اگر حکومتیں اب بھی کام نہیں کر رہی ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ کب کریں گی؟

ڈبلیو ایچ او سے وابستہ ہندوستان کے مشہور پبلک پالیسی اینڈ ہیلتھ سسٹم ایکسپرٹ ڈاکٹر چندر کانت لہریا سے بات چیت

ہندوستان میں کووڈ کی ممکنہ تیسری لہر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری ملک کی حکومت کتنی تیار ہے، اسے سمجھنے کے لیے صحافی افروز عالم ساحل  نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے وابستہ ہندوستان کے مشہور پبلک پالیسی اینڈ ہیلتھ سسٹم ایکسپرٹ ڈاکٹر چندر کانت لہریا سے خاص بات چیت کی۔

چندرکانت لہریا ایک ہندوستانی میڈیکل ڈاکٹر، ایپیڈیمولوجسٹ، ویکسینولوجسٹ کے ساتھ ساتھ مصنف بھی ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر لہریا نے ’ ٹیل وِی وِن: انڈیاز فائٹ اگینسٹ دی کوویڈ۔

19پینڈیمک‘ کتاب آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا اور مائیکرو بائیوولوجسٹ اور لندن کی رائل سوسائٹی میں منتخب ہونے والی پہلی انڈین فیلو خاتون ڈاکٹر گگن دیپ کانگ کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ ڈاکٹر کانگ ویلور کرسچن میڈیکل کالج سے جڑی ہیں اور دنیا کی مشہور ویکسین ریسرچرس میں سے ایک ہیں۔ ڈاکٹر لہریا اس کتاب کے مرکزی مصنف ہیں۔ یہ کتاب معروف پبلشر پینگوئن رینڈم ہاؤس انڈیا نے شائع کی ہے۔ پیش ہے اس اہم گفتگو کے کچھ اہم اقتباسات۔

کہا جارہا ہے کہ ہندوستان میں جلد ہی کووڈ کی تیسری لہر آنے والی ہے۔ آپ وبائی امراض کے ماہر ہیں، اس بات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

تیسری لہر آئے گی، اس بات کو کوئی گارنٹی کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن وبا کے کچھ اصول ہوتے ہیں، اس کی بنیاد پر کچھ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ حالات کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ تیسری لہر آئے گی۔ جب تک لوگوں کے اندر امیونٹی نہیں بن جاتی، تب تک لوگ اس سے بیمار ہوتے رہیں گے۔ اس میں تعداد کم زیادہ ہوتی رہے گی۔ جب تعداد زیادہ ہو گی اسے لہر کہا جائے گا۔ اب یہ لہر کب آئے گی اور کیا نقصان کرے گی، کس کو نقصان کرے گی، یہ سب کہنا مشکل ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہو گا کہ ڈیلٹا پلس مختلف حالت تیسری لہر کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اکتوبر یا نومبر مہینے تک ایک بار پھر سے ملک میں کووڈ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ صوبائی سطح پر یہ پہلے بھی ہو سکتا ہے۔

ہماری حکومت ممکنہ تیسری لہر سے نمٹنے کے لیے کتنی تیار ہے؟

ہمارے ملک میں ہیلتھ سروسیز ہمیشہ سے کمزور رہی ہیں۔ ہمارے پاس ایک سال کا وقت تھا، اگر ہم اس ایک سال میں کچھ کر پاتے تو دوسری لہر کا اثر ضرور کم ہوتا۔ اب اہم بات یہ ہے کہ ہم نے دوسری لہر سے کچھ سیکھا ہے اور کیا کر رہے ہیں؟ اس کو سمجھنے کا بہتر طریقہ ہے کہ حکومتوں کو ایک ڈیٹیل روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے جس میں وہ بتائیں کہ آگے آنے والے وقت میں وہ کیا کریں گے؟ حکومت کے پاس اگلے تین یا چھ مہینے کی کیا پلاننگ ہے اور اس پلاننگ کے تحت کتنی تیاری ہے؟ حکومتوں کی تیاری اس بات میں نظر آئے گی کہ اس نے ہیلتھ سروسیز پر خرچ کتنا بڑھایا ہے۔ آگے آنے والے دنوں میں کتنے اسپتال اور بیڈس بڑھائے جائیں گے۔ یاد رکھیے کہ آگے آنے والے وقت میں صرف دعوؤں اور وعدوں سے کام نہیں چلے گا۔ زمینی سطح پر ہیلتھ سروسیز میں سدھار لانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ اپنی کمزور ہیلتھ سروسیز صرف کووڈ کے لیے نہیں بلکہ ہر مرض کے لیے سرکاری ہیلتھ سروسیز کو بہتر کرنے کے بارے میں سوچنا ہے۔ ابھی بلڈنگ ہے، سروس پرووائڈر نہیں ہے۔ حکومت کی سنجیدگی اس بات سے پتہ چلے گی کہ ہیلتھ سیکٹر میں جتنی خالی آسامیاں ہیں، انہیں کس رفتار سے بھرا جاتا ہے۔ حکومت کے ذریعہ ابھی کافی کچھ کیا جانا باقی ہے۔ اگر حکومتیں اب بھی کام نہیں کر رہی ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ کب کریں گی؟

کووڈ کی تیسری لہر سے بچنے کے کیا کرنا چاہیے؟

اس سے بچنے کے لیے تین سطح پر قدم اٹھانے ہوں گے۔ پہلا کام حکومتوں کو کرنا ہے۔ انہیں ہیلتھ سروسیز پر خرچ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پہلی اور دوسری لہر سے جو سیکھا ہے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر سطح پر ہیلتھ سروسیز کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ویکسینیشن کے کام کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وہیں اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کووڈ کے علاوہ دیگر امراض کے مریضوں کے لیے بھی اپنی خدمات جاری رکھے اور ساتھ میں کووڈ کے لیے اس طرح سے کام نہیں کرنا ہے جو عارضی ایڈہاک ہو۔ زیادہ تر دوسری لہر میں دیکھا گیا کہ پرائیویٹ سیکٹر سے لوگوں نے طبی خدمات حاصل کی ہیں۔ ایسے میں سرکاری ہیلتھ سروسیز کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو بھی اس معاملے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ غیر ضروری طور پر بازار یا بھیڑ والی جگہوں پر نہ جائیں۔ شادی یا سماجی فنکشنز سے جتنا بچ سکتے ہوں بچنے کی کوشش کریں۔ ماسک ضرور لگائیں، بلکہ اب ڈبل ماسک لگانے کی کوشش کریں۔ کووڈ سے بچنے کے لیے بیداری کافی اہم ہے۔ اور ساتھ ہی ویکسین ضرور لگوائیں۔ ان کوششوں سے وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آئے گی۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ وائرس جو ہمارے درمیان موجود ہے اس کو مزید پھیلنے سے روکنا ہے۔

 

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021