دعوت دین کو اوّلین ترجیح دینے کی ضرورت

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ امت کی اجتماعی زندگی کا اہم ستون

ظفر احمد خان، کبیرنگر (حال مقیم سعودی عرب)

آج پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو مختلف قسم کی مشکلات و پریشانیوں کا سامنا ہے۔ دراصل اہلِ مغرب نے اچھی طرح اندازہ کر لیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قوتِ شمشیر اور زورِ بازو سے شکست نہیں دے سکتے اس لیے انہوں نے اسلام کے خلاف ذہنی جنگ شروع کی تاکہ مسلمانوں کو اسلام کی نعمت سے محروم کر دیا جائے۔ ان کی یہ کوششیں جو برسوں پہلے شروع کی گئی تھیں آج اپنے شباب پر ہیں۔ آج ان کے پاس طاقت ہے وسائل ہیں بے پناہ ذرائع ہیں۔ آج ان کا نقشہ ٹھیک وہی ہے جب موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی ”اے ہمارے رب، تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے اے رب، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک کہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں’’ (یونس88)۔

دوسری طرف ہندوستان میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمان سیاسی طور پر بے سہارا ہونے کے احساس سے گزر رہے ہیں۔ آئین اور سیکولرزم کا تحفط کرنے کی وزیر اعظم مودی کی یقین دہانیوں کے باوجود بی جے پی اور ہندو تنظیموں کے سخت گیر رہنما وقتاً فوقتاً مسلم مخالف اور نفرت انگیز بیانات دیتے رہتے ہیں۔ ملک اس وقت سیاسی تغیر کے دور سے گزر رہا ہے اور بھارت کے بیس پچیس کروڑ مسلمان تیزی سے بدلتے ہوئے بھارت میں تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے نبرد آزما ہیں۔ اسی کے ساتھ معاشرے کے اندر مختلف قسم کے گناہ بھی عام ہو چکے ہیں۔ لوگ نماز با جماعت کی پابندی نہیں کرتے، منشیات اور شراب و سیاہ کاری کا رواج چل پڑا ہے، مسلمانوں میں غیر مسلموں کی مختلف رسمیں، خصلتیں اور برائیاں ہمارے یہاں بھی رائج ہوچکی ہیں، ان کی سب بڑی وجہ دعوت دین سے پہلو تہی اور امربالمعروف و نہی عن المنکر سے غفلت ہے۔ دین حق کی طرف بلانے، بھلائی کا حکم دینے اور گناہوں سے روکنے کی کوششیں نہ کرنے پر آخرت کی سزا تو الگ ہے ہی، دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی قوم میں ہو اور وہاں گناہ کے کام ہو رہے ہوں اور وہ لوگوں کو گناہ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو پھر بھی نہ روکے تو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے ہی اسے عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔ (ابوداؤد) اب دنیا میں آنے والے عذاب عمومی بھی ہو سکتے ہیں جیسے زلزلہ، طوفان، قحط سالی، خشک سالی، مہنگائی، آپسی لڑائی جھگڑے، قومیت وطنیت کے نام پر قتال، ظالم بادشاہوں کا مسلط ہونا وغیرہ اسی طرح خصوصی نوعیت کے مختلف عذاب بھی ہوسکتے ہیں جیسے ذاتی اور خاندانی دشمنی، اولاد کا نافرمان ہونا، قسم قسم کی نت نئی بیماریاں، بھوک، افلاس، تنگ دستی وغیرہ یہ سب اجتماعی انفرادی گناہوں کا وبال ہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ امت مسلمہ کی اجتماعی زندگی کا ایک نہایت اہم ستون ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر اس کی سخت تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے "تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائیوں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں، جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پانے والے ہیں(آل عمران:104)۔ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر خلافت کے مستحقین کا ذکر فرمایا تو ان کی صفات میں اقامت صلٰوۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے بعد تیسرے نمبر پر اسی صفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر فرمایا۔ ’’یہ وه لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے‘‘، (الحج:41) اس لیے بعض علماء نے اس فریضہ کو فرض عین قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہر مسلمان اپنی اپنی علمی سطح اور صلاحیت کے مطابق یہ فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ”اور اس سے اچھی کس کی بات ہے جس نے لوگوں کو اللّٰه کی طرف بلایا اور خود بھی اچھے کام کیے اور کہا بے شک میں بھی فرماں برداروں میں سے ہوں”(فصلت:33) یعنی جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیک کام کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہوگی؟ یہ ہے جس نے خود کو بھی نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے، بلکہ یہ خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے۔ حضرت حسن بصری نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا: یہی لوگ حبیب اللہ ہیں یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہ اللہ کے خلیفہ ہیں۔ بھلائی اور برائی، نیکی اور بدی برابر نہیں بلکہ ان میں بے حد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر۔ حضرت عمرؓ کا فرمان ہے کہ تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تُو اس کے بارے میں اللہ کی فرماں برداری کر اس سے بڑھ کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا۔ اس وصیت پر عمل اسی سے ہوگا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب والا کہ دینا و آخرت کی بہتری اس کا مقدر ہو۔

حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ہر موجود شخص دین کا پیغام غیر موجود لوگوں تک پہنچائے“ لہٰذا ہم سب پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اسلام کو دوسروں تک پہنچائیں۔ بنیادی طور پر تین باتوں کی دعوت پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے، پہلی، اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس بندگی کو شرک سے محفوظ رکھنا، دوسری، اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے اس کے نبی اور رسول کی اطاعت اور تیسری اس دنیا کو عارضی زندگی سمجھتے ہوئے آخرت کی اصل اور ابدی زندگی کی تیاری کرنا جو انسان کی اصل ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے” اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے“ (النحل:125) اس آیت میں دعوت و تبلیغ کے دو اصول بیان کیے گئے ہیں جو حکمت پر مبنی ہیں۔ پہلا جدال بالأحسن، یعنی سختی درشتی اور تلخی سے بچتے ہوئے نرم و مشفقانہ لب ولہجہ اختیار کرنا، دوسرا، آپ کا کام مذکورہ اصولوں کے مطابق وعظ و تبلیغ ہے، ہدایت دینا تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہدایت قبول کرنے والا کون ہے اور کون نہیں۔ اس طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آپسی رنجش اور عداوت کا خاتمہ ہوگا، دشمن دوست ہو جائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، "نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست”۔(فصلت:34)، یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ غضب کا صبر کے ساتھ بےہودگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ اور مکروہات کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن دوست بن جائے گا دور رہنے والا قریب ہو جائے گا اور خون کا پیاسا تمہارا گرویدہ اور جاں نثار ہو جا‏ئے گا۔

قرآن و احادیث میں متعدد مقامات پر دعوت سے غفلت اور پہلو تہی پہ تباہی وبربادی کا ذکر ہے، اللہ کا فرمان ہے: ’’بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وہ بہت برا تھا‘‘، (المائدہ:78، 79)۔ یعنی بنی اسرائیل حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی انہی کے زمانہ میں ملعون قرار پا چکے ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کے نافرمان تھے اور مخلوق پر ظالم تھے، توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت کرتی آئی ہیں۔ یہ اپنے زمانے میں بھی ایک دوسرے کے برے کاموں کو دیکھتے تھے لیکن چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے، حرام کاریاں اور گناہ کھلے عام ہوتے تھے اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا۔

برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی جو ذمہ داری اہل ایمان پر عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کے تین درجے بیان کیے گئے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے بشرطیکہ اس طرح کی طاقت میسر ہو اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔ یعنی کسی خلاف شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے اور اس کے مرتکب کے خلاف قلب میں عداوت و نفرت کے جذبات رکھے جائیں۔ اس درجہ کو ایمان کا سب سے کمزور درجہ قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اہل ایمان اس درجہ کمزور ہو جائیں کہ وہ کسی برائی کو مٹانے کے لیے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے محروم ہوں تو سمجھا جائے کہ یہ اہلِ ایمان کے لیے سب سے کمزور زمانہ ہے۔ یا وذالک اضعف الایمان کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی برائی کو محض قلبی طور پر برا جاننے پر اکتفا کرتا ہے اور ہاتھ اور زبان کے ذریعہ اس برائی کو مٹانے کی جدوجہد نہیں کرتا۔حدیث میں آیا ہے کہ بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولا یخافون لومۃ لائم اور ان کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا۔ آج بڑے بڑے جلسے، پروگرام، سیمینار اور مختلف تنظیموں کے ذریعہ دعوتی عمل انجام دیے جا رہے ہیں مگر زمینی اور عملی سطح پر مدعوئین کے درمیان کام بالکل مفقود ہے۔ امت مختلف فرقوں میں منقسم ہے، خالص اسلام کی دعوت کے بجائے مسلک کی دعوت پر زیادہ قوت صرف ہو رہی ہے۔ علماء اور تعلیم یافتہ طبقہ میدانِ دعوت سے کافی دور نظر آ رہا ہے حالاں کہ انہی کی ذمہ داری عوام میں سب سے زیادہ تھی۔ بہت سے داعی حضرات اصلاح کی ابتدا دوسروں سے چاہتے ہیں اور اپنی ذات کو بھول جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دعوت کے ایک پہلو امر بالمعروف کی ہی دعوت دیتے نظر آتے ہیں نہی المنکر کو اختلاف اور لوگوں کی ناراضگی کی وجہ سے ترک کر دیتے ہیں۔ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کہتے ہیں” تین محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ مسلمان اپنے اخلاق وسیرت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی طرف توجہ دیں۔ دوسرے یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق غیر مسلموں میں جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو دور کرنے کی تدابیر اختیار کریں اور تیسرے میڈیا جس کو دنیا انسانیت کی تخریب کے لیے استعمال کر رہی ہے ہم اس کو انسانوں کے اخلاق وسیرت کی بلندی تک لے جانے کے لیے استعمال کریں۔ اس سے ہمارے متعلق دوسروں کی بد گمانی خوش گمانی سے بدل جائے گی اور ہم امن وسلامتی اور عزت وسر بلندی کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے‘‘ اس لیے ہم سب کو اخلاص و للّٰہیت کے ساتھ خالص دین کی دعوت کے لیے میدان میں آنا چاہیے اور اس کے لیے تعلیم اور تربیت بھی حاصل کرنی چاہیے۔ جو لوگ اس میدان کا تجربہ رکھتے ہیں ان سے اصول و ضوابط سیکھنا چاہیے تاکہ صحیح طریقے سے اس کام کو انجام دے کر دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا

حامی و ناصر ہو۔