مہسا کی موت کے بعد ایران میں ہنگامے

مخالف حکومت احتجاج کے پس پردہ داخلی سیاست اور خارجی حمایت کا کھیل!

مسعود ابدالی

میڈیا مٹھی بھر حجاب مخالفین کی آواز بن گیا لیکن باحجاب خواتین کی اکثریت کے جذبات نظرانداز!
ایک ’زیرتحقیق‘ واقعے پرشدید عالمی ردعمل،مغرب کا بدترین دوہرا معیار: صدر ابراہیم رئیسی
ایران میں نوجوان کرُد خاتون مہسا المعروف ژینا امینی کی موت کے بعد سے ہونے والے احتجاج و ہنگاموں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ تمام شہروں میں زن، زندگی اور آزادی (کرد تلفظ ژن، ژیان، ئازادی) کا نعرہ لگاتی ہوئی خواتین سڑکوں پر ہیں۔ پولیس سے تصادم میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایرانی کردستان کے دوسرے بڑے شہر سقز کی رہائشی 22 سالہ ژینا اپنے بھائی سے ملنے تہران آئی تھی۔ اسے 13 ستمبر کو تہران کی مرکزی شاہراہ سے ’گشتِ ارشاد‘ (اخلاقی پولیس) نے اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ نجی گاڑی میں تھی۔ گرفتاری کے وقت اِس کے بھائی سے کہا گیا کہ مہسا کو ’نصیحت‘ کے لیے حراستی مرکز لے جایا جا رہا ہے اور ایک گھنٹے میں اسے گھر واپس پہنچا دیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد اہلِ خانہ کو اطلاع دی گئی کہ مہسا کو دورانِ حراست دل کا دورہ پڑا ہے اور اسے پولیس کی نگرانی میں تہران کے نجی ہسپتال ’بیمارستانِ کسریٰ‘ پہنچایا جا رہا ہے۔ ژینا کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا جہاں وہ 16 ستمبر کو دم توڑ گئی۔
ژیناکے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد حوالات لے جاتے ہوئے پولیس کی گاڑی میں اس پر تشدد کیا گیا۔ ثبوت کے طور پر ان لوگوں نے پہلے سے موجود زیر حراست افراد کے تاثرات پیش کیے ہیں جس کے مطابق تھانے پہنچتے وقت مہسا کی حالت غیر تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی بینائی ختم ہو چکی ہے اور گاڑی سے اترتے ہی وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی۔ کسریٰ ہسپتال کی انتظامیہ کا کہنا کہ وہاں آنے سے پہلے ہی مہسا کا دماغ مردہ ہو چکا تھا۔ کسریٰ نے اس کے لیے brain dead کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مہسا کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس کی بہن کے سر اور پیروں پر تشدد کے نشان تھے۔ حوالات میں قید دوسری خواتین کا کہنا ہے کہ تھانے لاتے ہوئے پولیس افسران نے مہسا کو گالیاں دیں جس کا اس لڑکی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور مشتعل ہو کر پولیس افسران نے مہسا کو مارا پیٹا اور ضرب و شلاق کے دوران سر پر لگنے والی چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی۔ مہسا کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ ایک پولیس والے نے اس لڑکی کے سر پر ڈنڈا بھی مارا۔ دوسری طرف ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ مہسا کو دل و دماغ کا عارضہ تھا۔ ایک ماہرِ اعصاب ڈاکٹر نوشیروانی کا کہنا ہے کہ آٹھ برس کی عمر میں مہسا کے دماغ سے آپریشن کے ذریعے ایک رسولی (tumor) نکالی گئی تھی اور ڈاکٹروں نے مزید رسولیوں کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ مہسا کے والد نے حکومتی دعوے کو جھوٹ قرار دیا اور کہا ہے کہ ان کی بیٹی صحت مند تھی جسے کسی قسم کا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ مہسا کے اسکارف میں سے کچھ بال نظر آرہے تھے جو گشتِ ارشاد پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کا سبب بنی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ’گشتِ ارشاد‘ ایرانی پولیس کے خصوصی دستے ہیں جنہیں اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنانے اور ’غیر مناسب‘ لباس پہنے ہوئے افراد کی ’اصلاح‘ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ مقامی قانون کے تحت گھر سے باہر نکلتے وقت خواتین کے لیے اپنے سر کو پوری طرح ڈھانپنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایسا لباس پہننے کی بھی اجازت نہیں جس میں جسم کے خدو خال نمایاں ہوں۔ چست لباس کی پابندی مردوں کے لیے بھی ہے اور گھر سے باہر ایسی ہاف پینٹ پہننی ممنوع ہے جس میں گٹھنے عریاں ہوں۔
ان ہنگاموں کے دوران ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک آئے ہوئے تھے۔ امریکی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مہسا کی موت کی تحقیقات انصاف کا تقاضا ہے اور ایرانی حکومت عدل وانصاف کے معاملے میں اپنی فرض سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ احتجاج بھی عوام کا حق ہے اور اس حق کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے تاہم احتجاج کے نام پر ہنگامہ آرائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایرانی صدر نے برطانیہ اور امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں شہری ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں ایک ’زیر تحقیق‘ واقعے پر قیامت کھڑی کر دینا دہرے معیار کی بدترین مثال ہے۔ دیکھ غافل اپنی آنکھوں کا ذرا شہتیر بھی۔
اس صورتحال کی وضاحت کے لیے امریکی نیوز چینل سی این این کی ایرانی نژاد میزبان کرسچین امان پور نے ایرانی صدر سے انٹرویو کی درخواست کی۔ صدر رئیسی اس شرط پر راضی ہوئے کہ ان کی گفتگو براہ راست (live) نشر کی جائے گی۔ ملاقات سے پہلے ایرانی صدر نے کہا کہ انٹرویو کے دوران امان پور صاحبہ کو اسکارف اوڑھنا ہو گا۔ خاتون صحافی نے اس شرط کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ملاقات نیویارک میں ہو رہی ہے جہاں قانونی طور پر ایسی پابندیاں نہیں۔ جواب میں ایرانی صدر نے کہا کہ وہ میزبان ملک کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنی ثقافت اور تہذیب کے اظہار کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ چنانچہ امان پور صاحبہ نے یہ انٹرویو منسوخ کر دیا۔ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کرسچین امان پور نے صدر ریئسی کے معاون کا پیغام نقل کیا جس کے مطابق ایرانی حکام نے کہا کہ ’اگر امان پور صاحبہ اسکارف نہیں اوڑھتیں تو انٹرویو نہیں ہو گا کیونکہ یہ ہماری قومی عزت کا معاملہ ہے‘
جہاں اس واقعے کے خلاف احتجاج جاری ہے وہیں حجاب کے حق میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے تہران میں ہزاروں برقعہ پوش خواتین اسلامی ایران کے بانی آیت اللہ خمینی کی تصاویر لے کر سڑکوں پر نکل آئیں جن میں طالبات کی اکثریت تھی۔ یہ خواتین ’حجاب ہماری آبرو‘ کے نعرے لگا رہی تھیں۔ تہران کے علاوہ مشرقی آذربائیجان، جنوبی خراسان، بلوچستان ہرمزگان، کاشان، قم، یزد، بوشہر، کرمان، وسطی، فارس، مغربی آذربائیجان اور ایلام میں بھی برقعہ پوش خواتین نے مظاہرے کیے۔
حجاب ایران میں ہمیشہ سے جذبات کے اظہار کا ذریعہ رہا ہے۔ جب 1978ء میں شاہ ایران کے خلاف عوامی تحریک میں شدت آئی تو ایرانی خواتین نے اسکارف اور چادر کو شاہ ایران کے خلاف نفرت کا استعارہ بنالیا۔ مظاہرین کی ترجمان فاطمہ تہرانی نے امریکہ کے مشہور صحافی آنجہانی والٹر کرانکائٹ (Walter Cronkite) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی خواتین شاہ ایران کو ’چڑانے‘ کے لیے اسکارف اوڑھ رہی ہیں۔ شاہ صاحب حجاب کے سخت خلاف تھے اور اسے خواتین کی غلامی کی علامت کہا کرتے تھے۔
حالیہ مظاہروں میں حکومت مخالف خواتین سرکار کے خلاف نفرت کے اظہار میں اسکارف جلا رہی ہیں۔ ایران میں خواتین کے آرائش گیسو کے مراکز پر بال کی تراش خراش کی تو اجازت ہے لیکن اسے اتنا چھوٹا کرنا کہ مردوں سے مشابہت پیدا ہو منع ہے۔ حکومت مخالف خواتین نے اب بطور احتجاج بال کٹوانے شروع کر دیے ہیں۔
حالیہ ہنگاموں میں فرقہ وارانہ پہلو بڑا نمایاں ہے۔ مہسا چونکہ کرد تھی اس لیے کردستان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کردستان میں سُنّیوں کی اکثریت ہے۔ اسی طرح سُنّی بلوچستان بھی حکومت مخالف مظاہروں کی لپیٹ میں ہے۔
حالیہ تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ نوجوانوں خاص طور سے لڑکیوں میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ جامعات کے ساتھ اب اسکولوں کی بچیاں بھی سڑکوں پر ہیں اور ان کا خاص ہدف حجاب ہے۔ طالبات چھوٹے بالوں (boy cut) کے ساتھ بلا اسکارف اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر نشر کر رہی ہیں۔ ان طالبات کا کہنا ہے کہ وہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی ہیں لیکن اس معاملے میں ریاستی جبر ناقابل قبول ہے۔ دوسری جانب مغربی ممالک کا رد عمل بہت سخت ہے۔ کینیڈا، امریکہ اور یوپی یونین نے ایرانی خواتین پر ’تشدد‘ کی مذمت کرتے ہوئے ایرانی حکام پر سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔
اسی دوران 15 اکتوبر کو تہران کے مضافاتی علاقے اوین میں واقع زندانِ اویں کی آگ نے مزید سنسنی پیدا کر دی ہے۔ یہ قید خانہ شہنشاہ ایران نے سیاسی قیدیوں خاص طور سے حکومت مخالف طلبہ کو زیر حراست رکھنے کے لیے 1972ء میں قائم کیا تھا۔ جب شاہ کے خلاف آیت اللہ خمینی نے تحریک شروع کی تو اس کی پشت پر جامعات کے طلبہ تھے، جن کی بڑی اکثریت کو اوین جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ بڑی تعداد میں پروفیسر بھی گرفتار ہوئے۔ ان اساتذہ نے جیل میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اس کا نام جامعہ زندانِ اوین پڑ گیا۔ انقلاب کے بعد نئی حکومت نے اپنے مخالفین کی مزاج پرسی اور گوشمالی کے لیے اس جیل کا استعمال شروع کیا اور کہا جاتا ہے کہ سیکڑوں خواتین سمیت موجودہ حکومت کے پندرہ سو مخالفین اس وقت زندانِ اوین میں بند ہیں۔ حالیہ ہنگاموں کے دوران گرفتار ہونے والے مظاہرین بھی یہاں رکھے گئے ہیں۔ تہران کے گورنر محسن منصوری نے سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA کو بتایا کہ کچھ قیدیوں نے سلائی کڑھائی کے تربیتی مرکز کے ایک حصے کو آگ لگا دی جس پر فوراً قابو پالیا گیا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق اس واقعے میں 6 افرد زخمی ہوئے اور کسی شخص کے ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ حسب توقع امریکہ اور مغربی ممالک کو اس واقعے پر سخت تشویش ہے۔
حجاب و پردے کی شرعی حیثیت کے بارے میں علمائے کرام بہتر رائے دے سکتے ہیں، لہٰذا ہم اپنی گفتگو اس مسئلے کے سیاسی پہلو تک محدود رکھ رہے ہیں۔ یورپی یونین اور امریکہ کا کہنا ہے کہ لباس کا انتخاب ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور ریاست کو اس سلسلے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ اسکارف کے معاملے میں مہیسا کی گرفتاری ہی غلط تھی اور لباس کے لیے تشدد ’تہذیب‘ کے خلاف ہے۔ بظاہر مغرب کا یہ موقف منطقی نظر آتا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران و افغان خواتین کے ’آزادی لباس‘ کے لیے فکر مند مغرب کو فرانس کی مسلم خواتین کے بنیادی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں جہاں قانون کے تحت عام مقامات پر اسکارف اوڑھنا منع ہے۔ حتیٰ کہ دکان کی مالکن بھی اپنی دکان پر سر نہیں ڈھانک سکتی۔ غسل آبی وآفتابی کے لیے ساحل سمندر یا تیراکی کے حوض پر جانے والی خواتین کو ساتر لباس کی اجازت نہیں اور ان کے لیے بِکنی پہننا ضروری ہے۔ فرانس کے وزیر ثقافت کہہ چکے ہیں کہ جن خواتین کو ستر کا خیال ہے وہ ساحلوں سے دور رہیں۔
ایران اور افغانستان میں سر ڈھانکنے پر اصرار غلط اور فرانس میں بچیوں کے سر سے حجاب نوچ لینے کی اجازت کو دہرے معیار کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ فرانس کے بعد اب سوئٹرزلینڈ میں بھی حجاب کو غیر قانونی قرار دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ سوئس پارلیمنٹ ایک مسودہ قانون پر بحث کر رہی ہے جس کے تحت ڈاک خانوں سمیت تمام سرکاری دفاتر، پارک، ساحل اور دوسرے پبلک مقامات پر برقعہ اوڑھنا جرم قرار دیا جا رہا ہے جس کے مرتکبین کو ایک ہزار ڈالر جرمانہ کیا جائے گا۔ اگر لباس کا انتخاب ہر انسان کا بنیادی حق ہے تو جو بات ایران میں غلط ہے اسے یورپ میں درست کیسے کہا جا سکتا ہے؟
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران و افغان خواتین کے ’آزادی لباس‘ کے لیے فکر مند مغرب کو فرانس کی مسلم خواتین کے بنیادی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں جہاں قانون کے تحت عام مقامات پر اسکارف اوڑھنا منع ہے۔ حتیٰ کہ دکان کی مالکن بھی اپنی دوکان پر سر نہیں ڈھانک سکتی۔ غسل آبی وآفتابی کے لیے ساحل سمندر یا تیراکی کے حوض پر جانے والی خواتین کو ساتر لباس کی اجازت نہیں اور ان کے لیے بِکنی پہننا ضروری ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022