امریکی طلباء کے احتجاج سے صیہونی حکومت چراغ پا

نتن یاہو نے مظاہرین کو ’یہود مخالف ‘ قرار دیا

ڈاکٹر سلیم خان

یرغمالیوں کے ویڈیو پیامات۔حماس سے مزاکرات میں لچک پیدا کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت پر دباو
کیا دنیا میں کوئی ایسی حکومت ہے جس کے وزیر اعظم پر گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہو؟ اس کے ساتھ ملک کا وزیر دفاع اور فوجی سربراہ بھی وارنٹ کے خوف سے کانپ رہا ہو؟ ان دونوں سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ اس ملک کا نام عصر حاضر میں ڈھٹائی کے ساتھ نسل کشی کرنے والا اسرائیل ہے۔ حکومت اسرائیل کو لاحق سنگین تشویش کا اعتراف خود اس کے قومی نشریاتی ادارے نے کیا ہے۔ اس کے مطابق ہیگ میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی جانب سے وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو، وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور آرمی چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی کے خلاف غزہ جنگ کی وجہ سے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے امکان نے متبادل امکانات کی تلاش پر مجبور کر دیا ہے کیوں کہ یہ وارنٹ اب کسی بھی وقت نکل سکتا ہے۔ اس سے عالمی سطح پر نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے حامیوں کو شدید ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق نتن یاہو کے دفتر میں ان خدشات پر فوری اور سنجیدہ بحث ہوئی ہے۔ فی الحال انسانی حقوق کے کئی ادارے اور ممالک اسرائیل پر غزہ جنگ میں چوتھے جنیوا کونشن اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کا الزام عائد کر کے تنقید کر رہے ہیں۔
نتن یاہو کے سر پر اقوام متحدہ کی تلوار ہے تو پیٹھ میں اپنے ملک کے عوام کا خنجر پیوست ہو گیا ہے۔ اسرائیلی کابینہ کے اپوزیشن لیڈر یائیر لاپیڈ نے تل ابیب میں حکومت کے خلاف اسرائیلی آبادکاروں کے مظاہرے میں شرکت کی ہے۔ روایتی طور پر یہ آبادکار یاہو کے حامی رہے ہیں۔ اس مظاہرے کا انعقاد قیدیوں کے تبادلے کی حمایت میں کیا گیا تھا اور اس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ تل ابیب میں واقع کابلان شاہراہ پر اجتماع میں اسیرانِ جنگ کی رہائی کے ساتھ قبل از وقت انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔اس موقع پر مظاہرین حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے پر دستخط کرنے اور انہیں واپس لائے جانے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔ یہ کوئی ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ ہزاروں اسرائیلیوں نے تل ابیب میں اسرائیلی حکومت کی وزارت جنگ کے سامنے بھی مظاہرہ کرکے صیونی قیدیوں کی آزادی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مظاہرے مسلسل جاری ہیں مگر بے حس اسرائیلی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اسرائیلی رائے عامہ کی اس تبدیلی میں حماس کے ذریعہ اسرائیلی مظالم کی نہایت پُر حکمت تشہیر کا بڑا عمل دخل ہے۔ اپنی مزاحمت کے دو سو دن بعد القسام بریگیڈ نے ایک 34 سالہ اسرائیلی اسیرکی ’’دوا اور خوراک کی کمی‘‘ کے باعث فوت ہونے کی اطلاع دی اور اس کے بعد دو زندہ قیدیوں کی ویڈیو جاری کر دی۔ ان میں سے ایک میں کفار عزہ کا 64 سالہ کیتھ سیگل اپنےاہل خانہ سے کہتاہے، ’’میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں، یہ ضروری ہے کہ آپ جان لیں۔ میں ٹھیک ہوں، مجھےامید ہے کہ آپ بھی ٹھیک ہوں گے‘‘۔ وہ پچھلے سال ایسٹر کی خوبصورت یادوں کا ذکر کرتے ہوئے اشک بار ہو جاتا ہے اور اپنی رہائی کی امید ظاہر کرتا ہے۔ کیتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ’’میں بمباری کے خطرے میں ہوں اور یہ معاملہ بڑا خوف ناک ہے اور میں ایک طویل عرصے سے اس کے ساتھ رہ رہا ہوں۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے‘‘۔ سیگل نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور تمام حکومتی وزرا سے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کریں تاکہ جلد کسی معاہدے تک پہنچا جا سکے۔ اس کے مطابق اسرائیل تاخیر کر رہا ہے اور وہ حیران ہے کہ کب تک اسے معاہدے کا انتظار کرنا پڑے گا؟
اس طرح کی ویڈیو نے اسرائیل سمیت پوری دنیا کے یہودیوں کو نتن یاہو کا دشمن بنا دیا ہے۔ دوسری ویڈیو ناحلعوز بستی سے تعلق رکھنے والے 47 سالہ عومری میران کی ہے۔ اس میں اس نے کہا ہے ’’میرے پیارے خاندان، میں آپ سب کو یاد کرتا ہوں، اس سال ہم ایک گھناؤنی جنگ کی وجہ سے ساتھ میں کوئی چھٹی نہیں منا سکے، مجھے امید ہے کہ ہم کم از کم اگلی ’’عید استقلال‘‘ ایک ساتھ منا سکیں گے۔” عومری میران نے یہ بھی کہا کہ وہ 202 دنوں سے حماس کے ساتھ قید میں ہے اور پر تشدد بمباری کے سبب مشکل حالات میں زندگی گزار رہا ہے۔ یہ ایک معاہدے تک پہنچنے کا وقت ہے جو اسے زندہ اور اچھی صحت کے ساتھ نکالے گا۔ عومری نے اپنے اہل خانہ سے حکومت پر ہر ممکن طریقے سے دباؤ ڈال کر حسبِ استطاعت کوشش کرنے کی استدعا کی ہے۔ ہنوز تقریباً 129 اسرائیلی اسیرانِ جنگ غزہ کی پٹی میں قید ہیں۔ اسرائیلی حکام کا اندازہ ہے کہ ان میں سے 34 ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل نومبر کے آخری سات روز عارضی جنگ بندی کے دوران 100 یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا تھا اور اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدی بھی رہا کیے گئے تھے لیکن اسرائیل نے پھر سے جنگ شروع کر دی۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے دو سو دن پورے ہوئے تو اس کے ساتھ صہیونیوں کا ایک اور گھناونے جرم کا پردہ فاش ہوگیا۔ یہ انکشاف کسی فلسطینی یا مسلم خبر رساں ادارے نے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور نے کیا ہے۔ اس کے مطابق جنوبی غزہ کی پٹی کے شہر خان یونس میں واقع ناصر میڈیکل کمپلیکس سے برآمد ہونے والی 392 لاشوں میں سے صرف 165 لاشوں کی شناخت ہو سکی ہے نیز، یہ معلوم ہوا کہ ان میں سے 20 کو اسرائیلی فوج نے زندہ دفن کر دیا تھا۔ اپنی رپورٹ میں فلسطینی سول ڈیفنس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ "آزادانہ طور پر ان 20 لاشوں کی فرانزک جانچ کرے جن کے بارے میں زندہ در گور کیے جانے کا اندیشہ ہے۔ اس اندوہ ناک خبر نے پوری دنیا کے اسرائیل کے خلاف غم و غصے کی ایک لہر چلا دی ہے۔ اسرائیل کے مائی باپ امریکہ میں بھی خاص طور پر تعلیم گاہوں کے اندر احتجاج کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔
امریکہ کی نوجوان نسل میں پڑھنے لکھنے والے نوجوانوں نے کولمبیا یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس، جارج واشنگٹن یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، کیلیفورنیا اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی، ایمرسن کالج، نیویارک یونیورسٹی، ایموری یونیورسٹی، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی، فیشن انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سٹی کالج آف نیویارک، انڈیانا یونیورسٹی بلومنگٹن، مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی ایسٹ لانسنگ کیمپس وغیرہ میں زبردست مظاہرے کیے۔ اس احتجاج کو دبانے کی خاطر بوسٹن پولیس نے ایمرسن کالج میں تقریباً 108 مظاہرین کو گرفتا رکیا گیا۔ اس سے قبل لاس اینجلس میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں 93 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا تھا۔ آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے کیمپس میں بھی افراتفری کے مناظر میں سیکڑوں پولیس اہلکار گھوڑوں پر سوار ہوکر، لاٹھیاں تھامے مظاہرین کو منتشر کرتے دکھائی دیے۔ مظاہرین کو کیمپس میں مارچ کرنے سے روکنے کے لیے نیشنل گارڈ نے 34 افراد کو گرفتار کرلیا۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کا سب سے بڑا حامی ہے ایسے میں پر امن جلوس نکالنے والے یا کلاس کا بائیکاٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی انتظامیہ کی غیر جانب داری بے نقاب کرتی ہے۔ یہی احتجاج اگر یوکرین کی حمایت میں اور روس کے خلاف ہوتا تو امریکی حکومت اس کی سرپرستی کرتی مگر چونکہ وہ خود مذکورہ ظلمِ عظیم کی حصہ دار ہے اس لیے احساسِ جرم راہ میں حائل ہوگیا ہے۔ کولمبیا، ییل، براؤن اور نیویارک یونیورسٹی میں بھی سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ طلباء کو منتشر ہونے کے لیے پولیس نے 10 منٹ کی وارننگ دی اور پھر جن مظاہرین نے اس کی خلاف ورزی کی انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ طلباء کا احتجاج ابتدائی طور پر پر امن تھا لیکن پولیس کی مزاحمت سے صورت حال کشیدہ ہو گئی۔ پولیس نے جب ایک نعرے لگانے والی خاتون کو حراست میں لینے کی کوشش کی تو مظاہرین اس پر پانی کی بوتلیں پھینکے پر مجبور ہوگئے۔ ساتھ ہی مظاہرین نے پولیس افسران کے ارد گرد جمع ہو کر ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کے نعرے لگائے۔ ان طلباء نے فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ’کوفیہ‘ بھی پہن رکھا تھا۔اس دوران 3 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جن میں ایک کی حالت تشویش ناک تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یونیورسٹیوں کے اندر طلباء کو اپنے کیمپس میں پر امن اور محفوظ طریقے سے احتجاج کی سہولت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا کیوں کہ ان اداروں میں فلسطینی پرچم کے ساتھ مظاہرہ کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ اس کے تحت اب تک سیکڑوں طلباء اور اساتذہ جیل بھیجے جا چکے ہیں۔ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں سو سے زائد طلباء کی گرفتاریوں کے بعد کیمپس میں پورے سیمسٹر کے لیے کلاسیں بند کر دی گئیں حالانکہ ملک کی کئی اہم سیاسی شخصیات یونیورسٹی کا دورہ کر کے احتجاج کی مخالفت بھی کر چکی ہیں۔ اس سے قبل 1960 میں بھی ہر بڑا امریکی تعلیمی ادارہ ویتنام کی جنگ کے خلاف سڑکوں پر آگیا تھا اور ان مظاہرین کے خلاف بھی پولیس نے کریک ڈاؤن کیا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور مظاہرین اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 1968 میں ویتنام جنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہزار طلباء میں سے 700 کو کیمپس سے حراست میں لے لیا گیا تھا جب کہ سو طلبہ زخمی بھی ہوئے تھے۔ ماضی میں بھی کولمبیا انتظامیہ کا رویہ سخت رہا ہے۔
فلسطین کی حمایت اور جنگ بندی کے مطالبہ کے ساتھ احتجاجی طلباء چاہتے ہیں کہ یونیورسٹیاں اسرائیلی جارحیت کے لیے فنڈنگ فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سے اپنے شیئرز ختم کریں۔ فی الحال سر فہرست مطالبہ یہی ہے کہ یونیورسٹیاں تمام ایسے اداروں سے اپنے شیئرز نکالیں اور فنڈنگ بند کریں جو کسی نہ کسی صورت میں اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب امریکی حکومت نے اسرائیل کو 26 ارب ڈالر کی فوری امداد دینے کا بل منظور کر رکھا ہے۔ اس سے نئی
نسل اور ان کی نمائندگی کرنے والی نام نہاد سرکار کے درمیان کی خلیج کو دیکھا جاسکتا ہے۔ یہودی طلبا کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس ماحول میں کیمپس آنے سے کترا رہے ہیں اور خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ امریکہ کے اندر فی الحال یہودی طلبا اپنی ذاتی سکیورٹی کے حوالے سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ پر اسرائیل کی حمایت کرنے والے گروپوں کا بھی بہت دباؤ ہے اور جو ان احتجاجی مظاہروں کو یہودیوں کے خلاف ہرزہ سرائی کا نام دیتے ہیں۔
امریکی یونیورسٹیوں میں غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کی تپش اسرائیل کے اندر بھی محسوس کی گئی اور وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے ان مظاہروں کو "یہود مخالف” قرار دے دیا۔ اس اوٹ پٹانگ الزام کا جواب کسی اور نے نہیں بلکہ امریکی سینیٹ کے اہم ترین یہودی سینیٹر برنی سینڈرز نے دیا جو پہلے بھی نتن یاہو کی انتہا پسند حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ’ایکس‘ پلیٹ فارم پرپوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں واضح الفاظ میں لکھا کہ یہ یہود دشمنی نہیں ہے۔ سینڈرز نے یاہو کو مخاطب کرکے کہا کہ "اپنی انتہا پسند اور نسل پرست حکومت کی ناکامی اور غیر اخلاقی فوجی پالیسیوں سے ہماری توجہ ہٹانے کی کوشش کرکے امریکی عوام کی ذہانت کا مذاق نہ اڑائیں۔” یاہو کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ "بدعنوانی کے مقدمات میں اسرائیلی عدالتوں سے آپ پر لگائے گئے الزامات سے توجہ ہٹانے کے لیے یہود دشمنی کا استعمال نہ کریں۔ آپ کو اپنے اعمال کا جواب دہ ٹھیرانا یہود مخالف ہونا نہیں ہے۔”
نتن یاہو پر فی الحال چہار جانب سے دباو پڑ رہا ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ اور سینڈرز ہیں نیز دوسری جانب امریکی طلباء ہیں اور اور اسرائیلی عوام ہیں جو کیمپس و سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس دباو کو کم کرنے کے لیے پچھلے ہفتہ یاہو نے اسرائیلی ملٹری انٹیلجنس کے سربراہ اہارون ہالیوا کو بلی کا بکرا بنا کر ان کا استعفیٰ لے لیا۔ اس میں اہارون سے گزشتہ برس سات اکتوبر کو فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کو روکنے کی ناکامی کا اعتر اف کروایا گیا۔ اس اقدام کے دو فائدے پیش نظر ہیں پہلے تو ایسا کرنے سے نتن یاہو کی ناکامی چھپ جاتی ہے۔ دوسرے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ جس کی غلطی تھی اس کو سزا مل گئی اس لیے احتجاج نہ کیا جائے۔ حالانکہ اسرائیل کی ہر کامیابی کا کریڈٹ لینے والے نتن یاہو کو اپنی ناکامی کی ذمہ داری لے کر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اسرائیلی فوج کی انٹیلجنس کور کے سربراہ اہارون ہالیوا پہلے بڑے اور اہم سرکاری عہدیدار ہیں جنہوں نے اسرائیل پر حملے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دے کر یہ پیغام دیا ہے کہ اب نتن یاہو کو بھی جنگ کے دوران استعفیٰ نہیں دینے کا حیلہ بہانا چھوڑ کر اپنا راستہ ناپ لینا چاہیے ورنہ عالمی عدالت میں وارنٹ کے بعد ان کی حالت کیجریوال جیسی نہ ہو جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے حملے نے اسرائیل کی فوج اور اس کی دفاعی صلاحیت کے بارے میں قائم تاثر کی دھجیاں اڑا دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے انٹیلجنس چیف نے اس حملے کے فوری بعد کہا تھا کہ وہ اس کو نہیں روک پانے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں لیکن اس وقت وہ زبانی جمع خرچ تھا اب عملی اعتراف ہوا اور اسرائیلی فوج کے ملٹری چیف آف سٹاف نے اہارون ہالیوا کا استعفیٰ منظور بھی کر لیا۔ سات اکتوبر کو جب حماس نے حملہ کیا تو میجر جنرل اہارون ہالیوا چھٹی منا رہے تھے اور انہیں کو صبح تین بجے غزہ سے ممکنہ حملے کے بارے میں بتایا گیا تھا تاہم اسرائیلی فوج کی اعلی سطح پر ان اطلاعات کے بارے میں مشاورت میں وہ شریک نہیں تھے۔ اس کے باوجود جن بڑے لوگوں سے غفلت سرزد ہوئی ان کو بچانے کے لیے اہارون ہالیوا سے یہ بیان منسوب کردیا گیا کہ اگر وہ اس مشاورت میں شریک ہوتے تو کہتے کہ حماس تربیت میں مصروف ہے یعنی ان کی تجویز سے سات اکتوبر کو ہونے والی کارروائی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
حماس حملے کے دس دن بعد 17؍ اکتوبر کو اہارون نے ایک خط میں لکھا تھا کہ ’ہم اپنے سب سے اہم مشن میں ناکام ہو گئے ہیں اور بطور سربراہ ملٹری انٹیلجنس میں اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔‘ سوال یہ ہے کہ اس وقت ان کا استعفیٰ کیوں نہیں لیا گیا؟ اس کے لیے دو سو دنوں تک انتظار کیوں کیا گیا؟ جب کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’گزشتہ 11 دنوں میں ’اپنے تمام دوروں کے دوران میں نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ کا آغاز انٹیلجنس کی ناکامی تھی اور ہم حملے کے بارے میں خبردار نہیں کر سکے۔‘ لطف کی بات یہ ہے کہ اب بھی اہارون اسرائیلی فوج کی اندرونی تحقیقات کا حصہ ہیں جو سات اکتوبر کے حملے سے قبل سر زد ہونے والی کم زوریوں کی چھان بین کر رہی ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ مذکورہ تحقیقات حملے کے نو ماہ بعد جون میں اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف کو دی جائیں گی۔اس استعفے کے بعد دیگر کئی اہم عہدیداروں کا استعفیٰ بھی متوقع ہے اور بالآخر یہ سلسلہ یاہو پر اپنےانجام کو پہنچے گا۔ ویسے ہندوستان کے مقابلے میں یہ غنیمت ہے کیوں کہ پلوامہ سانحہ کو پورے پانچ سال گزر گئے۔ اس کا زبردست سیاسی فائدہ بھی اٹھایا گیا مگر استعفیٰ تو دور تحقیق و تفتیش کے نام پر کوئی معمولی پیش رفت بھی نہیں ہوئی۔ آگے چل کر اگر اقتدار بدل جائے تو پلوامہ کا جن پھر بوتل سے باہر آکر وزیر اعظم نریندر مودی کا پیچھا کرے گا۔ اس وقت وہ جھولا اٹھا کر کیا کریں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔
دنیا بھر کی یونیورسٹیو ں میں طلبہ کے احتجاج کی تصاویر صفحہ 21پر
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 نتن یاہو پر فی الحال چہار جانب سے دباو پڑ رہا ہے ۔ ایک طرف اقوام متحدہ اور سینڈرز ہیں نیز دوسری جانب امریکی طلباء ہیں اور اور اسرائیلی عوام ہیں جو کیمپس و سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس دباو کو کم کرنے کی خاطر پچھلے ہفتہ یاہو نے اسرائیلی ملٹری انٹلی جنس کے سربراہ اہارون ہالیوا کو بلی کا بکرا بنا کر ان کا استعفیٰ لے لیا ۔ اس میں اہارون سے گزشتہ برس سات اکتوبر کو فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کو روکنے کی ناکامی کا اعتراف کروایا گیا ۔ اس اقدام کے دو فائدے پیش نظر ہیں، پہلے تو ایسا کرنے سے نتن یاہو کی ناکامی چھپ جاتی ہے۔ دوسرے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ جس کی غلطی تھی اس کو سزا مل گئی اس لیے احتجاج نہ کیا جائے، حالانکہ اسرائیل کی ہر کامیابی کا کریڈٹ لینے والے یاہو کو اپنی ناکامی کی ذمہ داری لے کر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اسرائیلی فوج کی انٹلی جنس کور کے سربراہ اہارون ہالیوا پہلے بڑے اور اہم سرکاری عہدیدار ہیں جنہوں نے اسرائیل پر حملے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دے کر یہ پیغام دیا ہے کہ اب نتن یاہو کو بھی جنگ کے دوران استعفیٰ نہیں دینے کا حیلہ بہانا چھوڑ کر اپنا راستہ ناپ لینا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024