آیا صوفیا مسجد کی بحالی میں قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا

ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے مجلس مذاکرہ میں اسکالرس کا اظہار خیال

محمد عزیر ندوی

 

ترکی میں آیا صوفیا کی مسجد کی حیثیت بحال کر دی گئی ہے۔ جب سے یہ فیصلہ آیا ہے اس وقت سے دنیا بھر میں اس پر مختلف قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ مسئلہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ میں بھی ایک مجلس مذاکرہ کا انعقاد عمل میں آیا جس کی صدارت سکریٹری ادارہ مولانا اشہد جمال ندوی نے کی جبکہ دیگر رفقاء و اسکالرس نے بھی اس مسئلے پر اظہار خیال کیا۔ ابتدا میں رفیق ادارہ مولانا کمال اختر قاسمی نے مسجد آیا صوفیا کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالی، جس میں انہوں نے بتایا کہ آیا صوفیا کی عمارت ۵۳۲ء سے ۵۳۷ء کے درمیان گرجا گھر کے طور پر بادشاہ جسٹینن (Justinian) کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ بازنطینی دور کی سب سے اہم تعمیر شمار ہوتی ہے۔ اسے عیسائی دنیا کا مرکز تسلیم کیا گیا تھا۔ ۱۴۵۳ء میں سلطان محمد فاتح نے استنبول کو فتح کیا تو اس وقت یہ مرکزی معبد کے ساتھ شرور و فتن اور عسکری جدوجہد کا بھی مرکز بنا ہوا تھا۔ سلطان فاتح نے بہت بڑا معاوضہ دے کر اس عمارت کو حاصل کیا اور ضروری ترمیمات کے بعد جامع مسجد کا درجہ دے دیا۔ خلافت اسلامیہ کے زوال کے بعد کمال اتاترک نے مسلمانوں کی مرضی کے علی الرغم محض یورپ کو خوش کرنے کے لیے ۱۹۳۴ء میں میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ مسلمان آیا صوفیا کی بحالی کے لیے عرصے سے کوشاں تھے۔ انہوں نے عوامی تحریک چلائی اور ترکی سپریم کونسل میں درخواست بھی گزار دی۔ بالآخر ۱۰؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو عدالت عالیہ نے مسجد کو بحال کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے عرش عالم ندوی نے کہا کہ آیا صوفیا کو اس کی سابقہ حیثیت مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ایک اچھا قدم ہے، اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور اسے مسجد اقصیٰ کی جانب پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ محمد انصار نے کہا کہ حالیہ فیصلہ بالکل صحیح ہے کیوں کہ ۱۴۵۳ء سے یہ عمارت جائز طور پر مسجد میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سلطان محمد فاتح نے اسے عیسائیوں سے خطیر معاوضہ دے کر خریدا ہے۔ جن نام نہاد سیکولر اور لبرل لوگوں کے نزدیک یہ فیصلہ غلط ہے انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ آج بھی عیسائی بخوشی اپنی عبادت گاہیں مسلمانوں کو بیچ رہے ہیں جنہیں مسلمان مساجد میں تبدیل کر رہے ہیں۔ شارق نسیم شہیدی نے کہا اب مسئلہ میوزیم سے مسجد میں تبدیلی کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ اس پر ہونے والی عالمی سیاست کا ہے۔ دنیا میں شور وغوغا چرچ کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے کا ہے۔ محمد اشہد فلاحی نے خان یاسر کے حوالے سے کہا کہ محمد فاتح کا آیا صوفیا کو مسجد کی شکل دینے کا فیصلہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق تھا۔ اخیر میں صدر مجلس نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا مسجد آیا صوفیا نہایت شاندار بین الاقوامی شہرت یافتہ عمارت ہے جو عیسائیوں کے دور میں بنائی گئی تھی۔ عیسائیوں کے یہاں بھی اس عمارت کو چرچ میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں کافی اختلاف رہا ہے اور مختلف ادوار میں مختلف گروپس کا قبضہ رہا ہے۔ سلطان محمد فاتح نے جب اس عظیم عیسائی مرکز کو اسلامی مرکز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو پہلے اسلامی اصول و آداب کی تکمیل کی، فقہی مسائل، عہد صحابہ و مابعد کے معمولات کی نظیریں ان کے سامنے تھیں۔ وہ بزور شمشیر فتح ہونے والی عمارت کو قانونی طور پر مسجد میں تبدیل کر سکتے تھے مگر انہوں نے پہلے اس کے وارثین کو راضی کیا اور گراں قدر معاوضہ پیش کیا پھر اسلامی مقاصد سے وقف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بیت المقدس اور آیا صوفیا دونوں کی فتح کی نوعیت الگ الگ ہے۔ بیت المقدس کی فتح صلح کی شکل میں ہوئی تھی جب کہ آیا صوفیا کے سلسلے میں عیسائیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آیا صوفیا کو دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی مذہب فتح نہیں کرسکتا جو اس میں امان لے گا وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ رہے گا اور جو اس کے باہر ہوگا تو اللہ کی طرف سے آگ آئے گی اور خاکستر کر دے گی۔ اس لیے جب محمد فاتح بڑھتے بڑھتے وہاں پہنچے تو وہاں کے باشندوں کی بڑی تعداد اس مرکز میں جمع ہوگئی۔ محمد فاتح دروازے تک پہنچ گئے مگر آگ نہیں آئی۔ محمد فاتح نے دیگر فاتحین کی طرح برا سلوک کرنے کے بجائے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ ان سب کو امان دے کر مرکز کے ورثاء سے قیمت دے کر اسے خریدا اور اس کو خالی کرانے کے بعد مسجد میں تبدیل کیا۔ وثیقہ میں یہ بات بھی موجود ہے کہ بادشاہ وقت نے اس میں بیت المال کی رقم نہیں لگائی بلکہ اپنی جیب سے رقم خرچ کی۔ مسجد میں تبدیل کرنے کے بعد سب سے پہلے اس کا قبلہ درست کیا گیا، پھر مسجد کی شکل میں لانے کے لیے مینار اور منبر و محراب بنائے گئے پھر اس کا نام’’ جامع آیا صوفیا الشریفہ‘‘ رکھا گیا۔ اس وقت دنیا کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایک بڑے مذہبی چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے، در اصل بہت بڑی غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کیوں کہ چرچ کی حیثیت صدیوں پہلے ختم ہو چکی ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ مصطفیٰ کمال اتاترک، جس نے اپنے زمانے میں مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا اسے اب عدالت عالیہ نے مسجد کی اصل حیثیت سے بحال کر دیا ہے۔ اتاترک کا جہاں تک معاملہ ہے وہ اسلامی اقدار کا مخالف تھا، اسے نہ صرف اسلام سے دشمنی تھی بلکہ اسلام سے وابستہ کوئی بھی چیز اس کو پسند نہیں تھی۔ اسے نہ مسجد کی ضرورت تھی نہ قرآن کی اس کے نزدیک کوئی حیثیت تھی اور نہ ہی وہ اسلامی نظامِ عبادت سے دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کا مقصد مسجد کو چرچ میں تبدیل کرنا تھا، لیکن اس مشکل عمل کو انجام دینے کی اس کے اندر ہمت نہ تھی بالآخر اس کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ رجب طیب اردگان خود مسجد کی بازیافت کی آرزو رکھتے تھے۔ ان کے زمانے میں جب صورت حال تبدیل ہوئی تو عوام کو آواز اٹھانے کا موقع ملا اور عدالت عالیہ نے بے لاگ انصاف کر دیا۔ شرکاء کے سوال و جواب کے سیشن کے بعد مذاکرے کی نشست کا اختتام ہوا۔

اس وقت دنیا کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایک بڑے مذہبی چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے، در اصل بہت بڑی غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کیوں کہ چرچ کی حیثیت صدیوں پہلے ختم ہو چکی ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ مصطفیٰ کمال اتاترک، جس نے اپنے زمانے میں مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا اسے اب عدالت عالیہ نے مسجد کی اصل حیثیت سے بحال کر دیا ہے۔ اتاترک کا جہاں تک معاملہ ہے وہ اسلامی اقدار کا مخالف تھا، اسے نہ صرف اسلام سے دشمنی تھی بلکہ اسلام سے وابستہ کوئی بھی چیز اس کو پسند نہیں تھی۔ اسے نہ مسجد کی ضرورت تھی نہ قرآن کی اس کے نزدیک کوئی حیثیت تھی اور نہ ہی وہ اسلامی نظامِ عبادت سے دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کا مقصد مسجد کو چرچ میں تبدیل کرنا تھا، لیکن اس مشکل عمل کو انجام دینے کی اس کے اندر ہمت نہ تھی بالآخر اس کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔