خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

یو پی میں پرانا کھیل
اترپردیش کی اے ٹی ایس کو ۲۲ جون کو بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی کہ دہلی کے جامعہ نگر پہنچ کر وہاں ایک اسلامی دفتر پر چھاپہ مارکر دو افراد کو گرفتار کرلیا اور ان پر لوگوں پر پیسے کا لالچ دے کر مسلمان بنانے کا الزام قومی سلامتی ایکٹ کے تحت عائد کردیا۔ پولیس کے لیے اس دفتر کا نام غالباً پہلی کشش کا باعث تھے’’اسلامک دعوۃ سنٹر‘‘۔ لہٰذا اس کے بانی عمر گوتم اور ان کے ساتھی مفتی جہانگیر عالم قاسمی کو گرفتار کرکے کہا کہ یہ لوگ غیر مسلموں کو روپے پیسے اور شادی بیاہ کا لالچ دے کر مسلمان بنانے کا کام ایک عرصے سے کررہے ہیں۔ اے ٹی ایس نے یہ بھی کہا ہے کہ اسلامک دعوۃ سنٹر کو کہاں کہاں سے اور کن ذرائع سے فنڈ ملتا ہے ، اس کی بھی انکوائری کی جائے گی۔ یو پی اے ٹی ایس کی اس کارروائی پر مسلم رہنماوں اور ذمہ دار شخصیات نے بجا طور پر مخالفانہ ردعمل ظاہر کیا ہے اور گرفتار شدگان کو فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ویسے یو پی سرکار کا یہ اقدام بہت سوں کے لیے تعجب کا باعث نہیں ہے اس لیے کہ مرکز کی طرح وہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور وزیر اعلیٰ ہند تو کے لیے مشہور ہے۔ پھر یہ کہ آئندہ سال وہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی اپنی عادت اور روایت کے مطابق ہندتو کا کارڈ بے شرمی کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ ضلع بارہ بنکی کی ایک مسجد کو علانیہ منہدم کرکے صاف کردیا گیا ہے۔ اس قبیل کے بہت سے کام ہیں جو بی جے پی الیکشن جیتنے کے لیےکررہی ہے۔
لکشا دیپ میں شرارت
مرکز میں اس حکومت نے ۲۰۱۴ میں اقتدار سنبھالا تھا۔ اس کےبعد سے وہ اپنے کور ایجنڈے سے ایک دن کے لیے بھی بے خبر نہیں رہی۔ اس نے آتے ہی وہ اقدامات شروع کردیے جن کا اندیشہ عام طور سےظاہر کیا جارہا تھا۔ ان سات برسوں میں کوئی مہینہ ایسا نہ گزرا کہ جب اس پارٹی کے لوگوں یا ان کی حکومتوں نے کوئی شرارت نہ کی ہو۔ بی جے پی کے لوگوں نے آغاز حکومت میں ہی اپنے ہاتھ دکھا دیے تھے جب انہوں نے گئو کشی کا مسئلہ اٹھایا اور ایک بے قصور مسلمان کو جب وہ کھانا کھارہا تھا، موت کے گھاٹ اتاردیا۔ مرکزی حکومت دیکھتی رہی مبینہ گئو کشی کے سوال پران لوگوں نے پورے ملک میں کشت و خون کا بازار گرم کر رکھاتھا۔ اس کے بعد شہریت قانون میں ترمیم کا ہنگامہ کھڑا کیا۔ پھر کشمیر پروار کیا۔ آج کل جزائر لکشا دیپ میں شرارتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس لیے کہ وہاں کی کل آبادی مسلم ہے جس سے باقی ملک کے لوگوں کو کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی۔ اب مرکزی حکومت بے ضرر لکشادیپ کی یہ حیثیت باقی رکھنا نہیں چاہتی۔ کہا جاتا ہے کہ مرکز کا فرستادہ ایل جی پرفل پٹیل یہ سب کررہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی لفٹننٹ گورنر مرکز کی ایما کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ منصوبہ سازی مرکز میں ہوتی ہے۔
تبلیغ کا معاملہ
تبلیغ کا معاملہ یہ ہے کہ بھارت ایک دھرم پر دھان دیش ہے۔ یہاں کے دستور میں ہر مذہب اور عقیدے کو اپنی تبلیغ، اس کی توسیع اور وضاحت کا حق حاصل ہے۔ اس ملک میں مسلمان کہیں اجتماعی طور پر یا انفرادی حیثیت میں دین اسلام کی بات کرتے ہیں تو وہ عین آئین و قانون کےمطابق کرتے ہیں۔ کوئی کام خلاف قانون نہیں کرتے۔ بلکہ مسلمان احتیاط بھی کرتے ہیں، کسی کو اندھا دھند کلمہ نہیں پڑھاتے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قبول اسلام کی خواہش رکھنے والے افراد کئی مسلمانوں ان کے گروپوں اور مسجدوں میں گئے لیکن کسی نے انہیں کلمہ نہیں پڑھایا۔
اے ٹی ایس اور دوسری ایجنسیاں جب مالی وسائل کی انکوائری کررہی ہیں تو ان لوگوں سے بھی ضرور ملے جنہیں خواہش کے باوجود مسلمان نہیں بنایا گیا۔ اے ٹی ایس خود عمر گوتم صاحب سے پوچھ لے کہ ماضی میں جب انہوں نے ایمان لانے کا فیصلہ کیا تو انہیں کہاں سے اور کتنی رقم ملی تھی۔ سچ یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کے ہمنوا الیکشن جیتنے کے لیے تبلیغ اسلام کا غیر ضروری مسئلہ ضرور اٹھاتے ہیں۔ یو پی میں یہی سب ہورہا ہے۔ علما کرام اور مسلم دانشوروں کو سیول سوسائٹی کی مدد سے اس مسئلہ پر کوئی متفقہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021