غزہ کے مظلومین کیلئےامریکی یونیورسٹیوں  میں احتجاج  مگر عرب دنیا میں خاموشی

عرب اور مسلم ممالک میں حکام کو خوف کہ غزہ کی حمایت میں ہونے والے احتجاج کہیں حکومت مخالف احتجا ج میں تبدیل نہ ہو جائیں

نئی دہلی ،05مئی :۔

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو تقریباً سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔مکمل غزہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔انسانی زندگی کے لئے غزہ ناقابل رہائش بن چکی ہے اس میں لاکھوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور پورا غزہ نقل مکانی پر مجبور ہو چکا ہے۔اتنے طویل عرصے تک اس اسرائیلی ظلم و بر بریت پر دنیا خاموش ہے۔مگر اب غزہ کے مظلوموں کے لئے وہاں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں جہاں سے اسرائیل کو ان کے موت کا سامان مہیا کرایا جاتا رہا ہے۔یوروپ اور امریکہ کی یونیور سٹیوں میں انصاف پسند طلبہ و طالبات غزہ کے مظلومین کے لئے سراپا احتجاج بن چکے ہیں ۔امریکہ کی متعدد یونیور سٹیوں میں طلبا کیمپ لگا کر احتجاج کر رہے ہیں ۔انتظامیہ کی جانب سے کارروائی ہو رہی ہے ،گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں ،اسرائیل حامیوں کے حملے بھی ہو رہے ہیں لیکن پھر بھی احتجاج جاری ہے۔فلپائن اور فرانس جیسے ممالک بھی اس احتجاج میں ان کی آواز میں آواز اٹھا رہے ہیں  ۔کئی مقامات پر طلبہ اور مخالف مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا ہے۔مگر اس دوران ایک چیز جو قابل غور رہی کہ عرب دنیا میں خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔جو غزہ کے مظلومین کی حمایت کا دعوی کرتے ہیں اور ان کے لئے دعائیں کر رہے ہیں وہاں کی فضا اس معاملے میں بالکل خاموش ہے۔ اگرچہ اس دوران بعض عرب ریاستوں میں کہیں کہیں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں لیکن ان کے حجم اور شدت کا موازنہ امریکہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔

وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق جنوبی غزہ میں رفح کیمپ میں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ مقیم 44 سالہ احمد رازق کا کہنا ہے "ہم روز سوشل میڈیا پر احتجاجی مظاہروں کو احساس تشکر کے ساتھ دیکھتے ہیں لیکن اس میں اداسی بھی شامل ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ یہ احتجاج عرب اور مسلم ممالک میں نہیں ہو رہے۔‘‘

اسرائیل کے حملے کے بعد غزہ کے رفح پناہ گزین کیمپ میں 10 لاکھ سے زائد فلسطینی مقیم ہیں۔ اس کیمپ کے خیموں پر جگہ جگہ ایسی عبارتیں لکھی نظر آتی ہیں "غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے پر طلبہ آپ کا شکریہ! آپ کا پیغام ہم تک پہنچ گیا ہے۔ کولمبیا کے طلبہ آپ کا شکریہ!”

اس لئے اب یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ جب امریکہ اور مغربی ممالک میں احتجاج ہو رہے ہیں تو عرب دنیا اور مسلم ممالک میں اتنی خاموشی کیوں چھائی ہوئی ہے۔ عرب دنیا میں غزہ جنگ سے متعلق نظر آنے والی خاموشی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں قائم زیادہ تر مطلق العنان حکومتیں حماس اور اس کے پشت پناہ ایران سے شدید اختلاف رکھتی ہیں۔ اس لیے وہاں اس بات کا خدشہ پایا جاتا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال پر ہونے والے احتجاج سے ریاستی پالیسی بھی متاثر ہوگی۔

امریکہ کی اعلیٰ ترین جامعات میں مظاہرے کرنے والے طلبہ کو اپنے تعلیمی اداروں سے معطلی اور گرفتاری جیسے نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن اگر عرب دنیا کے شہری بغیر ریاستی اجازت کے احتجاج کرتے ہیں تو انہیں کئی گنا شدید نتائج بھگتنا ہوں گے۔

امریکہ میں طلبہ کے زیادہ شدت سے مظاہرے کا ایک محرک یہ بھی ہے کہ امریکی حکومت اسرائیل کو ہتھیار بھی فراہم کرتی ہیں۔ جب کہ اسرائیل سے تعلقات رکھنے والے عرب ممالک بھی غزہ میں اس کی کارروائیوں کے شدید ناقد ہیں۔

مراکش سے لے کر عراق تک سبھی عرب ملکوں میں رائے عامہ اسرائیل کے اقدامات کے خلاف اور غزہ کے حق میں ہے۔ غزہ کی صورتِ حال کی وجہ سے پورے عرب خطے میں گزشتہ ماہ رمضان اور عید کے مواقع پر بھی روایتی جوش نظر نہیں آیا۔بعض عرب ممالک میں فلسطینیوں کی حمایت کے لیے ریلیاں بھی نظر آئیں۔ خاص طور پر یمن میں جہاں سے تعلق رکھنے والے حوثی ملیشیا نے بحیرہ احمر میں مسلح کارروائیوں میں حصہ لینا بھی شروع کردیا ہے۔

عرب ممالک میں سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد غزہ میں ہونے والی تباہی اور وہاں جنم لینے والے انسانی المیوں کے بارے میں پوسٹس بھی شیئر کرتے ہیں لیکن سڑکوں پر نہیں نکلتے۔

خیال رہے کہ  مصر ،ترکی اور متحدہ عرب امارات جیسے مسلم ممالک میں یہ احتجاج اس وجہ سے نہیں نظر آ رہے ہیں کہ وہاں مطلق العنان حکومتیں ہیں ۔ان ممالک کے فرمانرواؤں کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات بھی رہے ہیں ۔حال ہی میں ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کئے ہیں ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کے  حکام کو خدشہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہرے کہیں حکومت کے خلاف احتجاج کی شکل اختیار نہ کرلیں۔

بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تاریخ کے پروفیسر مکارم رباح کا کہنا ہے کہ عرب دنیا میں کولمبیا یا امریکہ کی جامعات جیسا ردِ عمل اس لیے نظر نہیں آتا کہ عرب طلبہ کو یہ سہولت دست یاب نہیں ہے۔