گیسوئے اردو بھی منت پذیر شانہ ہے

گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ زبان ہماری توجہات کی طالب

ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
قومی صدر ،ادارہ ادب اسلامی ہند

 

آج جب بھی اردو کا ذکر ہوتا ہے تو بیش تر لوگ اردو کے مستقبل کے متعلق مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ خصوصاً گزشتہ کچھ برسوں میں جس طرح ملک کا سیاسی وسماجی منظر نامہ بدلا ہے، اس نے مجموعی طور پر چہار طرف نا امیدی، سراسیمگی اور دل شکستگی کی کیفیت پیدا کی ہے، لیکن ایسے تمام لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اردو ایک زندہ جاوید زبان ہے، یہ تہذیب وثقافت بھی ہے، اور تہذیبوں کو ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اردو محبت کی زبان ہے اور محبت فنا نہیں ہوتی۔ وہ اپنے اندر ایک چاشنی اور شیرینی رکھتی ہے جو ہمیشہ دلوں پر راج کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اردو لکھ پڑھ نہیں سکتے وہ بھی اس کی سوچ اور اس کی کھنک کے دیوانے ہیں۔ خود مشاعروں میں غزلوں اور گیتوں کے شائقین ہوں یا فلموں اور ڈراموں کے ناظرین ہر جگہ اردو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لوگوں کے دلوں پر اردو کے راج کا عالم یہ ہے کہ اردو سے نابلد لوگ آج بھی جب اپنی آواز بلند کرتے ہیں تو وہ ’انقلاب زندہ باد’ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ (چنانچہ محبان اردو نے ’یوم اردو کی اس مہم کے ذریعے جس توانا روایت کا آغاز کیا ہے وہ یقیناً مشعل راہ ہے۔ اگر ہم سب اسی طرح متحد ہو کر منظم انداز میں) اخلاص نیت کے ساتھ اسی جذبہ صادق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اردو کے لیے کوشش کرتے رہیں تو یقیناً کوئی بھی طاقت اردو کو اس کا جائزہ حق لینے سے روک نہیں سکتی۔ اگر آج اردو کا ہر عاشق اردو سے محبت کی ایک شمع روشن کردے تو نہ صرف پورے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں اردو کا اجالا پھیل جائے گا۔ بہ قول احمد فرازؔ
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
دستور ہند کے شیڈول ۸ کی ۱۸ قومی زبانوں میں بولنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے اردو ترتیب میں چھٹے نمبر پر رکھی گئی ہے۔ جب کہ ان میں ملک گیر حیثیت واحد اردو کی ہے خواہ اسے اقلیت کی زبان کہا جائے۔ یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی اور ملک کو جوڑنے والی زبان (link language) ہے۔ ایک طرف اس کی واحد ’قومی حیثیت‘ اور دوسری ’اقلیتی مقام‘ کے درمیان ایک مضحکہ خیز بلکہ معمہ ہے جس کا حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس ہندوستانی زبان کو جس کا نام اردو اور ایک زمانے میں یونیسکو کے سروے کے مطابق چینی کے بعد اور انگریزی سے پہلے اردو زبان دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان رہی ہے۔ یعنی تعداد کے اعتبار سے دوسری بڑی عالمی زبان کو اپنے اصلی وطن ہندوستان میں ابھی تک وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ ہر لحاظ سے مستحق ہے۔
میرا خیال ہے کہ اردو کا مستقبل خود اردو کے ہاتھ میں ہے۔ اردو کی ترقی کے لیے حکومت سے تقاضہ کرنے اور اس کا حق لیے کے لیے حکومت پر زور ڈالنے اور تحریک چلانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر اس سے زیادہ خود اردو بولنے والوں، اردو کے چاہنے والوں سے یہ تقاضا کرنا زیادہ ضروری ہے کہ وہ اردو کے لیے جو کچھ کریں۔ آج ہم یہ عہد کریں کہ ہم نئی نسل کو اور اپنے زیر اثر لوگوں کو اردو پڑھنے اور پڑھانے پر راغب کریں گے۔ اردو کی بنیادی تعلیم کے ساتھ اردو کا استعمال ہماری تمام سماجی تقریبات میں یقینی طور پر ہونا چاہیے۔ یہ ہماری تہذیب کے تحفظ کا معاملہ ہے، جس سے غفلت برت کر ہم اپی پہچان کھو دیں گے۔ آپ ذرا غور کیجیے جنوب کے ان علاقوں میں جہاں اردو ترقی کر رہی ہے چاہے مہاراشٹر ہو یا کرناٹک، تلنگانہ حتیٰ کہ تمل ناڈو اور کیرالا جو روایتی طور پر اردو کے علاقے کبھی نہیں رہے، مگر آج وہاں اردو کا فروغ خوب ہو رہا ہے اور یہ مقامی طور سے اردو الوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھنے کی ہے کہ جب کوئی معاشرہ کسی اچھے کام میں ہاتھ بٹاتا ہے تو چاہے کوئی بھی حکومت ہو، وہ تعاون اور سرپرستی فراہم کرتی ہے۔ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ اردو رسم الخط کا تحفظ ہی اردو زبان کا تحفظ ہے۔ اردو اپنے رسم الخط کے بغیر اردو نہیں ہے۔ دیو ناگری یا رومن رسم الخط میں اردو لکھ کر ہم اردو کو ترقی نہیں دے سکتے۔ ہماری نئی نسلیں اردو بولتی اور سمجھتی ہیں، اگر ہم انہیں صرف اردو رسم الخط سکھادیں تو وہ لکھنے اور پڑھنے بھی لگیں گی، پھر تو ہمارے معاشرے میں اردو زندہ اور تابندہ ہو جائے گی، اس طرح اردو میں موجود ہماری عظیم دینی وراثت، اخلاقی روایات اور تہذیبی اقدار نئی نسل میں منتقل ہو کر محفوظ ہو جائیں گی۔
اس سلسلے کی ایک آخری بات یہ ہے کہ اردو زبان نے اس ملک میں مشترکہ تہذیب اور کمپوزٹ کلچر کے فروع میں بہت نمایاں کردارا ادا کیا ہے۔ اس کی گنگا جمنی خصوصیات کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ اس طرح آزاد ہندوستان کی تعمیر وتشکیل، قومی یک جہتی اور فقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں بھی اردو کا زبردست رول رہا ہے۔ مگر سیاست کی ریشہ دوانیوں کا کہاں تک ماتم کیا جائے کہ اس خالص ہندوستانی زبان کو کبھی صرف مسلمانوں کی، کبھی دہشت گردی کی تو کبھی غیر ملکی زبان کہہ کر نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ مگر ان سب باتوں سے قطع نظر یہ تلخ حقیقت بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس زبان کے ساتھ خود ہمارا سلوک آزادی کی سات دہائیاں گزرنے پر بھی وہ نہیں رہا جو ہونا چاہیے تھا۔ آئیے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے ذاتی مفادات سے بلند ہو کر اور ملک کی تمام غیر سرکاری لسانی تنظیموں اور ادبی اداروں کی شیرازہ بندی کر کے پوری طاقت کے ساتھ متحد ہو کر حکومت سے اپنے مطالبات رکھیں گے اور ہر سطح پر اپنی انفرادی واجتماعی ذمے داریاں ادا کریں گے
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہ حق نے تری جبیں
***

اردو رسم الخط کا تحفظ ہی اردو زبان کا تحفظ ہے۔ اردو اپنے رسم الخط کے بغیر اردو نہیں ہے۔ دیو ناگری یا رومن رسم الخط میں اردو لکھ کر ہم اردو کو ترقی نہیں دے سکتے۔ ہماری نئی نسلیں بولتی اور سمجھتی ہیں، اگر ہم انہیں صرف اردو رسم الخط سکھا دیں تو وہ اردو لکھنے اور پڑھنے بھی لگیں گی، پھر تو ہمارے معاشرے میں اردو زندہ اور تابندہ ہو جائے گی۔ اس طرح اردو میں موجود ہماری عظیم دینی وراثت، اخلاقی روایات اور تہذیبی اقدار نئی نسل میں منتقل ہو کر محفوظ ہو جائیں گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021