اداریہ

مذہبی کٹرپن کے نتائج سری لنکا کا سبق

ہمارا پڑوسی ملک سری لنکا اپنی تاریخ کے شدید ترین بحران سے گزر رہا ہے۔ ملک معاشی طور پر پوری طرح بدحال ہو چکا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قلت کے سبب عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں نتیجے میں وزیر اعظم اور حکومت کے دیگر ذمہ داروں کو اپنی جانیں بچانا مشکل ہو گیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران ملک میں ایک بار پھر شدید فساد بھڑک اٹھا۔ صدر مملکت گوٹابایا راجاپکسے کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے گزشتہ ایک ماہ سے صدر مقام کولمبو میں جو احتجاج جاری تھا اس پر حکومت کے حامیوں نے حملہ کر دیا۔ جواب میں احتجاجیوں نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا، حملہ کرنے والوں کو مار بھگایا۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اور تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں احتجاجیوں نے راجاپکسے کے حامیوں کو شدید زد وکوب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سری لنکا کے جنوبی خطے کے سنہالی اکثریتی علاقوں میں بھڑک اٹھے تشدد کے دوران آٹھ لوگ مارے گئے اور ایک سو سے زائد جائیدادوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا جو زیادہ تر صدر کی پارٹی والوں کی تھیں۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم مہندا راجاپکسے نے استعفیٰ دے دیا اور تامل اکثریتی علاقے میں واقع ایک بحریہ کے کیمپ کو فرار ہو گئے جو تعذیب کا ایک بدنام زمانہ مرکز رہا ہے۔ عوام صدر سے بھی استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ووٹروں کو مذہبی جنونیت میں مدہوش کر کے کلیت پسند راجاپکسے خاندان سری لنکا کے صدر، وزیر اعظم سے لے کر کابینہ اور کاروباری گھرانوں تک پر اپنا قبضہ جمانے اور برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ لیکن عوام اس غنودگی سے کچھ اس شدت سے باہر نکل آئے کہ کل تک مکمل اکثریت سے تخت پر بٹھانے کے بعد آج ان کے اور اہل و عیال ہی نہیں بلکہ ان کے سرمایہ دار دوستوں تک کی جائیدادوں کو آگ کے حوالے کر رہے ہیں۔
دو سال قبل ہی ملک کے اس سب سے مقبول خاندان نے پارلیمانی انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ شاندار کامیابی حاصل کر کے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ 2019 میں صدر نے نمایاں اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر کے ملک میں اپنے خاندان کے اقتدار کو مستحکم کر لیا تھا۔ بعد میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے یہ اقتدار اور بھی طاقتور ہو گیا اور یونائیٹیڈ نیشنل پارٹی ایک سیٹ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ انتخابات میں کامیابی کے لیے راجاپکسے کی پارٹی نے ملک میں اقلیتوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا اور اکثریت کے اندر ان کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ملک میں ترقی و خوشحالی کے دعوے کیے گئے اور سنہالی بدھسٹ برتری کو واپس لانے کا وعدہ کیا گیا، چنانچہ سنہالی عوام کی ایک بڑی اکثریت نے ان کی پارٹی کو ووٹ دیا۔
واضح رہے کہ 2009 میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ہی سے ملک میں بودو بالا سینا نامی ایک تنظیم کے ذریعے مسلم مخالف تحریک شروع کی گئی۔ یہ تنظیم بدھ راہبوں کی قیادت میں کام کرتی رہی ہے جس نے پورے ملک میں بدھ مذہبی کٹر پن کو فروغ دیا اور مسلمانوں کو سماجی طور پر علیحدہ کرنے کی مہم چلائی جس کے نتیجے میں مذہبی و سماجی آہنگی کے لیے مثالی سمجھا جانے والا ملک فرقہ ورانہ تنازعات کا شکار ہوتا گیا۔
2019 میں صدارتی اور 2020 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد راجاپکسے حکومت نے ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا کام شروع کیا اور مختلف اقدامات کے ذریعے تمل مسلم آبادی کی زندگی کو تنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مسلمانوں کی اپنے دینی شعائر سے وابستگی کو ان کی انتہا پسندی قرار دے کر نقاب وغیرہ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ کووڈ وبا کے دوران مرنے والے مسلمانوں کو اپنے مذہبی طریقے کے مطابق دفن کرنے سے روک دیا گیا۔ اسی طرح ایک ملک ایک قانون کی اسکیم کو لاگو کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنا دی گئی کہ وہ اس مہم پر کام کرے۔ راجاپکسے نے سنہالی عوام سے خوشحالی کے نئے دروازوں کو کھولنے کے خوش کن وعدے کیے تھے لیکن اس کے برعکس ان پر غربت اور بدحالی مسلط کر دی۔ الجزیرہ کے ایک معروف تجزیہ نگار کے مطابق سری لنکا کی معاشی پالیسی میں ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھا گیا کہ ملک پر سنہالی و بدھسٹ تسلط کو باقی رکھا جائے اور اسے مزید فروغ دیا جائے۔ ان کی اکثر معاشی پالیسیوں کا ہدف ملک کی معیشت کی بہتری اور تمام شہریوں کی خوشحالی سے زیادہ سنہالی و بدھسٹ نسل کی برتری کو باقی رکھنے پر ہوتا تھا، چنانچہ اس مذہبی کٹرپن نے ملک کے دیگر طبقات کے خلاف منفی جذبات پیدا کیے، سیاسی طبقے نے، اور بالخصوص موجودہ حکمراں جماعت نے انہی منفی جذبات کو انتخابات میں کامیابی کے لیے استعمال کیا۔ لیکن منفی بنیادوں پر کھڑی ہونے والی کوئی بھی سیاسی فکر کبھی مثبت نتائج پیدا نہیں کر سکتی کیوں کہ جو گروہ محض کسی قوم سے نفرت اور اس کے خلاف منفی جذبات کی بنیاد پر حکومت حاصل کرتا ہے تو وہ ہمیشہ اسی فکر میں رہتا ہے کہ یہ صورت حال باقی رہے تاکہ اس کا اقتدار بھی باقی رہے۔ چنانچہ ان عوامل نے ملک کے مقتدر طبقے کو کبھی
اس بات پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ وہ کچھ مثبت پروگرام مرتب کر سکیں، ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ملک کے تمام طبقات اور ان کی صلاحیتوں کے بھر پور استعمال کا موقع فراہم کر سکیں تاکہ وہ سب مل کر ملک کو ترقی کے راستے پر لے جا سکیں۔ مذہبی منافرت ملک میں ہمیشہ بد امنی کو جنم دیتی ہے اور بدامن ملک کبھی بھی معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو سکتا۔ کوئی بھی ملک اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب اس ملک میں امن ہو اور وہاں رہنے والے تمام انسانوں کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال سے ملکی معیشت میں حصہ ادا کرنے کا بھرپور موقع حاصل ہو۔ محض خوشنما دعووں اور دلفریب وعدوں سے لوگوں کو کچھ دنوں تک بہلایا تو جا سکتا ہے لیکن جب اس کے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں تو انہی حکمرانوں کو اپنی جانیں بچا کر اسی طرح بھاگنا پڑتا ہے جس طرح آج سری لنکا میں حکمراں جماعت کے لوگ بھاگ رہے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  22 تا 28 مئی  2022