سوئس بینکوں میں بھارتیوں کی جمع رقم میں اضافہ

بیرون ملک سے کالادھن واپس لانے کا وعدہ دھرا رہ گیا

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

بھارتی کمپنیوں، دیگر مالیاتی اداروں، فرموں اور افراد کے ذریعہ سوئس بینکوں میں جمع شدہ رقم میں زبردست اضافہ درج کیا گیا ہے۔ یہ رقم سیکیورٹیز اور دیگر ہولڈنگز کی شکل میں ہوتی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے مرکزی بینک کے سالانہ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ صرف سال ۲۰۲۰ ہی میں یہ رقم ۲ عشاریہ ۵۵ بلین سوئس فرانک تک جا پہنچی ہے جو تقریباً ۲۰ ہزار ۷ سو کروڑ روپیوں کے مماثل ہوتی ہے۔ اگرچہ سوئس بینک کے ہندوستانی صارفین کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن اس کے فنڈز میں اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۱۹ میں بھارتی تاجروں اور کمپنیوں کی سوئس بینکوں میں جمع کل رقم ۸۹۹ ملین سوئس فرانک یعنی ۶ ہزار ۶ سو ۲۵ کروڑ بھارتی روپے تھی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس میں گراوٹ کا رجحان تھا لیکن سال ۲۰۲۰ کے دوران اس میں بے تحاشہ اضافہ درج کیا گیا جو گذشتہ ۱۳ سالوں کی بلند ترین سطح پہنچ گیا ہے۔
سوئس قومی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 2020 میں بھارتیوں کو سوئس بینکوں کی کل واجبات ۲ ہزار ۵ سو ۵۴ عشاریہ ۷ بلین سی ایچ ایف یعنی ۲۰ ہزار ۷ سو ۶ کروڑ روپے ہیں۔ جس میں سے صارفین کی جمع رقم ۵۰۳ عشاریہ ۹ بلین (سی یچ یف) یعنی ۴ ہزار کروڑ روپے، ۳۸۳ ملین (سی یچ یف) یعنی ۳ ہزار ۱ سو کروڑ روپے بینکوں سے لی گئی رقم، ۲ ملین (سی یچ یف) یعنی ۱۶ عشاریہ ۵ کروڑ روپے دیگر ٹرسٹوں کی اور سب سے بڑھ کر ۱ ہزار ۶ سو ۶۴ عشاریہ ۸ ملین (سی یچ یف) تقریباً ۱۳ ہزار ۵ سو کروڑ روپے بانڈز، سیکیوریٹیز اور دیگر مالیاتی آلات (فینانشیل انسٹرومنٹس )کی شکل میں بھارتی صارفین کو ادا شدنی ہیں۔
یہ وہ سرکاری اعداد وشمار ہیں جو بینکوں نے (ایس این بی) کو دییے ہیں حالاں کہ یہ سوئٹزرلینڈ میں بھارتیوں کی جمع شدہ رقم کا مکمل حساب بھی نہیں ہے۔ اور ان اعداد وشمار سے بھارتیوں کی جمع شدہ جملہ کالے دھن کی مقدار کا تعین بھی نہیں ہوتا۔ ان اعداد وشمار میں وہ رقم بھی شامل نہیں ہے جو غیر مقیم بھارتیوں نے سوئس بینکوں میں کسی دوسرے ملک کے اداروں کے ناموں سے جمع کی ہے۔ دوسری طرف بینک برائے بین الاقوامی تصفیہ (بی آئی ایس) کے ’مقامی بینکاری کے اعداد وشمار‘ کو جاننے کا قابل اعتماد ذریعہ ہے جس نے سوئس بینکوں میں بھارتی افراد کے جمع شدہ رقم کی معلومات فراہم کی ہیں، اس کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۰ کے دوران جمع شدہ رقم میں ۳۹ فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے یعنی جمع شدہ رقم کا تخمینہ تقریباً ۱ سو ۲۵ عشاریہ ۹ ملین امریکی ڈالر ۹ سو ۳۲ کروڑ روپے کے قریب ہے۔ یہ اعداد وشمار ان کے ہیں جنہیں غیر بینک صارفین (نان بینک کلائنٹس) کہا جاتا ہے جنہوں نے سوئس ڈومیسائلڈ بینکوں میں رقم جمع کر رکھی ہے اور ان ڈپازٹس میں ۲۰۱۷ اور ۲۰۱۸ میں کمی کے بعد ۲۰۱۹ میں ۷ فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
سوئس حکام نے ہمیشہ ہی سے یہ کہا ہے کہ جو بھارتی سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہیں ان کے پاس موجود اثاثوں کو وہ کالا دھن تصور نہیں کرتے ہیں، انہیں ٹیکس چور کے ذمرے میں شمار نہیں کیا جاتا۔ سوئٹزر لینڈ کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ ہی سے ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف بھارت کی لڑائی میں بھرپور ساتھ دیتا رہا ہے۔ سوئٹزرلینڈ اور بھارت کے مابین ٹیکس کے معاملات میں معلومات فراہم کرنے کا ایک نظام ۲۰۱۸ میں ترتیب دیا گیا جو اب بھی لاگو ہے۔ اس نظام کے تحت سوئس مالیاتی اداروں میں کھاتہ رکھنے والے تمام بھارتی باشندوں کے بارے میں تفصیلی معلومات ستمبر ۲۰۱۹ میں پہلی بار بھارتی ٹیکس حکام کو فراہم کی گئی تھیں اور یہ معلومات ہر سال فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سوئٹزرلینڈ اسے ان افراد کی معلومات بھی فراہم کرتا ہے جن پر مالی خرد برد کرنے اور ٹیکس چوری میں ملوث ہونے کے شبہات ہوں ان کی بھی ساری تفصیلات وہ بھارتی حکام کو فراہم کررہا ہے۔ اب تک اس نے سیکڑوں معاملات میں اس طرح کی معلومات فراہم کیں ہیں۔
بھارت اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان ٹیکس معاملات سے متعلق معاہدے ہیں (ملٹی لٹرل کنونشن آن مئچول اڈمنسٹریٹیو اسیسٹنس) جن سے ٹیکس سے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہے (ایم اے اے سی) دونوں ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور دونوں ہی ممالک نے ایک اور معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں جسے (ایم سی اے اے) یعنی ملٹی لیٹرل کومپیٹینٹ اتھاریٹی اگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت افراد کی خودکار معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ آٹومیٹک ایکسچینچ آف انفارمیشن (اے ای او آئی) اس کے ذریعہ دونوں ممالک کے مابین ہر سال مالی معاملات سے متعلق ساری معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے یہ معاہدے ۲۰۱۸ سے لاگو ہیں۔
ان ساری تفصیلات کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت کا رویہ حسب سابق انکار ہی کا رہا ہے۔ وزارت خزانہ (فینانس) نے کہا کہ میڈیا میں جو رپورٹس آئی ہیں وہ حقیقت کی نشاندہی نہیں کرتیں۔ یہ اعداد وشمار بینکوں نے سوئس نیشنل بینک (ایس این بی) کو دیے ہیں یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں، ان اعداد وشمار سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس میں کالے دھن کی مقدار کتنی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ سوئس بینکوں میں اتنی رقم جمع کیسے ہوئی جب کہ ملک کوویڈ سے جنگ لڑتے ہوئے معاشی طور پر بد حال ہو چکا ہے۔ سطح غربت سے نیچے زندگی گزانے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ نریندر مودی نے ۲۰۱۴ میں بڑے زور وشور اس بات کو پیش کیا تھا کہ ہزاروں کروڑ کا کالا دھن ملک کے باہر موجود ہے ہم اس کالے دھن کو واپس لائیں گے اور عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ کالا دھن واپس لاکر ہر ایک کے کھاتے میں ۱۵، ۱۵ لاکھ روپے جمع کریں گے، وہ وعدہ بھی وفا نہ کر سکے اور بعد میں یہ دعدہ ایک انتخابی جملے میں بدل گیا۔ کالا دھن واپس لانا تو دور اس کو دوسرے ملکوں میں جمع کرنے سے روکا بھی نہیں جا سکا۔ اسی طرح بابا رام دیو نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ کالا دھن جب واپس آئے گا تو ملک کی حالت بدل جائے گی غریبوں کی تقدیر پلٹ جائے گی، ملک میں کوئی غریب باقی نہیں رہے گا ساری چیزیں سستی ہو جائیں گی لہٰذا ہم سب کو چاہیے کہ نریندر مودی کو حکومت میں لائیں اور ملک کو خوش حال بنائیں۔ ملک کی بھولی بھالی عوام نے ان پر بھروسہ کرلیا اور اس نے یو پی اے حکومت کو بے دخل کر دیا۔ عوام نے جس بات پر نریندر مودی کو اقتدار حوالے کیا تھا اسی بات اور اسی وعدہ کو نریندر مودی بھول گئے، آج صورت حال یہ ہے کہ وہ اس وعدہ کا کوئی ذکر نہ تو اپنی من کی بات میں کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی انتخابی تقاریر میں۔
جب دونوں حکومتوں کے درمیان معاہدہ ہے کہ وہ ٹیکس چوروں کی معلومات کا تبادلہ کریں گے اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے ساری معلومات حکومت کو فراہم بھی کی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ان افراد پر کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے؟ وہ کون افراد ہیں جنہوں نے ملک سے پیسہ باہر بھیجا ہے جب کہ ملک کی معاشی صورت حال دگرگوں ہے، ویکسین اور دیگر طبی سامان کے لیے دوسرے ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلایا جا رہا ہے، بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے، کاروبار اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں، ایسی نازک صورت حال میں بھی ملک سے چوری کیا گیا پیسہ واپس نہ لانا اور مزید پیسے کو باہر بھیجنے کا موقع فراہم کرنا حکومت کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ ساری معلومات ہونے کے باوجود ان افراد اور اداروں پر کارروائی نہ کرنے سے یہ شبہ بھی پیدا ہونے لگا ہے کہ کہیں اس فہرست میں حزب اقتدار کے ساہوکار تو شامل نہیں ہیں؟ کہیں اس پارٹی کو چندہ دینے والے بے نام اداروں کا نام اس میں موجود نہیں ہے؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کروائے اور بیرون ملک جمع کالا دھن واپس لائے اور اپنا وعدہ وفا کرے۔ اگر وہ اس میں ناکام ہوتی ہے تو یقینی طور پر اس حکومت کا بھی وہی حشر ہو گا جس طرح سابق حکومت کا ہوا ہے عوام اسے بھی سبق سکھائیں گے۔
***

۲۰۱۹ میں بھارتی تاجروں اور کمپنیوں کی سوئس بینکوں میں جمع کل رقم ۸۹۹ ملین سوئس فرانک یعنی ۶ ہزار ۶ سو ۲۵ کروڑ بھارتی روپے تھی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس میں گراوٹ کا رجحان تھا لیکن سال ۲۰۲۰ کے دوران اس میں بے تحاشہ اضافہ درج کیا گیا جو گذشتہ ۱۳ سالوں کی بلند ترین سطح پہنچ گیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021