دلت بندھو اسکیم یا سیاسی حربہ؟

سماجی نابرابری کے خاتمہ کو ہدف بنانے کی ضرورت

زعیم الدین احمد حیدرآباد

 

ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ المعروف کے سی آر نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کی حکومت دلت ’’بندھو‘‘ اسکیم کے لیے اسّی ہزار کروڑ سے ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے جارہی ہے تاکہ جس کے ذریعے سے دلتوں کی مدد کی جاسکے اور ان کو با اختیار بنایا جاسکے۔ملک بھر میں کسی بھی ریاستی حکومت کی جانب سے چلائے جانے والی فلاحی اسکیمات میں یہ سب سے بڑی اسکیم ہے جس سے دلتوں کو براہ راست رقم کی منتقلی ہوتی ہے۔
اس اسکیم کو کے سی آر سب سے پہلے حضور آباد اسمبلی حلقہ میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ حضور آباد وہ اسمبلی حلقہ ہے جہاں کچھ دنوں بعد ضمنی انتخاب ہونے والا ہے۔ اس اسکیم پر حزب اختلاف کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے اور کہا جارہا ہے یہ ایک انتخابی حربہ ہے جس کے ذریعہ کے سی آر پچھڑی ذاتوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی تنقیدوں کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کے سی آرنے اپنی پارٹی کے ایک پروگرام میں سوال کیا کہ ’’سیاسی طور پر کسی فلاحی اسکیم کے عمل درآمد سے فائدہ اٹھانا کیا غلط بات ہے؟ دلت بندھو صرف اسکیم یا ایک پروگرام ہی نہیں ہوگا بلکہ ایک ایسی تحریک ہوگی جس کو ریاستی حکومت ملک گیر سطح پرعمل درآمد کرنے کے لیے مرکزی حکومت کے تال میل سے نافذ کرے گی‘‘۔
دلت بندھو اسکیم آخر ہے کیا؟
دلت بندھو تلنگانہ حکومت کی ایک ایسی اسکیم ہے جسے وہ اسکیم نہیں بلکہ سماجی انقلاب کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت دلت خاندانوں کو بااختیار بنانے کے لیے دس لاکھ روپے فی خاندان کو راست طور پر رقم پہنچائی جائے گی تاکہ جس کے ذریعے وہ اپنے کاروبار کر سکیں ان کے اندر کاروباری صلاحیت پیدا ہو۔ یہ اسکیم اگر نافذ ہوجاتی ہے تو یہ ملک کی سب سے بڑی نقد منتقلی کی اسکیم بن جائے گی۔
دلتوں کو با اختیار بنانے کے اس پروگرام کا اعلان اسی سال کے شروع میں ریاستی بجٹ کے موقع پر کیا گیا تھا۔ پچیس جون کو چیف منسٹر نے اسکیم سے متعلق تبادلہ خیال کے لیے کچھ منتخب دلت نمائندوں اور رہنماؤں کا ایک کل جماعتی اجلاس منعقد کیا تھا۔ اس میٹنگ کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ریاست کے 119 اسمبلی حلقوں سے گیارہ ہزار نو سو دلت خاندانوں میں فی کس دس لاکھ روپے کی نقد منتقلی کے لیے منتخب کیا جائے گا اس رقم کی منتقلی میں کسی بھی قسم کی ضمانت کی ضرورت نہیں ہوگی اور یہ کسی بینک گارنٹی کے بغیر جاری کی جائے گی ۔ ابتدائی طور پر اس اسکیم کے تحت بارہ سو کروڑ روپے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
دن بھر چلنے والے اس کل جماعتی اجلاس میں تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کے دلت نمائندے موجود تھے سوائے بی جے پی کے۔ بی جے پی نے ٹی آر ایس حکومت پر اسکیم کے نام پر دلتوں کو دھوکا دینے کا الزام لگاتے ہوئے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر واضح کیا کہ اس اسکیم کے لیے مختص رقم ایس سی سب پلان کے لیے مختص کردہ رقم سے زیادہ ہوگی۔
دلت انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے کئی شعبوں میں دلتوں کے لیے تحفظات کا نظام بھی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جیسے دواخانے یعنی میڈیکل شاپس، کھاد کی دکانیں اور رائس ملوں وغیرہ کے لائسنس جاری کرنے میں تحفظات فراہم کرے گی۔
اس اسکیم کے تحت وہ کوئی بھی کاروبار شروع کرسکتے ہیں جیسے پولٹری فارم مرغی پالن ، ڈیری فارم مویشی پالن، تیل کے گھانے، اسٹیل پلانٹ سمنٹ فیکٹری، اینٹوں کا بھٹا، فرنیچر کی دکانیں ، کپڑوں کے مل یا دوکان، موبائل فون کی دکانیں، صبح ناشتہ کے مراکز اور ہوٹلس وغیرہ۔
اس مالیاتی مدد کے علاوہ حکومت کسی بھی مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لیے مستقل طور پر ایک دلت سیکیورٹی فنڈ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دینے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ اس فنڈ کا انتظام متعلقہ ضلع کلکٹر کو دیا جائے گا اور اس کمیٹی میں کلکٹر کے علاوہ استفادہ کنندہ گان بھی ہوں گے۔ استفادہ کنندہ کی طرف سے اس میں معمولی رقم اس میں جمع کی جائے گی اسے ایک شناختی کارڈ بھی دیا جائے گا جس میں ایک الیکٹرانک چپ بھی نصب ہو گی تاکہ حکومت اس اسکیم کی پیشرفت پر نظر رکھے سکے۔
کانگریس پارٹی نے اس اسکیم کو ایک سیاسی شعبدہ بازی سے تعبیر کیا اور کہا کہ کے سی آر کی نظر دلت ووٹوں پر ہے۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے دلت بندھو اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ یہ محض سیاسی حربہ ہے اور ذات پات، سیاسی جوڑ توڑ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی نے اس اسکیم کے پس پشت مقاصد اور نیت پر سوال اٹھایا ہے۔ حکومت دلتوں کے تحفظ اور ان کو با اختیار بنانے کے لیے قانون سازی کرنے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے اور دلتوں سے متعلق دیگر اسکیموں کو نافذ کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔
کانگریس پارٹی کے رہنما داسوجو سراوان نے انڈین ایکسپریس ڈاٹ کام کو بتاتے ہوئے کہا کہ ٹی آر ایس حکومت ایس سی، ایس ٹی سب پلان ایکٹ کے تحت مختص رقم کو خرچ کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ گزشتہ سات سالوں میں ایس سی فینانس کارپوریشن میں موصول شدہ نو لاکھ درخواستوں میں سے ایک لاکھ درخواستوں کو بھی منظورنہیں کیا گیا۔ حکومت کی مشہور ومعروف اسکیم جس کے تحت تین ایکڑ اراضی سے نو لاکھ دلتوں کو محروم کیا گیا۔ سرکاری شعبوں میں ملازمت کی آسامیوں کو پُر نہیں کیا جاسکا، حکومت ملازمتیں دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور ایس سی / ایس ٹی مظالم سے بچاؤ کے ایکٹ کو بھی نافذ نہیں کیا جاسکا ہے۔
وزیر اعلیٰ کے سی آر وعدہ کرنے اور اسے وفا نہ کرنے میں پی ایم مودی سے بھی دو قدم آگے ثابت ہوئےہیں۔ انتخابات میں وہ بھی مودی جی کی طرح وعدے توبہت کرتے ہیں لیکن انتخابات کے بعد بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو وہ پہلا وزیر اعلیٰ کسی دلت کو ہی بنائیں گے لیکن وہ وعدہ، وعدہ ہی رہا وفا نہ ہو سکا۔ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت بننے کے محض چار ماہ کے اندر اندر وہ اقلیتوں کے لیے بارہ فیصد تحفظات کا قانون بنائیں گے اور اسے نافذ کریں گے، انہوں نے اپنے انتخابی جلسے میں ببانگ دہل کہا تھا کہ یہ کے سی آر کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ وفا کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن سات سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ اپنے کیے وعدے کو پورا نہیں کر سکے۔
سوال یہ ہے کہ ان اسکیموں سے کیا حقیقت میں دلتوں کا بھلا ہوگا؟ کیا واقعی ان کے غربت ختم ہو جائے گی اور ان سب سے بڑھ کیا ان کی سماجی حیثیت میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ کیا ان کو سماج وہ مقام مل جائے گا جو کسی نام نہاد بڑی ذات والے حاصل ہے ؟ محض چند اسکیموں سے جو سیاسی مفاد کے لیے بنائی گئی ہوں، دلتوں کے سماجی استحصال کا رک جانا ممکن نہیں ہے
آج بھی ہندوستان بھر میں دلتوں اور درج فہرست طبقات کے علاوہ مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ ان کا نہ کوئی سیاسی وزن ہے اور نہ ہی یہ معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ ان کا ہر سطح پر استحصال کیا جاتا ہے۔
اگر کے سی آر حقیقت میں ان کو معاشی طور پر ترقی دینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ان طبقات کو سماجی نا برابری کے فتنے سے اوپر اٹھانا چاہیے، ذات پات کے تعفن زدہ نظام کو ختم کرنا چاہیے۔ ہر سطح پر ان کو برابر کے موقع فراہم کرنا چاہیے تب ہی یہ معاشی اور سماجی طور پر ترقی کرسکیں گے۔***
***

آج بھی ہندوستان بھر میں دلتوں اور درج فہرست طبقات کے علاوہ مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ ان کا نہ کوئی سیاسی وزن ہے اور نہ ہی یہ معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ ان کا ہر سطح پر استحصال کیا جاتا ہے۔
اگر کے سی آر حقیقت میں ان کو معاشی طور پر ترقی دینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ان طبقات کو سماجی نا برابری کے فتنے سے اوپر اٹھانا چاہیے، ذات پات کے تعفن زدہ نظام کو ختم کرنا چاہیے۔ ہر سطح پر ان کو برابر کے موقع فراہم کرنا چاہیے تب ہی یہ معاشی اور سماجی طور پر ترقی کرسکیں گے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14  اگست 2021