بی بی سی دستاویزی فلم: دہلی کی ایک عدالت نے ہتک عزت کیس میں بی بی سی، وکیمیڈیا اور انٹرنیٹ آرکائیو کو طلب کیا

نئی دہلی، مئی 4: دہلی کی ایک عدالت نے بدھ کو بی بی سی، غیر منافع بخش ادارے وکیمیڈیا اور ڈیجیٹل لائبریری انٹرنیٹ آرکائیو کو 2002 کے گجرات فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے مبینہ کردار سے متعلق ایک دستاویزی فلم سے متعلق ہتک عزت کے مقدمے میں سمن جاری کیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن بِنَے کمار سنگھ کی طرف سے دائر کردہ ہتک عزت کی شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ اگرچہ دستاویزی فلم کو ہندوستان میں سرکاری طور پر ریلیز نہیں کیا گیا ہے، لیک ایک وکی پیڈیا صفحہ اسے دیکھنے کے لیے لنک فراہم کرتا ہے اور یہ کہ مواد اب بھی انٹرنیٹ آرکائیو پر دستیاب ہے۔ ویکیمیڈیا فاؤنڈیشن ویکیپیڈیا کی ویب سائٹ کو فنڈ دیتی ہے۔

17 جنوری کو بی بی سی نے دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم ’’انڈیا: دی مودی کویشچن‘‘ کی پہلی قسط جاری کی تھی۔ دستاویزی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی طرف سے 2002 کے گجرات فسادات کی انکوائری کے لیے بھیجی گئی ایک ٹیم نے پایا تھا کہ مودی، جو اس وقت ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے، ’’اس ماحول کے لیے براہ راست ذمہ دار ہیں‘‘ جس کی وجہ سے تشدد ہوا تھا۔

سرکاری ریکارڈ بتاتا ہے کہ فسادات میں 790 مسلمان اور 254 ہندو مارے گئے تھے۔

دستاویزی فلم میں برطانیہ حکومت کی طرف سے بھیجے گئے تفتیش کاروں میں سے ایک سابق سینئر سفارت کار کو بھی دکھایا گیا، جس نے کہا کہ تشدد کی منصوبہ بندی وشو ہندو پریشد نے کی تھی، جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ ہے۔

21 جنوری کو مرکز نے یوٹیوب اور ٹویٹر کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے اس دستاویزی فلم کے لنکس ہٹا دیں۔

اپنی عرضی میں بی جے پی رکن سنگھ نے الزام لگایا کہ اس دستاویزی فلم میں وشو ہندو پریشد اور مودی کے خلاف ہتک آمیز اور بے بنیاد الزامات ہیں۔ اس نے عدالت سے بی بی سی، وکی پیڈیا اور انٹرنیٹ آرکائیو کو دستاویزی فلم شائع کرنے سے روکنے کے لیے ہدایات مانگیں۔

سنگھ نے عدالت سے تینوں پلیٹ فارمز کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور وشو ہندو پریشد سے متعلق کسی بھی دوسرے ہتک آمیز مواد کو شائع کرنے سے روکنے کا حکم جاری کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور وشو ہندو پریشد کے خلاف لگائے گئے الزامات تنظیم اور اس کے لاکھوں ارکان/رضاکاروں کو بدنام کرنے کے مذموم ارادے سے محرک ہیں۔‘‘

عدالت نے تینوں پلیٹ فارمز کو 30 دنوں کے اندر اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت کی۔ معاملے کی اگلی سماعت 11 مئی کو ہوگی۔

بی بی سی کی جانب سے دستاویزی فلم جاری کرنے کے ایک ماہ بعد محکمۂ انکم ٹیکس نے بھی دہلی اور ممبئی میں برطانوی نشریاتی ادارے کے دفاتر کا سروے کیا تھا۔ ٹیکس باڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان میں بی بی سی کی آمدنی ملک میں اس کے آپریشنز کے پیمانے کے مطابق نہیں ہے۔

گذشتہ ماہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بھی بی بی سی انڈیا کے خلاف غیر ملکی زرمبادلہ کے قوانین کی خلاف ورزی کا مقدمہ بھی درج کیا تھا۔ مرکزی ایجنسی نے میڈیا کمپنی کو فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ کے تحت درج کیا ہے جب اس نے برطانوی براڈکاسٹر کے انڈیا یونٹ کی غیر ملکی ترسیلات کی جانچ پڑتال کی۔