تیونس کا سیاسی بحران :اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

مصر سے جمہوریت کا خاتمہ کرنے والی طاقتیں یہاں بھی سرگرم

مسعود ابدالی

 

تیونس کے صدر قیس سعید نے پارلیمان ایک ماہ کے لیے معطل کرکے وزیراعظم ہشام المشیشی کو برطرف کردیا ۔ وہاں کورونا پر قابو کے لیے لگائی گئی پابندیوں اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کےخلاف کئی ہفتوں سے مظاہرے ہورہے تھے۔ صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عوام حکومت کے منافقانہ طرزِ عمل اور کرپشن سے نالاں ہیں اور ملکی سلامتی کے لیے نااہل حکومت کا خاتمہ ضروری تھا۔
گزشتہ دہائی کے اختتام پر شروع ہونے والی عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ربیع العربی(Arab Spring) صرف تیونس ہی میں اپنے اہداف حاصل کرسکی ہے۔ مصر میں مغرب اور اسرائیل کی ایما پر فوج نے عوامی امنگوں کا گلا گھونٹ دیا۔ الجزائر اور بحرین میں بھی یہ مزاحمت کچل دی گئی جبکہ لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی۔ یہی حال شام کا ہے جہاں فرقہ وارانہ محاذ آرائی نے داعش کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ مراکش میں بادشاہ نے اپنے کچھ اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے لیکن وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے شاہی احکامات کے ذریعے یہ تمام اقدامات کالعدم کردیے گئے۔
سواکروڑ سے بھی کم آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک بحر روم کے کنارے شمالی افریقہ میں واقع ہے۔ قدیم عرب جغرافیہ داں اس علاقے کو مغرب العربی کہا کرتے تھے جو تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔ ساحلی علاقوں میں بربر عرب آباد ہیں اور اس مناسبت سے مغرب کا ایک اور نام’بربری ساحِل‘بھی ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بھی بربر نسل کے تھے۔ علمی سطح پر تیونس کی وجہ شہرت مسجد وجامعہ الزيتونہ ہے۔ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں قائم ہونے والایہ تعلیمی ادارہ دنیا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما کے والد بارک حسین اوباما سینئر نےبھی جامعہ الزیتونہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی ۔
جنوری 1956میں فرانس سے آزاد ہونے والے تیونس نے اپنے پہلے پچپن سال میں صرف دو صدوردیکھے۔پہلے صدر حبیب بورقیبہ تیس سال بر سر اقتدار بلکہ مسلط رہے حتیٰ کہ معذوری کی بناپر انہیں معزول کرکے 1987یں وزیراعظم زین العابدین صدربن گئے اور 23سال تک مطلق العنانیت سے بھرپور لطف اٹھانے کے بعد 14جنوری 2011کو بصد سامانِ رسوائی سعودی عرب فرار پر مجبور ہوئے۔
تیسری دنیا کی طرح تیونس میں بھی تمام قومی وسائل فوج اور حکمران طبقے کے لیے وقف تھے جبکہ بیروزگاری اور مہنگائی نے تیونس کے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔بد ترین آمریت، اخبارات پر پابندی اور جاسوسی نظام کی وجہ سے سارے ملک میں گھٹن کا ماحول تھا ور عام لوگوں میں سخت ما یوسی تھی۔
24دسمبر 2010کوبیروزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان محمد بوعزیزی نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے خود کو نذر آتش کر لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ نےآزاد میڈیا کی کمی پوری کردی اور سارے تیونس میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ زین العابدین حکومت نے پہلے تو طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور پھر معافی تلافی کا ڈول ڈالا گیا۔فوج اورقانون نافذ کرانے والے ادارے آخری وقت تک صدر زین کی پشتیبانی کرتے رہے۔ لیکن طلبہ کے پر امن مظاہروں سے مجبور ہوکر خودساختہ مردِ آہن اپنی اہلیہ، اپنی دونوں بیٹیوں، داماد، بیٹے، دس سالوں اور انکے اہل خانہ کے ساتھ ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں پناہ حاصل کریں مگر انکے سب سرپرستوں نے آنکھیں پھیر لیں۔
فوج نے راشد الغنوشی کی قیادت میں قومی حکومت کی تجویز دی جسے النہضہ نے فوری طور پر مسترد کردیا، جناب غنوشی کا کہنا تھا کہ تیونسی عوام نے چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اس وقت ملک کی ترجیح ایک ایسے دستور کی تدوین ہے جو عوامی امنگوں کا ترجمان ہو۔ چنانچہ پارلیمان کے اسپیکر فواد مبزا کو قائم مقام صدر بناکر انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی۔
اُسی سال 23اکتوبر کومتناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے، جس میں قانون ساز اسمبلی کا چناو کیا گیا۔ان انتخابات میں تین سوسے زیادہ جماعتوں نے حصہ لیا مگر اصل مقابلہ اخوانی فکر کی حامل حزب النہضہ، کانگریس فار ریپبلک المعروف موتمر ،العریضہ الشعیبہ، ڈیموکریٹک فورم اور ترقی پسند جمہوری پارٹی (PDP) کے درمیان تھا۔
پہلے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب نوے فیصد رہا۔نتائج کے مطابق النہضہ نےاکتالیس فیصد ووٹ لیکر دو سو سترہ کے ایوان میں نوے نشستیں حاصل کیں اسکی قریب ترین حریف موتمر نے تیس ، ڈیموکریٹک فورم نے اکیس، العریضہ الشعیبہ نے انیس جبکہ مغرب کی منظورِ نظر انتہاپسند سیکیولر جماعتPDP کے حصے میں صرف سترہ نشستیں آئیں۔
النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا اس کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ عملاً انسانی حقوق کا منشور ہے جس میں قیدیوں کے حقوق کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ تفتیش کے لیے تشدد کی ہر شکل کو قابل دست اندازی پولیس قراردیا گیاہے۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جسکے سربراہ حاضر سروس جج ہیں۔ یہ کمیٹیاں تشدد کے ہر الزام کی تحقیق کرتی ہیں اور سماعت عوامی مقامات پر میڈیا کے سامنے منعقد کی جاتی ہیں۔الزام ثابت ہونے پر ذمہ داروں کو سزا کا تعین بھی یہی کمیٹیاں کرتی ہیں۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم ہے۔آزادی اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے جبکہ عدالتیں انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد ہیں۔
آئین کی منظور ہوتے ہی جنوری 2013میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کی نگرانی میں چھبیس اکتوبر کو دو سو سترہ رکنی ایوان نمائندگان کے انتخابات منعقد ہوئے۔ گویا تیونس کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے اپنی مہلت ختم ہونے سے قبل ہی اقتدار نگراں حکومت کو منتقل کردیا اور عبوری حکومت نے ٹال مٹول اور طول اقتدار کے حیلے وضع کرنے کے بجائے دیانت داری سے انتخابات منعقد کرادیے۔ان انتخابات میں النہضہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ فوج کی حامی ندائے تیونس چھیاسی نشستوں کیساتھ پہلے نمبر پر رہی اور انہتر سیٹوں کے ساتھ النہضہ نے حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔
پانچ سال بعد 2019 میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت نہ حاصل کرسکی لیکن باون نشستوں کے ساتھ النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔کچھ دن بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ پچاس ووٹ نہ مل سکے چنانچہ ووٹوں کے اعتبار سے پہلے نمبر پر آنے والے قیس سعید اور انکے قریب ترین حریف نبیل قروئی کے درمیان Run-offمقابلہ ہوا۔ النہضہ نے قیس سعیدکی حمایت کی اور وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری طرف راشد الغنوشی کو پارلیمینٹ کا اسپیکر چن لیا گیا۔ یعنی انقلابِ یاسمین کی کامیابی کے بعد سے تیونس میں تین پارلیمانی اور دو صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں۔ یہ سارے چناو انتہائی پرامن انداز میں ہوئے اور انتقال اقتدار میں کسی قسم کی بدمزگی دیکھنے کو نہ آئی۔ گزشتہ عام انتخابات کے صرف سات ماہ بعد وزیراعظم الیاس الفخفاح ایک اسکینڈل کا شکار ہوئے لیکن الیاس شائستہ انداز میں سبکدوش ہوگئے اور پارلیمان نے ہشام المشیشی کو نیاوزیراعظم منتخب کرلیا۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود تیونس میں ایک دہائی سے وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور حزب اختلاف کے تعلقات انتہائی شاندار رہے ہیں۔
گزشتہ سال مارچ سے وارد ہونے والے نامراد کورونا نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھدیا اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔ اسکے نتیجے میں تیونسی سیاستدانوں کی جانب سے برداشت اور مل کر کام کرنے کی دس سالہ مخلصانہ کوششوں پر پانی پھرگیا اور الزام تراشی وانگشت نمائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ صدر قیس نے شکوہ کیا کہ معیشت میں بہتری کیلیےپارلیمان انکے اقدامات کی توثیق میں بہت دیر لگارہی ہے۔ دوسری طرف اسپیکر راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں بحث کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکتی تاہم فوری اقدامات کے لیے ہونے والے صدارتی آڈیننس پر وہ اعتراض نہیں کرینگے۔
دوہفتہ قبل حکومت کیخلاف مظاہرے شروع ہوئے اور جلد ہی اسکا رخ پارلیمان اور خاص طور سے النہضہ کی طرف ہوگیا۔ پارلیمان کا گھیراو کرکے حکومت سے استعفٰی کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کئی مقامات پر نقاب پوش گروہوں نے النہضہ کے دفاتر پرحملے کیے اور جنوب مغربی تیونس کے شہر توزر میں مقامی دفتر کو آگ لگادی گئی۔ مارشل لا کے نعرے لگے اور صدر قیس نے پارلیمان معطل کرکے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا۔قوم سے اپنے خطاب میں صدر قیس نے حکومت پر کرپشن اور بے حسی کے سنگین الزام لگائے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے گئے کہ اگر کسی نے صدارتی حکم کے خلاف ورزی کی تو انہوں نے مسلح افواج کو روایتی تنبیہ کے بغیر گولی چلانے کاحکم دیدیا ہے۔
راشد الغنوشی نے صدر کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا لیکن جب النہضہ کی شوریٰ نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو غنوشی صاحب نے مظاہرہ منسوخ کرکے صدر قیس کو بات چیت کی پیشکش کردی۔معزول وزیراعظم نے بھی صدر کافیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد وزیراعظم کو فوری طورپر اقتدار منتقل کردینگے۔
لیکن اس پیشکش کے جواب میں فوج نے دوارکانِ پارلیمان کو گرفتار کرلیا۔ مشہور بلاگر اور مجلس نواب الشعب (لوک سبھا) کے آزادرکن جناب یاسین العیاری پر الزام ہے کہ انہوں نے چھبیس جولائی کو ایوان صدر پر مظاہرے میں اپنے ساتھیوں کو تشدد پر اکسایا تھا۔ فوجی عدالت کاکہنا کہ موصوف تین سال پہلے بھی فوج پر’الزام تراشی‘ کے الزام میں گرفتارکیے گئے تھے لیکن صدر قیس سعید نے پارلیمانی استثنیٰ دیکر انکی رہائی کا حکم دے دیا تھا جو آج واپس لے لیا گیا
اسی کیساتھ قدامت پسند کرامہ پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ مہر زید بھی دھر لیے گئے۔ مہر زید کو 2018میں سوشل میڈیا پر اسوقت کے صدر باجی قائد السبسی پر تنقید کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جنہیں صدر قیس نے پارلیمانی استثنیٰ دیکر رہا کردیا تھا۔ اب مہر زید کا استثنیٰ بھی واپس لے لیا گیا ہے۔اُسی دن ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے ایک بیان میں کہا کہ اشتعال انگیز نعرے لگانے اور عوام کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں النہضہ کے چار رہنماوں کے خلاف نقصِ امن کے پرچے کاٹے جارے ہیں۔ اعلامیے میں ان افراد کے نام بیان نہیں ہوئے لیکن خدشہ ہے کہ النہضہ کے سربراہ راشدالغنوشی اور انکی صاحبزادی یسریٰ الغنوشی اس فہرست میں شامل ہیں۔ پکڑ دھکڑ کے خلاف النہضہ نے پارلیمان کی عمارت پر دھرنا دیا۔ اس دوران النہضہ اور صدر کے حامیوں نے ایک دوسرے پر پتھر اور بوتلیں پھینکیں۔ دوسری طرف کرونا کے پیش نظر رات دس بجے سے نافذ کرفیو اب سات بجے شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
تیونسی صدر کے قریبی احباب بھی انکے سخت رویے اور طاقت کے استعمال کی دھمکی پر حیرت زدہ ہیں۔ قیس صاحب قانون کے پروفیسر اور بارایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ہیں ۔انکی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ موصوف اپنے نرم لہجے اور سیاسی معاملات پر مفاہمانہ رویے کے لیے مشہور ہیں۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشد الغنوشی کی بھی ہے۔
مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ النہضہ کی جانب سے بڑھائے جانے والے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس حقارت سے جھٹک رہے ہیں، اسکے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور مغرب کا اشارہ بہت واضح ہے۔ پارلیمنٹ کی معطلی پر ’مثبت‘ رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا کہ ’برادر ملک تیونس میں استحکام کی ہر کوشش قابل تحسین ہے جسکی UAEبھرپور حمایت کرتا ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہاپسندی، دہشت گردی اور تشدد کے استیصال کے لیے صدر قیس جو بھی قدم اٹھائیں گے امارات اسکی غیر مشروط حمایت کرے گا‘۔ کرونا لہر کے باوجود صدر قیس سےاظہار یکجہتی کے لیے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان تیس جولائی کو بنفس نفیس تیونس تشریف لائے اور صدر قیس سے تین گھنٹہ طویل بات چیت کی۔ اس دوران انتہاپسندی کو کچل دینے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔ سعودی شہزادے کا کہنا تھا انکی حکومت خاص طور سے ولی عہد محمد بن سلمان آزمائش کی اس گھڑی میں صدر قیس کے ساتھ کھڑے ہیں اور تیونس کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش کا دونوں ملک مل کر مقابلہ کریں گے۔
ربیع العربی کے آغاز پرعرب حکمراں، اسرائیل اور انکے مغربی سرپرست لرز کر رہ گئے تھےجب دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا آمریت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ شیوخ و امراء نے جہاں اس تحریک کو کچلنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے وہیں اسکی بنیادیں اکھاڑنے پر خلیجیوں کے ساتھ انکے سرپرستوں نے بہت عرق ریزی سے کام کیا۔جس میں نصاب کی تبدیلی، اسرائیل سے قریبی تعلقات اور اخوان المسلمون کی بیخ کنی شامل ہے۔ لیبیا، شام اور یمن میں فرقہ وارانہ آگ کا تنور دہکانے کے ساتھ مصر میں منتخب حکومت کو صرف ایک سال میں فوجی انقلاب کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ تیونس، ربیع العربی کی واحد کامیاب نشانی ہے۔ جسکے خلاف ایک منظم مہم دس سال سے جاری ہے۔ تیونس میں سوشل میڈیا پران تجزیاتی مقالوں کی بھرمار ہے جس میں سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرکےاعدادوشمار کی مدد سے یہ ثابت کیا جارہاہے کہ ملک کو چلانا بے ایمانوں کے بس کی بات نہیں۔ تیونس کا درد وہی سمجھ سکتے ہیں جو ملک کی حفاظت کے لیے وردیوں میں ملبوس سر سے کفن باندھے بیٹھےہیں۔ سیاست دان تو موقع پرست طالع آزما ہیں جنہیں صرف اقتدار عزیز ہے جسکے حصول کے لیے یہ اپنا ضمیر اور ملکی مفاد سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں۔
زمینی حقائق کے سرسری جائزے سے تیونس کا حالیہ تنازعہ اس مصری ڈرامے کی شرطیہ نئی کاپی نظر آرہا ہے جو 2013 میں کھیلا گیا۔ اس وقت مصر کے سیکیولر و ’جمہوریت‘ پسند عناصر نے صدر مرسی پر’انتہاپسندی‘ اور ’کرپشن‘ کے الزامات لگا کر ان کے خلاف تحریک چلائی۔ تحریک کے روح رواں مایہ ناز جوہری سائنسدان اور دانشور ڈاکٹر محمد البرادعی تھے۔ مصر کے سلفی حضرات بھی انکے ساتھ مل گئے۔ مظاہروں کے دوران اخوان کے دفاتر پر حملے کیے گئے اور البرادعی نے فوج سے درخواست کی کہ ملک کو بچانے کے لیے سجیلے جوان آگے آئیں۔ستم ظریفی کہ گوشہ نشین البرادعی کو اب بہت دکھ ہے کہ انہوں نے جنرل السیسی پر اعتماد کرلیا جنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ صدر مرسی کو معزول کرتے ہی نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا جس میں اخوان کے علاوہ تمام جماعتوں کو شرکت کی اجازت ہوگی اور فوج بالکل غیر جانبدار رہے گی۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ترکی میں بھی پیش آئی تھی جب معروف اسکالر ، مبلغ اور امام فتح اللہ گولن اور صدر ایردوان کے اختلافات اتنے بڑھے کہ گولن صاحب نے مبینہ طور ہر 2016میں ایردواں کے خلاف فوجی بغاوت کی حمایت کی۔ گولن، سعید الزماں المعروف بدیع الزماں نورسی کے شاگرد ہیں۔کردستان کے علاقے نورس میں جنم لینے والےسعید الزماں نورسی کو ترکی کا ابوالاعلیٰ مودودی سمجھا جاتا ہے۔ فتح اللہ گولن، پروفیسر نجم الدین اربکان کے ساتھی تھے اور جب وزیراعظم ایردوان نے انصاف و ترقی پارٹی قائم کی تو گولن صاحب ایردوان کا دست و بازو بن گئے۔ انکے درمیان اختلافات اس وقت سامنے آئے جب 2013 میں گولن کے حامیوں نے ایردوان پر مالی کرپشن اور اقربا پروری کے الزام لگاکر انکے خلاف عوامی مظاہرے کیے ۔ سیکیولر طبقے نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور کئی ہفتوں تک حکومت مخالف مظاہرے جاری رہے۔ ایردوان کے ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ان مظاہروں کے لیے گولن نے مالی مدد فراہم کی تھی۔
باہر کی ریشہ دوانیاں اپنی جگہ لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بدترین آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود اسلامی، عوامی اورجمہوری تحریکوں نے اختلافی مسائل پر اعتدال و برداشت کے گُر نہیں سیکھے۔ ایسے ہی اختلاف نے مصر میں اخوان اور سیکیولر قوتوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جسکے نتیجے میں اخوان کے ساتھ جو ہوا سوہوا، جمہوریت کا باب بھی بندہوگیا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اب تیونس میں ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

تیونسی صدر کے قریبی احباب بھی انکے سخت رویے اور طاقت کے استعمال کی دھمکی پر حیرت زدہ ہیں۔ قیس صاحب قانون کے پروفیسر اور بارایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ہیں ۔انکی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ موصوف اپنے نرم لہجے اور سیاسی معاملات پر مفاہمانہ رویے کے لیے مشہور ہیں۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشد الغنوشی کی بھی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14  اگست 2021