سپریم کورٹ کا فیصلہ خاندانی نظام کا بیڑا غرق کرے گا

مذہبی واخلاقی اقدار پر قائم بھارتی سماج کو جنسی بے راہ روی سے بچانے کی ضرورت

تحریر: ڈاکٹر جاوید جمیل
ترجمہ: سلیم الہندیؔ (حیدرآباد)

بھارت میں رہنے والے لوگ مغربی ممالک میں بسنے والے لوگوں سے کہیں زیادہ مذہب پرست ہوتے ہیں جو آج بھی منظم، پرامن اور مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ان خاندانوں پر سپریم کورٹ نے ایک ایسا غیر دانشمندانہ فیصلہ صادر کیا ہے جو معقول مذہبی اقدار پر صدیوں سے قائم، بہترین خاندانی نظام کا بیڑا غرق کر دے گا۔ سپریم کورٹ کے اسقاط حمل کے ایک مقدمے میں سنائے گئے فیصلے کے مطابق اب کوئی بھی غیر شادی شدہ خاتون کسی بھی غیر مرد کے ساتھ جنسی تعلق کا حق رکھتی ہے، اور دوسرا یہ کہ شادی شدہ زوجین کے درمیان بیوی کی مرضی کے بغیر مباشرت کرنے والا شوہر، زنا بالجبر اور عصمت ریزی کا مرتکب اور مجرم قرار پائے گا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ غیر دانشمندانہ ثابت ہو گا جو ملک میں صدیوں سے رائج منظم خاندانی نظام کی عمارت کو زمین دوز کر دے گا یعنی پر امن ازدواجی نظام حیات کے مضبوط قلعے پر سپریم کورٹ نے گویا ایک انتہائی طاقتور ہائیڈروجن بم گرا دیا ہو۔ سپریم کورٹ کی اس جرات پر حیرت ہوتی ہے کہ یہ فیصلہ ایک ایسے سماج پر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے جہاں الگ الگ بے شمار مذاہب کے ماننے والے، آج بھی اپنے اپنے مذہبی و اخلاقی اقدار پر قائم رہتے ہوئے نہایت پرامن مضبوط ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ عالمی معاشی طاقتیں، اپنے مفاد کی خاطر بعض عوامی مسائل پر نہ صرف خود فیصلے کرنے بلکہ ان پر عمل درآمد کروانے میں اس قدر آزاد ہو چکی ہیں کہ آج ساری دنیا میں انسانوں کی صحت و بیماری اور اس سے وابستہ تمام طبی مسائل حل کرنے کے طریقے یہی طاقتیں طے کرنے لگی ہیں۔ عدلیہ بھی انہیں طاقتوں کی پیش کردہ رائے کے عین مطابق اپنے فیصلے صادر کر رہی ہے۔
دوسری طرف بین الاقوامی تجارتی منڈیاں اپنے مفادات کے پیش نظر، انہیں طاقتوں کا ساتھ دیتے ہوئے پرامن، منظم اور موروثی نظام خاندان کے تحت زندگی گزارنے والے عوام کی زندگیوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ خواتین کو ان کی خوبصورتی کی حفاظت کے نام پر بہکا کر انہیں اپنے بنائے ہوئے بیوٹی پروڈکٹس خریدنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ لوگوں کو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد جنسی تعلقات کی وکالت کرنے پر اکساتی ہیں۔ انہیں غیر مطلوب حمل سے بچنے کے طریقے اور دواوں کے استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ہر طرح کی احتیاط کے باوجو اگر حمل قرار پا جائے تو اس سے چھٹکار اپانے کے لیے ان کی بنائی ہوئی ادویات اور انجکشن وغیرہ استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ یہاں سے ان کے پروڈکٹس کی تشہیر کے تمام راستے خود ہی کھل جاتے ہیں۔ خواتین کو بہکا کر بے راہ روی کے دلدل میں پھنسانے کے لیے یہ پوری طرح کامیاب بھی ہو رہے ہیں کہ اسقاط حمل اب کوئی جرم نہیں رہا بلکہ یہ ان کا قانونی حق ہے، جس سے انہیں کوئی محروم نہیں کر سکتا۔ دنیا میں آنے والے بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے ختم کرنے کے بدترین گناہ کے مرتکب یہ تجارتی ادارے، خواتین اور انسانیت کی بھلائی کا کام سمجھ کر کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کے پیٹ میں پلنے والا حمل، انسان کی شکل میں دنیا میں آنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے اور اسقاط حمل دراصل کل پیدا ہونے والے انسانوں کا قتل ہے۔ انہیں دنیا میں آنے سے روکنا ان کی سراسر حق تلفی ہے۔
دوائیں اور طبی آلات بنانے والی کمپنیاں، اسقاط حمل جیسے شرم ناک اور قابل سزا جرم کی وکالت کھلے عام کر رہی ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ عدالتیں خود اپنے فیصلوں کے ذریعے اس جرم میں راست یا بالراست ملوث مجرموں کی ہمت افزائی کر رہی ہیں۔ بالفاظ دیگر ہماری عدالتیں دنیا میں آنے سے پہلے رحم مادر میں انسانوں کے قتل کے مرتکب قاتلوں کا تعاون کر رہی ہیں۔ کسی کے گناہ اور جرم کا خمیازہ، پیٹ میں پرورش پانے والے حمل کی صورت میں آنے والا انسان بھگت رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر سماج کو تعجب ہے کہ اس نے آنے والے انسانوں کو قتل کرنے کی قانوناً آزادی عطا کی ہے۔ مطلب واضح ہے کہ اب عوام کو ناجائز یا جائز مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہونے بچوں سے چھٹکارا پانے کا لائسنس مل گیا ہے۔ خواتین کے لیے بھی اپنی جسمانی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لیے حمل ساقط کروانا قانوناً جرم نہیں رہا اور مردوں کو اپنے ہی بچوں کو پالنے پوسنے، پڑھانے لکھانے کی ذمہ داری سے آزادی مل گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لڑکیوں کو پیدائش سے پہلے قتل کر دینا اب کوئی جرم نہیں ہو گا۔
بھارت میں اسقاط حمل کو جائز قرار دیے جانے کے اس فیصلے کے خلاف عوامی غصہ شدت اختیار کرنے لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد کوئی خاتون کسی بھی وجہ سے اگر بچہ پیدا کرنا نہیں چاہتی ہے تو وہ حمل ساقط کروانے کے لیے آزاد ہے۔
اس ضمن میں بین الاقوامی صورت حال کا جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ عالمی سطح پر دوائیں اور طبی آلات بنانے والی کمپنیاں محض اپنی تجارت کو ترقی دینے کے لیے جنسی تعلقات کے درمیان حائل تمام مذہبی، سماجی اور اخلاقی پابندیوں کو درکنار کرنے میں کامیاب بھی ہو رہی ہیں۔ ترقی پسند سوسائٹی کے مطابق کوئی بھی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کے لیے رضا مند ہوں تو وہ کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، کسی کے بھی ساتھ، اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد ہیں۔ چنانچہ اخلاق، ادب، تکلف، عمر، جنس، جگہ، وقت، دوستی، رشتہ داری اور سابقہ تعلقات انہیں ان کے اس حق کے استعمال میں اب رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ البتہ عورت حاملہ نہ ہو، اس کے لیے انہیں چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ان کمپنیوں نے بے شمار دوائیں، انجکشن اور آلات تیار کر رکھے ہیں۔ اس کے باوجود اگر عورت حاملہ ہو جائے تو اس خاتون کو دلاسہ دیا جاتا ہے کہ اسے کوئی فکر کرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ کئی مغربی ممالک میں مقامی ریاستی حکومتیں ایسی عورتوں کے حمل ساقط کروانے میں مکمل احتیاط کے ساتھ مدد کرتی ہیں۔ سماج میں اس کی عزت و توقیر قائم رکھنے کی ضمانت بھی دی جاتی ہے۔ مقامی خانگی دواخانے بھی ایسی عورتوں کی مفت بہترین ماہرانہ طبی خدمات پیش کرتے ہیں۔ مسلمہ اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں ہر سال پانچ تا سات کروڑ حمل ساقط کیے جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر، ہر سال پانچ تا سات کروڑ بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیے جاتے ہیں۔ ان خود ساختہ اپنے آپ کو مہذب اور ترقی یافتہ کہلوانے والے انسانوں کو اس طرح ہر سال کروڑوں بچوں کا قتل کرنے پر کوئی افسوس نہیں۔ ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کیا یہ اعداد و شمار کافی نہیں؟ لیکن جن کا ضمیر ہی مر چکا ہو اس کو جگانا ناممکن ہے۔ یہ لوگ انسان نہیں بلکہ انسان نما حیوان ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں انسانیت نہیں بلکہ حیوانیت پل رہی ہے، جن کی زندگی کا مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل ہوتا ہے، چاہے سماج پر ان کے گناہوں کے کیسے ہی سنگین اثرات مرتب کیوں نہ ہوں، انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسے بے لگام انسانوں کا، جن کا مقصد حیات اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل اور جنسی آسودگی رہ گیا ہو اور ایسے نفس پرست، آوارہ، خود غرض انسانوں کا دائرہ دن بہ دن وسیع ہوتا جا رہا ہے جس پر روک لگانا آسان کام نہیں رہا۔ یہ وہ بگڑی ہوئی مخلوق ہے جن کے نظریات بے بنیاد اور غیر منطقی و نامعقول پروپگنڈے پر قائم ہیں۔ وہ ہم ہی سے پوچھتے ہیں کہ اسقاط حمل کی آزادی پر اتنا واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ آوارگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ہمارے لیے وہ مخلوق ہے جنہیں ہم نے دنیا میں آنے کی نہ کوئی پیشکش نہیں کی نہ آرزو بلکہ ان کے آنے سے ہماری باقی ماندہ زندگی کی لذتوں میں رکاوٹیں ہی پیدا ہوں گی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ہی لوگ، ان کی تنظیمیں، ان کی ہم خیال حکومتیں اور صاحب اقتدار لوگ، جانوروں، پرندوں، کیڑے مکوڑوں اور پیڑوں پودوں کے علاوہ دنیا سے اپنے وجود سے عنقا ہونے والے چند خاص قسم کے حیوانات کی زندگیاں بچانے کے لیے دن رات تدبیریں اور کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ کیا یہ حیوان، پیڑ پودے انسانی زندگی سے زیادہ اہم اور قیمتی ہیں؟ بڑے بڑے صنعتی و تجارتی گھرانے، سمجھدار اور مہذب عوام کو قدامت پرست اور غیر مہذب ثابت کرنے کی کوشش میں، اس درندگی کے خلاف منظم کیے جانے والے کسی بھی احتجاج کو اپنے کاروبار اور دولت کمانے کے راستوں کی بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور صرف اپنے مستقبل کا لائحہ عمل متعین کرنے میں مصروف ہیں۔ہمیں ان کی اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور بھی کیا جاتا ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور اور متمدن سماج میں جینا ہے تو کچھ غیر منطقی کاموں کو برداشت کرنا ہوگا۔ یہی وہ ٹولہ ہے جو اسقاط حمل جیسے قتل کے جرم کو جدید ترقی کے طور پر فراخ دلی کے ساتھ قبول کر چکا ہے۔ اسقاط حمل کے لیے استعمال ہونے والے طبی آلات اور ادویات بنانے والے صنعت کار کروڑ پتی سے ارب پتی ہو چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ خود غرض دولت مند طبقہ، اتنی آسانی سے ہار مان کر میدان سے بھاگنے والا نہیں۔
یہ بات تو سب جانتے ہیں کسی لڑکی یا عورت کے ساتھ زبردستی جنسی تعلقات قائم کرنا یقینا یہ ایک قابل سزا تعزیری جرم ہے اور بہرصورت اس مجرم کو سزا ملنی چاہیے لیکن سپریم کورٹ نے قانونی طور پر شادی شدہ زوجین کے درمیان ازدواجی تعلقات پر کاری ضرب لگاتے ہوئے اپنے ایک تازہ فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ
ازدواجی تعلق قائم نہ کرنا چاہتی ہو اور اس کے باوجود اس کا شوہر اپنی بیوی کی رضا مندی کے بغیر ازدواجی تعلق قائم کر لیتا ہے تو ایسا شوہر اپنی بیوی کے ساتھ زنا بالجبر کے جرم کا مرتکب ہو گا اور عدالت قانوناً شوہر کو اس جرم کی سزا بھی دے گی۔ اس طرح کے ایک اور مقدمے میں عدالت نے اسی فیصلے کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اعلی اقدار پر قائم ہندوستانی سماج کے مہذب خاندانی نظام ازدواج کو درہم برہم کرنے کی کیا یہ جرات نہیں ہے؟
اگر کوئی اجنبی شخص کسی لڑکی یا عورت کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق قائم کرتا ہے تو وہ زنا بالجبر جیسے قابل سزا تعزیری جرم کا مرتکب ہو گا۔ اس حادثے کے بعد لڑکی یا عورت کی زندگی ہمیشہ ایک انجانے خوف کے سائے میں گزرتی ہے۔ اگر لڑکی حاملہ ہو جائے تو حمل ساقط کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کیوں کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں کسی غیر شادی شدہ ماں سے کوئی شادی کرنا پسند نہیں کرتا۔ مجبوراً اگر بچہ پیدا کرنا پڑے تو عورت کو اس ناجائز بچے کو پالنے پوسنے کے لیے روپے کمانے ہوں گے اور روپے کمانے کے لیے محنت کرتے کرتے باقی زندگی بیت جائے گی۔ اس کے برخلاف بیوی کی رضا مندی کے بغیر شوہر کے مباشرت کرنے کے بعد اگر بیوی حاملہ ہو جائے تو انہیں اس قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ شدید ناراضگی کے کچھ دن یا کچھ ماہ بعد زوجین آنے والے بچے کو جنم دینے یا حمل ساقط کرنے میں سے کسی ایک حل پر سمجھوتہ کرلیں گے۔
اختلافات اگر شدت اختیار کر لیں تو طلاق کا راستہ تو کھلا ہی ہے۔
سپریم کورٹ کے یہ فیصلے ایک طرف شادی کے رواج کو ختم کرنے اور دوسری طرف زنا کاری کو انسان کا حق قرار دینے کے مترادف ہیں تو دوسری طرف شادی شدہ زوجین کے جائز ازدواجی تعلقات کو قابل سزا جرم قرار دینا، ہمارے مہذب معاشرے میں ایک نہ ختم ہونے والی بے چینی اور ہلچل پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ سپریم کورٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی قدامت پسند، تنگ نظر اور دقیانوسی خیالات کے حامل خاندانوں کے افراد، اپنی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے تنازعات اور معاملات کے فیصلے اپنے ہی خاندان کے بزرگوں سے کرواتے آرہے ہیں جو موجودہ ترقی یافتہ دنیا اور تعلیم یافتہ انسانوں کی سوچ سے ہرگز میل نہیں کھاتے۔ ایسے افراد کو زندگی گزارنے کے جدید اصولوں سے واقف کروانا خود ہی ایک مشکل کام ہے۔عدلت یہ بھی کہتی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں مثلاً Live in Relationship کے نام پر شادی کے بغیر نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک ہی گھر میں زوجین کی طرح رہ رہے ہیں، جب تک دل چاہا ساتھ رہے اور جب ایک دوسرے سے دل بھر گیا تو بغیر کسی پریشانی کے یہ رشتہ ختم کر دیا اور پھر کسی نئے ساتھی کے ساتھ رہنے لگے۔ اس کے علاوہ شادی سے پہلے نوجوان غیر شادی شدہ جوڑوں کے آزادانہ جنسی ملاپ کو اب برا نہیں سمجھا جاتا۔ لڑکی لڑکی اور لڑکے لڑکے کے درمیان ہم جنس پرستی کوئی برائی نہیں رہی۔ آج ہی کے ماحول میں شادی کے لیے زوجین کی اولین شرط عورت اور مرد کی اپنی انفرادی ترجیحات بن گئی ہے اور اسی کی بنیاد پر شادی کی شرائط متعین کی جا رہی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی نئے فیصلے یا قانون کو سمجھنے کے لیے اس سماج میں رائج اصولوں کے پیش نظر اس کی توضیح و تشریح ضروری ہے کیوں کہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے ہی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ آج ہمارے سماج میں زوجین کی اکثریت ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات کا لحاظ نہیں کرتی۔ گھریلو تشدد بہت عام ہو چکا ہے۔ زوجہ کی مرضی کے بغیر شوہر کی جانب سے زبردستی جنسی خواہش کی تکمیل میں بیویوں کے ساتھ شوہروں کا رویہ زنا بالجبر کی حد تک جا پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ان کے سگے والدین اور بھائیوں کا غیر منصفانہ اور ظالمانہ سلوک، سوتیلے پن سے زیادہ بدترین ہو چکا ہے۔ اس قدامت پرست سماج میں کئی معاملات میں عورت کو اس کے جائز حقوق نہیں دیے جاتے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہمارے سماج میں صدیوں سے مروجہ خاندانی اصولوں پر عمل آوری میں عدالتوں کی اس دخل اندازی کے خلاف عوامی احتجاج کو غیر منصفانہ نہیں کہنا چاہیے۔ شادی ایک ایسی مضبوط ڈھال ہے جو زوجین کو سماجی بے چینی سے اور ہر قسم کے جنسی امراض سے محفوظ رکھتی ہے۔
شادی سے پہلے جنسی تعلقات اور لڑکی کے حاملہ ہوجانے کی صورت میں پیش آنے والی تکلیفوں اور پریشانیوں کی فہرست بہت طویل ہے اور شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کے سماجی اور انسانی حقوق کا پامال ہونا اسی سے مربوط لیکن الگ موضوع ہے۔
دنیا میں گزشتہ تیس سالوں میں جنسی بے راہ روی سے تقریباً چار کروڑ صحت مند نوجوان، ایڈس جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ کینسر سے منسلک مرض HPVسے متاثرہ خواتین میں cervix کا مرض پیدا ہوتا ہے جو متاثرہ خواتین کی نہایت اذیت ناک موت کا سبب بنتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی میں دنیا میں تقریباً دو سو کروڑ حمل ساقط کیے گئے یعنی دو سو کروڑ بچوں کا اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا۔ آزادی نسواں کے نام پر کروڑوں آزاد خیال خواتین جسم فروشی اور دیگر فحاشی کے پیشے سے وابستہ ہونے پر مجبور ہوئیں۔
کیا یہ حقیقت بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں کہ آج مغربی ممالک میں پیدا ہونے والے بچوں کی پچاس فی صد تعداد، ناجائز جنسی تعلقات کا نتیجہ ہے؟ یہ وہ بچے وہ ہیں جو اپنے ماں یا باپ کی شفقت یا سرپرستی سے زندگی بھر محروم رہتے ہیں۔ ایسے بچے سرکاری شیلٹر ہومس میں ملازمین کی نگرانی میں پلتے ہیں۔ چند خوش قسمت بچے وہ ہوتے ہیں جنہیں کوئی لاولد جوڑا گود لے کر اپنے گھر لے جاتا ہے۔
جنسی آزادی دراصل گناہ عظیم اور گھناونا جرم ہے جس سے خواتین کو سوائے جسمانی، معاشرتی اور معاشی نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کچھ حاصل ہوتا ہے تو وہ نئے نئے خود غرض عیاش مرد، جو اپنی ضرورت پوری کر لینے کے بعد منظر سے پوری طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ حمل ساقط کرنے کے دوران شدید جسمانی تکلیفیں اور جان لیوا بیماریاں عورت کی زندگی کا جز بن جاتی ہیں۔ یہ تمام ناجائز کام، عورت کی آزادی کے نام پر عورتوں کو بیوقوف بناتے ہوئے ان کے ساتھ آج بھی جاری ہیں۔ ان تلخ حقائق کے جاننے کے باوجود، کیا اب بھی خواتین اسے اپنی آزادی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ سپریم کورٹ کے یہ ٖفیصلے عورت کی آزادی نہیں بلکہ مردوں کے لیے عیاشی کا پروانہ ہیں، یہ وہ عیاش مرد ہوتے ہیں جو منظر عام سے یکایک غائب ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے دیکھا کہ سپریم کورٹ نے بڑے بڑے تجارتی اور صنعتی گھرانوں کے مفاد میں کئی ایسے فیصلے صادر کیے ہیں جس سے زنا، بدکاری، فحاشی اور ہم جنس پرستی کی وکالت ظاہر ہوتی ہے مثلاً لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم حد عمر میں غیر ضروری اضافہ کر دیا گیا ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں حکومت اور آر ایس ایس نے جو اپنے آپ کو ہندو دھرم کے سب سے بڑے پرچم بردار باور کرواتے ہیں، ہندو دھرم، ہندو سماج اور ہندو تہذیب کے انسانی اقدار کو بچانے کے لیے اور عدالت کے ان غیر دانشمندانہ فیصلوں کے خلاف نہ کچھ کہا نہ کوئی عملی کوشش کی۔ یہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ آر ایس ایس بھی ہندو دھرم کی خاندانی روایات کی سوداگری پر اتر آئی ہے۔
یقیناً اب وہ وقت آ چکا ہے جب دیگر تمام مذاہب کے ذمہ داران اپنے اپنے مذہب کے اعلی سماجی اور اخلاقی اقدار واصولوں پر قائم خاندانوں کی، خصوصاً خواتین کی حفاظت کے لیے متحدہ طور پر آگے آئیں تاکہ ہمارے وطن میں رہنے بسنے والے شریف النفس خاندان، فحاشی کے اس دلدل میں پھنس کر تباہ ہونے سے محفوظ رہیں۔
(ڈاکٹر جاوید جمیلؔ ینوپویا یونیورسٹی منگلور کے چیر پرسن، ایک مفکر اور بیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔)

 

***

 جنسی آزادی دراصل گناہ عظیم اور گھناونا جرم ہے جس سے خواتین کو سوائے جسمانی، معاشرتی اور معاشی نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کچھ حاصل ہوتا ہے تو وہ نئے نئے خود غرض عیاش مرد، جو اپنی ضرورت پوری کر لینے کے بعد منظر سے پوری طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ حمل ساقط کرنے کے دوران شدید جسمانی تکلیفیں اور جان لیوا بیماریاں عورت کی زندگی کا جز بن جاتی ہیں۔ یہ تمام ناجائز کام، عورت کی آزادی کے نام پر عورتوں کو بیوقوف بناتے ہوئے ان کے ساتھ آج بھی جاری ہیں۔ ان تلخ حقائق کے جاننے کے باوجود، کیا اب بھی خواتین اسے اپنی آزادی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ سپریم کورٹ کے یہ ٖفیصلے عورت کی آزادی نہیں بلکہ مردوں کے لیے عیاشی کا پروانہ ہیں، یہ وہ عیاش مرد ہوتے ہیں جو منظر عام سے یکایک غائب ہو جاتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022