’’بہروں کاعلاقہ ہے ذرازورسےبولو ‘‘

کسان تحریک اور مستقبل کا لائحہ عمل

مسیح الزماں انصاری /حسن آزاد

 

احتجاج کے 7مہینے مکمل ، مگر حکومت کی بے رخی کے باوجود کسان پرعزم
سوشل میڈیا پرکسانوں کی حمایت اور مخالفت میں چلےٹرینڈس
کسانوں کی تحریک کو شروع ہوئے سات ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ سات ماہ قبل ملک بھر سے کسان نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج میں دلی کی سرحد پر پہنچے جنہیں پولیس نے طاقت کے بل پر روک دیا۔ دلی میں داخل ہونے والے کسان جس جگہ پہنچ گئے تھے اسی سرحد پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور اب تک وہیں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان سات ماہ میں حکومت پر جمہوری تحریک کو دبانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
کسانوں کے ساتھ بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن کوئی بھی ملاقات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ کسان تنظیموں کا الزام ہے کہ حکومت میڈیا میں ہی بات کرنا چاہتی ہے لیکن جب بات کرنے کے لیے میٹنگیں ہوتی ہیں تو اس میں کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آتا ہے۔ کسانوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حکومت کا ارادہ کبھی بھی مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنا نہیں رہا بلکہ ہمیشہ اپنی بات منوانا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کاشتکاروں کی تنظیموں اور کسان رہنماؤں کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت نے کسانوں کی تنظیموں میں اختلاف پیدا کر کے زرعی قوانین کے خلاف کھڑی کی گئی اس تحریک کو ختم کرنے کی سازش کی ہے۔
پچھلے سات مہینوں سے احتجاج کرنے والے کسان، موسم کی مار جھیلنے، حکومتی مظالم اورسازشوں کا سامنا کرنے اور 500 کسانوں کی شہادت کے بعد بھی احتجاج کے مقام پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ قانون کو کالعدم قرار دینے سے پہلے اپنا احتجاج ختم کر کے واپس لوٹتے ہیں تو گویا ان کے ہاتھوں سے سب کچھ ضائع ہو جائے گا اور انہیں اپنی زمین سرمایہ داروں اور ساہوکاروں کے پاس گروی رکھنی پڑے گی۔
کورونا کی دوسری لہر کے بعد کسانوں نے دوبارہ سرگرم
کورونا کی دوسری لہر میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اب کسانوں کی تحریک ختم ہو گئی ہے۔ میڈیا کا ایک طبقہ یہ پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ کسان تحریک ختم ہونے کے قریب ہے۔ بار بار احتجاج کے مقام کی تصاویر دکھا کر کسانوں کی تحریک کے ختم ہونے کے سرکاری ثبوت پیش کیے جا رہے تھے۔ حالانکہ 26 مئی کو کسانوں کے احتجاج کے 6 ماہ مکمل ہونے پر کسانوں نے ملک گیر بندکی کال دی تھی، جس کا اثر ملک بھر میں دیکھا گیا۔ کسان تنظیموں نے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حکومت کو کسانوں کی تحریک کا اثر دکھانا مقصود تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے سماجی فاصلہ رکھنے کے پیش نظر لوگوں کو بھیڑ سے بچانے کی کوشش کو گودی میڈیا کے ذریعے کسانوں کی تحریک کے خاتمے کے طور پر مشہور کیا جا رہا تھا۔
تحریک کے 7ماہ مکمل ، ملک گیر مظاہرے
26 جون کو کسانوں کی تحریک کے 7 ماہ مکمل ہونے پر ملک بھر کے کسانوں نے ٹریکٹر ریلیاں نکالیں اور حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر کسان نیتا اور بھارتیہ کسان یونین کے نمایاں چہرے کے طور پر سامنے آنے والے راکیش ٹکیت نے کہا کہ حکومت کو کم سنائی دیتا ہے اس لیے ٹریکٹروں کی آواز سنائی جاتی ہے تاکہ اس کے کان میں آواز جائے اور وہ کسانوں کے مطالبات سن سکے۔
راکیش ٹکیت نے کہا ہے کہ جلد ہی کسان تحریک کو تیز کرنے کے لیے تفصیلی منصوبہ بندی کی جائے گی اور اگر ضرورت پڑی تو دلی میں داخل ہونے پر بھی غور کیا جائے گا۔
کسانوں کے پاس احتجاج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے
پچھلے سات ماہ سے دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دینے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ احتجاج اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ حکومت کے پاس یہ قوانین واپس لینے کا اختیار ہے لہٰذا حکومت کو اپنی ضد اور تکبر کو چھوڑ کر اس قانون کو واپس لینا چاہیے۔
کسان ایکتا مورچہ کے ترجمان جگتار سنگھ باجوہ نے ہمیں بتایا کہ "یہ تحریک ملک کی سب سے بڑی اور طویل ترین تحریک ہے، اس تحریک میں 500 کسانوں کی شہادت شامل ہے، ان کے لہو نے اس تحریک کو پروان چڑھایا ہے، اس لیے ہم اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹیں گے جب تک سرکار زرعی قوانین واپس نہ لے لے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا کسان، ملک کا فخر ہے اور اس وقار کو حکومت کی منشا پر قربان نہیں ہونے دیں گے۔
اسی طرح آل انڈیا کسان سبھا کے سربراہ حنان ملا نے کہا "کسان کے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، دلی کی سرحدوں پر 7 ماہ سے مظاہرے جاری ہیں لیکن قانون بننے سے پہلے اس بل پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ ملک کے مختلف مقامات پر مظاہرے تقریباً ایک سال سے جاری ہیں۔ کسان دلی کی سرحدوں پر اس فیصلے کے بعد آئے تھے کہ وہ قانون کی واپسی سے قبل اپنے گھروں کو نہیں لوٹیں گے اور آج وہ 500 کسانوں کی شہادت کے بعد بھی دہلی کی سرحدوں پر سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حنان ملا نے کہا ہے کہ "مرکزی حکومت عوامی حکومت نہیں ہے اس لیے وہ کسانوں کی بات نہیں سن رہی ہے۔ یہ حکومت سرمایہ دارانہ حکومت ہے اس لیے سرمایہ داروں کے کہنے پر چل رہی ہے۔ اگر بی جے پی جمہوری حکومت ہوتی تو مرکز میں بیٹھ کر وہ احتجاج کر رہے کسانوں کی بات سنتی نہ کہ سرمایہ داروں کی بات سن کرفیصلہ کرتی۔
تحریک جاری رہے گی
کسانوں کی تحریک کے سات ماہ مکمل ہونے پر اس تحریک کے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ کچھ اس کے مستقبل کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہیں تو کچھ لوگوں کو اس تحریک کے ذریعہ برسر اقتدار حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی امید ہے۔ ایسی صورتحال میں کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ ہار ماننے والے نہیں ہیں۔ اس سوال پر کہ سات ماہ مکمل ہونے کے بعد آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہوا؟ کسانوں نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ صبر کرنے والے کسان ہی ہوتے ہیں اسی لیے ہم صبر کے ساتھ مظاہرہ کر رہے ہیں اور آئندہ بھی اپنے مطالبات کو لیکر مظاہرہ کرتے رہیں گے۔
تحریک کمزور نہیں ہوئی
غازی پور بارڈر پر قیادت کرنےوالے کسان یکتا مورچہ کے ترجمان جگتار سنگھ باجوہ نے کہا کہ "بار بار کہا جا رہا ہے کہ یہ تحریک طویل ہو چکی ہے کمزور ہوئی ہے یا ختم ہو رہی ہے۔ یہ سب سرکاری پروپیگنڈا ہے۔ اس طرح کی کوئی بھی تحریک ہو، لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی کے کام کرتے ہوئے تحریک میں شامل ہوتے ہیں۔ جیسے ہی جیسے لوگوں کو وقت ملتا ہے وہ اس تحریک کا حصہ بنتے ہیں۔ کبھی خواتین مظاہرے میں حصہ لیتی ہیں تو کبھی لڑکیاں تو کبھی طالب علم اور نوجوان، ہر کوئی اپنی بساط بھر حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے مظاہرے میں اپنے وقت اور سہولت کے حساب سے شریک ہو جاتا ہے۔ باجوہ نے کہا کہ ’’جب بھی حکومت کو ہماری تحریک کی طاقت کا اندازہ لگانا ہو وہ ہمیں آگاہ کریں ہم دلی اور ملک بھر میں کسانوں کو ایک کال پر جمع کریں گے اور بتا دیں گے کہ آیا یہ تحریک کمزور پڑ گئی ہے یا روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت چاہتی ہے کہ وہ ان تمام باتوں کے ذریعہ تحریک کا خاتمہ کرے گی لیکن حکومت کی یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ ہر روز اس تحریک کو تقویت مل رہی ہے اور ہر روز اس احتجاج کو درجنوں تنظیموں، سماجی کارکنوں اور دانشوروں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔‘‘
آل انڈیا کسان سبھا کے حنان ملا نے کہا کہ "کسی بھی تحریک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس میں صرف چند افراد سرگرمی سے شریک ہوتے ہیں لیکن اس کا اثر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ حکومتیں اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتیں، چنانچہ کسان تحریک کی وسعت نے بھی ملک بھر کے لوگوں میں سرکار کے تئیں عدم اعتماد کو بے نقاب کر دیا ہے۔
بھارتیہ کسان یونین (ایکتا ، اُگرہا) پنجاب کے کسانوں کا گروپ پچھلے 7 ماہ سے دلی کے ٹکری بارڈر پر ڈیرے ڈالا ہوا ہے۔ پنجاب سے کسانوں کی تنظیموں کا سب سے بڑا جتھہ’ بھاکیو ایکتا اُگرہا ‘ کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے ترجمان جھنڈا سنگھ نے ہم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت ہمیں غلام بنانے کی کوشش کر رہی ہے اس لیے وہ ہمارے مطالبات کو نظر انداز کر رہی ہے، لیکن ہم اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے چنانچہ کسانوں کی تحریک جاری رہے گی اور مزید مستحکم ہو گی، اس کو عملی شکل دینے کے لیے مزید منصوبے بنائے جائیں گے۔”
لاکھوں افراد کی روزانہ مل رہی ہے تائید
اس سوال پر کہ آیا یہ تحریک ختم ہونے والی ہے؟ کسان رہنما حنان ملا کا کہنا ہے کہ ’’ملک کی مختلف ریاستوں میں ہر روز لاکھوں افراد، مختلف تنظیمیں اور شہری گروپس کسانوں کی تحریک کو اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ کیا اس صورتحال میں کوئی تحریک ختم ہو سکتی ہے؟ کسانوں کی یہ تحریک اب ایک عوامی تحریک بن چکی ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اساتذہ، دانشور، سماجی کارکن، خواتین، طلبہ اور نوجوان ہمارے ساتھ دلی اور دیگر ریاستوں میں آرہے ہیں۔ جب لوگ کسی تحریک میں شامل ہوتے ہیں تو یہ ایک عوامی تحریک بن جاتی ہے اور کون اس طرح کی تحریک کو کمزور کر سکتا ہے؟‘‘
بنگال میں بی جے پی کو صرف کسانوں کی تحریک کی وجہ سے ہوئی شکست
دہلی کی سرحد پر احتجاج کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت کسانوں کی تحریک کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگا سکتی ہے کہ کسانوں کے احتجاج کے بعد ہی بنگال اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کسان بنگال گئے تھے اور متعدد میٹنگیں کیں جن میں بی جے پی کو شکست دینے کی اپیل کی۔ اس کا اثر واضح طور پر دیکھا گیا کہ ہندو اکثریتی نشستوں پر بھی 90 فیصد ہندو ووٹرز نے بی جے پی کو مسترد کر دیا۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر زرعی قانون واپس نہیں لیے گئے تو بنگال کی طرح دوسری ریاستوں میں بھی ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ہم بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی اپیل کریں گے۔ اگلے سال 5 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں سب کی نگاہ اتر پردیش پر ہے۔
اس سوال پر کہ اگر آپ بی جے پی کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر آپ کس کی حمایت کریں گے؟ حنان ملا کا کہنا ہے کہ ’’ہم بی جے پی کی مخالفت کریں گے اور بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی اپیل کریں گے۔ مختلف ریاستوں کے شہری فیصلہ کریں گے کہ کس کی حمایت کرنا ہے۔
اس سوال پر کہ آیا کسان بی جے پی کے خلاف ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ حنان ملا کا کہنا ہے کہ ’’کسان زمین سے اناج ہی نہیں اگاتا بلکہ وہ اس ملک کا ووٹر بھی ہے اور ہمارے ووٹوں سے ہی حکومتیں تشکیل پاتی ہیں۔‘‘
جگتار سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ ’’حکومت موجودہ دور کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے جس کا فائدہ اپنے مالکان اڈانی اور امبانی کو فائدہ پہنچانا مقصود ہوتا ہے، اسے عام آدمی سے کوئی غرض نہیں ہے اور عوام کو بھی یہی بات بتانے کی ضرورت ہے۔‘‘
جمہوری مظاہرے کو دبانے کی ناکام کوشش
کسانوں کی تحریک کے بعد سے ہی ملک اور پوری دنیا میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کے قدم اکھڑ گئے ہیں حالانکہ حکومت نے کسانوں کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔
حکومت نے جتنی زیادہ کسانوں کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی یہ اتنی ہی مضبوط ہوتی گئی۔ اب اس تحریک کو ملک کی سب سے بڑی تحریک ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے۔
اگرچہ بی جے پی کے دور حکومت میں ملک میں بہت سی تحریکیں چلیں، ہر تحریک کو بدنام کرنے اور اس کے خاتمے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے لیکن کسانوں کی تحریک کو کچلنے کے لیے حکومت کی ہر قسم کی سازشوں کے باوجود یہ تحریک کمزور نہیں ہو سکی۔
کسان تحریک نے جمہوری حقوق پر پہرہ بٹھانے کی کوششوں کے خلاف محاذ کھڑا کر کے جمہوریت کو ایک نئی سمت دی ہے۔
کسانوں کی تحریک کے اثرات کو دیکھ کر اب ہر پارٹی کسانوں کے حق میں بات کر رہی ہے۔ جو سیاسی پارٹیاں خوشامدی کے کھیل میں شامل تھیں وہ بھی اب کسانوں کے معاملے پر توجہ دے رہی ہیں اور یہ کسانوں کی تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
حالانکہ کسانوں کے احتجاج کو کبھی خالصتانی تو کبھی چینی اور پاکستانی قرار دیا گیا اور تو اور اسے ہندو مسلم اینگل بھی دینے کی کوشش کی گئی وہیں مبینہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے داخلے کی بھی بات کی گئی۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے کسانوں کو گمراہ بھی کہا گیا۔ تاہم سوشل میڈیا پر کسانوں کی آواز میں آواز ملانے والے ٹرینڈس میں بھی کمی نہیں آئی۔ صارفین نے کسانوں کی آواز میں آوز ملاتے ہوئے ان کے حق میں احتجاج درج کروایا۔ یہ الگ بات ہے کہ بھگوا ٹولے نے بھی کسانوں کو بدنام کرنے میں خوب محنت کی۔ اگر حمایت کی بات کریں تو 26جون 2021کو کئی ٹرینڈس منظر عام پر آئے جیسے:
RakeshTikait#
SaveFarming_SaveDemocracy#
FarmersProstest#
बिगड़ेहालअघोषित_आपातकाल#
kisanandolan#
ٹرینڈس قابل ذکر ہیں۔ ان ٹرینڈس کے تحت تجمل رسول نامی صارف لکھتے ہیں کہ ’’حکومت ہند! یہ ممکن نہیں ہے کہ کسان کو توڑا جا سکے کیونکہ اس کی ساری زندگی امید اور صبر پر منحصر ہوتی ہے، وہ امید کے ساتھ بیج بوتا ہے اور پورے صبر کے ساتھ نتائج کا انتظار کرتا ہے‘‘۔ ٹرائبل آرمی کے نام سے بنے ٹویٹر اکاؤنٹ میں لکھا گیا کہ ’’سبھی دیکھ رہے ہیں کہ 7ماہ سے ہندوستانی کسان احتجاج کر رہے ہیں لیکن مودی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جمہوری حکومت کہاں ہے جو انہیں سننے کے لیے عوام نے بنائی تھی؟‘‘ وہیں اگر مخالفت کی بات کی جائے تو آر ایس ایس نواز صارفین نے धरनानहीघटना_स्थ #جیسے ٹرینڈ چلا کر کسانوں کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی۔ خاص طور کسان لیڈر راکیش ٹکیٹ کے حوالے سے فرضی خبریں چلائی گئیں۔ آج تک کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے شنکر سنگھ نامی صارف نے لکھا کہ ’’کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا ہے کہ 370 کے منسوخ کیے جانے کے بعد سے کسان پریشان ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے‘‘ وہیں وویک رائے لکھتے ہیں کہ راکیش ٹکیت کے بیان کی جانچ ہونی چاہیے۔ جبکہ راکیش ٹکیت نے اصل میں کہا تھا کہ ’’ہمارا خیال تھا کہ 370 ایک بڑا مسئلہ ہے جو حل ہو گیا۔ 370کو ختم کرنا اچھا تھا لیکن وہاں کے کاشتکاروں اور عام لوگوں کو تکلیف پہنچی ہے۔ ہم وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہیں‘‘۔ دیکھا جائے تو یہی نہیں شروع سے ہی کسانوں کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا اسی سال 2 فروری 2021کو امریکہ کی نامور گلوکارہ ریانا (Rihanna) نے کسانوں کی حمایت میں محض ایک ٹویٹ کیا تھا۔ انہوں نے کسانوں کے متعلق سی این این کی ایک خبر کو شیئر کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ ’’ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں؟‘‘ اس کے ساتھ ہی ریانا نے کسانوں کے کا ہیش ٹیگ ’FarmersProtest#‘
بھی استعمال کیا جس کے بعد ٹویٹر پر
FarmersProtest#
Rihanna#
WorldSupportsIndianFarmers#
IndianFarmersHumanRights#
جیسے ٹرینڈس تیزی کے ساتھ عام ہونے لگے۔ لیکن اس بار ’ٹویٹر وار‘ میں صرف بھگوا ٹولہ اور بی جے پی کی آئی ٹی سیل ہی نہیں بلکہ مرکزی حکومت کے سرکردہ لیڈر، خود وزرات خارجہ سمیت نامی گرامی ہستیوں نے بھی خوب حصہ لیا اور ریانا کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا۔ وہیں صرف کنگنا رناوت (جنکا ٹویٹر اکاؤنٹ بند ہو چکا ہے) ہی نہیں بلکہ کرکٹ اور فلمی دنیا سے وابستہ ایسے لوگ بھی حکومت کی حمایت میں اتر آئے جو اکثر ملک کے حالات پر کبھی ایک ٹویٹ بھی کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔
وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گیے ٹویٹر پر
IndiaTogether #
IndiaAgainstPropaganda#
جیسے ٹرینڈ کی حمایت میں سچن ٹندولکر، روہت شرما، کرن جوہر، اکشے کمار، انوپم کھیر، اجے دیوگن، سنیل شیٹی، کیلاش کھیر اور ایکتا کپور جیسے ملک کی نامور شخصیتوں نے اپنا نام درج کروایا۔ حکومت کی حمایت میں کئی شخصیتوں کے ٹویٹ بالکل یکساں تھے یہاں تک کے کسی لفظ میں بھی تبدیلی نہیں دیکھی گئی تھی۔ خاص طور پر اکشے کمار اور سائنا نہوال کے ٹویٹس سوشل میڈیا پر موضوع بحث رہے تھے۔ واضح ہو کہ معروف سماجی رہنما گریٹا تھنبرگ، سابق اداکارہ واسپورٹس اینکر میا خلیفہ، امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مینا ہیرس سمیت دیگر شخصیات کے ٹویٹس کسانوں کے حق میں آتے ہی انہیں کیا کیا نہیں کہا گیا تھا؟
اسی سال 26جنوری کو تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ 1952کو جو ٹریکٹر پریڈ نکالا گیا تھا وہ امن کا آئینہ دار تھا مگر اس بار ٹریکٹر پریڈ کو بدامنی کا نشان بنا دیا گیا۔ دلی پولیس کسانوں کو تشدد کا ملزم بتانے لگی جبکہ کسان دلی پولیس پر ہی سارا الزام عائد کرنے لگے۔ بہرحال یوم جمہوریہ کے موقع پر
TractorParadeOn26Jan#
HistoricTractorMarch#
TractorMarchDelhi #
TractorsVsTraitors#
FarmersProstests#
KisanTractorRally#
26JanDelhiChalo#
جیسے ٹرینڈ تیزی سے عام ہوئے۔ اس مرتبہ 72ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر سوشل میڈیا میں شہید جوانوں کی قربانی، جنگ آزادی میں لڑنے والے جانبازوں کی بہادری اور دستور ہند کے مسودہ کو ترتیب دینے والوں کی جانفشانی کو یاد کرنے کے بجائے زرعی قوانین کے خلاف دلی میں برپا ہوئے تشدد، لال قلعہ کی فصیلوں پر قومی ترنگے کے مد مقابل سکھوں کے جھنڈوں (نشان صاحب) کا لہرایا جانا اور مختلف مقامات پر پولیس کی لاٹھی چارج اور کسانوں کا پولیس پر حملہ آور ہونا اور اس بیچ ایک کسان کی موت اور سیکڑوں پولیس اہلکاروں کا زخمی ہونا موضوع بحث بنا رہا۔ غرض یہ کہ ایک طرف کسان سو دن پورے ہونے پر یوم سیاہ منا رہے تھے اور سات مہینوں کی تکمیل پر ’کرشی بچاؤ لوک تنتر بچاؤ ‘مہم چلا رہے تھے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر صارفین ان کے حق میں آواز بلند کر رہے تھے اور مختلف ٹرینڈس عام کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ مرکز اور کسانوں کے درمیان کئی مرتبہ بات چیت بھی ہوئی جو بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ مرکزی وزیر زارعت نریندر سنگھ تومر کہتے ہیں کہ وہ کسانوں سے بات کرنے کے لیے رات کے کسی بھی پہر تیار ہیں۔ وہیں دوسری طرف اعلان بھی کر دیتے ہیں کہ متازعہ زرعی قوانین واپس نہیں لیے جائیں گے۔ کسانوں کا ماننا ہے کہ حکومت ان کی آواز پر توجہ نہیں دے رہی ہے اس لیے انہوں نے متنازعہ قوانین کی واپسی تک احتجاج ختم نہ کرنے کا تہیہ کیا ہے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے وارننگ دی ہے کہ متنازع زرعی قوانین واپس نہیں ہوئے تو سن 2024تک کسان تحریک کو جاری رکھیں گے اور اترپردیش سمیت دلی میں بھی بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہیں گے۔
***

حکومت کسانوں کی تحریک کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگا سکتی ہے کہ کسانوں کے احتجاج کے بعد ہی بنگال اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کسان بنگال گئے تھے اور متعدد میٹنگیں کیں جن میں بی جے پی کو شکست دینے کی اپیل کی۔ اس کا اثر واضح طور پر دیکھا گیا کہ ہندو اکثریتی نشستوں پر بھی 90 فیصد ہندو ووٹرز نے بی جے پی کو مسترد کر دیا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021