اخبارات کی رائے

احتشام الحق آفاقی

روس اور یوکرین کے درمیان گزشتہ سات ماہ سے جاری جنگ نے ایک بار پھر طول پکڑنا شروع کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر امن کو فروغ دینے والے ادارے اور ممالک پوری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری جنگ کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اس حوالے سے ان دنوں ایک موڑ اس وقت دیکھنے میں آیا جب وزیر اعظم نریندر مودی نے دونوں ممالک کے مابین صلح کرانے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اگرچہ ابھی تک کسی کی طرف سے اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے میں نئی دلی کا کیا رول رہتا ہے۔ ‏قابل غور ہے کہ بھارت کا تعلق اگرچہ روس اور یوکرین کے ساتھ کم و بیش یکساں ہے لیکن جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک وزیر اعظم نریندر مودی روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے مسلسل رابطے میں رہے ہیں اور ان سے ملاقات بھی کی ہے جبکہ یوکرین کے صدر کے ساتھ انہوں نے حالیہ دنوں میں صرف فون پر گفتگو کی ہے۔ سمجھا جا رہا ہے بھارت کا رویہ دونوں ممالک کے ساتھ غیر جانب دارانہ نہیں ہے بلکہ روس کی طرف زیادہ جھکاؤ دیکھا جا رہا ہے۔ انگریزی روزنامہ دی ہندو نے 6 اکتوبر کے شمارہ میں اس معاملہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’گزشتہ سات ماہ سے جاری جنگ اور مغربی پابندیوں نے عالمی سلامتی، خوراک، ایندھن اور توانائی کی فراہمی کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس لیے بات چیت کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں، جیسا کہ مسٹر مودی نے مسٹر پوتن اور مسٹر زیلنسکی کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ ماضی میں کئی مواقع پر بھارت نے عالمی امن کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم بھارت یہ کردار اسی صورت میں ادا کر سکتا ہے جب وہ دونوں ممالک کے درمیان جاری جنگ میں اپنی پوزیشن واضح کرے اور عالمی فورمس پر اپنی سرگرمیوں کو ترتیب دے اور ان سے جڑے۔ بھارت کے قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے، حکومت کی طرف سے تیل اور دفاعی تجارت پر مغربی پابندیوں کی خلاف ورزی قابل فہم ہے۔ تاہم، اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل پیرا ہونے اور علاقائی خود مختاری کے تحفظ کی اہمیت پر وزیر اعظم مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے تبصروں کو یکجا کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دوران بھارت یوکرین پر روس کے حملے پر تنقید سے متعلق ہر ووٹ سے گریز کرتا رہا ہے۔ اس میں عام شہریوں پر بمباری اور روس کے ذریعے یوکرین کے کچھ حصوں کا الحاق بھی شامل ہے۔‘‘
الیکشن کمیشن نے انتخابات سے قبل عوام الناس سے کیے جانے والے بجا اور بیجا وعدوں پر قد غن لگانے کے لیے انتخابات سے قبل اپنے انتخابی منشور میں مستقبل سے متعلق وعدوں پر اخراجات کی تفصیل دینے کو ضروری قرار دینے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ منگل کے روز الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ انتخابی وعدوں کی پوری معلومات دینے سے بچ نہیں سکتے، اور اس کے مالیاتی استحکام پر پڑنے والے دور رس اثرات کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ کھوکھلے انتخابی وعدوں کے دور رس اثرات ہوتے ہیں۔ اپنے خط میں الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں سے کہا کہ وہ سبھی وعدوں کی تفصیل بتائیں اور ساتھ ہی اس کے تمام فائدے اور معاشی شعبہ کی تفصیلات بھی دیں۔ الیکشن کمیشن نے سبھی پارٹیوں سے 19 اکتوبر تک اپنی رائے بھیجنے کی ہدایت دی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 3 اگست کو ملک بھر میں انتخابات سے پہلے مفت منصوبوں کے وعدے کے خلاف داخل عرضی پر سماعت کی تھی۔ عدالت نے سماعت کے دوران ’ریوڑی کلچر‘ پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انتخابات سے پہلے اس کا حل نکالنے کے لیے مرکزی حکومت، الیکشن کمیشن اور عرضی کے سبھی فریقین سے ایک ادارہ کی تشکیل پر مشورہ طلب کیا ہے۔ دراصل عرضی دہندہ نے عدالت کے سامنے کہا تھا کہ یہ ’مفت منصوبے‘ ملک، ریاست اور عوام کے بوجھ کو بڑھاتے ہیں۔ سماعت کے دوران عرضی دہندہ کے وکیل نے سوال کیا کہ آخر ان مفت کے منصوبوں کا اثر کس کی جیب پر پڑتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریوڑی کلچر سے نمٹنے کے لیے ایک ادارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے اس ادارہ میں مفت سہولتیں حاصل کرنے والے اور اس کی مخالفت کرنے دونوں کو شامل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس سلسلہ میں انگریزی روزنامہ دی انڈین ایکسپریس نے 6 اکتوبر کے شمارہ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ: یہ ایک سیاسی ڈبکی ہو گی اگر الیکشن کمیشن پارٹیوں کے ووٹروں سے کیے گئے وعدوں کے بارے میں فیصلے تھوپنے کی طاقت پر خود گھمنڈ کرتا ہے، تو وہ اس معاہدے میں قدم رکھنے کا قصوروار ہو گا جس کا وہ حصہ نہیں ہے۔ مزید برآں اقتدار میں موجود پارٹی کی شہ پر ایسا کیا جائے گا۔ جولائی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کی کوشش میں لوگوں کو ’’ریوڑی (فریبی) کلچر‘‘ کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک کے لیے ’’بہت خطرناک‘‘ ہے۔ یقینی طور پر الیکشن کمیشن کے لیے یہ عمل اپنی مشکل سے جیتی گئی ساکھ کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ جہاں تک مفت تقسیم سے پیدا ہونے والے ’’خطرے‘‘ کا تعلق ہے تو اسے لوگوں کے فیصلے اور FRBM ایکٹ جیسے چیک اینڈ بیلنس پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو گورننس میں مالیاتی نظم و ضبط کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ بلاشبہ مفت پر بحث سیاسی دائرے میں، متعلقہ فریقین اور امیدواروں کے درمیان نظریات اور بیانات کے ذریعے جاری رہ سکتی ہے اور جاری رہنے چاہیے، الیکشن کمیشن کی اس میں کوئی جگہ نہیں ہے، اس کے لیے اس سے دستبرداری ہی بہتر قدم ہو گا۔‘‘
اس ضمن میں ہندی روزنامہ امرا جالا نے اپنے 6 اکتوبر کے شمارہ میں لکھا کہ ’’آخر یہ کون طے کرے گا کہ فلاں وعدہ عوام کے بہبود کے لیے ہے اور فلاں وعدہ مفت کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے ہے؟ اگرچہ کہ الیکشن کمیشن کے ذریعہ وقت بوقت کی جانے والی ہدایات کی وجہ سے انتخابی عمل میں کافی بہتری آئی ہے لیکن بعض ہدایات بہت سخت ہونے کی وجہ سے زمینی سطح پر بے اثر ثابت ہوتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی یہ پہل اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ’’ریوڑی کلچر‘‘ کو ملک کی ترقی کے لیے خطرناک بتایا تھا۔ بہتر ہو اگر انتخابی وعدوں پر قدغن لگانے والے اس اقدام پر سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوششیں کی جائیں تاکہ الیکشن کے دوران جمہوری عمل کو تقویت مل سکے۔‘‘
پی ایف آئی پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد کیے ہوئے اگرچہ دو ہفتوں کا وقفہ گزر چکا ہے لیکن یہ بدستور اخباروں کی سرخیوں میں ہے۔ دینک بھاسکر نے 4 اکتوبر کے شمارے میں اپنے اداریہ میں لکھا ’’ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں گزشتہ کئی برسوں سے پی ایف آئی کی سرگرمیوں کے بارے میں حکومت کو آگاہ کر رہی تھیں۔ حکومت جانتی تھی کہ تعلیم، تربیت اور مدد کے نام پر نوجوانوں کو شدت پسند بنایا جاتا تھا۔ کیرالا اس تنظیم کا گڑھ ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں سے کرناٹک، مہاراشٹرا، اتر پردیش اور بہار میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ اس کی وسعت میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فعالیت کی وجہ سے دہشت گردانہ حملوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پی ایف آئی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ تنظیم پر پابندی غلط ہے اور کسی بھی دہشت گردی پر مبنی سرگرمیوں میں تنظیم کا براہ راست تعلق نہیں ہے۔ در اصل پٹنہ میں گزشتہ جون میں مارے گئے ایک چھاپے میں سات صفحات پر مشتمل ایک دستاویز ملا ہے جس میں تنظیم کے مقصد اور طریقہ کار کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ دستاویز میں 2047ء تک اسلامی حکومت قائم کرنے اور اس کے لیے دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے کا تذکرہ ہے تاہم تنظیم نے اسے فرضی دستاویز قرار دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غریب مسلمان بچوں کو وظیفہ اور تعلیم دینے کے بہانے یہ تنظیم انہیں سخت گیر بناتی ہے۔ دہشت گردی کے نئے دور میں ’’لون ولف‘‘ یعنی کسی تنظیمی مدد کے بغیر خود ہی دہشت گردی کے واقعات کو انجام دینے کے طریقہ کو سیریا کی دہشت گرد تنظیم آئی ایس آئی ایس نے آگے بڑھایا ہے۔ ایسی شدت پسندی ملک میں امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ تعلیم، مذہبی تعلیم اور مذہبی شدت پسندی کا سبق پڑھانا یہ تینوں الگ الگ نتائج دیتے ہیں۔ بھارت کا قانون کسی بھی شہری کو اس کے مذہب کو ماننے، اس کی نشر و اشاعت کرنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے لیکن نفرت پیدا کرنے کی نہیں۔ یہی ایک باریک فرق ہے‘‘
راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی کی بھارت جوڑو یاترا نے ایک ماہ مکمل کر لیا ہے۔ اب تک اس یاترا کے تعلق سے سیاسی مبصرین کی جانب سے مبہم رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ ابھی دیکھنے کے لیے کافی وقت ہے کہ کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا سے کانگریس پارٹی کو کتنا فائدہ پہنچا ہے اور راہل گاندھی کی مقبولیت میں کس قدر اضافہ ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس یاترا نے کامیابی کے ساتھ ایک ماہ کا سفر طے کر لیا ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی پارٹی لیڈر یا سماجی کارکن اس یاترا میں شریک ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے شرکت کی تھی، جبکہ اس کے ایک دن بعد مقتولہ گوری لنکیش کی والدہ اور بہن نے راہل گاندھی کے ساتھ کچھ دیر پیدل سفر کر کے ان کی حمایت کی تھی۔ 10 اکتوبر کے شمارہ میں دینک جاگرن نے ’’بھارت جوڑو یاترا کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے اپنے اداریہ میں لکھا ہے ’’بھارت جوڑو یاترا کے ایک ماہ پورے ہونے کے بعد کانگریس لیڈروں کی جانب سے راہل گاندھی کی جس طرح حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور ایک سنگ میل کو حاصل کرنے کی بات کہی جا رہی
ہے در اصل ویسا کچھ زمین پر ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ جن ریاستوں سے یہ قافلہ گزر رہا ہے وہاں کچھ سیاسی ہلچل ضرور ہوتی ہے لیکن پورے ملک میں اس یاترا کے تعلق سے لوگوں میں کوئی جوش اور ولولہ دکھائی نہیں دیتا۔ کانگریس لیڈر کچھ بھی کہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی کہ راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ لوگوں کے درمیان موضوع بحث بن گئے ہیں۔‘‘

 

***

 بھارت کو یوکرین پر روسی بمباری اور زمینی قبضے کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے: دی ہندو
سیاسی مداخلت سے الیکشن کمیشن کی غیر جانب دار نگران کی حیثیت ختم ہو رہی ہے:انڈین ایکسپریس
الیکشن کمیشن، انتخابی عمل کے دوران جاری ہدایات کو سختی سے نافذ کرے: امر اجالا
پی ایف آئی پر پابندی، دیر سے اٹھایا گیا صحیح قدم : دینک بھاسکر
ملک میں راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ کی کوئی حقیقت نہیں: دینک جاگرن


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022