عید الاضحٰی، پھر وقت ہے تجدیدِ عہد وفا کا

بازغہ قمر مرزا نجیب اقبال، پوسد

 

بیٹا۔۔!
جی ابا جان
میرے پیارے بیٹے! آج میں نے خواب دیکھا ہے۔
کیسا خواب ابا جان؟
بتا رہا ہوں بیٹا
جی ابا جان، خواب تو وحی ہوتے ہیں نا!
ہاں بیٹا، خواب وحی ہوتے ہیں۔ ہاں میں بتا رہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہیں اللہ کی راہ میں قربان کر رہا ہوں۔ تمہارا کیا خیال ہے اس خواب کے بارے میں؟
ابا جان خواب وحی ہوتے ہیں اور وحی اللہ کا حکم ۔۔کر گز ریے جس عمل کا اللہ نے آپ کو اس خواب میں حکم دیا ہے۔
ابا جان انشا اللہ آپ مجھے اس آزمائش میں صابر پائیں گے ؎
یہ فیضانِ نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی
منظر بدل رہا ہے۔ تاحدِ نظر صحرا ہی صحرا ہے ایسے میں دو نفوس اس صحرا کی کڑکتی دھوپ میں۔ کتنا اطمینان جھلک رہا ہے ان کے مبارک چہروں سے
بوڑھا باپؑ اپنے فرزند کے ساتھ ہے۔ شیطان کے وسوسے پر اسے کنکریاں ماری جا چکی ہیں۔ یہ کیا ابا جان اپنے جان سے پیارے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا رہے ہیں تاکہ رب کے حضور سرخرو ہو جائیں۔ ابھی چند سال پہلے ہی تو بڑھاپے کو سہارا ملا تھا اس بچے سے۔
پدری محبت غالب نہ آجائے اس لیے آنکھوں پر پٹّی ہے دل حکم الٰہی کی تعمیل میں جھکا ہے۔ زبان سے ذکر جاری ہے ہاتھ حکم الٰہی میں مشغول ہیں کہ ندا آتی ہے۔۔
اے ابراہیم!
بیشک تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا اور بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں
بیشک یہ ضرور کھلی ہوئی آزمائش ہے۔ (الصافات 104-106)
اور تاریخ ۔۔۔اس بے نظیر قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔اس بے نظیر و بے مثال قربانی کی یاد ’عیدالضحٰی‘ ہے جو اب سے کوئی چار ہزار سال پہلے اللہ رب العزت کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کی تھی ۔
اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردینا اور اپنے بیٹے کو اللہ کے حضور پیش کردینا یہ ادا اور یہ قربانی اللہ تعالٰی کو اتنی پسند آئی کہ تا قیامت اس عمل کو ہمارے لیے عبادت قرار دیا گیا۔
الاضحیٰ کے معنیٰ ہی قربانی کے ہیں۔ اور قربانی وہ عمل ہے جس کی وجہ سے بندہ اپنے رب کے قرب کو پا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ ؐنے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو ہم کو اس میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ لوگوں نے عرض کیا: اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھیڑ میں بھی ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔
بلا شبہ یہ قربانی سنت ابراہیمؑ ہے لیکن اس کا مقصد ہم بھلا چکے ہیں۔ اس قربانی کا مقصد تھا کہ ہم اسلام کی سر بلندی کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔ مال و دولت ہمارے اہل وعیال یہاں تک کے ہماری جان بھی راہ حق میں لٹانے سے ہم پیچھے نا ہٹیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہم نے قربانی کی رسم کو اپنالیا ہے مگر اس کی اصل روح کو ہم سمجھ نہ سکے۔اللہ رب العزت فرماتا ہے۔ان کے خون اور ان کے گوشت اللہ کے پاس نہیں پہنچتے لیکن تمہارا تقویٰ اس کے پاس پہنچتا ہے، اسی طرح اس نے ان مویشیوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اللہ کی ہدایت کے مطابق اس کی بڑائی بیان کرو اور نیکی کرنے والوں کو بشارت دیجیے (سورہ الحج آیت 37)
بے شک اللہ کے پاس نہ ہمارے قربانی کے گوشت پہنچتے ہے اور نہ خون لیکن صرف تقویٰ اور ان جانوروں کو اللہ نے ہمارے لیے مسخر کردیا تاکہ ہم ان کی قربانی دے کر کہ اپنے عہد کو تازہ کریں۔
کہ ہمارا مرنا اور جینا صرف اللہ کے لیے ہو ۔ہمارے ہر ایک عمل صرف رضائے الٰہی کی خاطر ہو۔ لیکن ہم اس قربانی کو نمود و نمائش کا ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں ۔کئی جانور خرید کر کے ہم معاشرے میں اپنی دولت کی دھاک بٹھاتے ہے۔ یہ تو قربانی کی حقیقی روح نہیں تھی۔ قربانی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم رب کی رضا کی خاطر اس زندگی کو جئیںاور ہماری زندگی کا ہر لمحہ اطاعت الٰہی میں صرف ہو۔ ہمارا ہر عمل اسلام کی خاطر ہو ۔؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہَوس چھُپ چھُپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

ان جانوروں کو اللہ نے ہمارے لیے مسخر کردیا تاکہ ہم ان کی قربانی دے کر کہ اپنے عہد کو تازہ کریں کہ ہمارا مرنا اور جینا صرف اللہ کے لیے ہو ۔ہمارے ہر ایک عمل صرف رضائے الٰہی کی خاطر ہو۔