یوپی میں بکرالے جانے پرپولیس کی ہراسانی

دہلی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل فیروز احمد سے ہفت روزہ دعوت کی بات چیت

افروز عالم ساحل

اب تک ملک میں گائے کو لانے یا لے جانے پر ایک خاص طبقے کے لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کی کہانیاں ملک کے سامنے آتی رہی ہیں، لیکن اب قربانی کے لئے بکرا لانا یا لےجانا بھی اتنا آسان نہیں رہا۔ خاص طور پر جب پولیس کے جوان فرقہ پرست ہو جائیں اور غنڈوں جیسا برتاؤ کرنے لگیں ۔

یہ کہانی اتر پردیش کی ہے۔ یہاں ایک نوجوان کو بکرا لے جانے کے ’جرم‘ میں اتر پردیش پولیس کی فرقہ پرستی کا شکار ہونا پڑا۔ پولیس اہلکار نے نہ صرف ان کے ساتھ بدتمیزی کی بلکہ مذہبی بنیاد پر انہیں برا بھلا بھی کہا گیا۔ اور حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ یو پی پولیس کی اس فرقہ پرستی کا شکار بننے والا جوان کوئی عام انسان نہیں ہے بلکہ دہلی پولیس کا ہیڈ کانسٹیبل ہے۔ غازی آباد ضلع کے مرادنگر کے فیروز احمد 23 جولائی کی رات اتر پردیش کے زیور علاقے کے ایک گاؤں سے اپنی کار میں دو بکرے خرید کر یمنا ایکسپریس وے کے راستے اپنے گھر واپس آرہے تھے۔ راستے میں ایک نجی کار ان کے کار کے آگے رکی اور انہیں رکنے کا اشارہ کیا۔ اس کار سے دو افراد اترے جو پولیس کی وردی میں تھے۔ ایک کی وردی پر انسپکٹر رام کیشور نام کی نیم پلیٹ تھی، جبکہ دوسرے سپاہی کی نیم پلیٹ غائب تھی۔

فیروز کے مطابق ان دونوں نے بکرے کے بارے میں پوچھا۔ جب انہوں نے بتایا کہ وہ عیدالاضحیٰ میں قربانی کے لیے انہیں خرید کر لے جارہے ہیں تو ان دونوں نےانہیں گالیاں دینی شروع کردیں۔ فیروز نے انہیں بتایا کہ وہ خود دہلی پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل ہیں۔ اور پھر جیسے ہی اپنی آئی ڈی دکھانے کے لیے پرس نکالا، سپاہی نے پرس چھین لیا اور اس کے ساتھ مارپیٹ شروع کردی اور کہنے لگے کہ تجھے جو کرنا ہے، تھانے آ جا، دیکھ لینگے۔ انہوں نے خود کو کاسنا تھانے سے بتایا۔ فیروز کے پاس ان کے تمام بات چیت، گالی گلوج اور مارپیٹ کا آڈیو موجود ہے۔

فیروز کا الزام ہے کہ سپاہی نے ان کا پرس واپس نہیں کیا۔ ان کے اس پرس میں شناختی کارڈ، 15 ہزار روپے، اے ٹی ایم کارڈ اور بہت سے اہم دستاویزات تھے۔ جسے لے کر وہ چلتے بنے۔

اسی وقت فیروز نے کاسنا تھانے پہنچ کر اس واقعے کی اطلاع دی، لیکن وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی پولیس اہلکار اس تھانے میں نہیں ہے۔ وہیں انہیں یہ بھی پتہ چلا کہ جس جگہ پر یہ واقعہ ہوا وہ علاقہ دنکور پولیس اسٹیشن کے علاقے میں آتا ہے۔ فیروز دنکور پولیس اسٹیشن پہنچے، جہاں ان کی شکایت لینے سے انکار کردیا گیا۔ فیروز نےاب اپنی تحریری شکایت پولیس کمشنر کو بھیجی ہے۔اس متعلق دنکور پولیس نے نقدی اور پرس چھیننے کے واقعے سے انکار کیا ہے۔ نوئیڈا پولیس کمشنریٹ کے ذریعے تھانہ دنکور انچارج کے حوالے سے ٹویٹ کر کے کہا گیا کہ لاپروا ڈرائیونگ اور سیٹ بیلٹ نہ لگانے کی وجہ سے چالان کاٹا گیا تھا جس کی مخالفت ڈرائیور نے خود کو دہلی پولیس کا سپاہی قرار دیتے ہوئے کی۔ مارپیٹ اور ہاتھا پائی جیسی کوئی بات نہیں ہوئی۔پولیس کے اس ٹویٹ پر فیروز کے بھائی عمران احمد کا کہنا ہے کہ اگر سیٹ بیلٹ نہ لگانے اور لاپروائی سے کار چلانے کی وجہ سے چالان کاٹا گیا ہے تو ہمیں چالان کی کاپی دی جائے یا چالان کی کاپی آن لائن کر دی جائے تاکہ ہم چالان کو بھر سکیں۔ عمران پیشے سے وکیل ہیں۔

اس پورے معاملے کو سمجھنے کے بعد ہفت روزہ دعوت نے دہلی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل فیروز احمد سے خاص بات چیت کی۔ اس بات چیت میں وہ کہتے ہیں کہ یو پی پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ پولیس افسران تو اس بات سے بھی انکار کر رہے ہیں ایسا کچھ ہوا بھی ہے۔ بلکہ وہ الٹا مجھ پر ہی الزام لگا رہے ہیں کہ میں گاڑی ٹھیک ڈھنگ سے نہیں چلا رہا تھا۔ اس لیے اب میں نے اس معاملے کو لے کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں، ’مجھے اپنے ملک کے قانون اور عدالت پر پورا بھروسہ ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ان لوگوں کےخلاف ضرور کارروائی ہوگی۔ ان پر کارروائی اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ان کے جیسے جو دوسرے پولیس اہلکار ہیں وہ بھی اس سے سبق لیں۔‘

فیروز کہتے ہیں کہ اگر میں ممنوعہ جانور لے کر جا رہا ہوتا تو کوئی بات سمجھ میں آتی۔ لیکن بکرا لے کر جانا کس قانون کے تحت جرم ہے؟ پرائیویٹ گاڑی سے یہ پولیس والے پٹرولنگ کس کی اجازت سے کر رہے تھے؟ یہ سیدھا سیدھا غیر قانونی وصولی کا معاملہ ہے۔ فیروز ان دونوں پولیس اہلکاروں پر فرقہ پرست ہونے کا بھی الزام لگاتے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی باتیں ایسی کہی جس سے مجھ سے لگا کہ وہ فرقہ پرستی کے شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تم بکرے کو کیسے کاٹ سکتے ہو؟ ہم تمہیں اب ایسا کرنے نہیں دینگے۔ انہوں نے میرے مذہب پر بھی کئی تبصرے کیے اور کافی کچھ الٹا سیدھا کہا، اس پر جب میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے ہاتھ چھوڑ دیا۔

کیا آپ کی نظر میں پولیس کے اندر اس طرح کی فرقہ پرستی ملک کے لیے درست ہے؟ اس سوال پر فیروز کہتے ہیں، فرقہ پرستی تو پورے سماج، انسانیت اور ملک کے لئے بیحد خطرناک ہے۔ مجھے بڑا عجیب لگا کہ یہ کس طرح کے لوگ ہیں۔ انہیں کس طرح کی ٹریننگ دی جاتی ہے؟ یہ کیسے لوگ ہیں جو انسان کو انسان نہیں سمجھ رہے ہیں۔ پولیس والوں کو تنخواہ عوام کی خدمت کے لئے مل رہی ہے، آئین کے مطابق لا اینڈ آرڈر کو بنائے رکھنے کے لئے مل رہی ہے۔ لیکن ہم لوگوں کی خدمت کرنے کے بجائے انہیں مارنا شروع کر دینگے؟ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ ہمارے ملک کا قانون ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اگر کسی نے جرم بھی کیا ہے تو اس پر قانون کے مطابق ہی کارروائی کرسکتے ہیں۔ اگر بکرا لے کر سفر کرنا جرم ہے تو پھر آپ چالان کیجئے۔ اس جرم کی ایف آئی آر لکھئے۔ کسی کو مارنا، اس کا پرس چھیننا یا اس کے مذہب پر چھینٹا کشی کرنے کی اجازت ملک کا کوئی بھی قانون پولیس والوں کو نہیں دیتا۔ میری 22 سال کی سرویس ہوچکی ہے۔ آپ میرا پورا ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں۔ پوری سرویس میں آج تک میں نے کسی بھی شخص پر ہاتھ نہیں اٹھایا، کبھی کسی کو گالی نہیں دی۔

ایک طویل گفتگو میں فیروز احمد بتاتے ہیں کہ میرے وکیل پر بھی دباؤ ڈالا گیا کہ ان پولیس والوں سے معافی منگوا دیں گے۔ لیکن میری نظر میں بات معافی کی نہیں ہے۔ بات اس نظریے کی ہے کہ جب یہ پولیس کے جوان کو مار سکتے ہیں تو پھر عام لوگوں کا یہ کیا حال کرتے ہوں گے۔ یہ صد فیصد لوگوں کو لوٹتے ہوں گے۔ اور ویسے بھی عام آدمی تو پولیس کی وردی دیکھ کر ہی ڈر جاتا ہے۔

 

***