میڈیا اورتحریک اسلامی

ذرائع ابلاغ کو جھوٹ پر سچ کو غالب کرنے کا ہتھیار بنایا جاسکتاہے

ڈاکٹر سید محی الدین علوی، حیدرآباد

 

ایک زمانہ تھا کہ قوموں کے درمیان جنگ ہوتی تو فتح اسے حاصل ہوتی جو تیر و تفنگ سے لیس ہوتا اور اپنی حکمت عملی کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں صف بندی کرتا لیکن اب وہ زمانہ بیت چکا ہے۔ اب ہتھیاروں کی منڈی میں امریکہ بہت آگے نکل گیا اور عرب ممالک کو آپس میں لڑانے کے لیے نت نئے ہتھیار فروخت کرکے ایک طرف قطر سے اور دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پٹرول کی دولت لوٹ رہا ہے لیکن ہتھیار ہیں کہ استعمال میں نہیں آرہے ہیں۔ اور آج کے دور میں سب سے طاقتور ہتھیار میڈیا ہے جسے استعمال کرکے امریکہ نے 9/11کو پنٹگان پر حملہ اور Twin Tower کی تباہی کا ڈرامہ کھیلا اور القاعدہ کے ساتھ بن لادن کا نام جوڑ کر صلیبی جنگ کا اعلان کیا جس پر میڈیا کے جھوٹ کو دنیا نے سچ جانا اور بعد میں بن لادن کے ڈرون حملے میں مارنے جانے کا اعلان کیا اور اتنا پروپگنڈہ کیا کہ دنیا نے اسے بھی سچ جانا۔ امریکہ کا یہی میڈیا ہے جس نے عرصہ پہلے جون 1967میں مصر۔اسرائیل کی جنگ میں صدر جمال عبدالناصر کو اتنا ورغلایا کہ تین دن کی جنگ میں مصری فوج کو ہتھیار استعمال کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی چنانچہ مصر کو اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا اور شکست تسلیم کرنا پڑا جس کے بعد صدر ناصر نے استعفیٰ کا ڈھونگ رچایا اور پھر یہ کہہ کر کہ مصری عوام کو میرا استعفیٰ منظور نہیں دوبارہ صدارتی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ یہ سب امریکا کی چال سے ہوا۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں جس میں میڈیا اپنے مقصد میں کامیاب رہا۔
دور کیوں جائیے گا خود ہمارے ملک عزیز میں حکومت کے ہم نوا میڈیا نے دھوم مچارکھی ہے اور عوام کو نت نئے مصائب و آلام میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نوٹ بندی ہو یا جی ایس ٹی ، بیروزگاری ہو یا بھکمری بے چارے عوام پسے جارہے ہیں۔ اور ابھی کسانوں کا احتجاج جاری ہے جس کا کوئی حل نہیں نکل آیا ہے۔ یہ سب ہونے کے باوجود فرقہ پرست طاقتیں عوام کو سبز باغ دکھا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ اچھے دن لانے کے لیے کچھ تو قربانیاں دینی ہی پڑیں گی۔
آج جھوٹ پھیلانے والے میڈیا کو اس کی اصل صورت دکھانے کی ضرورت ہے اور ایسے ادارے اور ایجنسیاں جو دیانت دارانہ صحافتی اقدار کے لیے قائم ہیں ان سے ہر طرح کا تعاون کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
ایک اور بات یہ ہے کہ آج انٹرنیٹ پر فحش اور بے حیائی پر مبنی پروگراموں کی بھر مار ہے اور بڑوں سے لے کر بچوں تک، لڑکوں سے سے لے کر لڑکیوں تک بند کمروں میں ان بے ہودہ پروگراموں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اس غلاظت سے گھروں کو پاک رکھنے اورتعمیری و اخلاق پر مبنی پاکیزہ پروگراموں ڈراموں اور سیریلوں کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ملک کا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی مذہب یا مسلک کو اختیار کرکے اس کی ترویج و اشاعت کی جاسکتی ہے۔ تحریک اسلامی کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے اور غلبہ دین اور دنیا پر خدائی قوانین کے نفاذ لیے میڈیا کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے- یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ لوگوں کے ذہنوں سے دین کا محدود تصور نکلتا جارہا ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں خدائے تعالیٰ کی عطا کردہ شریعت سے رجوع ہونے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ پہلے صرف اخلاق اور عبادات کی حد تک اسلامی شریعت پر عمل ہوتا تھا طلاق اور یک زوجگی پر عمل ہوتا تھا لیکن وراثت کے معاملے میں اسلامی قانون پر عمل نہیں ہوتا تھا اور لڑکیوں کو وراثت میں ان کے حق سے محروم کیا جاتا تھا، لیکن یہ تحریکی لٹریچر کی دین ہے کہ اب ملت اسلامیہ میں باشعور طبقہ پیدا ہورہا ہے جو زندگی کے ہر معاملے میں خدائی ہدایات کے تابع ہورہا ہے۔ اہل علم کو بھی اپنی توجہ اس طرف منعطف کرنے کی ضرورت ہے کہ دعوت الی اللہ کے کام میں بھی میڈیا کا بھرپور استعمال ہو تاکہ تحریک اسلامی اپنے مقاصد میں کامیاب اور سرخرو ہو۔ بس اتنا کافی نہیں ہے کہ ہم صرف اپنی ذاتی اصلاح وتربیت پر توجہ دیں یا اپنے اہل خانہ میں سدھار پیدا کریں بلکہ اس کے ساتھ ساری دنیائے انسانیت کو بندگی رب کی دعوت دینا ہمارا مشن ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے ساری دنیا کے سامنے اسلام کا پیغام رکھا اور کہا ؎
یَا أیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللّٰہُ تُفْلِحُوْا
لوگو کہو ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تم کامیاب اور فلاح یاب ہوگے۔
آج جبکہ میڈیا پر باطل افکار چھائے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میڈیا کو حق کی بات کہنے کے لیے استعمال نہیں کررہے ہیں۔ جب میڈیا میں حق آجائے گا تو باطل مٹ جائے گا اور دنیا میں حق کا دور دورہ ہوگا۔
ارشاد خدا وندی ہے
وَ قُلْ جَآءَالْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا(بنی اسرائیل:۸۱)
اور اعلان کردو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو ہے ہی مٹنے کے لیےآج سوشل میڈیا عمومی طور پر استعمال ہورہا ہے لیکن اس کا صحیح استعمال کم ہی ہورہا ہے۔ ضرورت ہے کہ واٹس ایپ ٹویٹر اور فیس بک کا بھرپور استعمال ہو اور لاکھوں لوگوں تک حق کی آواز پہنچائی جائے ۔ بندگی رب کی دعوت دینا انبیائی مشن ہے۔ ہر نبی اور رسول نے اسی بندگی رب کی دعوت دی اور رسول ﷺ کا بھی یہی طریقہ رہا
اے میری قوم کے لوگو ایک اللہ کی بندگی اختیار کرو کیونکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
رسول اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُقُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (المدثر:۱تا۳)
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اٹھو اور خبردار کردو اپنے رب کی بڑائی بیان کرو
امت مسلمہ کو بھی حق کی شہادت دینے کی تاکید کی گئی ہے
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ(البقرہ:۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر حق کی شہادت دو اور رسول تم پر شہادت دیں۔
حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے اپنے خطبے میں یہ بات بھی ارشاد فرمائی تھی کہ میرا پیغام پہنچادو خواہ وہ ایک بات ہی کیوں نہ ہو۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دعوت کی اثر پذیری اور افراد کی تربیت کے لیے رابطہ عامہ اور گھر گھر کی دعوت پہنچانے کے لیے شخصی ملاقاتیں اہم ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ تقسیم لٹریچر ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ پھر داعیان حق کے اخلاق اور ان کا کردار سونے پر سہاگہ ہوتا ہے لیکن احقاق حق اور ابطال باطل کے لیے میڈیا کا استعمال اور لاکھوں لوگوں تک حق کی آواز پہنچانا اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
***

آج انٹرنیٹ پر فحش اور بے حیائی پر مبنی پروگراموں کی بھر مار ہے اور بڑوں سے لے کر بچوں تک، لڑکوں سے سے لے کر لڑکیوں تک بند کمروں میں ان بے ہودہ پروگراموں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اس غلاظت سے گھروں کو پاک رکھنے اورتعمیری و اخلاق پر مبنی پاکیزہ پروگراموں ڈراموں اور سیریلوں کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14  اگست 2021