اداریہ

!نفرت آمیز جرائم زدہ سیاست

ملک میں اس وقت ہر طرف انتخابات کی تیز ہوائیں چل رہی ہے۔ اخبارات، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر یہی موضوع چھایا ہوا ہے۔ چوں کہ انتخابات سات مرحلوں میں ہو رہے ہیں اور اس کا دورانیہ کم و بیش پچاس دن ہے۔ اس دوران عوام روزانہ اسی موضوع پر کچھ نہ کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے پر مجبور ہیں۔ میڈیا میں انتخابات کی رپورٹنگ کرنے والے تجربہ کار صحافیوں، اس کا تجزیہ کرنے والے سینئر تجزیہ نگاروں اور ملک کے سنجیدہ شہریوں کا یہ احساس ہے کہ 2014 کے بعد بھارتی انتخابات میں انتخابی بیانیوں اور قائدین کی تقریروں کا معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے، اور معلوم نہیں یہ قائدین بھارت کی سیاست اور اس کے معیار و اخلاق کو اور کتنا نیچے پہنچا کر دم لیں گے۔
گزشتہ ہفتے ملک کے وزیر اعظم نے راجستھان کے ضلع بانسواڑہ کی ایک انتخابی ریلی میں جس طرح کی غلط اور گھٹیا باتیں کہیں اور ایک دستوری منصب پر رہتے ہوئے اپنے ہی ملک کے شہریوں کے متعلق جو نا شائستہ زبان استعمال کی ہے وہ اس اخلاقی زوال کا سب سے تشویش ناک پہلو ہے۔ غور کرنے والی بات ہے کہ جب ملک کا وزیر اعظم اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر اس قدر نیچے گر سکتا ہے تو پارٹی کے دیگر لیڈروں اور کارکنوں کی اخلاقی گراوٹ کی کیا حالت ہوتی ہو گی۔ بد قسمتی سے اس وقت ملک بھر میں یہی کیفیت طاری ہے۔
الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ موضوع ابھی زیر بحث ہی تھا کہ کرناٹک کے ضلع ہاسن میں ہونے والا ایک واقعہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھا گیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ جنتادل (سیکولر) کے رکن پارلیمنٹ پراجول ریونّا پر مختلف خواتین کے ساتھ فحش ویڈیوز بنانے کا الزام ہے اور ان کے خلاف کسی خاتون نے جنسی ہراسانی کی شکایت بھی پولیس میں درج کروائی ہے۔ پراجول ریونّا جاریہ انتخابات میں بھی بی جے پی کی حلیف جنتا دل سیکولر سے لوک سبھا حلقہ ہاسن کے امیدوار ہیں۔ میسور کی انتخابی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بہ نفس نفیس ان کے حق میں تقریر بھی کی ہے۔ کہا جار ہا ہے کہ این ڈی اے کے مذکورہ لوک سبھا امیدوار کے متعدد فحش ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد وہ مبینہ طور پر جرمنی یا یورپ کے کسی ملک کو فرار ہو چکا ہے۔ کرناٹک کی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی ہے جس نے اس معاملے کی جانچ شروع کر دی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم ہمیشہ خواتین کے تحفظ کی، انہیں بااختیار بنانے اور ناری شکتی کی بات کرتے رہتے ہیں، لیکن خود قانون ساز اداروں کے ارکان اور ہونے والے ارکان ان کے بلند بانگ دعووں اور خوش کن وعدوں کے بر خلاف خواتین کے خلاف بھیانک جرائم میں ملوث رہیں گے تو آخر ملک کی خواتین کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں؟
وزیر اعظم کی جانب سے جنسی جرائم میں ملوث اس امیدوار کے حق میں مہم کی یہ کہہ کر توجیہ کی جا سکتی تھی کہ ان کو جنوبی ہند کی ایک ریاست کے حلیف امیدوار کے کرتوتوں کا علم نہیں رہا ہوگا۔ لیکن انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق ایسی بات بھی نہیں ہے کہ بی جے پی کی مرکزی و ریاستی قیادت اس سے بالکل ہی ناواقف تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ کرناٹک کے ایک بی جے پی قائد نے دسمبر 2023 ہی میں بی جے پی کی ریاستی و مرکزی قیادت کو اس کی حرکتوں کے متعلق متنبہ کر دیا تھا۔ لیکن جب اصل مقصد انتخاب جیتنا ہو تو اخلاق، خواتین کا تحفظ اور دوسری باتیں کہاں یاد آتی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ کسی سیاسی قائد کو خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کا ملزم قرار دیا گیا ہو۔ اس سے قبل بھی کئی با اثر سیاسی قائدین پر جنسی جرائم کے الزامات عائد ہو چکے ہیں اور ان پر مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (ADR) نامی تنظیم کے الیکشن واچ ڈاگ کی جانب سے اگست 2023 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت 134 ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی پر خواتین کے خلاف جنسی جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں۔ ان میں 21 ارکان پارلیمنٹ ہیں جب کہ 113 ارکان اسمبلی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ یعنی 44 ارکان مقننہ بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تو ہم نے صرف ان مقدمات میں ماخوذ ارکان مقننہ کی تعداد بتائی ہے جو خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں ملوث ہیں ورنہ قتل، دنگا و فساد اور دیگر جرائم میں ماخوذ ارکان مققنہ کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ذرا سوچیے کہ اس اخلاق و کردار کے حامل سیاسی قائدین جب قانون ساز ایوانوں میں بیٹھ کر مختلف معاملات میں قانون سازی کرتے ہوں گے تو ان قوانین کی کیا حالت ہو گی؟ جب مجرم خود قانون ساز ہوں گے تو قانون کی دھجیاں تو اڑیں گی ہی اور افسوس کہ اس وقت ملک میں یہی صورت حال ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ اس صورت حال پر ملک کے بہت سے لوگ فکر مند ہیں، اس کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ وہ خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں اور نفرت کی سیاست کے خلاف بھی نبرد آزما ہیں۔ لیکن عوام کو سمجھنا چاہیے کہ یہ لڑائی صرف انہی چند لوگوں کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی ان برائیوں کے خلاف کھڑے ہوں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک چین سے نہ بیٹھیں، ورنہ جرائم اور نفرت کی یہ آگ سارے ملک کو تباہ و برباد کر دے گی۔