سیرت ابراہیمی، خواہشات کو شریعت کے تابع کرنے کا پیغام

بشریٰ ناہید، اورنگ آباد

 

اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ (الانعام۔79)
’’بلا شبہ میں نے یک سو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔‘‘
ملت کے لیے یہ سخت آزمائش کا مرحلہ ہے کہ عید الفطر تو لاک ڈاون میں منائی اب عید الاضحٰی کے موقع پر بھی وہی حالات ہیں۔ لیکن الحمد للہ امت مسلمہ پھر بھی مایوسی و بددلی کا شکار نہیں ہے، ہمت و حوصلے سے حالات کا مقابلہ کر رہی ہے۔
عید الاضحٰی کی حضرت اہراہیم خلیل اللہ، حضرت اسماعیل ذبیح اللہ اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام سے نسبت سے ہم واقف ہیں۔ ہمارے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں قربانیوں کی عظیم الشان مثالیں ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ہی قربانی سے عبارت ہے اور قربانی بھی ایسی نہیں جو زندگی کی تمام خواہشات و تمنائیں پوری کر لینے کے بعد دی گئی ہو۔ ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا سلسلہ تو اس گھر سے شروع ہوتا ہے جو ان کا اپنا تھا۔ جس باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تھا وہی باپ حق سے نا آشنا تھا، جس شرک سے وہ بیزار تھے وہ لوگوں کو اس شرک کرنے کے لیے بتوں کو اپنے ہاتوں سے تراشنے والا تھا۔ آپ نے اللہ کے فضل و کرم سے اپنے غور و فکر اور تدبر سے اس خدائے واحد کو پا لیا تھا جو تمام مخلوقات کا واحد خالق و مالک ہے اور اس خدا آشنائی نے ان کو حق کے لیے اپنے والد کے بالمقابل کھڑا ہونے کی جرأت پیدا کی۔ یہ جہاد کوئی معمولی جہاد نہ تھا، دنیا پرستوں کی زبان میں یہ رشتہ داروں اور شہر کے لوگوں سے خواہ مخواہ کی دشمنی مول لینا تھا۔ یہ وہ میدان کار زار تھا جہاں تنہا ہی جنگ لڑنی تهی- اُر کی پوری آبادی ایک طرف اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک طرف۔
حق کے لیے یکے بعد دیگرے آپ نے بہت سی مصیبتیں سہیں اور بہت سی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ اپنے ہی باپ اپنے ہی عزیز و اقارب اور اپنے ہی وطن کے لوگوں کی طرف سے ہونے والے مظالم کو سہتے ہوئے لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کی انتہائی کوششیں کرنا اور نتیجے میں اپنے وطن عزیز کو چھوڑ دینا، حضرت سارہ علیہ السلام کی جدائی کا غم سہنا، حضرت ہاجرہ اور ننھے اسماعیل علیہم السلام کو ویران و بے آب و گیاہ علاقے میں بسانا۔۔ حتیٰ کہ اپنے لخت جگر کو خواب میں اپنے ہی ہاتھوں قربان کرتا دیکھ کر اسے اپنے معبود برحق کا فرمان جان کر اس خواب کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے خود کو اور بیوی کو تیار کر لینا خالق حقیقی سے عشق کی انتہا کا ایک بے مثال واقعہ ہے۔ یہ حوصلہ وہمت، یہ والہانہ جذبہ قربانی اور صبرواستقامت مومنین کے لیے قیامت تک نمونہ عمل بنا رہے گا۔ احکام الٰہی کی پیروی کی خاطر اپنی سب سے عزیز ترین چیز اپنی اولاد کی قربانی انجام دینے کی وہ اعلیٰ ترین مثال قائم کی جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ان کی وفا شعار بیوی اور بیٹےکی قربانیاں بھی بے نظیر ہیں کیوں کہ انہوں نے ہر مرحلے پر اپنے شوہر اور والد ابراہیم علیہ السلام کا ساتھ دیا۔ اور اللہ تبارک تعالیٰ نے ان کی ان بے غرض و بے لوث قربانیوں کو قیامت تک کےلیے نہ صرف یاد گار بنا دیا بلکہ اسے عبادت کا حصہ قرار دیا۔ حضرت ہاجرہ کی یادگار دوران حج صفا و مروہ کی سعی اور حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی یادگار ہر سال عید الاضحٰی کے موقع پر جانور کی قربانی۔۔یہ اعزاز اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو یونہی نہیں مل گئے۔ ابراہیم خلیل اللہ نے اپنی تمام زندگی معبود برحق کی خوشنودی و احکام کی بجا آوری کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ ہے حالانکہ وہ پیغمبر تھے لیکن تھے تو بشر ہی اور ان کے بالمقابل آج کے بیشتر نوجوانوں (ان میں بعض دیندار بھی ہیں) کی ترجیحات سے تو یقیناً زمانہ واقف ہی ہے ۔گاڑی، بنگلا، بینک بیلینس، من چاہی آن لائن زندگی۔بس اب اور کیا چاہیے؟ کچھ بھی تو نہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ملت کی اکثریت نے ان چیزوں کے حصول کو ہی کامیاب زندگی کی سند سمجھ لیا ہے۔ یہ کوئی شجر ممنوعہ بھی نہیں اور نہ ہی ناجائز یا حرام ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ مومنین کا اصل مقصد نہیں ہو سکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے حصول کے ساتھ اور اس کے بعد بھی احکام الٰہی کی تعمیل اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بننے پائے۔ یعنی شادی ہونے تک والدین ورشتہ داروں کی بے جا تمناؤں کی تکمیل کے لیے اسلام کے احکامات کو پس پشت ڈالا جائے اور شادی کے بعد بیوی بچوں کی ہر جا و بے جا خواہشات، ان کی آرزوئیں، ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے شب و روز معاشی دوڑ دھوپ کر کےپورا کر نا ہی زندگی کا مشن بنا لیا جائے۔ اپنی ذات سے وابستہ کسی بھی رشتے کے حقوق و فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہونے پائے لیکن خیال رہے کہ ہماری حتی الامکان کوشش ہو کہ دنیاوی زندگی کے یہ خوبصورت محبتوں بھرے رشتے راہ خدا میں کبھی بھی روکاوٹ نہ بننے پائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے دوران یہ سوچنے کی توفیق ہی نہ ملے کہ آخر میرا رب مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ اور وہ جو چاہتا ہے اس پر تو یقیناً میرا ایمان تھا بس صرف عمل کرنا باقی تھا لیکن میں غفلت میں پڑا رہا-
سیرت ابراہیم علیہ السلام میں ہمارے لیے یہ پیغام بہت واضح ہے کہ ہماری پوری زندگی اس آیت کی عملی تفسیر بن جانی چاہیے قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الانعام 162)
کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

سیرت ابراہیم علیہ السلام میں ہمارے لیے یہ پیغام بہت واضح ہے کہ ہماری پوری زندگی اس آیت کی عملی تفسیر بن جانی چاہیے:کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔