پیکرِ عزم و استقلال۔۔پروفیسر شاذلی مرحوم

گوناگوں مسائل حیات کے باوجود ہمہ جہت سرگرمیوں کو آخری وقت تک جاری رکھا

ڈاکٹر ضیا الحسن ،ناندیڑ(مہاراشٹر)

علاقہ برار جو مہاراشٹر کا ودربھ علاقہ کہلاتا ہے۔کسی زمانے میں حیدرآباد دکن کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔حیدرآباد کے نواب شاہ دکن و برار اور ان کے ولی عہد پرنس آف برار کہلائے جاتے تھے۔انگریز حکمرانوں نے ایک معاہدے کے تحت برار کا علاقہ نظام حیدرآباد سے طویل مدت کے لیے حاصل کیا تھا لیکن اپنی بدنیتی کی بنا پر اسے پھر کبھی واپس نہیں کیا۔برار میں کئی نابغہء روزگار شخصیتیں گزری ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی بہترین کارکردگی کے نقوش چھوڑے ۔تاریخ کے اسکالر ،انگریزی زبان و ادب کے استاد ،اعلیٰ درجے کے ادیب ،خوش بیاں مقرر،قلندرانہ مزاج انسان اور گونا گوں خوبیوں کے مالک ،پروفیسر محمد خلیل الدین شاذلی جنہوں نے بعد میں م۔خ۔شاذلی کے نام سے شہرت پائی،برار علاقے کے اچل پور (امراوتی)کے ایک علمی گھرانے میں یکم جولائی 1926 ء کو پیدا ہوئے۔ان کے والد حاجی محمد ظہیر الدین شاذلی داروا میں ایک برٹش اسکول کے پرنسپال تھے۔اس خاندان کے مورث اعلیٰ ریاست رامپور سے آکر یہاں آباد ہوگئے تھے۔م۔خ۔شاذلی کی ہائی اسکول کی تعلیم سٹی ہائی اسکول اچل پور میں ہوئی۔1952ء میں وہ ناندیڑ آگئے۔1948 ء سے پہلے یہ ضلع ریاست حیدرآباد کا حصہ تھا۔یہاں کی سب سے بڑی کپڑا مل عثمان شاہی ملز کے اسکول میں انہیں ڈرائنگ ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت مل گئی ۔اس طرح مراٹھواڑہ کا یہ دوسرا بڑا شہر ان کا وطن ثانی بن گیا۔
ملازمت کی مصروفیت کے علاوہ شاذلی صاحب مذہبی،ملّی،علمی اور ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔خصوصاً جماعت اسلامی ہند ،کل مجلس تعمیر ملت اور ادارہ ادب اسلامی ہند کے پروگراموں میں وہ ایک پرجوش شریک کار بن کر جاتے تھے ۔ مقامی سیاست میں بھی انہیں کسی قدر دلچسپی تھی۔وہ ایک سنجیدہ مقرر تھے۔ان کی تقریریں چاہے مسجد میں ہوں یا کسی دانش گاہ یا عوامی جگہوں پر،دلچسپی سے سنی جاتی تھیں۔حالانکہ وہ قومی یکجہتی کے حامی تھے اور ان کا مسلک صلح کل تھا،لیکن اس کے باوجود ان کی مقبولیت ،ان کی صلاحتیں اور سرگرمیاں ارباب اقتدار کی نظر میں کھٹکنے لگی تھیں۔چنانچہ 1963ء میں کوئی وجہ بتائے بغیر انہیں ملازمت سے علیحدہ کردیا گیا۔(ان کے ایک ساتھی مدرس قاسم خان عرف نواب،رکن جماعت بھی اسی طرح کی ناانصافی کا شکار ہوئے)یہ دور جناب شاذلی پر بڑا کٹھن گزرا لیکن انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے نا موافق حالات کا مقابلہ جواں مردی سے کیا۔ستم بالائے ستم ہندوپاک جنگ1965ء کے دوران انہیں ڈی۔آئی۔آر کے تحت تین ماہ تک نظر بند رکھا گیا ۔ان کی بڑی صاحبزادی صہبا جمال شاذلی اس وقت کمسن تھیں۔انہوں نے گھر کی ٹوٹی پھوٹی چیزیں کباڑیے کو دے کر پانچ روپے جمع کیے تھے۔اور یہ رقم اسیری کے دور ان اپنے والد کو منی آرڈر کے ذریعے بھیجی تھی۔(ادیبہ و مترجم ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی 1997ء سے اپنی فیملی کے ساتھ نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں سکونت پذیر ہیں)
ملازمت چھین لیے جانے کے بعد م۔خ۔شاذلی نے مختلف چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔Redical Coaching Classes کے نام سے انگریزی کے پرائیوٹ ٹیوشن لیے۔ناندیڑ میں جامعہ اردو علی گڑھ کا مرکز قائم کیا جس کے وہ انچارج تھے۔ اس مرکز کے قیام سے ایسے کئی نوجوانوں کو اپنی علمی استعداد بڑھانے کا موقع ملا جو مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی تعلیم ترک کرچکے تھے۔شاذلی صاحب شب و روز ان طلبا کی علمی رہنمائی میں ہمہ تن مصروف رہا کرتے تھے۔اس کے علاوہ انہوں نے ضرورت مند طلبہ کی امتحانی فیس،ان کے علی گڑھ آمد ورفت کے اخراجات اور وہاں ان کے قیام و طعام کا بند و بست مختلف ذرائع سے کرایا۔ان کے ایک عزیز شاگرد اور بزرگ شاعر منظور احمد ہاشمی اپنی علمی و ادبی صلاحتیوں کو شاذلی صاحب کی خصوصی توجہ کی دین کہتے ہیں۔وحید اللہ عطاؔ اپنی ملازمت کو استاد کی تربیت کا صلہ مانتے ہیں۔
بہر حال ان ناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے شاذلی صاحب نے 1969ء میں مراٹھواڑہ یونیورسٹی اورنگ آباد سے بی۔اے کے امتحان میں یونیورسٹی ٹاپ کیا اور پھر اسی یونیورسٹی سے 1971ء میں ایم۔اے انگریزی کی ڈگری لی۔قندھار ضلع ناندیڑ کے ایم ۔ایل۔اے اور اپوزیشن کسان مزدور پارٹی کے سینیئر لیڈر شری کیشورائو دھونڈگے ان کی قابلیت سے بہت متاثر تھے۔چنانچہ اسی سال انہوں نے شاذلی صاحب کا تقرر اپنی سوسائٹی کے کالج میں انگریزی کے لکچررکی پوسٹ پر کردیا۔جہاں سے 1986 ء میں وہ بحیثیت صدر شعبہ انگریزی وظیفہ حسن خدمت پر سکبدوش ہوئے۔ایک قابل اورمشفق استاد کی حیثیت سے کالج اور سارے علاقے میں ان کی منفرد شناخت تھی۔دوران ملازمت 1975ء میں انہوں نے ایم۔اے (تاریخ) کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے دو مختلف کالجوں میں بحیثیت پرنسپال خدمات انجام دیں۔اپنی انتھک کوششوں کے ذریعے کالج کے تعلیمی معیار کو بلند کیا۔
قندھار ،ضلع ناندیڑ کا ایک چھوٹا ساتاریخی شہر ہے۔جو کسی زمانے میں ملک عنبر کا جنگی مرکز بھی تھا۔یہاں بے شمار بزرگان دین آسودئہ خاک ہیں۔پروفیسر م۔خ۔شاذلی کی علمی سرگرمیوں سے علم و ادب کی نشوونما کے لیے وہاںفضا سازگار ہونے لگی تھی۔قندھار میں قیام کے دوران انہوں نے اس شہر کی تاریخ،وہاں کے بزرگان دین کے حالات زندگی،کتبات،قلعہ قندھار کی تعمیرات اور شہر میں دستیاب ہونے والے قدیم سکّوں پر تحقیقی کام کیا۔مذہبی ،ادبی،اصلاح معاشرہ قومی یکجہتی جیسے موضوعات پر ان کے بے شمار مضامین اردو،انگریزی،ہندی اور مراٹھی کے معیاری رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔چند اہم مضامین یہ ہیں۔سیرت پاک ﷺ کے غیر مسلم مصنفین،اقبال کے کلام میں ہندوستانیت ،ادب کی راہیں،یورپ کے ادبی شہ پاروں کی بنیادیں ،دارالتر جمہ کی ضرورت،انیسویں صدی کا مزاحمتی ادب،اردو مراٹھی کے تہذیبی رشتے ،Communal harmoney through sufis and saints قندھار میں دستیاب مغل دور کے طلائی سکّے وغیرہ۔انہوں نے اپنی کتاب’’تاریخ ہند کا انقلابی کردار شیواجی‘‘ کے ذریعے مراٹھا حکمراںشیواجی سے متعلق پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔نیز اس دور کے حالات اور واقعات کا دیانت داری سے جائزہ لیا۔تاریخ کے معروف اسکالر سیتو مادھو رائو پگڑی نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے۔مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی نے یہ کتاب شائع کی تھی۔اْڑیسہ کے سابق گورنر اور سیکولر ذہن کے تاریخ داں بشمبر ناتھ پانڈے کے ساتھ مل کر انہوں نے ’شیو چرتر‘ انگریزی میں لکھی تھی۔اس کے علاوہ بعض اہم تاریخی مواد اور مہاراشٹرٹیکسٹ بک بیورو کی کچھ نصابی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔National Dictionary of Biogiaphics کے لیے بحیثیتContributory Editor انہوں نے مہاراشٹر کی دس علمی و ادبی شخصیات پر مضامین لکھے ۔ان کے بیسوں Radio talk مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہوئے۔پروفیسر شاذلی زندگی کے ہر لمحے اور حرکت کو مذہب سے الگ نہیں سمجھتے تھے۔انہوں نے تاعمر تعلیمات قرآنی اور سنت رسول ﷺ کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ریا کاری سے انہیں سخت نفرت تھی ۔اصلاح معاشرہ کی ابتدا انہوں نے اپنے گھر سے کی۔چھلّہ،چھٹّی،لین دین ، ہْنڈااور شادیوں وغیرہ میں ہونے والی غیر اسلامی رسمیں اپنے خاندان میں سختی سے بند کرائیں۔شاذلی صاحب سماج کے ہر فرد کی تعلیم پر زور دیتے تھے،وہ تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔انہوں نے محسوس کیا تھا کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے پیش نظر جدید تکنیکی تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے،لیکن اس کا صحیح مصرف انسانیت کی بھلائی ہونا چاہیے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے خاندان والوں اور دوستوں کو لکھے گئے خطوط میں کیا۔
ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے اور تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کتابوں کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ قومی یکجہتی محض سیاسی کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کے لیے عہد وسطی کے حکمرانوں کی حکومت کے سیکولر کردار پر زور دیتے ہوئے تاریخ کو دوبارہ لکھا جانا چاہیے۔
حصول علم اور اسے بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے پھیلانے کا شوق جناب شاذلی کو دیوانگی کی حد تک تھا۔وہ دن رات لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے ۔آخری عمر میں جب وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوگئے تو انہوں نے اپنے علاج کرنے والے گورنمنٹ میڈیکل کالج اورنگ آباد کے ایک پروفیسر سے اس بیماری کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔اس کا لٹریچر جمع کیا اور اس پر کئی مضامین لکھ کر مختلف اخبارات میں چھپوائے ۔ان مضامین کے ترجمے مراٹھی اخبارات میں شائع کروائے۔کینسر پر لکھا گیا ان کا آخری مضمون روزنامہ انقلاب ممبئی میں اس وقت شائع ہوا جب اس مرض نے ان کے ہوش و حواس چھین لیے تھے۔
پروفیسر م۔خ۔شاذلی کئی علمی ،ادبی اور سماجی تنظیموں سے وابستہ رہے مثلاََ Epigraphic Society of India, Institute of Historical Studies Calcutta,Mannar valley Historical Research Institute Khandhar, مہاراشٹر اردو اکادمی،ادارہ ادب اسلامی ہند،انجمن ترقی اردو ہند وغیرہ۔
پروفیسر شاذلی کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے اعتراف میں ان کا مختصر تعارف Who’s Who Asia میں شامل کیا گیا۔اسی طرح 1996ء میں مجلس بلدیہ ناندیڑ نے انہیں’ناندیڑ بھوشن‘ کے اعزاز سے نوازا۔ یہ اعزاز پانے والے وہ ناندیڑ کے پہلے شہری ہیں۔شاذلی صاحب زندگی بھر مختلف مسائل سے دوچار رہے ۔مگر اس کا مقابلہ انہوں نے سچے مومن کی طرح کیا۔اس دوران اپنی صحت اور اپنی مالی حالت بہتر بنانے کا خیال انہیں کبھی نہیں آیا۔اس خوش مزاج انسان اور خوش پوش پروفیسر کو معاشی آسودگی کبھی نصیب نہیں ہوئی۔لیکن ان کے پائے استقلال میں کبھی لرزش نہیں آئی۔انہوں نے اپنی ساری زندگی توکّل ،انتہائی خودداری اور قناعت پسندی میں گزار دی۔ان کے ہشاش بشاش چہرے سے ہمیشہ سکون اور اطمینان جھلکتا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ اس با کردار،نیک ، ہمدرد انسان اور علم کے بحر ذخار نے اقبال کے مصرعے ’خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘کو اپنے عمل سے سچ کر دکھایا۔

 

***

 شاذلی صاحب مذہبی،ملّی،علمی اور ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔خصوصاً جماعت اسلامی ہند ،کل مجلس تعمیر ملت اور ادارہ ادب اسلامی ہند کے پروگراموں میں وہ ایک پرجوش شریک کار بن کر جاتے تھے ۔ مقامی سیاست میں بھی انہیں کسی قدر دلچسپی تھی۔وہ ایک سنجیدہ مقرر تھے۔ان کی تقریریں چاہے مسجد میں ہوں یا کسی دانش گاہ یا عوامی جگہوں پر،دلچسپی سے سنی جاتی تھیں۔حالانکہ وہ قومی یکجہتی کے حامی تھے اور ان کا مسلک صلح کل تھا،لیکن اس کے باوجود ان کی مقبولیت ،ان کی صلاحتیں اور سرگرمیاں ارباب اقتدار کی نظر میں کھٹکنے لگی تھیں۔چنانچہ 1963ء میں کوئی وجہ بتائے بغیر انہیں مالازمت سے علیحدہ کردیا گیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  22 تا 28 مئی  2022