’’ہندوستان کو بدنام کرنے والے ’فرضی بیانیوں‘ کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے‘‘، بی بی سی کے دفاتر میں محکمہ انکم ٹیکس کی تحقیقات کے درمیان نائب صدر جمہوریہ کا بیان

نئی دہلی، فروری 16: نائب صدر جگدیپ دھنکھر نے بدھ کے روز کہا کہ ان ’’سازشی بیانیوں‘‘ کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو ہندوستان کی ترقی کی کہانی کو مٹانا چاہتے ہیں۔

ان کا یہ تبصرہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ممبئی اور دہلی واقع دفاتر میں محکمہ انکم ٹیکس کی تلاشی کے پس منظر میں آیا ہے۔

یہ تلاشیاں، جسے حکام نے ’’سروے آپریشن‘‘ کا نام دیا ہے، منگل کو بی بی سی کی جانب سے 2002 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے مبینہ کردار کا جائزہ لینے والی دو حصوں پر مشتمل ایک دستاویزی فلم جاری کرنے کے بعد شروع کی گئی ہیں۔

حکومت نے اس دستاویزی فلم کو ’’ایک پروپیگنڈہ‘‘ قرار دیا تھا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز 2021 کے تحت دستیاب ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس پر پابندی لگادی۔

بدھ کے روز اپنی سرکاری رہائش گاہ پر انڈین انفارمیشن سروس کے پروبیشنرز کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے دھنکھر نے کہا کہ حقائق کا غلط بیانیہ ’’حملے‘‘ کی ایک شکل ہے اور اسے دلیری کے ساتھ بے اثر کرنے کی ضرورت ہے۔

دھنکھر نے کہا ’’پچھلی دہائی یا اس سے پہلے ایک عالمی نیوز ہاؤس کی طرف سے ایک بیانیہ پیش کیا گیا تھا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کسی کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور اس لیے انسانیت کے حق میں اس کے خلاف جانے کی ایک معقول وجہ ہے۔‘‘

نائب صدر، امریکا میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں بی بی سی کی رپورٹ کا حوالہ دے رہے تھے۔ بی بی سی کا وہ دعویٰ بعد میں غلط ثابت ہوا تھا۔

سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے اس وقت اس دعوے کی حمایت کی تھی۔ مودی کے بارے میں بی بی سی کی دستاویزی فلم میں گجرات فسادات پر اسٹرا کا حوالہ دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بی جے پی کے حامی اس کی ساکھ پر سوال اٹھا رہے تھے۔

دھنکھر نے مزید کہا ’’اب جب ہندوستان عروج پر ہے، معلومات کے غلط استعمال کے ذریعے ایک بیانیہ قائم کرنے کے لیے مذموم منصوبہ موجود ہے، ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا۔‘‘

نائب صدر نے کہا کہ ہندوستان کو دنیا میں بجا طور پر مواقع کی سرزمین اور سرمایہ کاری کی سرزمین کے طور پر جانا جاتا ہے ’’لیکن یہ سب کچھ گڑبڑ ہو سکتا ہے اگر ہمارا انفارمیشن میکانزم مضبوط نہ رہے۔‘‘

دھنکھر نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کے ’’نام نہاد دانشوروں‘‘ میں ’’باہر سے آنے والی کسی بھی چیز‘‘ کو بالکل درست سمجھنے کا ایک شیطانی رجحان بڑھا ہے۔ ’’اس رجحان پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘

نائب صدر نے انڈین انفارمیشن سروس کے افسران پر زور دیا کہ وہ ’’جمہوریت اور قوم پرستی کے حقیقی محافظ‘‘ بنیں۔