جنوبی ہند کے سرسید ڈاکٹر عبد الحق کرنولیؒ کی زندگی کی ایک جھلک

مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے تابندہ نقوش اجاگرکرنے والی تحریر

مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ

 

علامہ سید سلیمان ندویؒ ۱۹۲۵ء میں مدراس(چنئی) سیرت النبی ﷺ پر اپنے معرکہ آراء’’خطبات مدراس‘‘ پیش کرنے آئے تو جنوبی ہند کے مسلمانوں کے تعلیمی ودینی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے معارف کے اگلے شمارے میں اپنے سفر کے تذکرہ میں جنوب کے مسلمانوں کی عمومی صورت حال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ’’ جہاں کام ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے، وہاں روپیہ نہیں، اور جہاں روپیہ ہے وہاں کام نہیں‘‘۔ (معارف اکتوبر ۱۹۲۵ ص ۲۴۶)۔ لیکن زمانے نے دیکھا کہ علامہ کی بتائی ہوئی یہ صورت حال باقی نہیں رہی، جنوب کے مسلمانوں نے آئندہ دنوں میں تعلیمی میدانوں میں ایک عظیم انقلاب دیکھا، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، کرناٹک اور مالابار کے حالات میں بڑی تبدیلی آئی اور آندھرا، تمل ناڈو، کرناٹک اورکیرالا میں مسلمانوں کے ایسے تعلیمی ادارے کھڑے ہوئےجنہوں نے اپنی وسعتوں میں یونیورسٹیوں کی حیثیت اختیار کی، مسلمانوں میں تعلیمی بیدار ی پیدا کرنے، اور ان کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے جن شخصیات نے کام کیا ، ان میں مدراس(چنئی ) سے تعلق رکھنے والی تین شخصیات حاجی جمال محمد( رامناڈ)، ڈاکٹر عبد الحق(کرنول)، اور مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ (حیدرآباد) کا نام سرفہرست ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے اس ناچیز کو ان عظیم شخصیات کے حالات زندگی کی تلاش تھی، اتفاق سے ابھی چند روز قبل ان شخصیات کی زندگیوں پر روشنی ڈالنے والا مواد دستیاب ہوسکا، مناسب معلوم ہوا کہ تاریخ کے غبار میں دبے اس مواد کو دن کی روشنی میں لایا جائے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبد الحق کرنولیؒ پر آپ کے تیس برس تک سفر وحضر میں رفیق کار مولانا سید عبدالوہاب بخاری کے نادر مضمون کا انتخاب قارئین دعوت کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔مضمون نگار کے سلسلے میں مولانا عبد الماجد دریابادی کا ۱۹۵۸ء میں سفرمدراس کے سلسلے میں یہ اقتباس کافی ہے کہ :
’’دل میں اس کی آرزو کرتا رہا کہ ان(بخاری صاحب) کی جگہ تو علی گڑھ تھی، اس مرکزی ادارے میں یہ اگر زیادہ عرصہ تک نہیں دو ہی چار برس بطور وائس چانسلر رہ آئیں تو ان شاء اللہ وہاں کی بگڑی ہوئی فضا بن جائے اور علمی دینی و اخلاقی علی گڑھ ہر پہلو سے ایک اصلاحی انقلاب سے روشناس ہوجائے۔ ڈاکٹر عبد الحق کو لوگ جنوبی ہند کا سرسید کہتے ہیں، لیکن سرسید کا ضمیمہ ایک محسن الملک بھی ہوتے ہیں، سرسید وقت کو یہ محسن الملک عصر خوب ہاتھ آگیا، ایثار ، پختہ ایمانی فہم وفراست سب میں اپنے بلند پایہ رفیق کے قدم بہ قدم‘‘۔اب ملاحظہ فرمائیں اصل مضمون کا منتخب حصہ۔(عبد المتین منیری۔ بھٹکل[email protected])
ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم کی یہ جستجو تھی کہ محمڈن کالج میں اپنے ہم خیال علماء کو جمع کریں، چنانچہ جب اس کالج کی ایک جائیداد عربی فارسی اور اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر کی خالی ہوئی توانہوں نے مجھے وہاں پربلوایا۔ میرے لیے حیدرآباد چھوڑنا آسان نہ تھا ،لوگ دوردورسے خود حیدرآباد میں تلاش ملازمت کے لیے آیا کرتے تھے ایسے وقت میں میرےلیے حیدرآباد کوترک کرکے مدراس جاناسہل کام نہ تھا ،لیکن ڈاکٹر عبدالحق صاحب کی محبت اورجاذبیت نے میرے قلب پربڑااثر کیااور میں نے چندے تامل کے بعد مدراس جانے کا تہیہ کرلیا۔۔۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء کے اواخر میں(ڈاکٹر صاحب کی کوشش سے) بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر عربی فارسی اردو گورنمنٹ محمڈن کالج میں داخل ہوگیا۔۔۔، ۱۹۳۱ء میں ۔۔۔ مدرسہ جمالیہ میں بحیثیت پرنسپال منتقل ہوگیا، جس شئے نے مجھے مدرسہ جمالیہ کی طرف راغب کیا وہ یہ تھی کہ حاجی جمال محمدصاحب نے جواس زمانہ میں مدرسہ جمالیہ کے متولی تھے اپنے مدرسہ میں نصاب کی ترمیم کی تھی،اورعربی علوم کے ساتھ قدرے انگریزی ،تاریخ، جغرافیہ، سائنس کوداخل کیا تھا۔ڈاکٹرعبدالحق صاحب مرحوم اوران کے والدِ بزرگوارشمس العلماء مولانامحمد عمرصاحب مرحوم بھی اس ترمیم نصاب کی اہم نشستوں میں شرکت کیاکرتے تھے اور مدرسہ جمالیہ کوان کاعلمی تعاون حاصل تھا۔۔۔ حاجی جمال محمد صاحب ایک اور نہایت مفیداسکیم اپنے ذاتی خرچ سے چلا رہے تھے اوروہ یہ تھی کہ انگریزی کالجوں میں پڑھنے والے انٹرمیڈیٹ ‘بی اے‘اورایم اے کے طالب علموں کے لیے ایک ہاسٹل قائم کیا تھا جہاں ان کی رہائش اور طعام کا مفت انتظام تھا ،ان طلباء سے صرف یہ توقع کی جاتی کہ اپنے کالجوں میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ صرف ایک گھنٹہ وہ اس ہاسٹل میں عربی اور قرآن مجید کی تعلیم کے لیے دیاکریں،اس پر حاجی جمال محمد صاحب نے ایک مدت تک بیش قراررقم صرف کی تھی، ان طلباء کے قیام کے لیے حاجی جمال محمد صاحب نے ایک پرفضا مکان جس کانام دل افروزباغ تھا بڑے کرایہ پر لے رکھا تھا اور طلباء کے خوردونوش وقیام کے مفت انتظام کے علاوہ،وہ ان کی دوسری ضروریات کے لیے بھی روپیہ دیا کرتے تھے۔۔۔ حاجی جمال محمد صا حب اور ان کی
ان نیک مساعی میں ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم بھی عملی طورپر شریک تھے۔۔۔جب ڈاکٹر صاحب۱۹۳۵ء میں بغرض حصولِ ڈاکٹریٹ یوروپ (آکسفورڈ تشریف لے گئے توحاجی جمال محمد صاحب نے ایک معتدبہ رقم ان کی خدمت میں پیش کی تاکہ وہ مصر ہوتے ہوئے عربی کتابیں ان کیلیے خرید کر لائیں)۔
(مجھے) کچھ دن بعداسلامیہ کالج وانمباڑی کو بحیثیت پرنسپل منتقل ہونا پڑا ۔۔۔وہ اس فکر میں تھے کوئی شکل مجھے شہر مدراس واپس لانے کی نکالی جائے ،ان کے ذہن رسانے بالآخر گورنمنٹ محمڈن کالج میں ایک اسلامک چیر کے قائم کیے جانے کے متعلق سوچنا شروع کیا انہوں نے اس سلسلے میں ایک اسلامک ہسٹری اور ثقافت کی نمائش کی ٹھانی ،چنانچہ یہ نمائش بڑے اعلیٰ پیمانہ پر گورنمنٹ محمڈن کالج میں منعقد ہوئی ،ڈاکٹر صاحب مرحوم نے دوردور سے اس نمائش کے لیے سامان فراہم کیے،کعبۃ اللہ شریف اور حرم نبوی کے ماڈل تیار کروائے،شاہان مغلیہ کے قدیم لباس،زیورات، مخطوطات، اسلحہ، سکہ جات وغیرہ کو بڑی جدوجہد اوراپنی ذاتی ذمہ داری پراس نمائش کے لیے جمع کیا، خاندانِ والاجاہی مدراس سے بھی بہت سی قیمتی اور پُر ازمعلومات اشیا جمع کیں۔ مجھے یاد ہے میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم نواب سالارجنگ کی خدمت میں بھی ان کی میوزیم سے بعض چیزوں کے حصول کے تعلق سے حاضر ہوئے، انہوں نے ہمارابڑا پرتپاک خیرمقدم کیا لیکن یہ کہاکہ یہ چیزیں ان کو ان کی جان سے زیادہ عزیزہیں اورسالارجنگ مرحوم نمائش ثقافت تاریخ اسلامی سے متفق تھے، ان کو ہم دونوں پر بھی بھروسہ تھالیکن یہ اصول اپنے میوزیم کے متعلق قائم کرلیاتھااس پر وہ قائم رہے اور ہم کو حیدرآبادسے بے نیل ومرام واپس ہونا پڑا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ نمایش ہماری امیدوں سے بھی زیادہ کامیاب ہوئی،گورنر مدراس اور دیگر زعماء نے اس میں شرکت کی اور اپنے استحسان کا پر زور الفاظ میں اظہارکیا،نمائش کے اختتا م پر ڈاکٹر صاحب نے تاریخ اسلام کی پروفیسری کے قیام کے لیے گورنمنٹ سے درخواست کی ،اس زمانے میں ناظمِ تعلیمات مسٹر اسٹاتھم تھے ،انہوں نے بھی اس کی پُرزور تائید کی ،ا س طرح ایک مستقل چیز تاریخ اسلام کی گورنمنٹ محمڈن کالج میں قائم ہوگئی ،ڈاکٹر صاحب نے تاریخ اسلام کی پروفیسری کے لیے مجھ سے خواہش ظاہرکی ۔۔۔اس طرح مولانا عبدالحق مرحو م کی محبت اور ان کے بے انتہا خلوص نے دوبارہ مجھے مدراس میں کھینچ لیااور میں پھر سے گورنمنٹ محمڈن کالج میں بحیثیت ِ پروفیسر تاریخ اسلام داخل ہوگیا۔۔۔
۱۹۴۷ ء میں جب مدراس گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ گورنمنٹ محمڈن کالج کا نام گورنمنٹ آرٹس کالج رکھ دیا جائے ،مسلمانوں کا داخلہ ان کی آبادی کے لحاظ سے اس کالج میں ہو، یہ فیصلہ مسلمانوں کی آئندہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بہت مضرت رساں تھا ۔چنانچہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو یہ خیال پیداہواکہ قوم اپنے نونہالوں کی تعلیم کے لیے کالجس بنالینا چاہیے اسی بناپر جو سب سے پہلاکالج وجودمیں آیا وہ عثمانیہ کالج کرنول تھا،یہ خیالات کہ قوم کو اپنی تعلیم آپ سنبھالنا چاہیے ایک مدت سے قوم کے ارباب حل وعقد کے اذہان میں گشت کررہے تھے ،ایک صبح ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم میرے مکان پرتشریف لائے اورمجھ سے خوشی خوشی یہ کہنے لگے کہ مولوی نذیرحسین صاحب جو مدراس کے بڑے تاجرانِ چرم میں سے تھے انہوں نے کرنول کالج کی بناء کے لیے پانچ ہزار روپیہ حوالہ کیے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے الفاظ مجھے یاد ہیں کہ انہوں نے کہاتھا ’’ایک نعل تو مل گئی ،اب گھوڑے کی ضرورت ہے‘‘ میں نے جو اباًعرض کیا ایسے بڑے اہم کاموں میں اللہ تعالیٰ ارادوں کو دیکھتا ہے ا ور خلوص پرنظر فرماتاہے انشاء اللہ اورتین نعل اورایک گھوڑا بھی میسرہو جائےگا اورکالج عنقریب وقوع میں آئے گا،چنانچہ میں نے تمل ناڈاور مالابار کے دورہ کا وعدہ کیااورایک درخواست آصف سابع میر عثمان علی خاں کے نام پربھیج دی ،سرمرزا اسمٰعیل نے جو اس وقت صدر اعظم مملکت حیدرآباد تھے، دولاکھ روپے کی بڑی رقم کاوعدہ کیا اورڈاکٹر صاحب اورراقم الحروف نے اپنی مساعی تحصیل امداد کے لیے مالابار اور تملناڈواور علاقہ جات آندھرا میں شروع کی ،ہم لوگوں سے کالج کے کمروں کی تعمیر کے لیے رقم مانگتے تھے،دس ہزار، چھ ہزار، ڈھائی ہزار کے کمروں کا پلان بنایاگیااورہم اس پلان کو لیکر ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے ۔۔۔مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنا مرکز کوئمبتور بنایاتھا اوربامبے ہال کے پروپرائٹر حاجی محمد ابراہیم مرحوم کوئمبتور میں میرے میزبان تھے ،وہاں پرمجھے ایک دعوت نیلگری سے آئی ۔۔۔ہمارادور ہ اس طرح بڑاکامیاب رہااورایک بڑی رقم لیکرمیں مدراس پہنچا۔۔۔۔اس طرح عثمانیہ کالج کا خواب جو ڈاکٹر عبدالحق نے دیکھا تھا وہ پورا ہو ا،آج یہ کالج آندھرا کے بڑے ممتاز کالجوں میں شمارکیا جاسکتا ہے اور دو ہزار سے زیادہ طالب العلم یہاں زیرتعلیم ہیں ۔
اسی سلسلے کی کڑی مالابار میں فاروق کالج ہے ،جو کیرالا میں بڑی امتیازی حیثیت کا مالک ہے ،ترچناپلی میں جمال محمد کالج پر پانچ ہزار طالب العلم پڑھتے ہیں اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ،مدراس کانیوکالج جس میں میں آٹھ سال تک پرنسپل رہا ،وہ بھی اسی دور کی یادگار ہے، اسی اثناء میں جسٹس بشیر احمد سعید اور ان کی رفیقہ حیات بیگم اختر سعید کی انتھک مساعی سے عورتوں کے لیے ایک کالج وجودمیں آیا جس کانام S.I.E.Tویمنس کالج ہے جس میں تقریباً چارہزار طالبات بلا امتیاز قوم وملت تعلیم پاتی ہیں ،یہ کالج غالباًہندوستان میں عورتوں کا سب سے بڑا کالج ہے اور یہاں پر مختلف علم وفنون یم اے کے درجے تک پڑھائے جاتے ہیں۔اسی اثناء میں کئی اور دوسرے کالج ڈاکٹر ذاکرحسین کالج الیان گوڑی(تنجاور)میں، اور سی عبدالحکیم کالج میل وشارم میں اور مظہرالعلوم کالج آمبور میں قائم ہوئے چنانچہ مسلمانوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کاانتظام آپ خود کرلیا۔گورنمنٹ مدراس کی ایک ناواجبی حرکت نے مسلمانوں میں یہ شعور پیدا کریا،۔۔۔ان سب کالجوں میں اولیت اسلامیہ کالج وانمباڑی کوتھی، اس کو ملا کر مسلمانوں نے دس ڈگری کالجس اپنی قوم کے لیے قائم کرلیے جن میں شرکت بلاتفریق قوم وملت سب کو استفادہ کی سہولت حاصل ہے ،اس طرح مسلمانوں نے ایک بڑی خدمت نہ صرف اپنی قوم کے لیے بلکہ دیگر برادران وطن کے لیے بھی کی اور حکومت کے بوجھ کو ہلکا کیا ۔۔۔
جب وہ پریسیڈنسی کالج مدراس کے پرنسپل ہوئے تو انہوں نے اس شعبہ تاریخ اسلام کو پریسیڈنسی کالج میں داخل کرلیا،وہ اس کے پرنسپل تھے اور میں بحیثیت پروفیسر تاریخ اسلام اس کالج میں ان کا معین ومددگار تھا ،چنانچہ اس ہم آہنگی اور آپس کی محبت ومودت میں ہمارے دن بیت گئے جب ان کاانتخاب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پرووائس چانسلری پر ہواتو ڈاکٹر صاحب کی یہ تمنا رہی کہ میں وہاں ڈین آف تھیالوجی کے عہدہ کو سنبھالوں لیکن میں نے مدراس ہی کے قیام کوترجیح دی اور ان کے ساتھ علی گڑھ نہ جاسکا ،ایک سال کے اندر اندر وہ بھی مدراس لوٹے اور انہیں پبلک سرو س کمیشن کا ممبرمنتخب کیا گیا ،اس طرح ہم دونوں پھرسے یک جگہ ہوگئے۔۔۔لیکن کیا پتہ تھاکہ ڈاکٹر عبدالحق اچانک ہم سے جداہوجائیں گے،ان کو قلب کا عارضہ تھا مگرپھربھی وہ اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں برابر لگے رہے۔۔۔اسی دوران میں جسٹس بشیر احمد سعید نے ہم دونوں کو کالج میں تقریرکے لیے بلوایا ،میلادالنبی کا جلسہ تھا ، ڈاکٹر صاحب نے ازراہ تلطف میرے بارے میں کہاکہ جہاں بخاری صاحب اپنا چراغ جلاتے ہیں ،وہاں میں اپنا دیاروشن نہیں کرتا ،ہم د ونوں کی یہ عادت تھی کہ ایک پلیٹ فارم پر بیک وقت ہردوتقریر نہیں کیا کرتے تھے ،انہوں نے اس کا ذکرکیا اوریہ ارشاد فرمایا،جسٹس بشیر احمد سعید کی دعوت کو مسترد نہیں کیاجاسکتا تھا کہ وہ جج تھے ایسا نہ ہوکہ ہم دونوں کو پکڑوا منگوائیں ،چنانچہ ہم نے اپنی عادت کے خلاف ایک ہی پلیٹ فارم پر تقریریں کیں،مغرب کا وقت قریب تھا اور اس خوف سے کہ مغرب کے ساتھ مجمع منتشرنہ ہوجائے ،میں نے اپنی تقریر ختم کی اورکہاکہ اگرمیں ایسانہ کروں تولوگ ڈاکٹر صاحب کی تقریر سننے سے محروم رہ جائیں گے جواپنے فن اورعلم کے اعتبار سے ملک میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر یک نہایت دلسوز اورسحر انگیز تقریر فرمائی، شریعتِ حقہ کی پیری کی تلقین کی،ایسا معلوم ہوتا تھاکہ گویا وہ اپنی قوم کو اورمسلمان بہنوں کوعمل صالح اور شریعت پر عمل کرنے کی نصیحت فرمارہے ہیں کیونکہ یہ ان کی زندگی کی آخری تقریر تھی، اور اس کے بعد یہ روشن چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہونیوالاتھا، میں نے اس وقت جو کہاتھا وہ میرے قلبی تاثرات تھے جو میں نے ڈاکٹر صاحب کے متعلق عرض کیے تھے ،یہ تھا ہم دونوں کا تعلق اپنی نجی اور پبلک زندگی میں جس کی مثال شائد کم مل سکے گی۔
مولانا عبدالحق مرحوم کاارادہ حکومت کے کاموں سے مستعفی ہونے کے بعداپنے والد بزرگوار شمس العلماء الحاج محمد عمرصاحبؒ کے قائم کردہ اسلامیہ عربی کالج کرنول میں بیٹھ کردرس حدیث دینے کاتھا ،ان کی بڑی خواہش تھی بلکہ دلی تمناتھی جو وہ قدیم طرزپرحدیث نبوی علیہ الصلوۃ والسلام پڑھایاکریں ،۔۔۔اسی تمنا میں انہوں نے حضرت مولانا حسین احمد مدنی کودرس دینے کے لیے تین روزہ اجلاس مقررکیے تھے، مولانا حسین احمدمدنی جو شیخ الحدیث مدرسہ دیوبند تھے ،ان کی دعوت پرکرنول تشریف لائے اورتین دن مدرسہ اسلامیہ کرنول میں بیٹھ کردرس حدیث دیا، وہ پُرانوار ساعتیں مرتے دم تک یادرہیں گی،مولانا عبدالحق مرحوم بھی یہی چاہتے تھے کہ اس مدرسہ کوحدیث کا مرکز بنائیں اوراس میں اس مبارک علم کے استاد بنیں ،مگر مرضیٔ مولیٰ برہمہ اولیٰ اپنے قیام شہرمدراس میں وقتاًفوقتاًوہ مسجد فضیلت النساء میں حدیث کادرس دیاکرتے تھے ، اور اس چیز کو اپنے مدرسہ کرنول میں مستقلاًجاری کرنا چاہتے تھے ۔الاعمال بالنیات کے مصداق ان کا خاتمہ بالخیر اسی تمنا پرہو ا،اور امید ہے کہ وہ اللہ کےپاس اس نیک ارادہ کی جزا پائیں گے، مدرسہ اسلامیہ کرنول کی ایک اراضی ہندوی ندی کے دوسرے کنارے پرتھی،ڈاکٹر صاحب مرحوم کاارادہ تھاکہ اس ندی پرآمدورفت کے لیے ایک پُل باندھیں اوردوسری جانب بھی مدرسہ کا دوسراحصہ تعمیر کریں ، ان کی ساری زندگی اسی دھن میں بسرہوئی کہ اس مدرسہ کو جنوبی ہند کادیوبند بنائیں اور اس کے ذریعہ اعلاء کلمۃ الحق ہو۔ آج بھی ان کی دعاؤں کی برکت سے مدرسہ اسلامیہ کرنول علوم کا ایک مینار ہے،جہاں نہ صرف حدیث وتفسیر کی چوٹی کی کتابوں کا درس دیاجاتاہے بلکہ سرکاری امتحانات مثلاًافضل العلماء ادیب فاضل اور طبیب کامل وغیر ہ کے لیے طلباء تیارکیے جاتے ہیں ،یہ سب کچھ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی نیک تمناؤں اور ان کے والدبزرگوار شمس العلماء مولانا محمد عمر صاحب کی مساعی کا نتیجہ ہے ،بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ عربی کالج کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی مساعی سے عثمانیہ کالج کرنول بھی قائم ہو چکا ہے ،جس کاذکر پہلے آچکا ہے۔
انتقال سے دو دن پہلے ڈاکٹرصاحب مرحو م نے اپنے حساب کتاب میرے سامنے رکھ دیے ،میں حیران تھا کہ ان کے اس عمل کے کیا معنی ہیں انہوں نے اپنے اہل خاندان کو جمع کرلیاتھا جس میں میں بھی شریک تھا، گویاوہ ہم کو اپنے بارے میں وصیت کرسکیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں آنے والے وقت کی ،جوسب پر آنیوالاہے ،کچھ پہلے ہی سے خبرلگ گئی تھی اور وہ ایک مردمومن کی طرح اس و قت کی تیاری کررہے تھے ہم کو کچھ معلوم نہ تھاکہ دو دن کے بعدوہ گزرنیوالے ہیں، انتقال سے ایک دن پہلے قاری عبدالباری خطیب جامع مسجد ِسکندرآباد اوران کے ایک طالب العلم قاری محمد غوث میرے ساتھ ان کی خدمت میں تشریف لائے اور دوکاپیاں قرآن مجید کے اردوترجمہ کی جوقاری صاحب نے لکھی تھیں اور طبع کروایاتھا ،ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کیا ،اس موقع پر مولانامرحوم نے قاری محمد غوث سے تلاوت قرآن کی خواہش ظاہر کی، عجیب بات ہے اور قرآن کا اعجاز ہے کہ جو آیتیں قاری صاحب نے پڑھیں وہ آزمائش ِجان ومال سے متعلق تھیں اور آیت قالوااناللہ واناالیہ راجعون پرپہنچی تھی گویا قاری صاحب نے آنے والے وقت کی قرآنی الفاظ میں پیشگوئی کر دی تھی اور یہ خوش خبری دی کہ آزمائش پر پرے اترنے والوں پر اولٰئک علیھم صلوات من ربھم ورحمۃ واولٰئک ھم المھتدون سنادی۔ ڈاکٹرصاحب مرحوم قلب کے عارضہ سے بیماربھی تھے، ہم سب پران آیتوں کا بہت اثرپڑا،دوسرے دن جو وقت آنے والا تھا وہ آہی گیا۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
(مضمون نگار سابق پرنسپل نیو کالج چنئی، اور دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد کے ڈائرکٹر تھے)
***

۱۹۴۷ ء میں جب مدراس گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ گورنمنٹ محمڈن کالج کا نام گورنمنٹ آرٹس کالج رکھ دیا جائے ،مسلمانوں کا داخلہ ان کی آبادی کے لحاظ سے اس کالج میں ہو، یہ فیصلہ مسلمانوں کی آئندہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بہت مضرت رساں تھا ۔چنانچہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو یہ خیال پیداہواکہ قوم اپنے نونہالوں کی تعلیم کے لیے کالجس بنالینا چاہیے اسی بناپر جو سب سے پہلاکالج وجودمیں آیا وہ عثمانیہ کالج کرنول تھا،یہ خیالات کہ قوم کو اپنی تعلیم آپ سنبھالنا چاہیے ایک مدت سے قوم کے ارباب حل وعقد کے اذہان میں گشت کررہے تھے ،ایک صبح ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم میرے مکان پرتشریف لائے اورمجھ سے خوشی خوشی یہ کہنے لگے کہ مولوی نذیرحسین صاحب جو مدراس کے بڑے تاجرانِ چرم میں سے تھے انہوں نے کرنول کالج کی بناء کے لیے پانچ ہزار روپیہ حوالہ کیے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے الفاظ مجھے یاد ہیں کہ انہوں نے کہاتھا ’’ایک نعل تو مل گئی ،اب گھوڑے کی ضرورت ہے‘‘ میں نے جو اباًعرض کیا ایسے بڑے اہم کاموں میں اللہ تعالیٰ ارادوں کو دیکھتا ہے ا ور خلوص پرنظر فرماتاہے انشاء اللہ اورتین نعل اورایک گھوڑا بھی میسرہو جائےگا اورکالج عنقریب وقوع میں آئے گا،

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14  اگست 2021