سری لنکا کا بحران : وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا

جھوٹے وعدوں اور بہلاووں کا غبارہ پھوٹ گیا۔مہندا راج پکشے کا حشر عبرت آموز

ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی

ناقص حکمرانی سے لے کر مسلم دشمنی تک بھارت کی موجودہ حکومت سے حیرت انگیز مماثلتیں
ہندوستان کے رام بھکت اذان کے جواب میں ہنومان چالیسا پڑھنے کا اعلان کر رہے ہیں اور راون کا سری لنکا بغیر ہنومان کے جل رہا ہے۔ وہاں کا راون مہندا راجاپکسے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر روپوش ہو چکا ہے اور یہاں کا حکم راں تیسری بار وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ پوری طرح سے کنگال سری لنکا اور بظاہر خوشحال ہندوستان کے درمیان جہاں بہت کچھ مختلف ہے وہیں کچھ مشابہت بھی ہے مثلاً وہاں برپا خانہ جنگی کی سب سے اہم ذمہ داری آمرانہ مزاج کے حامل سابق وزیر اعظم مہندا راجاپکسے کے سر ہے جو ایک زمانے میں بے حد مقبول ہوا کرتے تھے۔ ہمارے یہاں بھی ایک بے تاج بادشاہ کو اپنی مقبولیت کا بڑا گھمنڈ ہے۔ مہندا راجاپکسے کا چھوٹا بھائی گوٹابا ہنوز فیویکول لگا کر صدارت کی کرسی سے چپکا ہوا ہے۔ وطن عزیز میں وزیر داخلہ کو وزیر اعظم کا نظریاتی برادرِ صغیر سمجھا جاتا ہے۔ وہاں پر راجاپکسے خاندان کے لوگوں نے ملک کے اہم عہدوں پر قبضہ کر رکھا ہے یہاں بھی سنگھ پریوار کے لوگوں کو سرکاری عہدوں پر صلاحیت کے بجائے وفاداری کی بنیاد پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ ورنہ تاریخ کے پروفیسر شکتی کانت داس کو ریزرو بنک کی گورنر شپ سے کیا سروکار؟ ہندوستان میں یتی نرسگھا زہر اگلتا ہے تو سری لنکا میں گالا گوڑا اتھےّ گیان سارا جیسے بودھ سادھووں سے اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی کی خدمت لی جاتی ہے۔ ایسے ہی اقتدار کو ابدی سمجھنے والے مودی جی کے لیے مہندا راجاپکسے کے انجام میں سامانِ عبرت ہے۔ بقول غالب؎
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
سری لنکا میں معاشی بحران سے پیدا ہونے والا عدم اطمینان خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سابق وزیر اعظم مہندا راجاپکسے کا استعفیٰ بھی عوامی غم و غصے کو قابو میں کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ان کا بھائی ہنوز صدر مملکت بنا ہوا ہے اور کسی بھی وقت بھائی بندی میں اپنے رائے دہندگان کا سر کچل سکتا ہے۔ مہندا کے حامیوں نے جب استعفے کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کیا تو ان کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام نے شہر کے باہر سے دارالحکومت آنے والے راجاپکسے کے حامیوں کی کولمبو سے نکلتے ہوئے خوب جم کر پٹائی کی۔ ان کی گاڑیوں کو مختلف مقامات پر نشانہ بنایا گیا اوپر سے پولیس نے بھی ان کی خوب دھنائی کی۔ مظاہرین نے ہمبنٹوٹا میں مہندا راجاپکسے کے آبائی گھر کے ساتھ ان کے بزرگوں یادگاریں بھی نذر آتش کر دیں۔ سابق وزیر جانسن فرنینڈو کو گاڑی سمیت جھیل میں پھینک دیا گیا۔ مظاہرین پر فائرنگ کر کے ایک شخص کو ہلاک اور ایک کو شدید زخمی کرنے والے رکن پارلیمنٹ امارا کیرتھی اتھکورالا نے مبینہ طور پر خود کشی کرلی۔ ان واقعات سے سری لنکا میں برپا کہرام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقتصادی بحران اور خوراک، ایندھن و ادویات کی قلت کی وجہ سے فرقہ پرستی کا نشہ اُڑن چھو ہو چکا ہے۔
صدر گوٹابایا راجاپکسے نے ایک ٹویٹ میں پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی لیکن حزب اختلاف نے وزیر اعظم کی جانب سے شروع کیے گئے تشدد کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے صدر کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ ویسے مظاہرین نے صدر گوٹابایا راجاپکسے کے گھر ميں داخل ہونے کی کوشش بھی کی اور اس کے بعد سے وہ عوامی نظروں سے غائب ہو گئے۔ حکومت کا کام عوام کے مسائل کا تخمینہ لگا کر انہیں حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنا ہے لیکن ہندوستان ہو یا سری لنکا ہر جگہ حکمرانوں کی ساری توجہ انتخابی کامیابی حاصل کر کے اقتدار کو محفوظ رکھنے پر مرکوز رہتی ہے۔ وہ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ان کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ مصنوعی انداز میں عوام کو بہلانے پھسلانے کا فائدہ ایک حد تک تو ہو جاتا ہے مگر بالآخر یہ غبارہ ایک بڑے دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتا ہے۔ سری لنکا میں یہی ہوا، نتیجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم ایک بحری بیڑے میں دب کر بیٹھا ہوا ہے اور عوام اس کو تلاش کرتی پھر رہی ہے۔ مہندا راجاپکسے کے لیے واقعی زمین تنگ ہو چکی ہے۔ بقول شاعر؎
فاصلہ عزت و رسوائی میں والیؔ صاحب
سنتے آئے ہیں کہ بس چند قدم ہوتا ہے
اس بحران کا آغاز کووڈ-19 وبا کے باعث ہوا کیونکہ اس نے سری لنکا کی سیاحتی صنعت کو متاثر کیا اور ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر بھی کم ہونے لگے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے تھا کہ اپنے اخراجات میں کمی کرتی لیکن اس نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے عالمی بازار سے سودی قرض لینا شروع کیا جو آگے چل کر ان کی جان کا جنجال بن گیا۔ ان بدمعاشوں نے قرض پر نہ صرف عیش جاری رکھا بلکہ اس میں بھی چوری کرنے لگے اور بالآخر سود چکانے کے لیے بھی قرض لینے کی نوبت آگئی۔ ایسے میں مجبوراً حکومت کو درآمدات کم کرنا پڑیں اس سے ملک میں ضروریاشیاء کی کمی ہو گئی اور عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا کیونکہ مہنگائی آسمان سے بات کرنے لگی اور ایندھن کی کمی کے باعث بجلی کے کارخانے تک متاثر ہو گئے۔ اس سنگین صورتحال میں ماہرین معیشت کے ساتھ سر جوڑنے کے بجائے مہندا راجاپکسے نے نوٹ بندی کی طرح کیمیاوی کھاد اور کیڑے مار دوائیوں کے بجائے قدرتی کھاد سے کھیتی کرنے کا احمقانہ فرمان جاری کر دیا۔ اس سے گیہوں کی فصل چوپٹ ہو گئی۔ یہ ترکیب یقیناً گائے کے گوبر اور آتم نربھر (خود کفالت) کے مودی منتر کا نتیجہ ہو گی۔
مہندا راجاپکسے نے کل جماعتی حکومت کے قیام کی خاطر اپنا استعفیٰ تو دے دیا لیکن حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نے کسی بھی ایسی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا جس میں راجاپکسے خاندان کے افراد شامل ہوں۔ فی الحال مہندا اور گوٹا بایا راجاپکسے نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ سابق وزیر اعظم مہندا راجاپکسے کو گرفتار کر کے جیل بھیجنے کے پرزور مطالبے کا اثر یہ ہوا کہ سری لنکا کی ایک عدالت نے پارٹی کے 12 دیگر رہنماوں سمیت ان کے ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ کل تک جو پولیس ان کے اشارے پر ناچتی تھی آج گرفتار کرنے کے لیے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ عوام اب مہندا کے چھوٹے بھائی گوٹابایا راجاپکسے کو صدارت کے عہدے سے ہٹا کر جیل بھیجنے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ پانچ مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے رانِل وِکرما سنگھے کے وزیر اعظم بن جانے سے بھی بات نہیں بن پا رہی ہے۔ سرکار کا چاپلوس میڈیا گرگٹ کی مانند رنگ بدل کر مہندا راجاپکسے کے خلاف ہونے والے مظاہرے نشر کر کے اپنی ٹی آر پی بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں اگر تیسری بار وزیر اعظم بننے کاخواب دیکھنے والوں کی نیند اڑ جائے تو حیرت کی بات نہیں۔
وزیر اعظم مودی کے اندھے مقلد چونکہ مہندا راجاپکسے کے بارے میں نہیں جانتے اس لیے سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ملک کے اقتدار پر راجاپکسے خاندان کی گرفت بہت مضبوط رہی ہے۔ مہندا راجاپکسے کئی برسوں سے ملک کی طاقتور ترین شخصیت رہے ہیں۔ ان کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے۔ وہ پہلی مرتبہ 1970 میں رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تو اس وقت نریندر مودی رکن اسمبلی بھی نہیں تھے۔ سن 87 سے 89 تک جاری رہنے والی ایک بائیں بازو کی بغاوت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کر کے مہندا نے اپنی شہرت بڑھائی۔ مودی جی نے ایمرجنسی کی مخالفت کر کے اپنی شناخت بنائی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دوسروں کے ذریعہ انسانی حقوق کی پامالی کا رونا رونے والے ان رہنماوں نے خود اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان اقدار کی دھجیاں اڑائیں۔
سن 1994 میں مہندا راجاپکسے کو صدر چندریکا کماراٹنگا نے وزیرِ محنت مقرر کیا۔ دس برس بعد وہ وزیرِ اعظم بن گئے۔ نریندر مودی بھی وزیر اعلیٰ بننے کے 12 سال بعد وزیر اعظم بنے۔ ایک سال بعد سن 2005 میں مہندا راجاپکسے نے صدارت کا عہدہ بھی حاصل کر لیا اور 2015 تک اس پرفائز رہے۔ سن 2009 میں تقریباً 30 برس پرانی تمل بغاوت کا خاتمہ کرکے وہ قومی ہیرو بن گئے۔ مودی جی کے نام ہنوز ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ رافیل کی مانند مہندا راجاپکسے پر بھی بدعنوانی کے الزام لگے۔ سن 2015 کے صدارتی انتخاب میں مہندا راجاپکسے کو غیر متوقع شکست ہوئی۔ قومی آئین کے مطابق سابق صدر دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا تھا اس لیے چار سال بعد جب اس خاندان کو دوبارہ اقتدار ملا تو بادلِ نخواستہ اس کی باگ ڈور چھوٹے بھائی گوٹابایا کو تھمانی پڑی۔ وہ اس سے قبل وزارتِ دفاع میں ایک سینئر عہدہ پر فائز تھے اور تملوں کی بغاوت سے نمٹنے پر ان کی تعریف کی جاتی تھی لیکن حالیہ خانہ جنگی میں ان کے ہاتھ پاوں پھول رہے ہیں۔
اس کے بعد والے قومی انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے مہندا راجاپکسے خود تو وزیر اعظم بن گئے لیکن ساتھ ہی اپنے بھائی چمل راجاپکسے کو زراعت، ماہی گیری اور آبپاشی سمیت کئی وزارتوں سے نواز دیا۔ ان کے ایک اور بھائی بیزل کو مالیات اور اقتصادی ترقی کے محکمے تھما دیے گئے۔ ان چار بھائیوں کے علاوہ مہندا راجاپکسے کے بڑے بیٹے نمل کو سری لنکا کا وزیرِ کھیل بنا دیا گیا اور چھوٹے فرزند یوشیتھا اپنے والد کے چیف آف سٹاف بن گئے۔ اس طرح سارے اہم اختیارات کو خاندان والوں میں تقسیم کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ساری ناکامی بھی انہیں کے سر آگئی۔ ان معاملات میں کسی غیر کو شریک کیا جاتا تو مشکل کے وقت اس کو بلی کا بکرا بنایا جاسکتا تھا لیکن فی الحال اس کی گنجائش نہیں رہی۔ وطن عزیز میں بھی سارے کام وزیر اعظم کے دفتر سے ہوتے ہیں۔ اب تو لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کون سی وزارت کس کے پاس ہے؟ ایسے میں کامیابی کے ساتھ ناکامی کا سہرا بھی انہیں اپنے سر باندھنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوٹ بندی کے لیے وزیر خزانہ کے بجائے وزیر اعظم کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔
سری لنکا نے پہلے تو چین سے خوب استفادہ کیا لیکن جب چینیوں کو محسوس ہوا کہ یہ جہاز ڈوب رہا ہے تو انہوں نے ہاتھ کھینچ لیے۔ مودی جی نے اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی خاطر سری لنکا کو دو ماہ کے لیے ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ کا وعدہ کیا لیکن وہ مدت بھی تیزی سے گزر گئی۔ ویسے صدر گوٹابایا سے دوسال قبل مئی 2020 میں بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے فون پر بات چیت کرکے یقین دلایا تھا کہ ہندوستان کورونا وبا کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ان کی ہر ممکنہ مدد کرے گا۔ دونوں ممالک نے ہندوستان سے امداد یافتہ ترقیاتی پروجیکٹوں میں تیزی لانے کی ضرورت پر اتفاق کیا تھا اور ہندوستانی نجی شعبے کے ذریعے سری لنکا میں سرمایہ کاری اور ویلیو ایڈیشن کو فروغ دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے سری لنکا کے لوگوں کی اچھی صحت اور خوش حالی کے لیے اپنی نیک خواہشات پیش کی تھیں ۔اس گفتگو کا نہ تو سری لنکا کی عوام کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہندوستانوں کو بلکہ اس سے مودی جی کے یار گوتم اڈانی کے وارے نیارے ہو گئے۔ انہوں نے پہلے تو سری لنکا کی ایک اہم بندرگاہ کا انتظام اور انصرام سنبھالا اور اس کے بعد قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں پر بلا ٹینڈر دو بجلی کے کارخانوں میں سرمایہ کاری کردی۔ اب حالت یہ ہے کہ سری لنکا کے عوام بجلی کو ترس رہے ہیں اور حکومت انہیں بجلی کے بغیر زندگی گزارنے کی ترغیب دے رہی ہے۔
مہندا راجاپکسے نے عرصہ دراز تک اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کی خاطر بدھ بھکشووں کا استعمال کیا۔ پہلے وہ تملوں کے خلاف زہر اگلتے تھے لیکن جب علحیدگی پسندی کا خاتمہ ہو گیا تو اس نفرت انگیزی کا رخ مسلمانوں کی جانب موڑ دیا گیا۔ اپریل 2019 میں عیسائیوں کے تہوار ایسٹر کے موقع پر بم دھماکے ہوئے جس میں تقریباً 270 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس کا الزام شدت پسند دولتِ اسلامیہ کے سر منڈھ دیا گیا۔ یہ بہت اچھا حربہ تھا کیونکہ عیسائیوں پر حملے کے سبب دنیا کے بڑے ممالک سے سری لنکا حکومت کو ہمدردی و حمایت حاصل ہو گئی۔ اس سے ملک کے اندر مسلمانوں کو ہدف بنا کر ان پر ہر طرح کی تعذیب و مظالم کرنے کا گویا لائسنس مل گیا۔ عام لوگوں کو مسلمانوں کے پیچھے لگا کر حکمراں خاندان ملک کا خزانہ لوٹنے میں لگا رہا۔ موجودہ اقتصادی بحران کی دو بنیادی وجوہات میں سے ایک اس خاندان کی نااہلی اور دوسرا خزانے کی لوٹ مار ہے۔ اب سری لنکا کی سڑکوں پر گوٹابا واپس جاو اور لوٹ کا مال واپس لاو کے نعرے لگ رہے ہیں ۔ گوٹایابا راجاپکسے یہ بھول گئے تھے کہ؎
ایک ایک لفظ تمہارا تمہیں معلوم نہیں وقت کے کھردرے کاغذ پر رقم ہوتا ہے
سری لنکا کے صدر گوٹا بایا راجاپکسے نےتین سال قبل انسداد دہشت گردی کے قانون کو نافذ کرتے ہوئے 11 مقامی اور بین الاقوامی تنظمو ں پر پابندی عائد کی ان میں سے ایک بھی سنہالی نہیں تھی بلکہ مسلمانوں پر انتہا پسندانہ رجحانات کا الزام لگا کر ان کی بے ضرر تنظیموں کو بھی نشانہ بنایا گیا تاکہ اکثریتی طبقہ کی منہ بھرائی کی جائے۔ یہ پابندی اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ (داعش) اور القاعدہ جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے علاوہ 9 مقامی گروہوں پر بھی مع بھاری جرمانہ تھی۔ ایسے ظالمانہ قوانین کے تحت کارروائی کی گئی تھی کہ جن میں عدالتی مقدموں کے علی الرغم ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر 20 سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ان تنظیموں کے ارکان اور قائدین کو ماورائے قانون سزا دینے کا فصلہ کیا گیا اور اثاثوں کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ ان حملوں کے دو سال بعد بھی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کسی مجرم کو سزا نہیں دی جا سکی۔
سری لنکا کی حکومت کو جب فعال مسلم تنظیموں پر پابندی سے کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں ہوا تو وہ عام مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئی۔ آناً فاناً ہزار سے زائد اسلامی اسکولوں کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا اور کرناٹک سے قبل سری لنکا میں خواتین کے حجاب پر پابندی عائد کی گئی۔ سری لنکا کے وزیر برائے سلامتی امور نے اس جبرو استبداد کا یہ جواز پیش کیا کہ پہلے ملک میں خواتین کی ایک قلیل تعداد برقع پہنتی تھی تاہم اس رجحان مں واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو کہ خطرناک رجحان ہے۔ پبلک سیکیورٹی کے وزیر رئیر ایڈمرل سراتھ ویراسیکارا نے حجاب کو مذہبی انتہا پسندی کی علامت قرار دے دیا۔ مدارس پر پابندی نئی قومی تعلیمی پالیسی سے جوڑ کر کہا گیا کہ ملک مں ہر کسی کو اسکول کھول کر اپنی مرضی کا نصاب پڑھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عالمی سطح پر ان فیصلوں کی مخالفت اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی بابت دباو سے یہ بزدل گھبرا گئے اور انہوں نے اپنے مؤقف کو تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ برقع پر پابندی ’صرف ایک تجویز‘ ہے۔ اس کے بعد بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مجسموں کی بے حرمتی کر کے کشیدگی پھیلائی گئی۔
کورونا کا عذاب بھی ان بدمعاشوں کا دماغ درست نہیں کر سکا اور وہ اس کا بھی سیاسی فائدہ اٹھانے پر تل گئے۔ ہندوستان میں جس طرح تبلیغی جماعت کے مرکز کو بدنام کیا گیا اور مسلمانوں کے خلاف کورونا جہاد چھیڑ دیا گیا اسی طرح لنکا کی حکومت نے بلا تفریق مذہب و ملت اس وباء میں مرنے والوں کو جلانے کا حکم جاری کر دیا حالانکہ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوا تھا نہ ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایسی کوئی ہدایت کی تھی۔ اس بدترین بحران کے دوران لنکائی مسلمانوں کے درد کا درماں کوئی نہیں تھا کیونکہ سب اپنی اپنی جنگ لڑ رہے تھے۔ آگے چل کر جب کورونا کا زور ٹوٹا اور عالمی برادری کا دباو بڑھا تو سری لنکا کی جاہل حکومت نے مسلمانوں کی لاشوں کو دفن کرنے کی اجازت دی۔ یہ فیصلہ امریکا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید اور احتجاج کے بعد بدلا گیا۔ اس طرح کے بدترین امتیازی سلوک کی دنیا میں کوئی مثال نہیں تھی۔ اس بابت سرکاری ماہر وبائی امراض ڈاکٹر سوگت سماراویرا کی دلیل یہ تھی کہ تدفین سے زیر زمین پانی آلودہ ہو سکتا ہے حالانکہ اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں تھا۔
سری لنکا کے اندر مسلمانوں کے خلاف آخری شوشہ بودھ انتہا پسند رہنما کا یہ الزام تھا کہ مسلمان ڈاکٹر بدھسٹ خواتین کو ماں بننے کی صلاحیت سے محروم کر رہے ہیں اس لیے ان کو سنگسار کر دیا جانا چاہیے۔ اس بے سروپا الزام کے بعد سے سری لنکا میں مسلمان شہریوں کے وجود کو بدھ مت کے شدت پسند پیروکاروں کی جانب سے خطرہ لاحق ہو گیا۔ بدھ مت رہنما ’وراکاگوڈا سری گناناراتھانا تھیرو‘ نے اپنے متبعین کو مسلمانوں پر تشدد کے الزام کو 4 ہزار سے زائد بدھسٹ خواتین کو ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہونے والی خواتین بتایا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اس ظالم نے اپنے پیروکاروں کو مسلمان کے ریستورانوں اور دکانوں کے بائیکاٹ کی ہدایت کرتے ہوئے یہ مضحکہ خیز الزام عائد کیا کہ مسلم ہوٹلوں میں بدھ مت کے ماننے والوں کو ایسا کھانا کھلایا جاتا ہے جس سے بدھسٹ خواتین بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں گی۔ اس طرح کی بے سروپا افواہوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان کھڑا کردیا گیا۔
سری لنکا کی آبادی دو کروڑ ہے ان میں 75 فی صد سنہالی بدھسٹ ہیں۔ تمل ہندوؤں کا تناسب 11 فی صد اور مسلمانوں تقریباً نو فیصد ہیں۔ اس طرح تمل ہندوؤں کے بعد ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ راجاپکسے خاندان نے ‘بودو بالا سناں’ جیسی تنظیموں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم میں مصروف کرکے اپنا سیاسی ہدف حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انتہا پسند بدھسٹ گروہ ہندوستان کے ہندو شدت پسندوں سے مستعار لے کر الزام لگاتے تھے کہ مسلمان سنہالیوں سے زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی تعداد بودھ آبادی سے زیادہ کر سکیں۔ ان کا یہ بھی الزام تھا کہ وہ بودھ مذہب کے لوگوں کو جبراً مسلمان بنا رہے ہیں۔ بی بی ایس ’سنہالا روایا‘ اور ’مہاسن بلایا‘ جیسی تنظیمیں سرکار کی پشت پناہی میں طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر سنہالیوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر کے تشدد کو فروغ دیتی رہیں۔ یہ شر پسندی جاری تھی کہ درمیان میں ملک کے قلاش ہو جانے کی ‘خوشخبری’ آگئی اور سب کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ ان ظالموں نے اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر بے قصور کمزوروں کو ستایا۔ اب قدرت ان سے انتقام لے رہی ہے۔ والی آسی نے کیا خوب کہا ہے؎
وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے
(ڈاکٹر سلیم خان ماحولیاتی سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  22 تا 28 مئی  2022