بجلی کی مصیبت اور ہماری معیشت

حکومت کی عدم توجہی سے بحران میں مزید اضافہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ہمارے ملک میں دراصل بجلی کوئلہ جلا کر ہی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ کوئلہ بذریعہ ریل اور سڑک سے پاور پلانٹس تک پہنچایا جاتا ہے۔ ملک میں کوئلہ کی طلب تقریباً ایک ارب ٹن ہے اور اندازہ ہے کہ 2030تک اس کی مقدار دیڑھ ارب ٹن بھی ہوسکتی ہے۔ سرکاری کمپنی کول انڈیا لمیٹیڈ نے 2021-22میں 6کروڑ 22لاکھ ٹن کوئلہ کی پیداوار کی تھی اور اس کے پاس پہلے کا ذخیرہ بھی تھا۔ ملک میں نجی کانیں بھی کوئلہ پیدا کرتی ہیں۔ کچھ کانوں کے کوئلے کا استعمال اسٹیل اور المونیم کی پیداوار میں بھی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ملک کو 20کروڑ ملین ٹن سے زائد درآمداتی کوئلے پر بھی منحصر رہنا پڑتا ہے۔ جسے آسٹریلیا انڈونیشیا اور جنوبی افریقی ممالک سے منگوایا جاتا ہے اس کے بعد ہی کوئلہ کے فقدان کی وجہ سے برقی بحران (Electricity crisis) ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں برقی توانائی کے متبادل کے طور پر شمسی توانائی کی پیداوار پر زوردیا جارہا ہے۔ شمسی توانائی کی موجودہ صلاحیت متعینہ ہدف سے بہت زیادہ ہے لیکن حقیقی پیداوار ضرورت سے بہت ہی کم ہے کیونکہ رات کو سورج ڈوب جاتا ہے۔ ہمارے یہاں رات میں بجلی کے ذخیرہ کی کوئی ٹکنالوجی موجود نہیں ہے۔ اس لیے بیٹری سے ذخیرہ اندوزی کی ضرورت ہوگی جو کافی مہنگی ہے۔ دوسری طرف ہائیڈروجن بیسڈ ایندھن بیٹری پر ریلائنس کمپنی سرمایہ لگانے جارہی ہے جب تک یہ سب متبادل حقیقی نہیں ہوتے بھارت کو کوئلہ پاور پلانٹس پر ہی منحصر رہنا پڑے گا اور اسی طرح کے بحران کا برابر سامنا کرنا ہوگا۔ گزشتہ اکتوبر میں تقریباً 1.2ارب یونٹس بجلی کی کمی ہوئی تھی جبکہ 11560ارب یونٹس بجلی پیدا ہوئی تھی 2022کے آخری ہفتہ تک توانائی کی کمی دو ارب یونٹس سے بھی زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں میں شدید گرمی پڑرہی ہے۔ کہیں تو درجہ حرارت 45ڈگری تک پہنچ گیا ہے۔ یومیہ طلب 280گیگا واٹ سے زائد ہوگئی ہے۔ ایسی صورتحال دو سے تین ماہ رہ سکتی ہے۔ کوئلے کی کمی کا حال یہ ہے کہ پلانٹس کا ذخیرہ خطرناک حد تک کم ہے۔ گھریلو اور برآمداتی کوئلوں پر منحصر پلانٹس میں محض 7 دنوں کا ذخیرہ ہی بچا ہے۔ اس کی تلافی کے لیے ریلوے بھی مسافر ریلویز کو رد کرکے پلانٹس کو ایمرجنسی سہولیات فراہم کررہا ہے۔ برقی بحران کا یہی حال رہا اور بجلی کمی 2.5ارب یونٹس سے زیادہ ہوگئی تو ملک کے مختلف حصوں میں بجلی کی کٹوتی (لوڈ شیڈنگ) لازمی ہوجائے گی۔ ایسے مصائب کو چھوٹے شہروں اور گاووں کو زیادہ بھگتنا پڑے گا۔ دوسری طرف یوکرین جنگ کی وجہ سے آسٹریلیا نے کوئلہ کی قیمت 100ڈالر فی ٹن سے بڑھا کر 440ڈالر فی ٹن کردی ہے کیونکہ آسٹریلیا و دیگر یورپی ممالک میں روس سے گیس سپلائی معطل ہونے سے وہاں coal based energy کا استعمال ہونے لگا ہے۔ ادھر بھارت میں بھی کوئلہ مہنگا ہوا ہے جو ہمارے لیے بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ فی الوقت موسم گرما شروع ہونے سے قبل ہی ملک بجلی کی قلت سے دوچار ہے۔ کم از کم پانچ ریاستیں آندھراپردیش، اترپردیش، مہاراشٹر، راجستھان اور ہریانہ میں بجلی کی قلت اس شدید ترین گرمی میں مصیبت بنتی جارہی ہے کیونکہ کوئلہ کی قلت بہت زیادہ ہی ہے۔ حکومت کی عدم توجہی اور لاپروائی نے اس مصیبت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ڈاٹا کے مطابق 1.88بلین یونٹ الکٹرسٹی کی کمی کا اندیشہ ہے۔ برقی توانائی کا فقدان ملک میں چھ سالوں میں سب سے زیادہ ہے کیونکہ کوئلہ کا ذخیرہ ،پلانٹس کو کار کرد رکھنے کے لیے خطرناک حد تک کم ہے۔ اسی وجہ سے 173پاور پلانٹس میں سے محض 106کو ہی چلایا جارہا ہے جس سے چھوٹی صنعتیں بالکل ہی بیٹھ جائیں گی جو کورونا وبا کے بعد کسی طرح پٹری پر لوٹ رہی تھیں۔ نتیجتاً حکومت کے لیے بے روزگاری مزید بڑا چیلنج ہوگا۔ ویسے بھی سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ) کے ڈاٹا کے مطابق اپریل میں محنت کشوں کے عدم شراکت سے بے روزگاری کافی بڑھی ہے۔ مودی حکومت کا بڑا انوکھا طریقہ ہے کہ وہ مرض کے فوری علاج کے بجائے اس کی تشخیص پر وقت صرف کررہی ہے۔ اس لیےمرکزی حکومت نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ریاستوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر کوئلہ کی درآمد پر توجہ دیں۔ جس سے ریاستوں پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ دوسری طرف مرکز کے اس سیاہ کارنامے پر اپوزیشن کی آواز انتہائی کمزور ہے وہ صرف صرف مہنگائی مہنگائی چلارہی ہے جو بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مودی جی کو فوراً ہی اس مسئلہ کا حل نکالنا ہوگا تاکہ عوام اس مصیبت سے نجات پاسکے۔
اب جبکہ بھارتی معیشت پٹری پر لوٹنے کے لیے پر تول رہی تھی بجلی کی قلت بھارتی صنعتوں کو خصوصاً اسمال انڈسٹریز کو کافی نقصان پہنچارہی ہے۔ بجلی بروقت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے ان کی پیداوار کافی متاثر ہورہی ہے ۔ عموماً ہماری صنعتوں کو خام کوئلے کی ضرورت ہوتی ہے جسے حاصل کرنا مشکل ہورہا ہے۔ نتیجتاً ایسی صنعتوں میں کام کرنے والی محنت کشوں کی بڑی تعداد میں چھٹائی بھی ہوسکتی ہے۔ اسپاٹ مارکٹ / حاضر بازار میں بجلی کی اونچی نرخ۔ بجلی کی قلت کی ایک مشکل اور بھی ہے کہ جب بجلی کی طرف اپنی چوٹی پر پہنچتی ہے تو اسپاٹ بازار اور بجلی کی قیمت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ ایسے میں ریاستوں کے سامنے پریشانیاں بہت بڑھ جاتی ہے تو ان کے پاس دو ہی متبادل بچتے ہیں یا تو بجلی کی کٹوتی عوام پر تھوپے یا اونچی قیمت پر بجلی خرید کر اس کمی کی تلافی کرے۔ کچھ ریاستیں اس وقت 12سے 20روپے فی یونٹ بجلی خریدنے پر مجبور ہورہی ہیں جس سے ریاستوں کو کافی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے جبکہ چند کاروباری خوب منافع کمارہے ہیں۔ اس لوٹ کھسوٹ کے مد نظر سنٹرل الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن نے بجلی اکسچینج پر 12روپے فی یونٹ سے زیادہ کی شرح سے بجلی فروخت پر پابندی لگادی ہے جس کے تحت اب پاور ایکسچینج پر 12روپے فی یونٹ سے زیادہ کی شرح پر کوئی بھی جنریٹر ڈپڈاہیڈ مارکٹ (DAM) اور رئیل ٹائم مارکٹ (RTM) اور ٹرم آہیڈ مارکیٹ (TAM) پر بجلی فروخت نہیں کرسکے گا۔ اس پابندی کے باوجود پاور ایکسچینج کے ٹرم آہیڈ مارکیٹ (TAM) کے تحت بجلی 13روپے فی یونٹ سے 17روپے فی یونٹ تک فروخت کی جارہی تھی۔ مرکزی توانائی سکریٹری نے ایسی کمپنیوں کے خلاف سخت اقدام کرنے کا یقین دلایا ہے۔ فی الوقت 400گیگا واٹ کی صلاحیت ہوتے ہوئے بھی اس کے نصف طلب کو پورا کرنا ممکن نہیں ہو پارہا ہے۔ جس پر بجلی مہیا کرنے کی ذمہ داری ہے ان کے پاس بجلی پیداوار کی کمی ہی صلاحیت ہے۔ ہمارا ملک 135کروڑ آبادی کی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے والے کوئلہ پر انحصار کیسے کم کرے؟ کیونکہ کوئلہ توانائی پر انحصار زمین کی حدت بڑھانے کا باعث ہے جو بہت ہی تشویشناک ہے مگر ہمارے پاس کوئلہ کا کوئی موثر متبادل فی الوقت موجود نہیں ہے۔ اس لیے طویل مدتی حل کے لیے بھارت کو کوئلہ اور شفاف توانائی کے مخلوط پالیسی کو اختیار کرنا ہوگا۔ چند ترقی یافتہ ممالک اٹامک انرجی کو متبادل کے طورپر کام میں لگارہے ہیں اس لیے ہماری حکومت کو اٹامک انرجی کو متبادل کے طور پر کام میں لگانے پر غور کرنا چاہیے مگر ہمارا المیہ ہے کہ تیل، گیس اور دیگراشیا کی بڑھی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی آسمان چھورہی ہے اور مالیاتی خسارہ بھی تشویشناک حالت میں ہے۔ اس پر کوئلہ کی کمی کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہونے کا اندیشہ برقرار ہے۔ اسی کے مد نظر مرکزی کول انڈیا لمیٹیڈ کے ساتھ کوئلہ کی پیداوار بڑھانے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے۔ بھارت کے اندر موجودہ بجلی کی مصبیت سے نکلنے کی فوری صلاحیت ضرور موجود ہے مگر ملک کی بڑھتی توانائی کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے طویل مدتی متبادل پر سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں درآمداتی کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی صلاحیت 17600گیگا واٹ ہے لیکن مشکل سے 9تا 10ہزار گیگا واٹ پلاٹس ہی چل پارہے ہیں۔ ملک بھر میں بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کے مد نظر حکومت نے جمعہ کو ایک ایمرجنسی قانون بھی نافذ کیا ہے مرکز نے غیر ملکی کوئلے سے چلنے والے کچھ بند پاور پلانٹس کو پھر سے پروڈکشن شروع کرنے کا حکم دیا ہے اس کے بعد کوئلہ کی اضافی بین الاقوامی قیمتوں کی وجہ سے بند پاور پلانٹس بھی بجلی پیدا کرپائیں گے۔ مرکزی حکومت کے مطابق ملک میں بجلی طلب میں 2.0فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

 

***

 مودی حکومت کا بڑا انوکھا طریقہ ہے کہ وہ مرض کے فوری علاج کے بجائے اس کی تشخیص پر وقت صرف کررہی ہے۔ اس لیےمرکزی حکومت نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ریاستوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر کوئلہ کی درآمد پر توجہ دیں۔ جس سے ریاستوں پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ دوسری طرف مرکز کے اس سیاہ کارنامے پر اپوزیشن کی آواز انتہائی کمزور ہے وہ صرف صرف مہنگائی مہنگائی چلارہی ہے جو بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  22 تا 28 مئی  2022