خبر ونظر

پرواز رحمانی

کرناٹک میں نیا کھیل
مرکز کے حکمراں حلقوں کی کوشش ہے کہ اپنے اس قدیم ایجنڈے کی تمام دفعات کو جلد سے جلد عملی جامہ پہنادیں جو ان کے پروجوں نے تقریباً سو سال قبل تیار کیا تھا، مرکزی حکومت، مرکزی پارٹی کی ریاستی سرکاریں اور ان کے آزاد حلقے ہر جگہ اور ہر میدان میں سرگرم ہیں۔ کرناٹک سرکار شاید سب سے زیادہ عجلت میں ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ پانچ چھ ماہ میں وہاں سرکار اور حکمراں پارٹی نے کیا کچھ کیا۔ ہر ماہ بلکہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑا جس کا مطلب شہریوں کی مختلف اکائیوں کو باہم دست و گریباں کرنا تھا۔ اب ریاستی سرکار اک نیا کھیل کھیل رہی ہے جو اگرچہ پرانا ہے، 2021میں اسمبلی میں تحریک ہوچکی ہے۔ وہ ہے اینٹی کنورژن یعنی تبدیلی مذہب مخالف قانون کا کھیل۔ اس بل کو کرناٹک پروٹیکشن آف رائٹ ٹو فریڈم آف ریلیجن بل کا نام دیا گیا ہے۔ 2021میں یہ ریاستی اسمبلی کے ایوان زیریں میں منظور ہوگیا تھا ایوان بالا میں حکمراں پارٹی کے ممبروں کی تعداد کم ہونے سے منظور نہیں ہوپا رہا ہے۔ لہذ اب حکومت نے ایک چور راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ اسے آرڈینینس کے ذریعے نافذ کرنا چاہتی ہے۔ 12 مئی کو ریاستی کابینہ نے فیصلے کی منظوری دے دی۔ اس طرح باقاعدہ قانون بنے بغیر ہی اس پر عمل ہوتا رہے گا۔

سوال کیا جاسکتا ہے
سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کرناٹک سرکار کو اس قانون میں اتنی جلدی کیوں ہے۔ اس کی دلچسپی کی وجہ تو معلوم ہے لیکن اس مسئلے نے ایسا کیا رخ اختیار کرلیا ہے کہ وہ اس پر جلد سے جلد عمل کرنا چاہتی ہے ۔ کیا ریاست میں تبدیلی مذہب کے واقعات بڑے پیمانے پر ہورہے ہیں۔ متعدد شہریوں کا جس طبقے کی یہ سرکار نمائندگی کرتی ہے کیا اس کے اندر وبال مچا ہوا ہے۔ کیا لنگایت فرقے کا کوئی گروہ روایتی دھرم چھوڑنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ یا پوری لنگایت کمیونٹی ہی اپنے سابقہ اعلان پر عمل کرنا چاہتی ہے۔ اس جلد بازی کا مقصد ایسی کوئی بڑی بات ہوسکتی تھی مگر کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگرایک فرقے ہی کو ہراساں کرنا مقصود ہے جیسا کہ وقفے وقفے سے ہورہا ہے تو اس کے لیے انہوں نے پہلے ہی راکٹ داغ رکھے ہیں۔ اس شرارت سے انہیں کیا خاص مل جائے گا۔ تبدیلی مذہب کے سرکاری بیان پر اب تک صرف عیسائی رہنماوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور آرڈیننس کے فیصلے کو شر انگیز بتایا ہے۔ پیٹرو شاڈو نے کہا ہے کہ اس آرڈیننس سے شرپسند افراد غلط فائدہ اٹھائیں گے اور شہریوں کے مابین منافرت پیدا کریں گے۔

نوٹس لینا چاہیے
تبدیلی مذہب پر پابندی کا سوال بھارتیہ جنتا پارٹی 1977سے اٹھارہی ہے جب مرکز میں مرار جی دیسائی کی قیادت میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ اگر چہ اس کی یہ کوشش ہمیشہ ناکام ہوتی رہی لیکن موجودہ حکومت نے اس میں ازسر نو جان ڈالی ہے۔ بی جے پی کی کچھ ریاستی سرکاروں نے یہ قانون بنالیا ہے مگر پارٹی مزید آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ تبدیلی مذہب پر پابندی کا قانون ان قوانین میں سے ہے جنہیں شر پسند لوگ بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں اور جن کیبنیاد پر مخالفین کو بڑے پیمانے پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے جواز کے لیے ایک شر انگیز اصطلاح ’لو جہاد‘ کی وضع کی گئی ہے۔ جو لڑکیاں اپنے طور پر کچھ پڑھ کر یا کسی کی تقریر ، ملاقات اور گفتگو سے متاثر ہو کر تبدیلی عقیدہ کا اقدام کرتی ہیں تو اسے لو جہاد کا نتیجہ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ تبدیلی مذہب کے واقعات تقریباً تمام فرقوں میں رونما ہوتے ہیں۔ بعض مقامات پر مسلم لڑکیوں نے بھی یہ اقدام کیا ہے۔ ہندو لڑکیوں کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف ماحول بنانے کے لیے لو جہاد کی ٹرم کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اس شر انگیزی کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  22 تا 28 مئی  2022