قرآن اور مسلمان ——چند عملی پہلو

مسلمانوں کو قرآن سے حرفاً ، معناً اور عملاً وابستہ ہوجانے کی ضرورت

رضوان احمد اصلاحی
امیرحلقہ جماعت اسلامی ہندبہار

تاریخ شاہد کہ جو لوگ بھیڑ بکریاں چراتے تھے، اونٹوں کی گلہ بانی کرتے تھے، معمولی کاروبار کرتے تھے، اس قرآن کی بدولت دنیا کے حکمراں اور انسانیت کے رہنمابن گئے۔ آج ہمارے پاس وہی قرآن ہے لیکن ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ہے، آخر کیا بات ہے؟بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ذلت وپستی قرآن کو ماننے والوں کے لیے لکھ دی گئی ہے،ساری دنیا میں ہماری ہی ذلت ورسوائی کا چرچ ہے ،غربت وافلاس مسلمانوں کی پہچان بن گئی ہے،غیر قومیں ہمیں ہلاک کرنے کے لیے اس طرح ٹوٹی پڑرہی ہیں جس طرح بھوکے دستر خواں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ایسا کیوں ہے؟اس سوال کا واحد جواب یہ ہے کہ’’ قرآن‘‘ ہماری زندگی سے نکل چکا ہے ۔ہم نے قرآن مجید کو محض تبرک کی کتاب سمجھ لیا ہے۔جھاڑ ،پھونک ، تعویذ ،گنڈے، اور ایصال ثواب کی کتاب سمجھ رکھا ہے ۔ ہماری گھریلوزندگی قرآنی احکام سے یکسر خالی ہے، تجارت ومعیشت میں ہم قرآنی احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں، ہماری سیاست قرآنی اصولوں سے بالکل بے نیاز ہے۔ہماری تعلیمی پالیسیوں میں قرآن سے استفادہ نہیں کیا جارہا ہے،ہمارا رہن سہن اور طرز معاشرت قرآن کے مطابق نہیں رہا ۔ ذلت ورسوائی کا یہ سودا ہم نے قرآن مجید کو عملی زندگی سے خارج کر کے کیا ہے۔ایسے ہی تارک قرآن مسلمان کے بارے میں نبی کریم ﷺ کل قیامت کے دن اللہ کے حضور شکوہ کریں گے۔ ’’ اے میرے پروردگار ! بے شک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘ (فرقان :۳۰)یہی نہیں قرآن بھی ایسے لوگوں کے خلاف گواہ بن کرکھڑا ہوگاجیساکہ حدیث میں آیا ہے’’قرآن مجید روز قیامت تمہارے حق میں گواہی دے گا یا پھر تمہارے خلاف گواہی دے گا‘‘ (مسلم شریف)یعنی اگر تم قرآن مجید سے محبت رکھو گے، اسے پڑھو گے ،اس سے ہدایت حاصل کروگے،اس پر عمل کروگے اور اس کا پیغام دنیا کے سامنے پیش کرو گے تو روز قیامت یہ تمہارے حق میں گواہ بن جائے گااور جب تم قرآن نہیں پڑھو گے ،اسے نہیں سمجھو گے ، اس کی تعلیمات پر عمل نہیں کروگے اور اسے پیش کرنا چھوڑ دو گے تو یہ روزقیامت تمہارے خلاف اللہ کی عدالت میں گواہ بن جائے گا۔ چنانچہ خودرسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے بعض لوگوں کو بلندی عطا کرتا ہے اوربعض لوگوں کو ذلت وپستی میں دھکیل دیتا ہے‘‘ (مسلم)
س امت کی زندگی کی تعمیر اللہ کی کتاب پر ہوئی ہے۔ اس امت کو اس دنیا کے اندر جو کچھ ملا ہے ، وہ اللہ کی کتاب کے واسطے سے ملا ہے۔ اس کی سوچ ،اس کی فکر ، اس کا اخلاق یہ سب اللہ کی کتاب نے بنایا ہے ،عرب کی سرزمین میں ،بدر کے میدان میں اور اس کے بعد مکہ کی سرزمین میں ،جو فتوحات ان کو حاصل ہوئیں، یہ سب بھی قرآن مجید کی برکت اور اس کے نتیجہ میںتھا۔ اس کے بعد تیس سال کے عرصے میں شمالی افریقہ سے لے کر پورے مشرق وسطیٰ پر ان کا غلبہ ہوگیا جیسا کہ قرآن مجید نے پیش گوئی کی تھی۔اللہ کی کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کے نتیجے میں ان کے دل بھی بدلے، اخلاق بھی بدلے ،اعمال بھی بدلے اور زندگیاں بھی بدل گئیں ،دنیا کے اندر ان کو خوش حالی نصیب ہوئی اور غلبہ اورعزت ان کے حصے میں آئی اورآخرت کا اجر بھی ان کے لیے لگھا گیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اندر جب بھی کوئی خرابی پیدا ہو ئی تو اس خرابی کا سبب اللہ کی کتاب سے بے تعلقی ہی رہی ۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا ’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں،تم ہرگز نہ بھٹکو گے جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے— اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت‘‘۔ (موطا امام مالکؒ )اس بات کا احساس ہمارے دشمنوں کو بھی ہے کہ جب تک اس کتاب سے مسلمان کا تعلق رہے گا وہ کبھی ذلیل وخوار نہ ہوں گے۔ انگلینڈ کے وزیر اعظم گلیڈاسٹون نے صلیبی جنگوں کے دوران ایک بار قرآن ہاتھ میں لے کر برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تم چاہتے ہوکہ مسلمان نیست ونابود ہوجائیں تو اس کتاب کو دریا برد کردو۔ جب تک یہ کتاب دنیا میں موجود رہے گی اور مسلمانوں کا اس سے تعلق رہے گا تم ان پر غالب نہیں آسکتے ‘‘۔اس لیے ضرورت ہے اور اشد ضرورت ہے کہ مسلمان قرآن سے تعلق اور حقیقی تعلق قائم کریں۔قرآن سے حقیقی تعلق قائم ہونے کے بعد انشاء اللہ مسلمانوں کے زوال کی کہانی ختم ہوجائے گی۔ حقیقی تعلق کا تقاضا ہے کہ مسلمان —–(۱)قرآن پڑھیں(۲) قرآن سمجھیں (۳)قرآن کے احکام پر عمل کریں (۴) اورقرآن کے پیغام کو دینا کے سامنے پیش کریں۔
قرآن کا پڑھنا:۔قرآن کے لفظی معنی ہی ہیں باربار پڑھی جانے والی کتاب۔اسی لیے قرآن پڑھنے کے عمل کو ’’قرأت ‘ کہا جاتا ہے ۔اور یہ واقعہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اس گئی گذری حالت کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ’’قرآن مجید‘‘ ہے ۔اور سب سے زیادہ حفظ یعنی یادکی جانے والے کتاب بھی قرآن مجید ہی ہے۔ مسلمانوں کو روزانہ کچھ نہ کچھ قرآن ضرور پڑھنا چاہیے ۔ اپنی زندگی کے کسی دن کو آپ اس وقت تک مکمل نہ سمجھئے جب تک کہ اس دن کا کچھ نہ کچھ حصہ آپ نے قرآن کے ساتھ صرف نہ کرلیا ہو۔صحیح احادیث میں تلاوت قرآن کی بہت زیادہ فضلیت بیان ہوئی ہے ۔ ایک مشہور حدیث ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’جس شخص نے قرآن مجید کاایک حرف پڑھا، اسے اس کے بدلے میں ایک ایسی نیکی ملے گی جس کا بدلہ دس گنا ہے۔ (یعنی دس نیکیوں کا ثواب ملے گا) اور میری مراد یہ نہیں کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے ،لام ایک حرف ہے اور میم ایک اور حرف ہے۔(ترمذی)یہ حدیث بتاتی ہے کہ چند منٹ قرآن مجید کی تلاوت کرلی جائے تو ہزاروں نیکیاں حاصل ہوسکتی ہیں۔جن لوگوں کو قرآن پڑھنا نہیںآتا انہیں سیکھنا چاہیے اورجنہیں آتا ہے انہیںدوسروں کوسکھانا چاہیے۔اللہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کوسکھائے۔ (بخاری )سیکھنے کے نتیجے میں جیسا کچھ بھی پڑھنا آ جائے پڑھنا شروع کردینا چاہیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کا ماہر ، قرآن کے لکھنے والے معزز اور پاکیزہ فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن مجید کو اَٹک اَٹک کر اوربڑی مشکل سے پڑھتا ہے، اس کے لیے دوہرا اجر ہے‘‘( مسلم ) اس طرح اٹک اٹک کر پڑھنے والے کی حوصلہ شکنی نہیں گئی ہے بلکہ دوہرے اجر کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔قرآن روزانہ باقاعدگی سے پڑھنا چاہیے، ورنہ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ آسانی سے ضائع ہوجائے گا۔آپ روزانہ کتنا پڑھیں گے یہ کوئی متعین نہیںہے۔ قرآن نے کہا کہ ’’جتناقرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔(مزمل : ۲۰)عربی ایک ایسی زبان ہے کہ پڑھتے ہوئے اعراب کی معمولی غلطی سے بسااوقات معنی میں بڑی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے اور مفہوم بدل جاتا ہے، حتیٰ کہ کفر کے مصداق ہوجاتا ہے اس لیے ہمیں قرآن صحیح صحیح پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جہاں تک ہو سکے اپنی اچھی آوازوں سے مزین کرکے پڑھنا چاہیے ۔قرآن پڑھنا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان کو کم ازکم دن میں پانچ مرتبہ نمازپڑھنی ہے ،ہر نماز میں قرآن لازماً پڑھنا پڑتاہے۔تجوید کا فن نہ بھی سیکھ سکیں تب بھی اعراب اور حروف کی ادائیگی صحت کے ساتھ ہونا چاہیے۔خود قرآن میں حکم آیا ہے کہ’’ ترتیل ‘‘کے ساتھ پڑھنا چاہیے ۔ ترتیل کا مطلب ہے کہ کسی قسم کے جلدی کے بغیر ، واضح طورپر،سکون سے ،نپے تلے لہجے میں ،غور وفکر کے ساتھ پڑھے جس میں زبان ،دل اور اعضائے جسمانی سب مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں۔تلاوت قرآن کے آداب میں سے ہے کہ روزانہ معمول بنایا جائے۔ایسا قطعاً نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ہفتہ میںایک دن یارمضان المبارک میں ایک ختم کرکے سال بھر قرآن کی طرف پلٹ کر نہ دیکھیں۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کو وہ عمل زیادہ پسند ہے جو دوام (ہمیشگی) کے ساتھ کیا جائے،خواہ تھوڑاہی کیوں نہ ہو‘‘۔ (بخاری)
حفظ قرآن: قرآن کا جتنا حصہ یاد کرسکتے ہیں ،ضرور کیجئے۔ قرآن ہی ایک منفرد کتا ب ہے جو خود تقاضا کرتی ہے کہ اسے یاد رکھا جائے اور حفظ کیا جائے۔حفظ قرآن کا مروجہ طریقہ ہے کہ پوراقرآن بچپن میں یادکرلیا جائے ۔جو کسی وجہ سے پورا قرآن یاد نہ کرسکے وہ کچھ بھی یاد نہ کرے،یہ سوچ صحیح نہیں ہے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ’ ’قرآن حفظ کرو، اللہ تعالیٰ اس دل کو عذاب نہیں دے گا جس میں قرآن ہوگا۔(شرح السنہ)دوسری جگہ آپﷺ نے فرمایاکہ’’جس دل کے اندر قرآن کا کوئی حصہ نہ ہو وہ ایک اجڑے ہوئے مکان کی طرح ہے‘‘۔ (ترمذی)
سمجھ کر پڑھنا:قرآن مجید عربی زبان میںہے جو ہماری مادری زبان نہیں ہے ۔ جب تک کہ ہمیں یہ علم نہ ہو کہ قرآن مجید معاشرتی ،معاشی اور سیاسی زندگی میں ہمیں کیا ہدایات دیتا ہے؟ موت وحیات اور مرنے کے بعد کے بارے میں اس کا نقطہ نظر کیا ہے؟ کن کاموں کو کرنے کا حکم دیتا ہے اور کن سے روکتا ہے ؟ تو ہم کیسے اس کے احکام پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں؟۔اس کے لیے عربی زبان سے واقفیت تو ضروری ہے ہی لیکن اگرہم عربی زبان نہ جانتے ہوں تو بھی قرآن کی ہدایات اور مطالب کو ترجمے سے سمجھ سکتے ہیں ،اللہ کا شکر ہے کہ آج ہر زبان میں قرآن کا ترجمہ موجود ہے۔ترجمہ پڑھ کر آپ الفاظ قرآنی کا مطلب اور مدعا بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ ’’بیشک ہم نے قرآن کو سمجھنے لیے آسان کردیا ہے،پس کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟ ۔ (سورہ قمر:آیت ۴۰) افسوس ہے کہ آج دنیاکی ساری کتابیں انسان سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن قرآن کو بغیر سمجھے پڑھنے پر نہ صرف اکتفا بلکہ اصرار کیا جاتا ہے۔ آخر قرآن کی تلات میں ترتیل یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے ،آیت پر رکنے ،اوقاف ورموزکا خیال کرنے کو کیوں لازم کیا گیا ہے؟ اسی لیے نا تاکہ ہم ٹھہرکر اور رک کر اس پرغور کریں اور سمجھیں۔
قرآن پر عمل:۔قرآن اپنے پڑھنے کے عمل کے لیے جو لفظ استعمال کرتا ہے وہ ہے’’تلاوت‘ ‘ ۔ تلاوت کے معنی ہوتے ہیں تعاقب کرنا، پیچھے پیچھے چلنا، پیروی کرنا،یعنی قرآن جو کچھ بتا ناہے اس پر عمل کرنا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ناظرہ پڑھ لینے سے تلاوت کا حق ادا نہ ہوگا،بلکہ سمجھ کر پڑھنا ہوگاتاکہ عمل کی راہ استوار ہو، اس لیے کہ قرآن پر عمل ضروری ہے،اگر کوئی شخص قرآنی احکام پر عمل نہیں کرتا تو اس کا قرآن پر ایمان لانا بلا ناغہ اس کی تلاوت کرنا، اسے کچھ فائدہ نہ دے گا۔ جو لوگ قرآنی احکام کا علم رکھنے کے باجود اس پرعمل نہیں کرتے، قرآنی تمثیل کے مطابق وہ اس گدھے کے مانند ہیں جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو ،مگر وہ گدھا ہونے کی وجہ سے اپنے اوپر لدی کتابوں کو سمجھنے سے قاصرہے ۔ طبرانی کی روایت ہے ’’ قرآن کی تلاوت کرو تاکہ تم جو کچھ وہ منع کرتا ہے، اس سے رک سکو۔ اگر یہ تمہیں اس قابل نہ بنائے کہ تم رک جاؤ تو تم نے اس کی حقیقی معنوں میں تلاوت نہیں کی ہے۔(طبرانی)ایک حدیث میں ہے کہ ’’ وہ قرآن کا سچا ماننے والا نہیں ہے جو اس کے حرام کیے ہوئے کو حلال سمجھتا ہے۔ (ترمذی) قرآن کا جتنا علم وفہم انسان کو حاصل ہو اسے وہ ساتھ ساتھ اپنے اعمال وافعال ،عادات واطوار اور سیرت وکردار کا جزبناتاچلاجائے ۔ بصورت دیگر اس کا خدشہ ہے کہ قرآن کا علم وفہم الٹا انسان کے خلاف حجت بن جائے۔آپﷺ نے فرمایا کہ’’ میری امت کے منافقین کی سب سے بڑی تعداد قرآن پڑھنے والوں کی ہوگی‘‘ (مسند احمد)بخاری کی روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ایک خواب کی تعبیر بتا تے ہوئے فرمایا کہ جس شخص کوقرآن کا علم دیا گیا مگروہ رات کو سوتا رہا اوردن کو بھی قرآن پر عمل نہ کیا قیامت کے دن ایک پتھر سے بار بار اس کا سر کچلا جائے گا۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے بقول ’’آپ ﷺ کی سیرت تعلیمات قرآنی کا مکمل نمونہ تھی‘‘ گویا آپ ﷺ مجسم قرآن تھے۔لہذا سلامتی کی راہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کا جس قدر علم بھی انسان کو حاصل ہو ا اس پروہ حتی الامکان فوری طور پر عمل شروع کردے۔
قرآن کی تبلیغ وترویج:۔ ماننے ،پڑھنے ،سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ قرآن کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان حسب صلاحیت واستعداداسے دوسروں تک پہنچائے۔کیوں کہ یہ کتاب صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ’’للناس‘‘ یعنی عام انسانوں کے لیے ہے ۔اس لیے جن لوگوں تک نہیں پہنچی ہے وہاں تک ہرحال میں پہنچنی چاہیے ۔نبی ﷺ پرجیسے ہی وحی آتی تھی آپ ﷺ اسے عوام تک پہنچادیتے تھے۔چنانچہ آپ کی بعثت کے مقاصدمیں’’تلاوت آیات، تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب وحکمت‘‘ سر فہرست ہے۔اب نبی کے بعد آپ ﷺ کے پیروکار ہونے اور اللہ کی کتاب کے حامل ہونے کی حیثیت سے یہی مشن ہمارے سپرد ہے۔ ارشاد باری ہے’’ یہ (قرآن) پہنچا دینا ہے لوگوں تک تاکہ وہ اس کے ذریعے خبردار کردیے جائیں‘‘۔ (ابراہیم:۵۲)قرآن نبی ﷺ پر اپنے نزول کا اولین مقصد اس طرح بیان کرتا ہے ’’ اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ،سب کو متنبہ کردوں۔ (سورہ الانعام: ۱۹)جب تک مسلمان اپنے قول اور عمل سے قرآن کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کریں گے،وہ قرآن کا حق ہرگز ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ کا فرمان ہے۔’’اللہ تعالی ٰ اس قرآن سے بعض قوموں کو زوال عطا کرتا ہے اور بعض کو عروج۔ کاش انہوں نے تورات اورانجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پا س بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا‘‘ ۔( سورہ مائدہ ۶۶)
تقریر اور تحریر سے اوپر اٹھ کر اگرملت کے باشعور افراد خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر ایک مرتبہ اپنی بستی ؍محلہ ؍ گاؤں اور کالونی کا سروے کریں کہ کتنے لوگوں (مردوخواتین)کو قرآن ناظرہ پڑھنا نہیںآتا ہے؍کتنے لوگوں کو پڑھناتو آتاہے مگر وہ تلاوت نہیں کرتے،ترجمہ کے ساتھ کتنے لوگ پڑھ سکتے ہیں لیکن عملاًپڑھتے نہیںہیں۔۔کن مساجد اور محلوں میںقرآن پڑھنے اور پڑھانے کے لیے کوئی مکتب ومدرسہ قائم نہیں ہے؟۔قرآن کی کتنی تعلیمات سے ہم آشنا ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے ؟اور اس سروے رپورٹ کی روشنی میں اپنے ہی محلہ ،گاؤں اوربستی کے افرادسے مشورہ کرکے ’’بچوں کے لیے ناظرہ قرآن کے لیے مکاتب،بڑوں کے لیے تعلیم بالغان کے مراکزاور تفہیم قرآن کے لیے ’’عوامی دروس قرآن ‘‘کی شروعات کرنے کا عزم مصمم کریں۔یہ کوئی راقم الحروف کی سوچ نہیں ہے بلکہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب جب مالٹا کے جیل سے لوٹ کر آئے تھے تو انہوں نے برجستہ ایک خطاب میں فرمایا کہ’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پرغور کیا کہ پوری دنیا میں آج مسلمان دینی اور دنیوںاعتبار سے کیوں تباہ ہوررہے ہیں تو میری سمجھ میں اس کے دو اسباب آتے ہیں۔ایک تو مسلمانوں کا قرآن مجید چھوڑدینا۔اوردوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔
اس لیے میں مالٹا کے جیل سے عزم کرکے آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کردوں کہ قرآن مجید کو لفظاً ومعناً عام کیا جائے۔بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کئے جائیں۔بڑوں کو عوامی درس قرآن مجید کی صورت میں اس کے معنی اور مفہوم سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے۔اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے اور اخوت ومساوات کی فضا پیدا کرکے مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کے جذبات ابھارے جائیں۔
اگرہم نے اپنے آپ کو اور ملت کے عوام وخواص کو قرآن سے حرفاً،معناً اور عملاً جوڑدیا تو دنیا سے لے کر آخرت تک کی بھلائی سے اس ملت اور ملت کے افرادکو ئی نہیں روک سکتا ۔ ان شاء اللہ اس کے ذریعہ ایک ایک فرد کی تربیت سے لے کر معاشرہ اور ریاست تک کی اصلاح کا فریضہ بحسن وخوبی انجام پائے گا اوردنیا ایک بار پھر امن وسکون کا گوارہ بن جائے گی اور یہ امت امامت کبریٰ کے منصب پر فائز ہوجائے گی۔
***

 

***

 اگرہم نے اپنے آپ کو اور ملت کے عوام وخواص کو قرآن سے حرفاً،معناً اور عملاً جوڑدیا تو دنیا سے لے کر آخرت تک کی بھلائی سے اس ملت اور ملت کے افرادکو ئی نہیں روک سکتا ۔ ان شاء اللہ اس کے ذریعہ ایک ایک فرد کی تربیت سے لے کر معاشرہ اور ریاست تک کی اصلاح کا فریضہ بحسن وخوبی انجام پائے گا اوردنیا ایک بار پھر امن وسکون کا گوارہ بن جائے گی اور یہ امت امامت کبریٰ کے منصب پر فائز ہوجائے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022