اور بھی غم ہیں زمانے میں ‘مندر’ کے سوا

عقیدت کی آڑ میں جاری و ساری تجارت

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

دھرم کی لکشمن ریکھا پار کرنے والے زمین گھوٹالوں میں ملوث؟
گاندھی جی پر ناتھو رام گوڈسے نے جب گولی چلائی تو انہوں ’ہے رام‘ کہہ کر دم توڑ دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب جلد یا بہ دیر ہندوستان میں راون راج آہی جائے گا اس لیے اس دن کی بنیاد پڑ گئی تھی۔ گاندھی جی کا اندازہ درست تھا لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ ملک میں راون کا راج ’اچھے دن‘ کے بھیس میں آئے گا۔ رامائن میں بھیس بدلنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ راون نے جب سیتا کو اغوا کرنے کا ارادہ کیا تو وہ مریچا نامی راکشش کے پاس گیا۔ وہ بھیس بدلنے میں مہارت رکھتا تھا۔ راون اس کو اپنے منصوبے میں شامل کر کے گوداوری کے کنارے پنچوٹی لے آیا۔ اس کے بعد مریچا ایک نہایت خوبصورت ہرن کا بھیس بدل کر سامنے آیا۔ اس کو آپ آر ایس ایس کا ہندوتوا سمجھ لیں۔ سیتا نے اسے دیکھ کر رام سے اس کا شکار کرنے کے لیے کہا۔ سیتا کی حفاظت کے لیے لکشمن کو گھر پر چھوڑ کر رام شکار کے لیے نکل کھڑے ہوئے، حالانکہ لکشمن بھی وہ شکار کر سکتے تھے۔ خیر اس دیومالائی داستان کے مطابق جب رام نے ہرن پر تیر چلایا تو وہ رام کی آواز میں لکشمن اور سیتا کو مدد کے لیے بلانے لگا جیسے سنگھ پریوار آئے دن ہندو خطرے میں ہے کی دہائی دیتا رہتا ہے۔
اس پکار کو سن کر سیتا نے لکشمن کو اپنے بھائی کی تلاش میں بھیجا۔ لکشمن نے گھر کے چاروں طرف ایک ریکھا (لکیر) کھینچی اور بھابی کو یہ ہدایت کر کے نکل گئے کہ آپ اس کے باہر نہ نکلنا کیونکہ کوئی اس کے اندر نہیں آسکے گا۔ اب راون بھکشو کا بھیس بدل کر نمودار ہو گیا۔ ہمارے پردھان سیوک بھی ہر الیکشن میں نیا بھیس بدل لیتے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور والا کردار اب بے فائدہ ہو گیا اور ان کی ڈاڑھی آہستہ آہستہ مختصر ہونے لگی ہے۔ خیر راون نے صدا لگائی کہ بھکشا دے دو جیسے آج کل نیتا لوگ ووٹ دے دو کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ سیتا نے گھر کے اندر سے بھکشا دی تو وہ ناراض ہو کر واپس جانے کی اداکاری کرنے لگا جیسے ٹیلیویژن کے پردے پر آنسو بہائے جاتے ہیں۔ سیتا نے سوچا ایک لمحہ کے لیے باہر جاکر بھکشا دے دینے میں کیا حرج ہے۔ فوراً لوٹ آوں گی۔ پھر کیا تھا راون بھی مودی جی کی مانند ہندوستانی جمہوریت کو لے کر فرار ہو گیا۔ ہندوستان کی عوام نے فریب میں آکر ایک دن ووٹ کیا دیا کہ ایک سیاسی نظام کو اغوا کر کے یرغمال بنالیا گیا۔ گاندھی جی کے ’ہے رام ‘ کی کہانی کا اس طرح ’رام نام ستیہ ہو گیا‘۔
یہ باتیں تو زیب داستاں کے لیے تھیں اب آئیے اصل موضوع یعنی رام کے نام پر چل رہے رئیل اسٹیٹ گھوٹالوں کی طرف۔
بابری مسجد کے حق میں عدالت عظمیٰ نے سارے شواہد تسلیم کیے۔ اس نے مانا کہ وہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔ اس میں مورتیوں کو رکھنا غلط فعل تھا۔ مسجد کے اندر سرکاری پابندی کے وقت تک نماز ہوتی تھی، اس کا انہدام جرم عظیم تھا۔ اس کے باوجود ہندووں کی شردھا ’عقیدت‘ کو بنیاد بنا کر مسجد کی جگہ ہندووں کے حوالے کر دی گئی۔ اس کے بعد ساری دنیا کے سامنے عقیدت کی پول کھلنا شروع ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آس پاس کے مندر برضا ورغبت اپنے دیواستھان مندر ٹرسٹ کو دان کر دیتے لیکن اچانک رام بھکتوں کی شردھا نہ جانے کہاں غائب ہو گئی اور وہ اسے بڑھا چڑھا کر اونچی قیمت پر فروخت کرنے لگے۔ عام ہندووں نے سوچا کہ جب ہمارے درھرماچاریہ اس بدعنوانی کی گنگا میں ڈبکی لگا رہے ہیں تو وہ خود اپنی زمین مندر کو وقف کرنے بجائے مہنگے داموں پر بیچنے لگے۔
سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کو خیال ہوا ہم کیوں پیچھے رہیں؟ انہوں نے بھی اپنا کمیشن رکھ کر زمین کے بھاو اور بڑھا دیے۔ ان سارے پاپیوں کے پاپ ڈھوتے رام کی گنگا کو بدعنوانی کے نالے نے میلا کر دیا۔
یہ کوئی خیالی الزام نہیں ہے بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ایودھیا میں جس زمین کو رام مندر کے لیے تحویل میں لیا جا رہا ہے اس کے ذمہ داروں کو منہ مانگی قیمت چکائی جا رہی ہے، نیز متبادل گھر یا مندر بنانے کے لیے جگہ بھی دی جا رہی ہے۔ رام مندر ٹرسٹ پر اسی وجہ سے دوہری مار پڑ رہی ہے۔ زمین دینے والے سنتوں مہنتوں نے قیمت کی وصولی تو تسلیم کی مگر اس میں پوری شفافیت کی بات کرتے ہیں۔ ظاہر ہے روپیہ لینے کے بعد حزب اقتدار پر الزام تراشی بے حد مشکل ہو جاتی ہے اور ایسی جرأت کا مظاہرہ کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ فقیرے رام مندر کے مہنت رگھویر شرن داس سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے اپنا مندر کیوں بیچ دیا تو وہ کہتے ہیں مندر فروخت نہیں بلکہ منتقل کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ فقیرے رام مندر جیسے کئی مندر دوسری جگہ منتقل ہوسکتے ہیں تو رام جنم بھومی مندر کیوں منتقل نہیں ہو سکتی؟ بابری مسجد کو رام کی جائے پیدائش ثابت کرنا ویسے بھی ناممکن ہے۔ اس لیے بابری مسجد سے ہٹ کر کہیں اور وہ مندر بن جاتا تو بکھیڑا کیوں کھڑا ہوتا؟ اس وقت تحریک چلانے کی غرض اقتدار کا حصول تھا اور اب مندر بنانے کی غایت اقتدارکو بچانا ہے۔کوشلیا بھون مندر کے مہنت یشودہ نندن نے کہا کہ ان کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کی گئی۔ اس کی ضرورت ہی کیا تھی؟ جب بیٹھے بٹھائے چار کروڈ روپے مل گئے تو کوئی مسئلہ ہی باقی نہیں رہا ہاں اگر وہ مندر دینے سے انکار کرتے تو زبردستی کی نوبت آتی۔ ایک مندر دشرتھ گدی نام سے ہے۔ اس کے مہنت برج موہن داس کی ۲۶ بسوا زمین کے عوض ۷ کروڑ ۳۵ لاکھ کی خطیر رقم دی گئی جبکہ اس زمین کی سرکاری قیمت صرف ایک کروڈ ۱۳ لاکھ بنتی ہے۔ برج موہن داس نے مندر سے متصل ۱۶ بسوا کھیت کے ۵ کروڑ روپے وصول کر لیے جبکہ اس کی قیمت ۷۰ لاکھ بنتی ہے۔ اسی شخص نے اس سے ملحق ۵ بسوا زمین ایک کروڑ ۷۵ لاکھ روپوں میں بیچ دی جبکہ اس کی قیمت تقریباً ۲۲ لاکھ ہونی چاہیے۔ اتنا کچھ مل جانے کے باوجود مہنت برج موہن کو انتظامیہ سے شکایت ہے کہ ان کی ۱۰ بسوا زمین کا معاوضہ ۲۰ لاکھ روپیہ دشرتھ محل کے مہنت دیویندر پرساد آچاریہ کو دے دیا گیا جو ان کی حق تلفی ہے۔ یہ تو ہے رام مندر سے متعلق عقیدت کا بے مثال مظاہرہ۔
برج موہن داس کے اس دعویٰ کو مہنت دیویندر پرساد آچاریہ مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ زمین ۱۸۶۵ء سے ان کے آبا واجداد کے نام درج ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دیویندر پرساد اچاریہ کو ۱۰ بسوا زمین کے لیے صرف ۲۰ لاکھ اور مہنت برج موہن کو ۵ بسوا کے لیے ایک کروڈ ۷۵ لاکھ؟ آخر یہ اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ مندروں کے معاملات تو خطہ اراضی کے حق ملکیت کے شواہد کی بنیاد پر سلجھائے جاتے ہیں مگر مسجد کی بات آتے ہی درمیان میں عقیدت چلی آتی ہے۔ رام مندر کی زمین کی بابت بدعنوانی کا بھانڈا سب سے پہلے سماجوادی پارٹی کے سابق رکن اسمبلی پون پانڈے اور عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے پھوڑا کہ دس منٹ میں ایک خطہ زمین دو کروڑ سے ساڑھے اٹھارہ کروڑ کی کیسے ہو گئی؟ ایک ہی دن میں دونوں اندراج ہوئے اور اس میں گواہ مشترک تھے۔ گواہوں میں سے ایک مندر کے ٹرسٹ انیل مشرا اور دوسرا بی جے پی کا میئر رشی کیش اپادھیائے تھا۔ اسی کے گھر پر سودا طے پایا۔ اس لین دین میں سلطان انصاری کے ساتھ روی موہن تیواری کو پارٹنر بنایا گیا وہ میئر کا رشتے دار ہے۔
اس قدر واضح ثبوت کے باوجود ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے دھمکی آمیز میں انداز میں سنجے سنگھ اور پون پانڈے کو ڈرانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں ڈرے۔ اسی کے ساتھ ہر روز نت نئے معاملات سامنے آنے لگے۔ رام مندر تعمیراتی ٹرسٹ کے صدر مہنت شری نریتیہ گوپال داس نے بھی ٹرسٹ کے داخلی اور ٹرسٹ کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے، رام للا مندر کے پچھلے پچیس سال سے پجاری ستیندر داس نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔ سنت گیان داس نے ۱۰۰ سادھو سنتوں کا اجتماع کر کے تحقیق وتفتیش کا مطالبہ کیا۔ یہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ تحقیق وتفتیش کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا جائے۔ الزامات اگر درست ہیں تو رام کے نام پر چندہ چوری کرنے والوں سزا دی جائے ورنہ الزام لگانے والے پر کارروائی کی جائے۔ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بیداری کے زعم میں گرفتار سَنگھ کو ہوش آیا اور اس نے جمعرات ۲۵؍ جون کو ممبئی میں ٹرسٹ کی ایک ایمرجنسی نشست طلب کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زمینی حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے دتاتریا ہوسابلے پہلے ایودھیا جاتے اور یہ میٹنگ وہیں ہوتی لیکن اس کا مقصد بدعنوانی کی روک تھام تو تھا نہیں اس لیے لکھنو یا دلی کے بجائے ممبئی کا انتخاب کیا گیا۔ اس میں سنگھ کی جانب سے سابق سکریٹری جنرل بھیا جوشی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ شریک ہوئے نیز ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری چمپت رائے، خازن مہاراج گووند دیوگری اور ٹرسٹ کے رکن انل مشرا نے شرکت کی۔ ان میں چمپت رائے تو سارے تنازع کے مرکز میں ہیں۔ سارے ارکانِ ٹرسٹ کو چھوڑ کر اسی انیل مشرا کو بلایا جاتا ہے جو لین دین میں گواہ کے طور پر موجود تھا اور خازن تو بہرحال ادائیگی کرواتا ہے اس لیے اسے بھی بلایا گیا۔
ان شرکاء سے یہ توقع تھی ہی نہیں کہ وہ سچائی بتائیں گے اور یہی ہوا۔ سارا فیصلہ صرف ایک فریق کی سن کر کر لیا گیا، اس نتیجہ وہی نکلے گا جو کہ نکلا۔ اس نشست میں یہ طے پایا کہ اگر زمین پر اٹھائے گئے اعتراضات غلط ہیں تو ہتک عزت کا دعویٰ کیا جائے۔ اس کے دو معنیٰ ہیں ایک یہ کہ وہ درست بھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں عدالت کا رخ نہ کیا جائے لیکن جو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کو کیا سزا دی جائے اور آئندہ اس قسم کی بدعنوانی کو روکنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اس بابت کوئی بات ذرائع ابلاغ میں نہیں آئی۔ عدالت میں جانے کے لیے اچھل کود کرنے والے ٹرسٹ کو معلوم ہونا چاہیے وہ اس کاروبار کو کس نظر دیکھتا ہے۔ ایودھیا میں شری رام ہوائی اڈے کی تعمیر کے لیے تحویل میں لی جانے والی زمین کے خلاف دھرم پور گاوں کے سیکڑوں کسانوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ شکایت کنندگان کی شکایت ہے کہ بغیر کسی نوٹیفکیشن کے زمین سے بے دخل کر کے ان کا حق مارا جا رہا ہے۔اس مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ہوائی اڈے کی تعمیر سے متاثر ہونے والوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے کیونکہ ان کی جائیداد جا رہی ہے اور ۲۰۱۳ کے ضابطوں کی بجا آوری بھی نہیں ہو رہی ہے۔ عدالت نے سخت ہدایت کی کہ جب تک شکایت کنندگان برضا ورغبت تیار نہیں ہوتے انہیں مجبور نہ کیا جائے۔ ٹرسٹ پر الزام ہے کہ زمین کی خریداری سرکل ریٹ سے ہٹ کر ہو رہی ہے۔ زمین کی خرید کا کوئی اصول وضابطہ وضع نہیں کیا گیا ہے، اس لیے انتظامیہ من مانے طریقے پر کسانوں کو کم نرخ پر زمین فروخت کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس طریقہ پر فوراً روک لگانے کا حکم دیا اور جواب طلب کیا ہے۔ اس معاملے میں ہائی کورٹ کے سوالات بہت واضح ہیں۔ اس نے پوچھا کہ آخری بار سرکل ریٹ میں ترمیم کب کی گئی؟ کس قانون وضابطے کے مطابق زمین لی جا رہی ہے؟ جواب دینے کی خاطر ہائی کورٹ نے ڈی ایم سمیت تین افسروں کو ۲۹؍ جون کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ جسٹس راجن رائے اور سوربھ لوانیا کی بنچ کے سامنے یہ شکایت ویسے تو اپریل میں آئی لیکن لگتا ہے کہ بدعنوانیوں کے سامنے آنے پر وہ سنجیدہ ہو گیا۔ ۱۱؍ جون کے بعد دوسری سماعت ۲۳ جون اور اگلی ۲۹؍ جون کو رکھ دی گئی۔ ایسے میں اگر ٹرسٹ عدلیہ کا رخ کرے گا تو وہ خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارلے گا لیکن ان احمقوں سے بعید نہیں کہ وہ اس طرح کی حماقت کر بیٹھیں۔ آر ایس ایس نے اس مذکورہ نشست کے بعد وزیر اعظم کے کان میں نہ جانے کیا پھونک دیا کہ مودی جی دو دن بعد رام مندر کا نقشہ کھول کر ایسے بیٹھ گئے جیسے وہی اس پروجیکٹ کے چیف انجینیر ہیں۔ مودی جی نے ایودھیا میں جاری ترقیاتی کاموں کا جائزہ تو لیا لیکن زمین کی خریداری کو لے کر ہونے والے مبینہ گھوٹالے پر لب کشائی نہیں کی حالانکہ ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ کا نعرہ لگانے والے چوکیدار کا اصل کام تو یہی تھا۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے پی ایم مودی سے کروڑوں روپے کے زمین گھوٹالہ معاملہ میں سخت رخ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا اور سادھو سَنتوں کے ایک طبقہ نے بھی وزیر اعظم سے قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی تھی۔ امید کی جا رہی تھی کہ ورچوئل میٹنگ میں اس تعلق سے گفت وشنید ہو گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میٹنگ میں صرف ایودھیا کے ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کے بارے میں بات ہوئی۔ وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ ایودھیا ثقافتی طور پر ہر ہندوستانی کے دل میں بسا ہے اور اس لیے اس کی ترقی کا کام صحت مند عوامی شراکت داری سے کیا جانا چاہیے تاکہ اس کی ثقافتی اہمیت کو بڑھایا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے اس شراکت داری کو فروغ دینے کا کام زمین مافیا کر رہا ہے جس کے سبب بہت جلد رام بھکتوں کو دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔
ایودھیا کو ایک روحانی، سیاحتی مرکز اور ایک اسمارٹ سٹی کے طور پر تعمیر کیا جا رہا ہے لیکن بدعنوانی کی شاخ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔ ایودھیا کی متوقع خوبیوں کو بیان کرنے کے بعد پی ایم مودی نے کہا کہ آئندہ نسلوں کو زندگی میں ایک بار ایودھیا آنے کا احساس اور خواہش ضرور ہونا چاہیے۔ ایک جائزے کے مطابق ۲۰۲۴ میں روزآنہ ایک لاکھ سیاح آئیں گے۔ وزیر اعظم اس طرح کے خواب بیچنے کے عادی ہیں۔ ایک زمانے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دنیا بھر سے لاکھوں لوگ سردار پٹیل کے بلند ترین مجسمہ کو دیکھنے کے لیے آئیں گے لیکن وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ کورونا کے بعد قوم اسپتال کی سہولتیں مانگ رہی ہے مودی جی ہیں کہ کبھی سنٹرل ویسٹا پروجیکٹ کو زندگی کی اہم ترین ضروریات میں شامل کر دیتے ہیں اور کبھی ایودھیا کو سیاحتی مرکز بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایودھیا میں مندر کے علاوہ عوام کی کئی مشکلات ہیں اور اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے مثلاً ایودھیا کے کھنڈاسا گاوں میں ایک ۱۵؍ سالہ دلت دوشیزہ اپنی ماں کے ساتھ کھیت میں کام کرنے جاتی تھی۔ ماں بیمار ہو گئی تو اکیلے جانے لگی۔ اس بیچ سرویش ساہو نے شادی کا جھانسہ دے کر اس سے جسمانی تعلقات قائم کر لیے اور جب وہ حاملہ ہو گئی تو وضع حمل کی دوا پلادی اس سے طبیعت بگڑ گئی۔ ڈیڑھ سال گزر جانے پر جب لڑکی کے گھر والے شادی کا دباو ڈالنے کے لیے سرویش کے گھر پہنچے تو اس کو اپنے اعلیٰ ذات کے ہونے کا خیال آ گیا حالانکہ اس لڑکی کا استحصال کرتے ہوئے وہ اس کو بھول گیا تھا۔ اس نے لڑکی کو گھر والوں کی ذات کے حوالے سے گالیاں دیں اور جان سے مارنے کی دھمکی دے کر بھگا دیا۔ پولیس طبی جانچ کو ٹالتی رہی تو لڑکی کے گھر والوں نے ایس ایس پی سے فریاد کی۔ اس پر تھانیدار نے کہا اسے علم نہیں تھا تحریری شکایت کے بعد کارروائی ہوگی۔ کیا وزیر اعظم کے من کی بات میں کبھی ایودھیا کی اس بیٹی کا خیال بھی آئے گا یا اولمپک ویکسین سے دل بہلاتے رہیں گے؟
ایودھیا کے وقار پور میں ۱۲؍ جون کو ایک نرس کی پون کمار چورسیا نے عصمت ریزی کی۔ ۱۷؍ کو شکایت درج ہوئی اور ۱۸؍ کو اسے پولیس اٹھا کر لے گئی اور پٹائی کرنے پر حالت خراب ہو گئی تو اسپتال میں کہا گیا کہ یہ انجان نوجوان سڑک کے کنارے پڑا تھا۔ چورسیا کے والدین کا الزام ہے وہ پانچ دن سے پولیس کی حراست میں تھا۔ طبیعت بحال ہونے کے بعد چورسیا کو گھر بھیج دیا گیا لیکن علاقائی افسر ستیندر ترپاٹھی نے نئی کہانی سنا دی۔ ان کے مطابق پون کمار کے خلاف 376, 504, 506, SC/ST 3(2) 5 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اس لیے وہ خود کوتوالی میں آیا تھا۔ اس پر گرمی لگنے اور کمزوری کے سبب غشی طاری ہو گئی تو گھر والوں کے کہنے پر علاج کرانے کے لیے اسپتال بھیج دیا گیا اور اب بھی مقدمہ کی کارروائی جاری ہے۔ یعنی پون کمار کی بابت سرکاری افسروں میں بہت بڑا اختلاف ہے اور والدین تیسری کہانی سناتے ہیں۔ جس صوبے میں نظم ونسق کی یہ حالت ہو کیا وہاں رام مندر بن جانے سے رام راج آجائے گا؟ کیا یہ مظلوم مندر کو دیکھ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو بھلا دیں گے؟ مودی اور یوگی اگر ایسا سوچتے ہیں تو ممکن ہے بہت جلد ان کی یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی۔ان دونوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ(ترمیم کے لیےمعذرت کے ساتھ)؎
اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں ووٹ کی راحت کے سوا
***

وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایودھیا میں مندر کے علاوہ عوام کی کئی مشکلات ہیں اور اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے مثلاً ایودھیا کے کھنڈاسا گاوں میں ایک ۱۵؍ سالہ دلت دوشیزہ اپنی ماں کے ساتھ کھیت میں کام کرنے جاتی تھی۔ ماں بیمار ہو گئی تو اکیلے جانے لگی۔ اس بیچ سرویش ساہو نے شادی کا جھانسہ دے کر اس سے جسمانی تعلقات قائم کر لیے اور جب وہ حاملہ ہو گئی تو وضع حمل کی دوا پلادی اس سے طبیعت بگڑ گئی۔ ڈیڑھ سال گزر جانے پر جب لڑکی کے گھر والے شادی کا دباو ڈالنے کے لیے سرویش کے گھر پہنچے تو اس کو اپنے اعلیٰ ذات کے ہونے کا خیال آ گیا حالانکہ اس لڑکی کا استحصال کرتے ہوئے وہ اس کو بھول گیا تھا۔ اس نے لڑکی کو گھر والوں کی ذات کے حوالے سے گالیاں دیں اور جان سے مارنے کی دھمکی دے کر بھگا دیا۔ پولیس طبی جانچ کو ٹالتی رہی تو لڑکی کے گھر والوں نے ایس ایس پی سے فریاد کی۔ اس پر تھانیدار نے کہا اسے علم نہیں تھا تحریری شکایت کے بعد کارروائی ہوگی۔ کیا وزیر اعظم کے من کی بات میں کبھی ایودھیا کی اس بیٹی کا خیال بھی آئے گا یا اولمپک ویکسین سے دل بہلاتے رہیں گے؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021