معلم قرآن کی فضیلت

قرآن پڑھیں،پڑھائیں اور قابل رشک بنیں

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

معلم قرآن کی بڑی فضیلت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن کو پڑھے اور پڑھائے۔
رسول اکرم ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق جو لوگ قرآن مجید سے پہلے خود ہدایت کی تعلیم لیتے ہیں اور پھر اس ہدایت کو دوسرے بندگانِ خدا تک پہنچنانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ایسے لوگ تم میں سب سے بہتر لوگ ہیں۔ ایک شخص وہ ہوتا ہے کہ جو قرآن مجید سے ہدایت کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور اس کے مطابق اپنی اصلاح کرتا ہے پھر ان ہدایات کی روشنی میں زندگی گزارتا ہے، ایسا شخص یقیناً ایک اچھا انسان ہے، لیکن اس حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس شخص سے اور دوسرے سارے انسانوں سے بہتر شخص وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت عظیم کو پا کر نہ صرف اس کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے بلکہ وہ اس ہدایت کو بندگانِ خدا تک پہنچنانے میں لگ جاتا ہے تاکہ وہ بھی اس ہدایت سے اپنی زندگیوں کی اصلاح کریں، اسی وجہ سے اس کا درجہ اوروں سے بلند ہے۔
حدیث میں ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم دینا، دنیا کے کسی بھی قیمتی شئے کو حاصل کر لینے سے بہتر ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ ہم صفہ میں تھے۔ آپ نے فرمایا ’’تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ بطحان یا عقیق وادی میں جائے اور وہاں سے موٹی تازہ اور خوبصورت اونچے کوہان والی دو اونٹنیاں لے آئے اور اس میں کسی گناہ یا قطع رحمی کا مرتکب بھی نہ ہو ۔‘‘ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم سب یہ چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’تمہارا ہر روز مسجد جا کر کتاب اللہ سے دو آیتیں سیکھ لینا، دو اونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے، اگر تین آیتیں سیکھے تو تین اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ اسی طرح مزید آیتوں کی تعداد کے مطابق اونٹنیوں سے بہتر ہے‘‘
مسجد نبوی کے متصل ایک چبوترہ بنایا گیا اور اس کے اوپر ایک چھپر ڈال دی گئی، اسی چبوترے کا نام صفہ رکھا گیا، یہاں وہ صحابہ قیام پذیر تھے جو مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئے تھے اور وہ صحابہ جو دور دراز کے علاقوں سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ یہ وہ صحابہ تھے جن کے پاس نہ کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ ہی کوئی ذریعہ معاش، مدینہ کے انصاری صحابہ اور دوسرے مہاجر صحابہ ان کی مدد کرتے تھے، یہ صحابہ ہر وقت رسول اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں مستعد رہتے تھے اور آپ جس خدمت کے لیے اور جس مہم پر جب چاہتے ان صحابہ کو روانہ کر دیتے تھے۔ مدینہ کے قریب دو وادیاں عقیق اور بطحان نام کی تھیں۔ ان وادیوں میں اونٹوں کی خرید وفروخت کے بڑے بڑے بازار لگا کرتے تھے، حضور اکرم ﷺ ان اصحابِ صفہ سے جو بے گھر و بےسروسامانی کی حالت میں تھے، مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ تم میں کون ہے جو بطحان و عقیق کی وادیوں میں جائے اور بڑے بڑے کوہان والی دو اونٹنیاں مفت میں لے آئے۔ اصحاب صفہ نے کہا کہ یہ تو ہم سب چاہیں گے، اس پر آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص کسی کو دو آیتیں سنائے یہ اس سے بہتر ہے کہ اسے دو عمدہ قسم کی اونٹنیاں مفت میں مل جائیں۔
کتنی حکمت بھری بات اللہ کے رسول نے ارشاد فرمائی ہےکہ قرآن کی تعلیم حاصل کرنا دنیا کی قیمتی شئے زیادہ بہتر ہے، یہی وہ اصحابِ صفہ ہیں جن کے تذکرے ہم نے کئی بار پڑھے ہیں، جنہوں نے اللہ کے سچے دین کو اختیار کیا جس کی پاداش میں وہ بے گھر ہو گئے۔ جس دین کو انہوں نے اختیار کیا تھا وہی دین کفار و مشرکین کو ناپسند تھا، انہوں نے اس بات کو گوارا کیا کہ وہ اپنی عزیزوں کو، اپنے گھر بار کو، اپنے عیش و آرام کو چھوڑ دیں لیکن انہیں یہ گوارا نہیں تھا دین حق کو چھوڑیں۔ ان کی اس بے سروسامانی کی حالت میں یہ اندیشہ ہو سکتا تھا کہ شیطان کہیں ان کے دلوں میں وسوسے نہ ڈال دے کہ تم نے خواہ مخواہ اپنے گھر بار کو چھوڑا اور غربت کی زندگی اختیار کی، اللہ کے رسول ﷺ نے کمال حکمت سے ان کے ذہنوں کو موڑتے ہوئے یہ کہا کہ تمہارا ان دو عمدہ اونٹنیوں کا مفت میں حاصل کرنے سے بہ درجہ بہتر ہے کہ اللہ کے بندوں کو قرآن کی تعلیم دو، تم نے جس دین کی خاطر اپنے گھر بار کو چھوڑا ہے، اپنے عیش و آرام کو چھوڑا ہے، اسی کی خاطر ہجرت کی ہے تو تمہارا وقت اسی دین کے کام میں صرف ہونا چاہیے، متاعِ دنیا حاصل کرنے کی خواہش کے بجائے اپنا وقت اس دین کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے تاکہ تمہارا تعلق خدا سے مزید مضبوط ہو اور بندگانِ خدا کو راہ راست دکھا کر اس کی مہربانیوں کے زیادہ مستحق بن سکو۔ یہی لوگ تھے جو اس کتاب ہدایت کے ذریعے دنیا کے بہت بڑے حصے پر چھا گئے، یہی وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایثار و قربانی کی نتیجے میں بڑی بڑی سلطنتوں کا مالک بنا دیا، انہوں نے دیکھ لیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے، انہوں نے دیکھ لیا کہ ایثار و قربانی، صبرو ثبات اور راہ راست اختیار کرنے کی صورت میں کیا نتائج نکلتے ہیں، اسی قرآن کی دولت سے انہوں نے دنیا کو مسخر کیا، اس کی ایک ایک ہدایت پر عمل کرنے کے نتیجے میں دنیا ان کے
قدموں میں ڈھیر ہو گئی تھی۔ قرآن مجید جیسی عظیم نعمت کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ جب وہ (باہر سے) اپنے گھر واپس آئے تو اس میں تین بڑی فربہ حاملہ اونٹنیاں موجود پائے‘‘ ہم نے عرض کیا: جی ہاں! آپ نے فرمایا ’’تین آیات جنہیں تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں پڑھتا ہے، وہ اس کے لیے تین بھاری بھرکم حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہے‘‘ اللہ کے رسول ﷺ اہل ایمان کو یہ بات ذہن کرائی کہ دیکھو تمہارے لیے قرآن مجید کتنی بڑی رحمت ہے، قرآن مجید کی شکل میں کتنی بڑی دولت ان کے ہاتھ لگی ہے، دنیا کی کتنی بھی قیمتی شئے ہو قرآن مجید کی ایک آیت اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے کہ اس کا کوئی تقابل ہی نہیں کیا جا سکتا، یہ ہے اس قرآن مجید کی عظمت اور اس کی تعلیم دینے والوں کا رتبہ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہیے ایک اس پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے کہ اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لیے لٹا رہا ہے کہ اس کو دیکھ کر دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتا اور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا۔
کسی شخص کا دنیاوی عروج، دولت و خوشحالی، جاہ و حشمت، شہرت و ناموری کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر رشک کیا جا سکے، رشک کے قابل تو صرف دو آدمی ہیں، ایک وہ جسے قرآن کا علم حاصل ہو اور وہ اسے لے کر کھڑا ہو یعنی وہ اس علم کو بندگانِ خدا تک پہنچنانے میں لگا ہو اس کی تعلیم و تلقین کرنے میں لگا ہو۔
ان احادیثِ مبارکہ میں ہمارے لیے بہت بڑا پیغام ہے، خاص طور پر تحریک اسلامی کے افراد کے لیے اس میں بڑا درس ہے، کیوں کہ ہم بھی داعی دین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، قرآن کی تعلیمات کو بندگانِ خدا تک پہنچنانے کا عزم ظاہر کرتے ہیں، اس ہدایت کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان احادیثِ مبارکہ کی روشنی ہم اپنا جائزہ لیں، کیا واقعی ہم وہی اسی رسول کے امتی ہیں جس پر قرآن مجید کا نزول ہوا تھا؟ جس کا فرض منصبی یہ تھا کہ اس کتاب ہدایت کو بندگانِ خدا تک پہنچائے۔ یہی وہ قرآن ہے جس کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو مسخر کیا، ان کی زندگیاں بدلیں، انہیں انسانیت کے کمال تک پہنچایا، پھر وہی ستاروں نے دنیا کو دکھا دیا کہ انسانی اخلاق و کردار کیا چیز ہے، دنیا کو بتا دیا کہ قدر کے قابل اصل چیز کیا ہے۔ اور آج ہمارا حال کیا ہے؟
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہيں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائی تھی
ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022