دنیا دفاع کے نام پر تباہی خرید رہی ہے

ایک دوسرے پر تسلط قائم کرنے کی دوڑ نے امنِ عالم کے لیے خطرہ پیدا کردیا

از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد

دنیا میں تباہ کن ہتھیاروں کی خریداری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، ہر ملک اسی دھن میں ہے کہ اس کے پاس انتہائی ترقی یافتہ ہتھیار ہوں اور اس کے ذریعہ سے وہ اپنے پڑوسی ممالک پر اپنی دھونس جما سکے۔ دنیا بھر میں دفاع کے لیے خرچ ہونے والی رقم کوئی معمولی نہیں ہے، تقریباً دو لاکھ کروڑ ڈالر کی خطیر رقم ہتھیاروں کی خریداری میں خرچ ہوتی ہے اور اس خرچ کو ملک کے دفاع کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسا ہتھیار جس سے صرف اور صرف ملک تباہ ہوتے ہیں، شہر ہو یا گاؤں سب اجڑ جاتے ہیں، کیا جوان کیا بوڑھے، کیا عورتیں کیا بچے یہ تباہی کسی کو نہیں بخشتی ہے، ان ہتھیاروں کی زد میں آنے والا ہر انسان موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے، ان انسانوں کی تباہی سے کوئی دوسرا انسان خوش نہیں ہوتا ہاں شیطانیت ضرور اس پر جشن مناتے ہوئے رقصاں ہوتی ہے۔
اسٹاک ہومس انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر دفاع پر خرچ ہونے والی رقم 2 اعشاریہ 1 کھرب ڈالر ہے یعنی 2 لاکھ 10 ہزار کروڑ ڈالر۔ یہ ادارہ مستقل طور پر دنیا بھر میں دفاع پر ہونے والے خرچ اور دفاعی منصوبوں پر اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے۔ اس ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ 2021 میں پیش کی جس کے مطابق مختلف ممالک تقریباً دو کھرب ڈالر دفاعی منصوبوں پر خرچ کر رہے ہیں، یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے، یہ بہت بڑی بھاری رقم ہے۔ اس میں یہ بات قابل غور ہے کہ ہر ملک اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ ہتھیار خرید سکے، چند ممالک ہیں جو ان ہتھیاروں کو خریدتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیاروں پر خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں سر فہرست امریکہ بہادر ہے۔ دوسرے نمبر پر چین، تیسرے مقام پر حیرت انگیز طور پر ہمارا ملک عزیز بھارت ہے، چوتھے مقام پر برطانیہ اور پانچواں مقام روس کا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ مذکورہ پہلے دو ممالک یعنی امریکہ اور چین کا خرچ سب سے زیادہ ہے، تقریباً 52 فیصد حصہ ان ہی دونوں کا ہے۔ اس مطلب یہ ہوا کہ جو رقم خرچ کی جارہی ہے اس میں سے آدھے سے بھی زیادہ ان دو ممالک نے اپنے دفاع کے لیے خرچ کیے ہیں۔ یہ ممالک دنیا پر اپنی برتری حاصل کرنے اور اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے تباہی کا سامان خرید رہے ہیں، جبکہ یہ دو ممالک معاشی میدان میں بھی ایک دوسرے سے مسابقت کر رہے ہیں، ان یہ مسابقت اگر مثبت ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا، لیکن ان کی یہ مسابقت ایک دوسرے کو برباد کرنے کے لیے ہو رہی ہے، یہ ایک دوسرے کے پر کاٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اس طرح کی مسابقت سیاسی طور پر جاری ہے، یہ دوسرے ممالک پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں، سوپر پاور بننا چاہتے ہیں، چھوٹے اور غریب ممالک کو اپنے دام فریب میں پھنساتے ییں۔ پھر اسی طرح ان کی یہی مسابقت مہلک ترین ہتھیاروں کی تیاری میں بھی جاری ہے، جس طرح سابق میں سرد جنگ کے دور میں امریکہ و روس ایک دوسرے سے مسابقت کیا کرتے تھے بالکل اسی طرح اب امریکہ اور چین میں یہ مسابقت جاری ہے، اس وقت بھی جنگی ہتھیاروں کی خریداری، دفاع کے نام پر نئے نئے ہتھیاروں کی تیاری پھر ان ہتھیاروں کا استعمال، یہی سب کچھ ہوتا تھا، بالکل اسی طرح آج ان دو ممالک میں یہ مسابقت جاری ہے۔
ہمارا ملک بھارت بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا ہے، 2012 کے بعد سے ہمارے ملک نے بھی دفاعی شعبے پر زیادہ خرچ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی توجیہ وہ یہ کرتا کہ وہ دو بڑے دشمن ممالک سے گھرا ہوا ہے ایک طرف چین ہے تو دوسری طرف اس کا ابدی دشمن پاکستان ہے، ان دونوں ممالک سے ہماری سرحدوں کے بہت سے تنازعات ہیں، تقریباً ہر روز ان سرحدوں پر کوئی نہ کوئی کارروائی ہوتی ہی رہتی ہے، خاص طور چین اس وقت فوجی طاقت کے اعتبار سے ابھر رہا ہے، وہ اپنی فوجی قوت کو بڑھا رہا یے، نئے نئے اور مہلک ہتھیاروں کی تیاری کر رہا یے، اس سے ہماری سرحدوں کو خطرہ لاحق ہے، ایسی صورت میں ہمیں بھی اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جدید ترین ہتھیاروں کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک بھی ہتھیاروں کی خریداری میں سبقت لے جانا چاہتا ہے۔
اسٹاک ہومس انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ہمارے ملک نے 2012 سے اب تک اپنے دفاعی اخراجات میں 32فیصد کا اضافہ کیا ہے، ہم فرانس، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور روس جیسے ہتھیار بنانے والے ممالک سے بھاری مقدار میں جنگی سامان خرید رہے ہیں۔ 2021 میں ہمارے ملک نے دفاعی شعبے اور فوج پر 76 اعشاریہ 6 بلین ڈالر یعنی 7 ہزار 6 سو 60 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں، جبکہ روس نے 65 اعشاریہ 9 بلین ڈالریعنی 6 ہزار 5 سو 90 کروڑ ڈالر ہی خرچ کیے ہیں۔ روس جیسے ملک سے بھی ہم زیادہ خرچ کر رہے ہیں، سال 2012 سے ہم اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتے چلے آ رہے ہیں، روس چونکہ پہلے سے اس شعبے میں خرچ کر رہا ہے اس لیے اس کا خرچ کم نظر آ رہا ہے۔ ایک قابل غور بات یہ ہے کہ جب سے کریمیا نے روس میں ضم ہونے کا ارادہ کیا تو یوکرین نے اپنے دفاعی بجٹ میں 74 فیصد کا اضافہ شروع کر دیا یعنی 2014 سے یوکرین مسلسل اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتا چلا آ رہا ہے، یہی وجہ سے کہ یوکرین روس جیسے طاقتور ملک کے سامنے تقریباً دو ماہ سے ڈٹا ہوا ہے، بڑے بڑے طاقتور ممالک اسے ہتھیار فروخت کر رہے ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر دنیا ان مہلک ہتھیاروں کی خریداری پر اپنا پیسہ خرچ نہ کرتی، وہ ہتھیار جو صرف دنیا میں تباہی و بربادی کے موجب بنتے ہیں جو کسی صورت انسانیت کے لیے فائدہ مند نہیں بن سکتے، تو یہ رقم بچ جاتی۔ سوچیے کہ اگر اس رقم کا آدھا حصہ بھی غربت کے خاتمے کے لیے خرچ ہوتا تو آج دنیا میں کوئی غریب نہ ہوتا۔ دنیا کے وہ ممالک جو قحط سالی کا شکار ہیں، جہاں کی عورتیں و بچے دانے دانے کے محتاج ہیں، ان پر خرچ کیا جاتا تو وہ قحط سالی کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہتے۔ دنیا میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، یہ پیسہ جو انسانوں کی ہلاکتوں کا سامان خریدنے کے لیے خرچ کیا جا رہا ہے وہ اگر ان علاقوں میں پینے کا پانی مہیا کرنے کے لیے استعمال ہوتا تو کیا ہی بہتر ہوتا، اگر یہی رقم تعلیم پر خرچ ہوتی تو آج دنیا میں کوئی ان پڑھ و جاہل نہ ہوتا۔ اگر یہ رقم صحت کے شعبے میں خرچ کی جاتی اور ہر ملک کے باشندے کو اچھی طبی سہولیات فراہم کرنے پر خرچ ہوتی تو لاکھوں لوگ طرح طرح کی بیماریوں سے نہ مرتے۔ خاص طور پر ہمارے ملک کو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ وہ کیوں اس قدر دفاع پر خرچ کر رہا ہے، جبکہ ملک کی ایک بڑی آبادی غربت کا شکار ہے، اس ملک کی نصف سے زیادہ آبادی تک طبی سہولتیں نہیں پہنچ پا رہی ہیں، آج بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کے لوگوں کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں، نہ ان کے پاس بجلی پہنچتی ہے اور نہ ہی کوئی دوائی، نصف سے زیادہ آبادی کے پاس رہنے کے لیے گھر تک نہیں ہے، یہاں کے بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، اسکول ہیں بھی تو خستہ حال، ملک میں بھکمری کی صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، پیٹ میں کھانا نہیں لیکن ہتھیار خریدے جا رہے ہیں، اپنے دفاع کے لیے جو ضرورت ہو، جن چیزوں کی ضرورت ہے بے شک انہیں خریدنا چاہیے لیکن گھر کے اندر کی حالت بھی دیکھی جانی چاہیے، لیکن نہیں! یہاں سبقت اس بات پر جا رہی ہے کہ کون کتنے تباہ کن ہتھیار اپنے پاس رکھتا ہے، کس کے پاس انسانوں کی آبادیوں کی آبادیاں آن کی آن میں ملیامیٹ کر دینے والے ہتھیار موجود ہیں۔ ایک ملک دوسرے ملک پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ ایک دوسرے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں، اسی ایک دوسرے پر تسلط قائم کرنے کی دوڑ نے دنیا کے امن و چین کو غارت کر رکھا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب انہی تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال سے یہ دنیا ختم ہو جائے گی اور افسوس سے ہاتھ ملنے کے لیے بھی کوئی زندہ نہ بچے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  22 تا 28 مئی  2022