتہ، مہذب اور غالب اقوام کے افراد اس سے پور ا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘‘

پروفیسر صدیقی کا دوسرا لکچر 12؍ جولائی2020کو ’عہد نبوی میں خواتین کی خود مختاری‘ کے موضوع پر تھا۔ اپنے عالمانہ خطاب میں انہوں نے فرمایا: ’’رسول اللہ ؐکے عہد میں خواتین اپنے جسم کو ایک طویل چادر سے ڈھانک کر سماجی مسائل میں حصہ لیتی تھیں اور اپنی مختلف ضروریات حتیٰ کہ تجارت کے لیے بھی باہر نکلا کرتی تھیں۔ رسول اللہؐ دعوتوں میں تنہا نہیں بلکہ اپنی ازواج کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ ازواج کو سفر اور غزوات میں بھی ساتھ لے جاتے۔ سماجی، علمی اور مذہبی زندگی کے مختلف میدانوں میں صحابیات کی خدمات سیرت وتاریخ کی کتب میں کثرت سے ملتی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ صحابہ کرام کو دین کی تعلیم دیتی تھیں۔ ام عمارہؓ رسول اللہ ؐکی حفاظت کرتے ہوئے شدید زخمی ہوگئی تھیں، حضرت اُمّ سُلیم کی بہادری ضرب المثل تھی۔ حضرت رفیدہؓ ایک سرجن تھیں۔ سیرت کی کتابوں میں کسی مرد طبیب کا ذکر نہیں ملتا، طبی خدمات صحابیات ہی انجام دیتی تھیں۔ تقریباً 20 فیصد احادیث صحابیات سے ہی مروی ہیں‘‘۔

15؍ستمبر 2020 کو ان کی رحلت کے بعد اب یہ تکلیف دہ احساس شدت اختیار کر گیا ہے کہ رسول مقبول ؐ کی سیرت پاک کا اتنا بڑا عالم اور شارح ہمارے شہر علم و ادب علی گڑھ ہی سے نہیں بلکہ ہندوستان سے اٹھ گیا اور ہم اس سے خاطر خواہ استفادہ نہ کرسکے۔ 2 سال قبل سیرت پر انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھنے والی ان کی تصنیف ’مصادر سیرت‘ 2 جلدوں میں منظر عام پر آئی تو علمی حلقوں نے اس کا جشن منایا۔ ان کی دیگر شہرہ ٔ آفاق تصانیف میں ’عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، غزوات نبوی کی اقتصادی جہات، عہد نبوی کا نظام حکومت، عہد نبوی کا تمدن، عہد نبوی کی ابتدائی مہمیں، رسول اکرم ؐ اور خواتین۔ ایک سماجی مطالعہ، معاش نبوی، مکی اسوۂ نبوی مسلم اقلیتوں کے لیے رول ماڈل اور رسول اکرمؐ کی رضاعی مائیں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

 ان کی وفات سے سیرت نگاری اور تاریخ نویسی کے میدان میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو پُر کرنا ان کے شاگردوں کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ اللہ رب العزت سیرت نگاری کے باب میں اُن کی گراں قدر خدمات جلیلہ اور حسنات کو شرف قبولیت بخشے۔ خطاؤں، لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین

 (مضمون نگار شعبۂ دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں)

[email protected]