چھوٹے گاؤں سے بڑی خبر۔ طالب علم عبد المتین جمعدارکا قابل ستائش کارنامہ

میستری کے بیٹے کی پی یو سی امتحان میں سو فیصد نمبرات کے ساتھ شاندار کامیابی

سید احمد سالک ندوی ، بھٹکلی

 

غریبی میں نام پیدا کرنے والے نوجوان کے حوصلوں کو سلام
محنت ،مستقل مزاجی اور سچی لگن کامیابی کی ایسی کنجیاں ہیں جو تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بننے والےکسی بھی زنگ آلود تالوں کو کھول سکتی ہیں ۔ انسان مشکل ترین حالات میں جینے کا تہیہ کر لے تو مشکلیں سد راہ بننے کی بجائے راستہ دیتی ہوئی نظر آ تی ہیں ۔ شاندار کامیابیوں کی مثالیں اگر آپ تلاش کر وگے تو آپ کو یہ اونچے اور عالی شان محلوں میں کم اوربدحال واجڑے ہوئے غریب گھرانوں میں زیادہ دیکھنے کو ملیں گی۔ چنانچہ کرناٹک کے ضلع کلبرگی کے منور گاؤں سے ایسی ہی کامیابی کی شاندار مثال سامنے آئی ہے جس سے یہ یقین پختہ ہوتا ہے کہ پیٹ بھر کر زندگی کے مزے لوٹنے والوں میں کامیابی کی بلندی تک جانے کا جذبہ اتنا زیادہ نہیں پایا جاتا جتنا غریب گھرانوں کے چشم و چراغوں میں پایا جاتا ہے ۔
دن بھر میستری کا کام کرنے والے نبی صاحب اور ان کی اہلیہ رضیہ بیگم کی شبانہ روز محنت مزدوری کا انعام ان کو اپنے لخت جگرعبد المتین جمعدار کی انٹرمیڈیٹ یعنی پی یو سی سال دوم میں شاندار کامیابی کی شکل میں ملا ہے ۔
منور دیہات میں کنڑا میڈیم سے پرائمری تا دسویں تک تعلیم حاصل کرنے والے اس طالب علم نے پی یو سی میں بھی اپنی شاندار کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ دسویں میں بھی انہوں نے 98.7 فیصد کے ساتھ شاندار کامیابی درج کی تھی مگر پی یو سی میں ایک اور بڑی چھلانگ لگاتے ہوئے 600 میں 600 نمبرات حاصل کر کے 100 فیصد کامیابی درج کی ہے ۔ ان کی اس کامیابی پر ان کے والدین اساتذہ رشتے دار اور دوست واحباب بے حد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے عبدالمتین جمعدار نے اپنے تعلیمی سفر کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے نظام الاوقات کو منضبط کر کے پڑھائی کی ہے ۔ وہ چوبیس گھنٹوں میں روزانہ صرف ایک گھنٹہ جسمانی صحت اور کھیل کود کے لیے فارغ کرتے ہیں کیونکہ ایک صحت مندجسم کے اندر ہی صحت مند دماغ ہو سکتا ہے اس لیے کھیل کود بھی بہت ضروری ہے ۔ صبح چھ بجے سے لیکر رات ساڑھے گیارہ بجے تک اپنے بنائے ہوئے نظام الاوقات کے مطابق پڑھائی کرتے تھے۔ عبدالمتین نے بتایا کہ کرناٹک کے رام نگر ضلع کے ایم ایم یو کالج میں انہوں نے اپنی تعلیم آرٹس کے شعبہ میں حاصل کی ۔ اس دوران انہوں نے رحمانی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت چل رہے ایک ہاسٹل میں قیام کیا اور دن رات محنت کی کیوں کہ ان کے پیش نظر ایک بڑے مقصد کا حصول تھا ۔ عبد المتین نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ وہ آگے چل کر یوپی ایس سی کی تیاری کریں گے اور ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہاسٹل میں وہ گروپ اسٹدی کرتے تھے جس سے ان کو کافی فائدہ ہوتا تھا۔ پولیٹکل سائنس میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس شوق میں ان کے تمام اساتذہ کا بڑا رول رہا ہے ، والدین کی دعاؤں اور اساتذہ کی محنت کو انہوں نے اپنی کامیابی کے لیے سب سے بڑا سبب قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے چچا بشیر جمعدار بھی وقفہ وقفہ سے انہیں محنت کرنے اور دل لگا کر پڑھائی کرنے کی نصیحت کرتے تھے۔
اپنے والد نبی صاحب کی محنت کے بارے میں بتاتے ہوئے برادر عبد المتین نے ان کی قربانیوں اور ان کی مسلسل محنت کا تذکرہ کیا۔ان کا کہنا تھا دن بھر گارا مٹی کا کام کر کے دوپہر کو کچھ ہی دیر کے لیے وہ گھر آتے تھے ۔ اسی طرح ان کی والدہ رضیہ بیگم بھی دوسروں کے گھروں یا کھیتوں میں کام کاج کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں ۔برادر عبد المتین کےدو بھائی اور ایک بہن ہے۔ جن میں سے ان کے ایک بڑے بھائی یاسین جسمانی طور پر معذور ہیں اور ایک بھائی محسن جمعدار ہیں جنہوں نے ابھی حال ہی میں کانسٹیبل کے طور پر محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی ہے ۔
آن لائن کلاسس کی وجہ سے ہو رہی دشواریوں پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے برادر عبد المتین نے کہا کہ ان کا گاؤں منور ایک دیہات ہونے کی وجہ سے بہت سی سہولتوں سے محروم ہے اسی میں ایک محرومی نیٹ ورک کوریج کی بھی ہے۔ اس لیے انہیں اس طرف سے تھوڑی بہت دقتیں ضرور پیش آئیں لیکن منزل تک پہنچنے کی لگن ان سب چیزوں پرغالب آگئی۔
پسینہ سے شرابور جسم اور مزدوری سے کھردرے ہونے والے ہاتھوں سے محنت کی کمائی کا لقمہ کھلانے والے والدین بھی عزت افزائی کے لائق ہیں جو اپنے جگر پاروں کی خاطر ہر قسم کی دشواری برداشت کر لیتے ہیں ۔ برادر عبد المتین کی اس شاندار کامیابی کے بعد اسٹوڈنس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا ( ایس آئی او ) گلبرگہ کے ممبروں نے ان سے ملاقات کر کے ان کو مبارکباد دی اور ان کی مستقبل کی پڑھائی کے لیے مالی مدد دینے کا تیقن دیا ہے۔
برادر عبد المتین کی اس شاندار کارکردگی سے سبق ملتا ہے کہ خراب معاشی حالات ،خستہ حالی کچے مکان اور بنیادی سہولتوں سے محرومی جیسا کوئی بھی عذر آئندہ کسی بھی طالب کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے ۔ بدترین معاشی حالات کے باوجود مقصدکے حصول کی جان توڑ کوشش بالآخر انسان کو حیران کن کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔اس کی روشن مثال اس غریب مگر قابل اور لائق و فائق طالب علم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پختہ ارادہ اور عزم مصمم رکھنے والے نوجوان اس ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ یہی طلبہ اس ملک کے آسمان پر روشن ستاروں کی طرح اپنی جد وجہد کی روشنی بکھیرتے ہیں۔ جو طالب علم مقصد کو پانے کے لیے راستے کی ہر رکاوٹ کو عبور کر کے اپنے حالات کے اندھیروں کو اپنی کوشش سے روشنی میں بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں، ایسے ہر طالب علم کے جذبےکو سلام کیا جانا چاہیے ۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14  اگست 2021