خبر ونظر

پرواز رحمانی

ایک نئے دشمن کی دریافت

مرکزی وزارت داخلہ، محکمہ پولیس اور مرکزی خفیہ ایجنسیوں نے ایک اور دشمن دریافت کرلیا ہے اور وہ ہے پاپولر فرنٹ آف انڈیا۔ اس کا نام تو کئی سال سے سن رہے ہیں۔ ایک دو بار دلی میں اس کے گروپوں کو دیکھا بھی ہے لیکن بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بات کرنے کا موقع اس وقت ملا تھا جب 2012ء سعودی عرب کے میدان عرفات کے ایک ہسپتال میں جہاں طبیعت کی خرابی کی وجہ سے داخل ہونا پڑا تھا۔ ہمارے ساتھ ایک دو مقامی تیمار دار بھی تھے، وہیں تیمار داروں کا ایک گروپ آگیا جو چار پانچ افراد پر مشتمل تھا۔ ہمارے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ لوگ انڈیا سے آئے ہیں اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے کارکن ہیں۔ یہاں حاجیوں کی خدمت کے لیے آئے ہیں۔ وہ کسی قسم کی وردی میں نہیں تھے۔ ان لوگوں سے بات ہوئی تو بتایا کہ ’’انڈیا میں بھی ہمارا کام یہی ہے، کمزوروں اور ضرورت مندوں کی خدمت، مظلوموں کا ساتھ، کمزور اور مظلوم مسلمانوں اور دوسرے طبقات کی دل جوئی کرنا‘‘۔ حج سے واپسی کے بعد فرنٹ کے بارے میں مزید تحقیق کی تو ان باتوں کی تصدیق ہوئی۔ وہ لوگ تشدد اور تخریب کاری کے قائل نہیں ہیں۔ پرامن طریقوں سے اپنا کام کرتے ہیں۔ مگر اب انہیں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے میڈیا میں راکشس بنا کر رکھ دیا ہے جس طرح انڈین مجاہدین کو بتایا تھا جبکہ اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں تھی۔

یہ ان کا مرغوب مشغلہ ہے

اب فرنٹ پر پانچ سال کی پابندی لگادی گئی ہے۔ اس سے قبل گرفتاریوں اور چھاپوں کا طویل سلسلہ چلا۔ سیکڑوں افراد گرفتار کیے گئے۔ کئی ریاستوں میں چھاپے مارے گئے، اس دوران تخریبی میڈیا نے یہ بات غیر مسلم شہریوں کے ذہن میں بٹھانے کی بھر پور کوشش کی کہ مسلمانوں میں ایک تشدد پسند گروپ پیدا ہو گیا ہے جو ملک میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ وزیر داخلہ کو جب یقین ہوگیا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے چاپلوس جھانسے میں آچکے ہیں تو انہوں نے فرنٹ پر پانچ سال کی پابندی لگا دی لیکن سنجیدہ شہری اور اپوزیشن پارٹیاں اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ اس پابندی کی مذمت کرتے ہوئے آر جے ڈی کے لالو پرساد یادو نے کہا ’آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں پر بھی پابندی لگائی جانی چاہیے۔ اور بھی کئی پارٹیوں اور لیڈروں نے اس پابندی کی مذمت کی ہے۔ مختلف ناموں اور مختلف کارروائیوں سے مسلم شہریوں کو ہراساں کرنا موجودہ حکومت کا دلچسپ مشغلہ بن چکا ہے، اس لیے مسلمان خاموش ہیں شاید وہ توقع کر رہے ہیں کہ ملک کے شہریوں سے ہی کوئی گروہ اٹھے گا اور اس ظلم و بے انصافی کے خلاف لڑے گا۔ لیکن فی الحال یہ توقع پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ کچھ پسماندہ اور سماجی مظلوم طبقات ہیں جو سوشل میڈیا میں آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔

ہم اپنا کام کریں

ابھی چند روز قبل سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک مسجد اور مدرسے کا معائنہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ معائنہ سنگھ اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ایما پر کیا گیا تھا جس سے بعض سادہ لوح لوگوں کو خوش فہمی ہو گئی تھی کہ سنگھ کے رویہ میں تبدیلی آرہی ہے لیکن تبدیلی تو اس وقت بھی نہیں آئی تھی جب دلی کے وگیان بھون میں موہن بھاگوت نے لگاتار تین روز بھاشن دیا تھا اور اس میں مسلمانوں کے سلسلے میں بڑی اچھی اور خوش کن باتیں کہی تھیں لیکن اپنے اسی بھاشن کے محض چند روز بعد انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اجودھیا میں رام مندر بنانے کے لیے قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس کے بعد ہی رام مندر کی ہلچل تیز ہو گئی تھی۔ دلفریب باتیں تو کبھی کبھی پرائم منسٹر بھی کرتے ہیں تو کیا کوئی تبدیلی آتی ہے۔ سیدھی بات ہے کہ اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کے لیے سنگھ پریوار کے پاس کوئی شریفانہ طریقہ نہیں ہے۔ اس کا کام کسی نہ کسی کے ساتھ دشمنی کیے بغیر نہیں چل سکتا۔ لہذا مسلمان اپنے بنیادی فریضے یعنی دعوت کا طرف لوٹیں اور شریف و سنجیدہ شہریوں کے ساتھ ربط قائم کریں۔ اسلام کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیاں اور مسلم تاریخ کے خلاف خطرناک پروپیگنڈا ہی دراصل تمام مسائل کی جڑ ہے۔ اسلام اور مسلم تاریخ کے بارے میں جب تک یہ غلط فہمیاں دور نہیں ہوتیں حالات نہیں بدل سکتے۔