دیومالائی دریاوں پرخرچ کا جواز کیا ہے؟

ٹیکس دہندوں کے پیسے کا سیاسی مفاد کے لیے استعمال!

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

ہماری حکومت کے پاس سائنسی تعلیم پر، سائنسی ترقی پر، شعبہ تعلیم پر، شعبہ صحت عامہ پر خرچ کرنے کے لیے تو پیسہ نہیں ہے لیکن ہندو مذہبی مقامات اور ہندو دیومالائی دریاوں کو آراستہ کرنے کے لیے پیسہ کی کمی نہیں ہے کیوں کہ سائنسی تحقیقات پر خرچ کرنے سے اس کو ووٹ نہیں ملتا لہٰذا اس طرح کے کاموں سے بھلا اسکو کیا دل چسپی ہو سکتی ہے؟ یہ تو لوگوں کو مذہب کے نام پر بانٹ کر اپنا الُو سیدھا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن مذہبی بنیادوں پر یا مذہب کے نام پر کام کرنے کا الزام صرف بی جے پی پر کیوں لگایا جائے اب تو اس طرح کے کام تقریباً ہر سیاسی پارٹی کر رہی ہے، چاہے وہ کانگریس ہو یا عآپ پارٹی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے درمیان مسابقتی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون عوام کو ہندو مذہب کی تعلیم کس انداز میں کتنے اچھے طریقہ پر دے سکتا ہے۔
دہلی حکومت کی جانب سے چلائی جانے والے یاترا کو دیکھا جائے تو یقین ہو جائے گا۔ اس دوڑ میں عآپ پارٹی آگے چل رہی ہے، ہندو مذہبی مقامات کی یاترا حکومت اپنے پیسوں سے کراتی ہے۔حکومت کا پیسہ یعنی ٹیکس دہندوں کا پیسہ۔ ملک بھر میں ہندو مذہبی مقامات کی سیر کرائی جاتی ہے یاتریوں کے سارے اخراجات حکومت ہی برداشت کرتی ہے۔ یہ شاہانہ سفر جنوبی ہندوستان کے ہندو مذہبی مقامات سے لے کر شمالی ہندوستان کے چار دھام پر محیط ہوتا ہے۔ کیسے کوئی حکومت ہندوؤں کے مذہبی مقامات کی زیارت کی تشہیر وسیر عوامی پیسوں سے کراسکتی ہے جب کہ ملک شدید طور پر معاشی بدحالی کا شکار ہے، شعبہ طب کی حالت تو ملک کا ہر شہری جانتا ہے، ناخواندہ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پینے کے لیے صاف پانی تک لوگوں کو میسر نہیں ہے، روزگار ختم ہو رہے ہیں، سطح غربت میں مسلسل اضافہ درج کیا جارہا ہے پھر کیسے کوئی حکومت مذہبی مقامات کی سیر پر پیسے خرچ کرسکتی ہے؟ وہ بھی ایک ہی مذہب کے لوگوں پر؟ کیوں اس سیر میں دیگر مذاہب کے مقامات شامل نہیں ہیں؟ بلکہ الٹا مرکزی حکومت مسلمانوں کے لیے سفر حج مہنگا کرتی جارہی ہے اور اس پر دی جانے والی مراعات (سبسڈی) کو مکمل ختم کر دیا گیا ہے۔
ہندو مذہبی مقامات کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور اس پر فوری طور عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ چار دھاموں کو مربوط کرنے کے لیے ۱۲ سو کروڑ روپیوں کی لاگت سے فور لین ہائی وے کی تعمیر ہو رہی ہے۔ کاشی وشوناتھ راہداری کو مزید اپ گریڈ کرنے کے لیے ۸ سو کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ریاست تلنگانہ کی ایک مندر کی تزئین وآرائش کے لیے ایک ہزار ۸ سو کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ عوامی پیسہ کا اس قدر بے جا صرف کرنے کا کیا مطلب نکالا جائے؟ جب کہ ہمارے ملک کے دستور کا کوئی مذہب نہیں ہے؟ دستور میں مذہب فرد کی آزادی پر چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ پھر کیوں ہندو مذہب کے مقامات کی تزئین وآرائش کے منصوبہ بنائے جارہے ہیں کیوں اس پر عوام کے ہزاروں کروڑ روپے صرف کیے جا رہے ہیں؟ یہ بہت گہرے سوالات ہیں۔ کسی ایک مخصوص مذہب کے مقامات کو محض اس بنیاد پر کہ اس کے ماننے والے کثیر تعداد میں ہیں پروان نہیں چڑھایا جاسکتا۔ دستور کی رو سے مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے۔ بڑا ہی خوب طریقہ اپنایا ہے ان صاحبانِ سیاست نے غیر جانب داری کا یعنی سیکولرازم کا چوغہ اوڑھ کر ہندو مذہب کے مبلغ (پرچارک) بنے ہوئے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ مبلغ خود ہیں اور دوسروں پر اس کا الزام لگاتے ہیں تبدیلیِ مذہب کے خلاف قوانین بنائے جارہے ہیں۔ ترقی کے نام پر شاہراہوں کو چوڑا کرنے کے نام پر ایک طرف ہندو مذہبی مقامات کو آراستہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف مسجدوں اور قبروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسا سیکولرازم ہے؟
قدیم دریا سرسوتی جو شمال مغربی ہندوستان کی ایک دریا ہے اس کی تحقیقات اور دوبارہ اس کی بحالی کے لیے منصوبہ بنایا گیا ہے جس کو ایک ہندو مذہبی مقام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہندووں کے مطابق یہ ایک مقدس دریا ہے۔ حکومت نے فوری طور پر ۶ کروڑ کی لاگت سے کروکشیترا یونیورسٹی کے تحت دریائے سرسوتی پر تحقیقات کرنے کے لیے ایک تحقیقاتی مرکز قائم کر دیا۔ یہ سنٹر آف ایکسلنس فار ریسرچ آن دا سرسوتی ریور (سی ای آر ایس آر) معدوم دریا کے بارے میں تحقیق کرے گا۔ پروفیسر اے آر چودھری محکمہ ارضیات (کے یو) کو اس مرکز کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے۔ چودھری نے کہا کہ ہریانہ کے چیف منسٹر اس کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ہریانہ سرسوتی ہیریٹیج ڈیولپمنٹ بورڈ نے الگ سے ۲۰ لاکھ روپے کی منظور کیے ہیں (کے یو) نے اس تحقیق کے لیے ریاستی حکومت کو ۳۶ کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ ہریانہ کی حکومت نے اس سے متعلق دیگر منصوبوں کے لیے ۶ سو کروڑ روپے منظور کیے ہیں۔ ۲۰۰۸ میں کانگریس کی حکومت نے اس دریا کی کھوج اور اس کی تزئین کی تجویز پیش کی تھی۔
مئی ۲۰۱۵ میں یمنا نگر میں غیر فعال سرسوتی دریا کے پانی نکلنے کا دعویٰ کیا گیا تب بی جے پی سرکار نے کہا تھا کہ یہی اس دریا کا راستہ ہے یہ تازہ پانی نیچے دبے ہوئے آبی ذخائر سے ہی بہہ رہا ہے۔ یہ دریا سالوں پہلے زمین میں دب گئی تھی۔
یہ کیسی بے حسی ہے کہ ایک طرف ہریانہ کے کسان، کاشتکار اپنے حقوق کے لیے گزشتہ سات مہینوں سے سڑکوں پر ہیں جنہیں کوویڈ نے تباہ حال کر دیا ہے ان کے مطالبات، ان کی باتیں کو سننے کا حکومت کے پاس وقت نہیں ہے۔ حکومتوں کے پاس اپنی بات منوانے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ اس بات کو مذہب سے جوڑ دیا جائے لوگ بآسانی اس بات کو مان لیں گے۔ ہریانہ کی حکومت نے کہا کہ اگر یہ دریا پھر سے دریافت ہوجاتی ہے تو کسانوں کے حالات بدل جائیں گے کیوں کہ یہ دریا ویدک دور کی ہے اس سے لوگوں کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں۔ اس دریا کے بارے میں یہ بات بھی مشہور کرادی گئی ہے کہ اس کے پانی سے کینسر جیسے مہلک مرض کا علاج بھی ہو گا، اس کے پانی سے علاج میں مدد ملے گی، لوگوں نے اس بات پر یقین کرنا شروع کر دیا اور اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ دریا دریافت ہو اور کب ہمارے ندی، نالے اور کنویں بھریں گے اور کب کینسر کا علاج شروع ہوگا۔
اب دوسرے مذہبی مقامات کا جائزہ لیں گے کہ دوسرے مذاہب کے مقدس مقامات جیسے مسجدیں، گرجا گھر اور گردواروں کا کیا حال ہے؟ان مذہبی مقامات کو چھوڑ دیجیے، ان کی آبادیوں کا حال دیکھا جائے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بھیڑ بکریوں کے پالن کا کوئی مرکز ہو۔ خاص طور پر مسلم اور دلت بستیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان بستیوں میں بنیادی سہولتوں تک کا فقدان ہے۔ نہ ان بستیوں میں تعلیمی مراکزقائم ہیں نہ طبی مراکز اور نہ ہی اچھی سڑکیں۔ سڑکیں تنگ وخستہ حال، اسکولوں کی عمارتیں بوسیدہ، اسپتالوں میں نہ ڈاکٹر ہیں اور ہی دوائیاں، رہنے کے لیے ان کے سروں پہ چھت تک میسر نہیں ہے۔ آخر یہ صورت حال کیسے تبدیل ہو؟ میری نظر میں اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر آئیں ان مفاد پرست، مجرم پیشہ سیاست دانوں کو ایوان میں داخل ہونے روکیں اور سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کی تحریک شروع کریں اور ایسے حکمرانوں کو بے دخل کر دیں جو عوام کو مذہبی خانوں میں بانٹ کر آپس میں لڑاتے ہیں اور اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں۔ ہمیں ایسے منصوبے نہیں چاہیے جس سے ایک ہی مذہبی فرقے کی خوشامدی ہوتی ہو اورعوام کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ہو۔ اس کے برعکس ہمیں ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے جس سے عوام کا بھلا ہوتا ہو، جس سے ملک کی ترقی ہوتی ہواور جس سے ملک کا نام دنیا جہاں میں
روشن ہوتا ہو۔
***

عوام سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کی تحریک شروع کریں اور ایسے حکمرانوں کو بے دخل کر دیں جو عوام کو مذہبی خانوں میں بانٹ کر آپس میں لڑاتے ہیں اور اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں۔ ہمیں ایسے منصوبے نہیں چاہیے جس سے ایک ہی مذہبی فرقے کی خوشامدی ہوتی ہو اورعوام کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ہو۔ اس کے برعکس ہمیں ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے جس سے عوام کا بھلا ہوتا ہو، جس سے ملک کی ترقی ہوتی ہواور جس سے ملک کا نام دنیا جہاں میں روشن ہوتا ہو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021