چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں

عدم تحفظ کا خوف پیدا کرنے والے حکم رانوں کی سیاست

 

بنیامین و ٹرمپ کا عبرت ناک انجام۔ملکی و عالمی اسٹیج پر بچھڑتے دوست؛ بھارتی فرماں رواؤں کے لیے سبق
وطن عزیز میں مودی بھکتوں کے سارے دلائل جب بے وزن ہوجاتے ہیں تو جھنجھلا کر کہ دیا جاتا ہے ’آئے گا تو مودی ہی‘۔ یہ نعرہ جس شد ومد کے ساتھ یہاں لگایا جاتا ہے اس سے زیادہ زور شور سے اسرائیل میں لگایا جاتا ہو گا، ’جو بھی ہو جائے آئے گا تو یاہو ہی‘۔ ایسا کہنا درست بھی ہے کیونکہ بنیامین نیتن یاہو کو اسرائیل میں سب سے طویل عرصہ تک وزیر اعظم بنے رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے دو قسطوں میں جملہ پندرہ سال حکومت کی لیکن اس کے باوجود اقتدار پر قابض رہنے کی ہوس ختم نہیں ہوئی۔ یاہو نے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا میں بہت جلد لوٹ کر آؤں گا۔ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس نے بھی ۵ سال سرکار چلانے کے بعد چور دروازے سے صبح ۵ بجے اجیت پوار کے ساتھ حلف برداری کی لیکن دال گلی نہیں۔ اس کے دو دن بعد رسوا ہو کر استعفیٰ دیتے وقت ان کی زبان پر یہی الفاظ تھے ’میں یقیناً لوٹ کر آوں گا‘۔ مہاراشٹر کی سیاست کا یہ جملہ اب عام بول چال کی زبان میں ایک مذاق بن چکا ہے۔ اس لیے کہ دوبارہ اقتدار میں لوٹنے کے سارے چراغ بجھ چکے ہیں۔ بقول احمد فراز؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
وزیر اعظم نیتن یاہو اور مودی جی اچھے دوست ہیں۔ ان دونوں کی عمر میں ایک سال کا فرق ہے اور جس طرح مودی جی آزاد ہندوستان میں پیدا ہونے والے پہلے وزیر اعظم ہیں اسی طرح قیامِ اسرائیل کے بعد جنم لینے والے اولین وزیر اعظم نیتن یاہو ہیں۔ اس اشتراک کے علاوہ ان میں بہت کچھ مختلف ہے مثلاً یاہو اپنی پارٹی کے صدر اور حزب اختلاف کے رہنما بھی رہے لیکن مودی جی کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ ذاتی زندگی میں یاہو نے چائے وغیرہ بیچنے اور مگر مچھ کو اٹھا کر لانے جیسے کارنامے انجام نہیں دیے۔ شادی کرنے کے بعد قومی مفاد کے نام پر اپنی بیوی سے کنارہ کش ہو کر اسے لٹکا کر رکھنے کا جرم یاہو نے نہیں کیا۔ یاہو نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں مگر پہلی دو بیویوں کو طلاق دے کر آزاد کر دیا۔ تیسری بیوی کی بڑی بڑی حماقتوں کے باوجود اسے اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ یاہو کے دو ناجائز تعلقات بھی منظر عام پر آئے مگر اسرائیل کی مادر پدر آزاد معاشرت میں اس کو معیوب نہیں سمجھا گیا۔ اس کا اعتراف کرنے کے باوجود وہ انتخابی کامیابیاں درج کراتے رہے۔ اس سے اسرائیلی سماج کے جنسی انحطاط کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
نیتن یاہو کا بچپن اسرائیل اور امریکہ میں گزرا۔ انہوں نے مشہور زمانہ ایم آئی ٹی سے ڈگری حاصل کی جو اصلی ہے۔ یاہو نے اسرائیل ڈیفنس فورس میں کام کیا مگر چونکہ گجرات میں سیاست اور تجارت کے سوا کسی پیشے میں دلچسپی نہیں لی جاتی اس لیے مودی جی نے فوج یا نیم فوجی دستوں کا رخ بھی نہیں کیا۔ سیاست میں یاہو کا داخلہ سال ۱۹۹۳ء میں لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور حزب اختلاف رہنما کے طور پر ہوا۔ ۱۹۹۶ میں وہ شمعون پیریس کو شکست دے کر اسرائیل کے سب سے کم عمر وزیر اعظم بن گئے لیکن تین سال کے اندر ان کی سرکار گر گئی۔ یاہو کے پہلی بار اور آخری مرتبہ اقتدار سے بے دخلی کے اسباب میں کمال مماثلت ہے ل۔ اس وقت یاہو کے انتہا پسند حامی ان کی یاسر عرفات سے بات چیت کے بعد ہیبرون میں مراعات دینے سے خفا ہو گئے تھے۔ اس بار بھی انہیں لوگوں نے منصور عباس سے حمایت لینے کی مخالف کی ورنہ سرکار بن جاتی۔ دوسرا سبب ان پر لگنے والا ایک لاکھ ڈالر کی گھپلے بازی کا الزام تھا اور اس بار بھی بدعنوانی کے وجہ سے نئی امید پارٹی کے صدر گیڈیون سعر نے حمایت سے انکار کر دیا۔ یعنی گزشتہ ۲۲ سال کے اندر اسرائیلی سیاست میں عربوں کے تعلق سے اور وزیر اعظم کی بدعنوانی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ کتے کی دم جیسی پہلے ٹیڑھی تھی اب بھی ویسی ہی ٹیڑھی رہی۔
سن ۱۹۹۹ء میں یہود براک سے شکست کھانے کے بعد نیتن یاہو نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے ایک نجی کمپنی میں مستشار کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ ۵۰ سال کی عمر میں جو شخص بہ آسانی سیاست چھوڑنے پر تیار ہو گیا تھا وہ اب ۷۲ سال کی عمر میں اقتدار سے چپکا رہنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے شمار عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والا یہ شخص اپنی عمر کا آخری حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا نہیں چاہتا۔ اسرائیل کی آپسی سیاسی سر پھٹول کی وجہ سے سن ۲۰۰۰ء میں یہود براک کو استعفیٰ دینا پڑا تو صرف وزیر اعظم کا انتخاب ہونا تھا لیکن نیتن یاہو نے کہا مستحکم حکومت کی خاطر عام انتخاب کرائے جائیں اور یہ وعدہ کیا کہ وہ وزیر اعظم کا عہدہ نہیں سنبھالیں گے۔ اس بار یہ حالت ہے کہ وہ جلد ازجلد دوبارہ وزیر اعظم کی کرسی سنبھالنے کے لیے بے چین ہیں ایسا کیوں؟ اس سوال کے جواب میں اسرائیلی قوم پرستی اور جمہوری سیاسی نظام کے بہت سارے راز پوشیدہ ہیں۔
اس وقت عملی سیاست سے کنارہ کشی کے سبب ان سے زیادہ سخت گیر اور کم مقبول ایریل شیرون سن ۲۰۰۲ء میں وزیر اعظم بن گئے۔ ایریل شیرون نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یاہو کو وزیر خارجہ کا عہدہ سونپ دیا۔ سیاست میں واپسی کے بعد نیتن یاہو نے ایریل شیرون کو لیکوڈ پارٹی کی صدارت سے ہٹا کر خود اس پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس آپسی رسہ کشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیرون نے لیکوڈ کو توڑ کر یاہو سے پیچھا چھڑانے کی خاطر قدیمہ پارٹی بنا ڈالی اور اس کی وجہ سے یاہو سمیت لکوڈ کو دس سالوں تک سیاسی بن باس لگ گیا۔ اس بار یہ ہوا کہ شیرون کی طرح یاہو کا چہیتا مگر زیادہ سخت گیر اور کم مقبول نیفتالی بینیٹ ساتھ چھوڑ کر وزیر اعظم بن گیا۔ اس طرح پھر ایک بار یاہو کی حماقت کے سبب لیکوڈ اور یاہو کو پھر اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا نیز وہ وزیر اعظم سے حزب اختلاف کے رہنما بنا دیے گئے۔ اس طرح تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے۔
ایریل شیرون نے اپنے رائے دہندگان کی خوشنودی کے لیے خود کو نیتن یاہو سے زیادہ اسلام دشمن بنا کر پیش کرنے کے چکر میں فلسطین پر مظالم بڑھا دیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۰۰۰ سے ۲۰۰۵ کے درمیان دوسری تحریکِ انتفاضہ چلی اور اس کے نتیجے میں غزہ سے اسرائیلی تسلط کے خاتمہ ہوا۔ ایریل شیرون سے یہ توقع کسی کو نہیں تھی کہ وہ غزہ سے اپنی فوج بلا لے گا لیکن حماس کی مزاحمت اور انتخابی کامیابی نے اسے مجبور کر دیا۔ وہ شاید اسی کام کے لیے وارد ہوا تھا۔ اس کے بعد ۲۰۰۶ میں شیرون بیمار ہو کر کوما میں چلا گیا اور یہود اولمرٹ نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔ ۲۰۰۹ میں یوں تو قدیمہ کو لیکوڈ سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں مگر نیتن یاہو نے تگڑم بازی کرکے اپنی حکومت بنالی اور وزیر اعظم بن گئے۔ اس کے بعد ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۵ میں وہ پھر سے کامیاب ہو گئے لیکن ۲۰۱۹ میں گاڑی پھنس گئی کیونکہ کسی محاذ کو اکثریت نہیں ملی۔ اس کے بعد دوسال تک اسرائیل زبردست سیاسی بحران کا شکار رہا اور اس عرصے میں وہاں یکے بعد دیگرے چار بار الیکشن ہوئے اور ہر بار معلق ایوانِ پارلیمان معرض وجود میں آئی۔ اس نے اسرائیلی عوام کی سیاسی پختگی پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔ ان لوگوں پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں
یہاں خود اپنے لیے بھی دعا کسی کی نہیں
اپریل ۲۰۱۹ کے انتخاب میں بینی گینٹز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کو لیکوڈ پر معمولی سبقت حاصل ہوگئی تھی اور وہ دونوں وزارت عظمیٰ کے دعویدار کی صورت میں آمنے سامنے آگئے تھے۔ ایسے میں کمال ہوشیاری مظاہرہ کرتے ہوئے یاہو نے گینٹز کے ساتھ الحاق کر کے حکومت بنالی اور دو سال بعد یعنی ۲۰۲۱ میں ان کو نصف مدت کار کے لیے اقتدار سونپنے کا وعدہ کر دیا، لیکن اس سے قبل یہ ساجھے کی ہانڈی بیچ بازار میں پھوٹ گئی اور مارچ کے اندر انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس دوران اپنا اقتدار بچانے کے لیے یاہو نے ایسی ایسی سیاسی قلابازیاں کھائیں کہ سرکس کا جوکر اور جنگل کے لنگور بھی شرما جائیں۔ کبھی تو وادی اردن پر دعویٰ ٹھونک دیا گیا تو کبھی عرب ممالک تعلقات استوار کر کے اپنی شبیہ سدھارنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف یروشلم کو دارالخلافہ بنانے کے لیے امریکہ کو راضی کیا گیا تو دوسری جانب انتخابی مہم میں عربی زبان کے اندر انتخابی بینرس لگوائے گئے اور اپنے بیٹے کے نام سے خود کو منسوب کر کے عربوں میں ابو یائر کے طور پر پیش کیا گیا لیکن سارے حربے ناکام رہے۔ اسرائیل کی حالیہ سیاسی کرونولوجی نہایت دلچسپ ہے۔
۲۳؍ مارچ ۲۰۲۱ کو پچھلے دو سالوں کا چوتھا انتخاب ہوا۔ اس میں نیتن یاہو کی لیکوڈ پہلے کی بہ نسبت ۷ نشستیں گنوانے کے باوجود ۳۰ نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ دوسرے نمبر پر آنے والی یائر لاپڈ کی پارٹی کا نام بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ یش آتد کے معنیٰ ہوتے ہیں ’جی ہاں ایک مستقبل ہے‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی عوام کے اندر اپنے مستقبل کے تعلق سے ایک بے یقینی کی کیفیت رونما ہوچکی ہے اور اس کا فائدہ اٹھانے کی خاطر ایک پارٹی وجود میں آگئی تاکہ عوام کی ڈھارس بندھے۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ کئی دانشور بشمول معروف امریکی خارجہ سکریٹری ہنری کسنجر یہودی ہونے کے باوجود اس طرح کے اندیشے کا اظہار کر چکے ہیں۔ ۵؍ اپریل کو نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ شروع ہوتا ہے اور ایک دن بعد صدر ریوین ریولن یاہو کو ۲۸ دن کے اندر حکومت سازی کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کوشش میں ناکامی کے بعد ۵؍ مئی کو یائر لاپد کو اپنی قسمت آزمانےکا موقع دیا جاتا ہے۔ اس طرح نیتن یاہو کی ایوان اقتدار سے نکل کر جیل کی سلاخوں پیچھے جانے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔
اس دوران اچانک یاہو کی حامی یہودی انتہا پسند جماعتیں بہت زیادہ سرگرم عمل ہو جاتی ہیں اور وہ یومِ یروشلم کے جلوس کو مسلم محلوں میں لے جانے کا بلکہ مسجد اقصیٰ میں بھی اس کی تقریبات منعقد کرنے کا اعلان کر دیتی ہیں۔ اس طرح یاہو اور ان کے حواری ملک میں ایک اشتعال انگیز ہنگامی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں اور حماس کی جانب سے بیت المقدس کے تقدس کی خاطر راکٹ حملوں کا اعلان ہو جاتا ہے۔ اسرائیل کے سارے بڑے شہر ان حملوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں سفاکانہ بمباری کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یاہو اس جنگ کو طول دینے کا عندیہ دے کر اقتدار کی تبدیلی کو منسوخ کرنے بلا واسطہ کوشش کرتے ہیں لیکن عوام کی داخلی ناراضی اور امریکہ کا بیرونی دباو انہیں ۲۱؍ مئی کو جنگ بندی پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس آخری کوشش کے ناکام ہو جانے پر یاہو کی آنکھوں کا تارہ نیفتالی بیینٹ ۳۰؍ مئی کو اپنی وفاداری بدل دیتا ہے اور ۲؍ جون کی شب مدت عمل کے خاتمہ سے نصف گھنٹہ پہلے لاپد صدر سے مل کر حکومت سازی کا دعویٰ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یاہو اس کو ایک خطرناک دائیں بازو کی حکومت قرار دیتے ہیں۔ ۱۳؍ جون کو اسرائیلی ایوان پارلیمان میں نیتن یاہو کے تین تیرہ ہو جاتے ہیں اور اقتدار سے اس طرح بیدخل کر دیے جاتے ہیں جیسے ؎
خزاں میں چاک گریباں تھا میں بہار میں تو
مگر یہ فصل ستم آشنا کسی کی نہیں
اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد بنیامین نیتن یاہو نے عبرانی میں کشف والہام کی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک خفیہ گروہ کی سازش کا شکار ہو گئے ہیں جو خیر کی بیخ کنی کر کے اس کو شر اور خطرناک چیز سے بدل رہا ہے۔ یہ دراصل ایک نرگسیت ہے جس میں انسان کو اپنے آپ کو خود ساختہ نجات دہندہ سمجھنے لگتا ہے اور اسے خود اپنی ذات کے سوا کسی میں کوئی قابلیت دکھائی نہیں دیتی۔ وہ اس خام خیالی کا شکار ہو جاتا ہے کہ اس کے ہٹتے ہی چہار جانب تاریکی چھا جائے گی۔ یاہو ہمیشہ اپنے مخالفین کو حقیر سمجھ کر ان کو تقسیم کرکے شکست دینے میں یقین رکھتے رہے۔ ان کی نظر میں اشتراکی یہودی قابلِ نفرت لوگ ہیں۔ وہ عرب سیاستدانوں کو ممکنہ منافق وغدار اور دہشت گردوں کا ہمدرد گردانتے رہے ہیں۔ یاہو عوام کے اندر عدم تحفظ کا بے پناہ خوف پیدا کر کے خود کو ان کا عظیم طلسماتی محافظ بناکر پیش کرتے ہیں۔ یاہو کے نزدیک تشخص کی سیاست کو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اسی حکمت عملی سے وہ ۱۵ سالوں تک انتخاب جیتنے کے قابل ہوئے اور بی بی شہنشاہ کے خطاب سے نوازے گئے۔ مودی جی کا لقب بھی ہندو ہردیہ سمراٹ ہے ان دونوں کی نفسیات میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ٹرمپ بھی اسی کی فوٹو کاپی ہے۔ ٹرمپ کے بعد یاہو کی شکست نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ سیاسی حربہ ایک حد تک کامیاب ہونے کے بعد اپنی چمک دمک کھو دینے کے بعد اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔
یاہو، ٹرمپ اور مودی جیسے رہنما ہمیشہ قومی مفاد کی سب سے زیادہ دہائی دیتے ہیں۔ اس کے بعد پارٹی اور آخر میں اپنی ذات کی بات کرتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ حالیہ انتخابی نتائج کو دیکھیں تو یاہو کے محاذ کو جملہ ۵۲ نشستوں پر کامیابی حاصل ہو گئی تھیں اور ان کے مخالفین کے پاس ۵۱ نشستیں تھیں۔ نفتالی بینیٹ کا کہنا تھا کہ ان کی پہلی پسند یاہو کا محاذ ہے لیکن چونکہ وہ دوبارہ انتخاب نہیں چاہتے اس لیے بحالت مجبوری مخالفین کے ساتھ بھی جاسکتے ہیں۔ اس طرح یاہو کے پاس ۵۹ نشستیں آ گئیں۔ بائیں بازو کی ایک اور جماعت نئی امید کے نام سے ہے۔ اس کے رہنما گیڈیون سعر کا اصرار تھا کہ وہ بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے یاہو کی حمایت نہیں کرسکتے۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ اگر لیکوڈ کسی اور کو وزیر اعظم کا امیدوار بنا دے تو وہ حمایت کریں گے۔ اس طرح بائیں محاذ کو ۶۵ ارکان کی حمایت حاصل ہو سکتی تھی اور ہم خیال جماعتوں کی ایک مستحکم حکومت پورے پانچ سال چل سکتی تھی۔ ایسا کرنا ملک وقوم کے مفاد میں تھا لیکن جیل جانے سے بچنے کے لیے یاہو کرسی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ انہوں نے متحدہ عرب لیگ کے منصور عباس کی حمایت لینے کا ارادہ کیا تو انتہاپسند یہودی جماعتوں نے ساتھ چھوڑنے کی دھمکی دے دی۔یاہو کو جب یقین ہو گیا کہ اب ان کے بغیر حکومت بن جائے گی تو انہوں نے آخری داو یہ کھیلا کہ گیڈیون سعر کو پہلے سال کی خاطر وزارت عظمیٰ کی پیشکش کر دی یعنی باقی عرصہ وہ خود وزیر اعظم بنیں گے لیکن سعر نے اسے ٹھکرا دیا۔ یائر لاپد نے نفتالی بینیٹ کو پہلے دو سال کے لیے یہ پیشکش کی جو انہوں نے قبول کرلی۔ منصور عباس بھی اس حکومت میں شامل ہو کر نائب وزیر بن گئے۔ اس ابن الوقت حکومت میں شامل بیشتر لوگ اس سے پہلے نیتن یاہو کی حکومت میں شامل رہے ہیں۔ نیفتالی بینیٹ ان کے وزیر خزانہ تھے۔ وزیر دفاع اور نائب وزیر اعظم یاہو کے ساتھ اسی عہدے پر تھے۔ وزیر خارجہ کا بھی یہی حال ہے۔ گیڈیون سعر نے اصرار کر کے وزیر انصاف کا عہدہ لیا ہے تاکہ نیتن یاہو کی گرفتاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس طرح ایک یاہو مخالف حکومت تو عالمِ وجود میں آگئی لیکن اس میں وہی تمام لوگ اہم ترین عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں جو ان کے نورتن ہوا کرتے تھے۔ ان اقتدار کے بھوکے موقع پرستوں پر اسی غزل کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں
نگاہ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں
اسرائیل کی موجودہ سرکار متضاد نظریات کے حامل لوگوں پر مشتمل ہے۔ اسے دیکھ کر وہ محاورہ یاد آتا ہے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ اس ابن الوقت کنبے کی بنیاد یاہو دشمنی پر ٹکی ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جس دن وہ جیل چلے جائیں گے تب کیا ہو گا؟ لیکوڈ کو بحالتِ مجبوری نیا لیڈر منتخب کرنا پڑے گا اور اسی کے ساتھ وہ بنیاد ہی ڈھے جائے گی جس پر یہ اتحاد قائم ہوا ہے۔ یعنی یاہو کو جیل بھیجنے کے بعد گیڈیون سعر کے پاس لیکوڈ کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں بچے گا۔ لیکوڈ کا نیا رہنما بھی یہی چاہے گا کہ یاہو جیل کے اندر سڑے تاکہ اس کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو۔ نیفتالی جب تک وزیر اعظم ہیں تب تک تو وہ اس اتحاد کے ساتھ رہیں گے اس لیے کہ مخالف محاذ میں انہیں یہ عہدہ نہیں ملے گا لیکن دو سال بعد جب وہ لاپد کے حق میں دستبردار ہو جائیں گے تو ان کے نزدیک اس محاذ میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اسرائیل پھر ایک بار سیاسی خلفشار سے دوچار ہو جائے گا۔ فی الحال سبھی چاہتے ہیں کہ یاہو نامی برگد کا پیڑ گر جائے جو ان کو پنپنے نہیں دیتا تھا لیکن اس کے بعد سبھی ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو جائیں گے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ پہلے امریکہ میں مودی جی کے قدامت پسند دوست ڈونلڈ ٹرمپ شکست فاش سے دوچار ہوئے اور اس کے بعد نیتن یاہو بھی اسی انجام کو پہنچے۔ اس فہرست میں بظاہر اگلا نمبر تو نریندر مودی کا ہی ہے نظر آتا ہے اور بعید نہیں کہ ہندوستان میں نیفتالی بینیٹ کا کردار یوگی ادتیہ ناتھ ادا کرے۔ خیر ۲۰۱۴ میں انتخابی کامیابی کے بعد مودی کے پہلے دو ڈھائی سال تو ٹھیک ہی گزرے۔ اس کے بعد نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور رافیل بدعنوانی بدنامی کا سبب بنی۔ وہ اگر ۲۰۱۹ میں ہار جاتے تو کم ازکم ان پر کورونا سے نمٹنے میں زبردست ناکامی کا الزام نہیں آتا۔ مغربی بنگال کی بھی بھیانک رسوائی سے بچ جاتے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یوگی جیسا کٹھ پتلی بھی انہیں آنکھیں دکھا سکتا ہے اور اپنی شبیہ بچانے کے لیے انہیں سنگھ کا محتاج ہونا پڑ سکتا ہے۔ ۲۰۲۴ تک اور بھی بہت کچھ ہو گا اور اگر وہ کافی ہو جائے گا تو مودی جی شکست کھانے کے بعد جھولا اٹھا کر چل دیں گے۔ بصورتِ دیگر پھر جیت کر اپنی سزا پوری کریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹرمپ اور یاہو کے انجام میں مودی اور ان جیسے لوگوں کے لیے سامانِ عبرت ہے جو کہتے ہیں ’آئے گا تو مودی ہی‘۔

بعید نہیں کہ ہندوستان میں نیفتالی بینیٹ کا کردار یوگی ادتیہ ناتھ ادا کرے۔ خیر ۲۰۱۴ میں انتخابی کامیابی کے بعد مودی کے پہلے دو ڈھائی سال تو ٹھیک ہی گزرے۔ اس کے بعد نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور رافیل بدعنوانی بدنامی کا سبب بنی۔ وہ اگر ۲۰۱۹ میں ہار جاتے تو کم ازکم ان پر کورونا سے نمٹنے میں زبردست ناکامی کا الزام نہیں آتا۔ مغربی بنگال کی بھی بھیانک رسوائی سے بچ جاتے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یوگی جیسا کٹھ پتلی بھی انہیں آنکھیں دکھا سکتا ہے اور اپنی شبیہ بچانے کے لیے انہیں سنگھ کا محتاج ہونا پڑ سکتا ہے۔ ۲۰۲۴ تک اور بھی بہت کچھ ہو گا اور اگر وہ کافی ہو جائے گا تو مودی جی شکست کھانے کے بعد جھولا اٹھا کر چل دیں گے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021