بی بی سی انڈیا کے دفاتر میں ٹیکس سروے کے بعد امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ صحافت کی آزادی کا حامی ہے

نئی دہلی، فروری 15: ریاستہائے متحدہ کے محکمۂ خارجہ نے منگل کو دنیا بھر میں آزاد صحافت کی اہمیت پر اپنے موقف کا اعادہ کیا، جب ہندوستانی ٹیکس حکام نے بی بی سی کے نئی دہلی اور ممبئی کے دفاتر میں ’’سروے آپریشن‘‘ کیا۔

یہ پیش رفت جنوری میں برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم جاری کرنے کے ایک ماہ سے بھی کم وقت کے بعد ہوئی ہے جس میں 2002 میں گجرات میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے مبینہ کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

عہدیداروں نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے منگل کی صبح کی جانے والی تلاشی ہندوستان میں بی بی سی کے کاروباری کاموں میں ٹیکس چوری کی تحقیقات کا حصہ تھی۔ ایک سروے میں محکمہ صرف کمپنی کے کاروباری احاطے کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے پروموٹرز یا ڈائریکٹرز کے گھروں اور دیگر مقامات کی تلاشی نہیں کرتا ہے۔

اس پیش رفت کے بارے میں پوچھے جانے پر امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ آزادی اظہار اور مذہب کی آزادی عالمی حقوق اور دنیا بھر کی جمہوریتوں کی بنیاد ہیں۔ انھوں نے مزید کہا ’’اس نے یہاں اس ملک میں جمہوریت کو مضبوط کیا ہے۔ اس نے ہندوستان کی جمہوریت کو مضبوط کیا ہے۔‘‘

اس پر کہ آیا ہندوستانی ٹیکس حکام کی کارروائی آزادیٔ صحافت کے خلاف ہے، نیڈ نے کہا ’’میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ ہمیں اس کا علم ہے، لیکن میں فیصلہ کرنے کے پوزیشن میں نہیں ہوں۔‘‘

منگل کی رات 10.26 بجے بی بی سی نے کہا کہ ٹیکس حکام اب بھی اس کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر میں موجود ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ ’’بہت سے عملے نے اب عمارت چھوڑ دی ہے لیکن کچھ کو رہنے کے لیے کہا گیا ہے اور وہ جاری پوچھ گچھ میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم اس وقت کے دوران اپنے عملے کی مدد کر رہے ہیں اور اس صورت حال کو جلد از جلد حل کرنے کی امید جاری رکھیں گے۔‘‘

ابھی تک برطانیہ کی حکومت نے اس کارروائی کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔ لیکن عالمی میڈیا کے حقوق کے حامیوں اور ہندوستان کے اپوزیشن رہنماؤں نے ان تلاشیوں کی مذمت کی ہے۔

امریکہ میں قائم آزاد غیر منافع بخش کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بھارتی حکام سے صحافیوں کو ہراساں کرنا بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تنظیم کے ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹر نے کہا ’’وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرنے والی ایک دستاویزی فلم کے تناظر میں بی بی سی کے انڈیا کے دفاتر پر چھاپہ مارنا دھمکی آمیز ہے۔ بھارتی حکام نے پہلے بھی تنقیدی خبر رساں اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے ٹیکس کی تحقیقات کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ انھیں بی بی سی کے ملازمین کو ہراساں کرنا فوری طور پر بند کرنا چاہیے۔‘‘

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ بھارتی حکام بی بی سی کو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی تنقیدی کوریج کے لیے ہراساں کرنے اور ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے بورڈ کے سربراہ آکار پٹیل نے کہا ’’محکمہ انکم ٹیکس کے وسیع اختیارات کو بار بار اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے سال، ٹیکس حکام نے آکسفیم انڈیا سمیت متعدد این جی اوز کے دفاتر پر بھی چھاپے مارے۔ بھارت میں آزادی اظہار کے حق کو مجروح کرنے والی یہ دھمکی آمیز کارروائیاں اب ختم ہونی چاہئیں۔‘‘

2020 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کو ہندوستان میں اپنا تمام کام اس وقت روکنا پڑا تھا جب حکومت نے اس کے دفاتر پر چھاپوں کے بعد اس کے بینک اکاؤنٹس منجمد کردیے تھے۔

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ساؤتھ ایشیا سالیڈیریٹی گروپ نے منگل کے روز بی بی سی کے دفاتر میں کیے گئے ٹیکس سروے کو دستاویزی فلم کے تناظر میں ایک ’’واضح انتقامی اقدام‘‘ قرار دیا۔