بربریت کا ساتواں مہینہ

امریکی جامعات سراپا احتجاج پیرس اور لندن میں بھی سخت مظاہرے

مسعود ابدالی

بدترین تشدد ۔ سینکڑوں طلباء، ایک صدارتی امیدوار اور دو خواتین پروفیسر گرفتار
غزہ میں اسرائیل کی سفاکیت اب ساتویں مہینے میں داخل ہونے کو ہے۔ رفح پر حملے کی تفصیلات طے کرنے کے لیے دو ہفتہ پہلے اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ہرزی حلوی اور خفیہ ایجنسی شاباک (Shin Bet) کے سربراہ رونن بار قاہرہ گئے جہاں مصری خفیہ ایجنسی کے سربراہ عباس کامل اور فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل اسامہ عسکر سے مشاورت کی گئی۔ گزشتہ ہفتے رفح آپریشن کو آخری شکل دینے کی غرض سے تل ابیب میں مجلس جمع ہوئی جس کے لیے مصری خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ (حوالہ:اسرائیلی ٹیلی ویژن 13 اور ویب سائٹ خبررساں ایجنسیAxios)مطلوبہ اسلحے کا انتظام بھی ہوگیا ہے کہ صدر بائیڈن نے اسرائیل کے لیے 17 ارب ڈالر کی فوجی امدادی بل پر دستخط کر دیے۔ ساڑھے چار ارب ڈالر فضا سے زمین پر داغنے والے میزائیلوں کے لیے ہیں۔ ساڑھے تین ارب ڈالر سے بمبار طیارے اور دوسرا جدید ہلاکت خیز سامان خریدا جائےگا۔ ایک ارب ڈالر ناکام ہوجانے والے اسرائیلی ٹینکوں کو بہتر بنانے پر صرف ہوگا۔ باقی رقم ٹینکوں کے گولے، خونی ڈرون، راکٹ، رائفلوں کی گولیاں، رات کو استعمال ہونے والے چشمے، ڈائپرز اور دوسری ‘ضمنی’ اشیا کے لیے مختص کی گئی ہے۔ بکمال مہربانی اس ضمنی بجٹ میں اہل غزہ کی مرہم پٹی کے لیے 2 ارب ڈالر رکھے گئے ہیں جس کا بڑا حصہ امریکی فوج کے انتظامی اخراجات پر اٹھ جائے گا۔ امدادی سامان کی آمدورفت کے لیے امریکی بحریہ غزہ کے ساحل پر عارضی گودی (Piers) تعمیر کر رہی ہے۔
چند دن پہلے قصر مرمریں کے حوالے سے نیویارک ٹائمز کے کالم نگار ٹامس فریڈمین نے خبر سنائی کہ امریکہ نے رفح حملے کی منظوری نہیں دی اور اگر نتن یاہو نے بات نہ مانی تو اسرائیل کے لیے ‘کچھ اقسام’ کے ہتھیاروں پر پابندی لگادی جائے گی۔ عجیب بات کہ آپریشن کے لیے اسلحہ پہنچا دیا گیا، مصری فوج بھی تیار ہے۔ اب لکیر پیٹنے کو سفاک سیاست کے سوا اور کیا نام دیا جائے۔
اسلحے کے انبار اور بھرپور تیاریوں کے باوجود اسرائیلی فوج اس مہم کے لیے یکسو نہیں ہے۔ عبرانی صحافتی ذرائع کے مطابق عسکری محکمہ سراغ رسانی نے اس حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ر فح کے 20 لاکھ افراد سڑکوں کے کنارے خیمہ زن ہیں اور کسی قیمت پر وہاں سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنے میں اسرائیل اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے اور رفح میں سرنگوں کا پیچیدہ نظام علاقے کو اسرائیلی فوج کے قبرستان میں تبدیل کر سکتا ہے۔ خفیہ ادارے کا خیال ہے کہ رفح کے زیرِ زمین حوالاتوں میں اسرائیلی قیدی رکھے گئے ہیں اور نشانے میں ہلکی سی خطا ان قیدیوں کی جبری تدفین کا سبب بن سکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ملٹری انٹیلجنس کی یہ ‘رپورٹ’ فاضل صحافی کی ذہنی اختراع ہو لیکن اس افشاء کے ایک دن بعد ادارے کے سربراہ میجر جنرل ہارون خلیفہ (Aharon Haliva) نے استعفیٰ دے دیا۔ وزارت دفاع کے نام اپنے خط میں جنرل صاحب نے کہا کہ وہ سات اکتوبر کو برپا ہونے والے طوفانِ اقصیٰ کی قبل از وقت نشان دہی میں ناکامی پر مستعفی ہو رہے پیں۔ لیکن عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ رفح آپریشن سے عدم اتفاق نے انہیں سبک دوشی پر مجبور کیا۔ بیت لاھیۃ پر حملے میں تاخیر سے بھی پتہ چلتا ہے کہ کسی بڑے آپریشن کے لیے اسرائیلی فوج ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ایک ہفتہ پہلے شمالی غزہ کے اس ساحلی شہر پر پمفلٹ گرائے گئے جس میں انتباہ دیا گیا تھا کہ اگلے 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران شہر پر بھر پور بری حملہ ہونے والا ہے لہذا شہری علاقہ خالی کر دیں۔ لیکن انخلا کے اس حکم کو فلسطینیوں نے ہوا میں اڑا دیا اور ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی حملے کے آثار نہیں ہیں۔
ہفتہ 27؍ اپریل کو ٹائمز آف اسرائیل نے خبر دی کہ نتن یاہو قیدیوں کی رہائی کے عوض مکمل جنگ بندی اور متاثرین جنگ کی بلا خوف گھر واپسی میں سہولت کے لیے فوج کی جزوی واپسی پر تیار ہوگئے ہیں۔ قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہونے پر اسرائیلی فوج غزہ سے واپس چلی جائے گی۔ حکومتی ترجمان نے اس خبر سے لا تعلقی کا اعلان کیا ہے لیکن تجزیہ نگار اس تردید کو نیم تصدیق قرار دے ہے ہیں۔
ہفتہِ رفتہ کی اہم بات غزہ نسل کشی کے خلاف امریکی جامعات میں احتجاجی لہر ہے۔ اس کا آغاز نیویارک کی جامعہ کولمبیا سے ہوا جہاں طلباء کیمپس کے ایک پارک پر قبضہ کرکے خیمہ زن ہوگئے ہیں جسے وہ غربِ اردن کی علامتی قبضہ بستی (Settlement) قرار دیتے ہیں۔ شیخ الجامعہ ڈاکٹر نعمت شفیق کو دو ہی دن قبل کانگریس کی ایک کمیٹی میں طلب کرکے باتیں سنائی گئی تھیں چنانچہ مزید بد مزگی سے بچنے کے لیے ڈاکٹر صاحبہ نے پولیس بلا لی جس پر طلباء کے ساتھ اساتذہ بھی مشتعل ہو گئے۔ اساتذہ کو اعتراض جامعہ میں پولیس کی آمد پر تھا۔تدریسی عملے نے موقف اختیار کیا کہ طلباء کے مظاہرے سے امن وامان کی ایسی کیا صورت حال پیدا ہو رہی تھی کہ کیل کانٹے سے لیس پولیس بلانی پڑی۔ خبر ہے کہ جامعہ کا تقدس پامال کرنے پر اکیڈمک کونسل کے آئندہ اجلاس میں شیخ الجامعہ کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی جائے گی۔
دوسرے دن ایک نا خوش گوار واقعہ پیش آیا جب ایک اسرائیل نواز پروفیسر Shai Davidai کو مظاہرین نے دفتر جانے سے روک دیا۔ مدد کے لیے وہ رکن کانگریس کو ساتھ لائے لیکن انتظامیہ نے خطرہ بھانپتے ہوئے ان کی الیکٹرانک کنجی غیر موثر (deactivate) کر دی اور جب جامعہ کے COO کیس ہالووے نے انہیں یہ اطلاع دی تو پروفیسر صاحب مغلظات بکنے لگے۔ جی ہاں ایسی فحش گالیاں جسے نقل کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ اس نا شائستگی پر COO نے انہیں ڈانٹ پلا دی۔ پروفیسر صاحب روہانسے ہو کر بولے ‘یہ تو 1938 والی بات ہو گئی جب جرمنی میں کچھ اساتذہ پر جامعات کے دروازے بند کر دیے گئے تھے’۔ احتجاجی طلباء نے پروفیسر صاحب کو یاد دلایا کہ فلسطینیوں کی سرزمین بھی ان کے لیے no go بنادی گئی ہے۔
اسی کے ساتھ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تمام بڑی جامعات میں طلباء خیمہ زن ہوگئے۔ غزہ جنگ بندی کے ساتھ ان کا مطالبہ ہے کہ جامعہ کی وقف رقومات (Endowment Funds) کی سرمایہ کاری ان اداروں میں نہ کی جائے جن کے اسرائیلی فوج کے ساتھ تعلقات ہیں۔ کئی جامعات کی سینیٹ میں اس مقصد کے لیے قراردادیں پیش کردی گئی ہیں۔ حالیہ تحریک کی خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کا آغاز امریکہ کی موقر ترین جامعات MIT، ہارورڈ، جامعہ برکلے، ییل (Yale) اسٹینفورڈ، جامعہ شکاگو اور کولمبیا جیسے اداروں سے ہوا ہے۔ جامعہ ٹیکسس آسٹن (UT Austin) کے مظاہرے پر گورنر ایبٹ آپے سے باہر ہوگئے اور انہوں نے خیمے اکھاڑنے کے لیے ریاستی گارڈ (نیم فوجی دستے) بھیج دیے لیکن طلباء اب تک سینہ سپر ہیں۔ احتجاج کے دوران امریکہ بھر سے 500 کے قریب افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔ بہت سے طلباء کو معطل کرکے ان سے ہاسٹل خالی کرالیے گئے جن میں رکن کانگریس الحان عمر کی صاحب زادی اسریٰ حرثی شامل ہیں۔
ریاست جارجیا کی جامعہ ایمری (Emory) نے بدترین لا قانونیت کا سامنا کیا۔ پولیس نے خیمے اکھاڑ کر طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس دوران اساتذہ بھی پولیس گردی کا نشانہ بنے۔ شعبہ فلسفہ کی سربراہ ڈاکٹر نوایل مک کفی Noelle McAfee طلباء سے یکجہتی کے لیے ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ مجھے احتجاج کرنے والوں کے بیانئے اور موقف سے مکمل اتفاق ہو، میں حقِ احتجاج کی حمایت میں ان کے ساتھ کھڑی ہوں۔ پکڑ دھکڑ کے دوران پولیس نے ڈاکٹر مک کفی کی مشکیں کس کر گرفتار کر لیا۔ اسی دوران ایمری کالج برائے سائنس و فنوں میں معاشیات کی 62 سالہ سینئر پروفیسر ڈاکٹر کیرولائن فولن Caroline Fohlin نے جب پولیس کے ہاتھوں اپنے شاگردوں کی درگت بنتے دیکھی تو تڑپ کر سامنے آئیں۔ اس وقت چند پولیس افسران ایک سیاہ فام لڑکی کو زمین پر گرا کر اسے مار رہے تھے۔ ڈاکٹر فولن نے اس افسر سے کہا: رکو !کیا کر رہے ہو؟ اس بچی کا ہاتھ ٹوٹ جائے گا۔ اتنا سننا تھا کہ ایک لحیم شحیم پولیس افسر نے پروفیسر کو دبوچ کر گرا دیا۔ فولن صاحبہ کا سر کنکریٹ سے ٹکرایا، وہ تو خیریت رہی کہ موصوفہ کا سر نہ پھوٹا۔ ویڈیو میں ڈاکٹر صاحبہ کی فریاد صاف سنائی دے رہی ہے کہ میں پروفیسر ہوں لیکن ان کے ہاتھ پشت پر باندھ کر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس پر حملے کا پرچہ کاٹنے کے بعد ڈاکٹر فولن کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
ہفتہ 27؍ اپریل کو جامعہ واشنگٹن سینٹ لوئی، مزوری (Washington University, St Louis) میں طلباء غزہ بربریت اور اسرائیل پر پابندی لگانے کے لیے خیمہ زن ہوگئے۔ طلباء سے یکجہتی کے اظہار کے لیے صدارتی انتخاب میں گرین پارٹی کی امیدوار جل اسٹائن (Jill Stein) وہاں آئیں اور پولیس دھاوے میں دھر لی گئیں. 73 سالہ جل مذہباً یہودی اور اسرائیل کی سخت مخالف ہیں۔
جمعہ 26؍ اپریل کو پیرس انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اسٹڈیز المعروف Sciences PO میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ پولیس نے درجنوں طلباء کو گرفتار کرلیا۔ اسی دن یونیورسٹی کالج آف لندن کے طلباء بھی نکل آئے۔ امریکہ میں طلباء پر تشدد کے خلاف صنعا میں یمنی طلباء نے زبردست مظاہرہ کیا۔ جذبات کا مظاہرہ پاکستان میں بھی دیکھا گیا۔ ممتاز وکیل محترمہ عاصمہ جہانگیر کی برسی پر ایک تقریب میں جرمن سفیر دنیا کے مختلف حصوں میں انسانی حقوق کی پامالی پر رقت آمیز خطاب فرمارہے تھے۔ اس پر وہاں موجود نوجوانوں نے فلسطین کے حق میں نعرہ لگا دیا۔ فلسطین کے نام پر سفیر صاحب آگ بگولا ہوگئے اور غصے سے بولے اگر آپ نے شور شرابا کرنا ہے تو باہر چلے جائیں، چیخ و پکار کوئی رویہ نہیں، آپ کو شرم آنی چاہیے۔ نوجوانوں نے اسی لب و لہجے میں کہا شرم تو آپ کو آنی چاہیے سفیرِ محترم، جو آپ کے یہاں فلسطین کے حق میں مظاہروں پر پابندی ہے۔
امریکی طلباء کے مظاہروں سے وزیر اعظم نتن یاہو اور صدر بائیڈن دونوں پریشان ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے انگریزی میں ایک خصوصی بصری پیغام جاری کیا کہ ‘امریکی جامعات میں یہود دشمن (Anti-Sematic) مظاہرں نے 1930 کی دہائی میں جرمن یونیورسٹیوں میں ہونے والے واقعات کی یاد تازہ کردی ہے۔ یہود مخالف ہجوم نے معروف یونیورسٹیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ وہ اسرائیل کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہودی طالب علموں اور اساتذہ پر حملہ کیا جا رہا ہے۔
امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے اسرائیلی وزیر اعظم کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا، ‘جناب مسٹر نتن یاہو! آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ یہ کہنا Anti-Sematic نہیں کہ آپ کی انتہا پسند حکومت نے چھ ماہ سے کچھ زیادہ عرصے میں 34,000 فلسطینیوں کو ہلاک اور 77,000 سے زیادہ کو زخمی کیا ہے جن میں سے ستر فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ یہ کہنا بھی Anti-Sematic نہیں ہے کہ آپ کی بمباری نے غزہ میں 221،000 سے زیادہ رہائشی یونٹوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔
امریکی صدر بائیڈن تڑپ کر بولے ‘کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کے دوران یہودیوں کو ہراساں کرنے اور تشدد کا مطالبہ "صریح سام دشمنی” یا Antisemitism ہے’۔ امریکی صدر نے ہراساں کرنے اور تشدد پر بھڑکانے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
آزادی اظہار پر پابندی کے لیے قانون سازی کا آغاز ہوگیا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کی سینیٹر مارشا بلیک برن نے پہلے سے پیش کیے گئے Safe and Open Street Bill پر کارروائی تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بل اس سال جنوری میں پیش ہوا تھا لیکن اب تک اسے متعلقہ کمیٹی کے سامنے پیش نہیں گیا۔ مجوزہ قانون کے تحت سڑکوں پر مظاہرہ یا ٹریفک میں خلل ڈالنا غیر قانونی ہوگا جس کے مرتکبین کو پانچ سال کے لیے جیل بھیجا جاسکے گا۔
اس ہفتے فلسطیینیوں نے ایک بڑی سفارتی کامیابی حاصل کی جب بحیرہ کریبین (Caribbean) میں جزائر غرب الہند کے ملک جمائیکا نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرلیا۔ گیارہ ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل جمائیکا کی آبادی 27 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔اہلِ جمائیکا کی 92 فیصد سے زیادہ اکثریت افریقی نژاد ہے۔
حسب روایت ایک اچھی خبر پر گفتگو کا اختتام: غزہ میں خوف ناک نسل کشی عروج پر ہے لیکن معجزاتی ولادت کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ رفح میں بمباری سے ایک جواں سال حاملہ خاتون، اس کا شوہر اور بیٹی جاں بحق ہو گئے۔ لیکن ڈاکٹرز آپریشن کے ذریعے آخری سانسیں لیتی عورت کے پیٹ سے بچی کو زندہ نکال لینے میں کامیاب ہوگئے۔ سبرین جودہ نامی 3پونڈ کی یہ بچی رفح کے الہلال الاماراتی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں زیر علاج ہے اور طبی عملہ اس کے بارے میں انتہائی پرامید ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024