کورونا ویکسین تیار کرنے والےترک نژاد جوڑے کی کہانی

مسلم سائنسدان جنہوں نے اپنی پوری زندگی تحقیق کے لیے وقف کردی

 

(دعوت نیوزڈیسک )
کوویڈ۔19 کے وبائی مرض کو شکست دینے کے لیے ویکسین کی دریافت کے پیچھے دو معروف سائنس دان، شوہر اور بیوی کی ٹیم ہے جن کے ذریعہ قائم کردہ جرمن کمپنی بائیو این ٹیک نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ مل کر ایک ایسی ویکسین تیار کی ہے جو 90 فیصد سے زیادہ موثر پائی گئی ہے۔
سات سے آٹھ ماہ کی اس تحقیق کے سفر میں بائیو این ٹیک ابھی تک کامیاب رہی ہے اور اس کی بنائی ویکسین کے نتائج نوے فیصد حوصلہ افزا ہیں جن کی بنیاد پر اب اس ویکسین کی بڑے پیمانے پر پروڈکشن شروع کی جائے گی۔ جرمنی کی کمپنی بائیو این ٹیک اور امریکی کمپنی فائزر کے اشتراک سے تیار ہونے والی کووِڈ-19 کی ویکیسن کے پیچھے ایک ترک نژاد جوڑے کی کہانی ہے جس نے اپنی پوری زندگی کینسر کے خلاف امیون سسٹم (دفاعی نظام) کو بہتر بنانے کے لیے وقف کر دی۔
اب تک دنیا بھر میں بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کرنے والے کورونا وائرس کے ویکسن کی تیاری میں کامیاب پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے فائیزر نے کہا کہ تجرباتی سطح پر کووِڈ-19 کے لیے تیار ہونے والی ویکسین کے ابتدائی سطح پر کیے گئے تجربے، تجزیے اور مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے 90 فیصد نتائج بہتر آئے ہیں۔ اس کمپنی کو امید ہے کہ جلد ہی امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگز ایجنسی ہنگامی بنیادوں پر اس ویکسین کے استعمال کی اجازت دے دے گی۔
ویکسن تیار کرنے والے اس ترک نژاد جوڑے کا تعلق ایک کم آمدنی والے طبقے سے تھا۔ بائیو این ٹیک کے 55 برس کے سربراہ ڈاکٹر اوگر ساہین جرمنی کے شہر کولون میں فورڈ کمپنی میں ایک ترک تارکِ وطن کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ اپنی لیبارٹری کے قریب ایک معمولی اپارٹمنٹ میں اپنی نوجوان بیٹی کے ساتھ مقیم تھے اور اپنے آفس آنے جانے کے لیے سائیکل کا استعمال کرتے تھے، لیکن اب ڈاکٹر ساہین کا اپنی 53 سالہ بیوی ڈاکٹر اوزلم تورجی کے ہمراہ جرمنی کے سو ارب پتیوں میں شمار ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر اوگر ساہین شام کے شہر حلب کی سرحد کے قریب ترکی کے شمال جنوبی شہر اسکندرون میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن میں وہ اپنے والد کے ساتھ جرمنی منتقل ہوئے تھے۔ اس وقت امریکی حصص کمپنی ” نسدق“ کے مطابق ڈاکٹر ساہین اور ڈاکٹر تورجی کی کمپنی کی قیمت 21 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ جمعہ تک اس کی قیمت 4.6 ارب ڈالر تھی۔
ڈاکٹر اوگر ساہین ان افراد میں سے ہیں جنہیں بچپن سے ہی میڈیسن پڑھنے کا شوق تھا اور وہ کوئی بڑا کام کرنا چاہتے تھے۔ اپنے اس خواب کی تکمیل کے لیے انہوں نے تعلیم کے بعد کولون اور ہومبُرگ کے مختلف تدریسی ہستالوں میں کام کیا۔ ہومبُرگ میں اپنے کیریئر کے آغاز میں ان کی ملاقات ڈاکٹر تورجی سے ہوئی۔ میڈیکل ریسرچ اور علمِ سرطان (اونکولوجی) میں دونوں کی گہری دلچسپی تھی۔ڈاکٹر تورجی خود ایک ترک نژاد ڈاکٹر کی بیٹی ہیں جو خود ترکی سے ایک تارک وطن کی حیثیت سے جرمنی آئے تھے۔ ان دونوں کو اپنے کام سے اتنا زیادہ لگاؤ تھا کہ جس روز ان کی شادی تھی وہ اس روز بھی اپنی لیبارٹری میں کام کر رہے تھے اور وہیں سے گھر پہنچ کر تیار ہوئے اور شادی کی رسومات ادا کی گئیں۔ان دونوں نے اپنی تحقیق کے دوران جسم کے دفاعی مزاحمت کے ایسے نظام (امیون سسٹم) کا سراغ لگایا جو کینسر کے خلاف لڑائی میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور ہر ایک ٹیومر کی منفرد خصوصیات کے مطابق اس کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت پر تحقیق کی۔ ان کے بزنس کا آغاز اس وقت ہوا جب انہوں نے2001 میں گینیمڈ فارماسیوٹیکلز کا آغاز کیا اور کینسر سے لڑنے والے اینٹی باڈیز تیار کیے۔ لیکن ڈاکٹر ساہین اس وقت یونیورسٹی آف مینز میں پروفیسر تھے، انہوں نے اپنی تحقیق اور تدریس کا کام کبھی بھی نہیں روکا۔ ان کے کام کو اس وقت بہت اہمیت حاصل ہوئی جب انہوں نےاپنے دو وینچرز کے لیے کیپیٹل سرمایہ کار کمپنیوں سے سرمایہ کاری حاصل کر لی۔ ایک تو اے آئی جی-اے جی تھی جبکہ دوسری ٹامس اینڈ اینڈریاز سٹرونگمین تھی۔ اس کے بعد یہ وینچر کمپنی جاپان کی ایسٹالا کمپنی کو 2016 میں تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز میں فروخت کردی گئی۔ اس دوران گینیمڈ کمپنی جو اس سرمایہ کاری میں شامل تھی، وہ بائیو این ٹیک کے بنانے میں ان کا ساتھ شامل ہو گئی، جس نے سنہ 2008 میں کینسر کی امینولوجی کا نظام (امیونوتھرپی) تیار کرنے کا ایک بڑا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ اس کی تحقیقات میں ایک ایسا مواد بھی (ایم آر این اے) تیار کرنا شامل تھا جو خلیوں کو جینیاتی پیغام دے سکے۔
ایم آئی جی کمپنی کے لیے ڈاکٹر ساہین اور ڈاکٹر توراجی پر مشتمل ایک ایسی ٹیم تھی جو ان کے ایک بڑے خواب کی تعبیر دینے والی تھی۔ انہوں نے ان پر بھرپور سرمایہ کاری کی اور انہیں اس بات
کی مکمل آزادی دیکہ وہ اپنی مرضی سے حقائق کے مطابق اپنی ریسرچ جاری رکھیں۔ بائیو این ٹیک کی ترقی کی کہانی میں اس وقت ایک منفرد تبدیلی آئی جب ڈاکٹر ساہین کی نظر سے چین کے ووہان شہر میں کورونا وائرس پر ایک ریسرچ مقالہ گزرا۔ اس وقت ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کینسر کے خلاف تیار کی جانی والی ’ایم آر این اے‘ دوا اور وبا پھیلانے والے اس وائرس ‘ایم آر این اے’ کی ویکسین کے درمیان کتنا کم فرق ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020