آدی واسیوں کی سماجی و تعلیمی ترقی کی منفرد تحریک

مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیا ں دور کرنے اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے مسلم تنظیم کی کوشش

وسیم احمد، دلی

 

بحیثیت باشندگان ملک، ہم سب ہندوستانی ہیں۔ہندوستانیت کے اس رشتے میں بندھے ہر شہری پر کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں۔حقوق متنوع ہیں۔ ان تمام کا ذکر تو یہاں ذرا مشکل ہے ۔البتہ انہی حقوق میں سے میں ایک ہے سماجی معاونت اور دوسرا ہے تعلیمی بیداری لانے کی کوشش۔ہم میں سے جو طبقہ بھی سماجی اعتبار سے پچھڑا ہوا ہے ، اس کوتعاون دینا ہماری قومی ذمہ داری ہے اور جو طبقہ تعلیمی اعتبار سے پسماندگی کا شکار ہے، اس کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنا بحیثیت ہندوستانی ہم سب کا فریضہ ہے۔ یہ دونوں چیزیں کسی بھی قوم کو باعزت زندگی دینے میں معاون ہوتی ہیں ۔ کیونکہ قوم کا عروج و زوال ، ترقی اور ارتقا اس کی تعلیمی و سماجی بلندی و پستی میں پنہاں ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم کا علم و ادب اوران کی سماجی سرگرمیاں عروج پر رہیں ،ان کی شہرت کے ڈنکے بجتے رہے اور جب ان کے اندر تعلیمی شعور کا فقدان ہوگیا اور سماجی پسماندگی نے ان میں اپنی جگہ بنا لی تو وہ قوم محکوم ہوگئی ۔ ہندوستان کے تناظر میں دیکھیں تو آج مسلمان سماجی اعتبار سے تو بہتر ہیں مگر تعلیم میں پچھڑے ہوئے ہیں جیسا کہ سچر کمیٹی، رنگناتھ مشرا کمیٹی اور محمود الرحمن کمیٹی وغیرہ کی رپورٹ میں اس بدحالی کی حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے۔ البتہ ملک کے اندر ایک اور بھی طبقہ ہے جوتعلیمی اعتبار سے تو پچھڑا ہوا ہے ہی، سماجی اعتبار سے بھی پسماندگی کا شکار ہے ، وہ ہے آدیواسی ۔ ظاہر ہے وہ بھی اسی ملک کے باشندے ہیں اورقومی وسائل پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے شہری کا۔ مگر سماجی پسماندگی نے ان سے حق مانگنے کا حوصلہ چھین لیا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کی کچھ تنظیمیں ان کے لیے کوششیں کررہی ہیں اور انہیں تعلیمی و سماجی اعتبار سے اوپر لانے کی مسلسل جدو جہد میں لگی ہوئی ہیں۔انہی تنظیموں میں سے ایک تنظیم ’’ سب جن وکاس سیوا سمیتی‘‘ بھوپال ، مدھیہ پردیش میں ہے جو جماعت اسلامی ہند کے زیر نگران آدی واسیوں میں فلاح بہبودی کے فروغ کا ایک این جی او ہے۔ یہ این جی او آدیواسیوں میں سوشل بیداری لانے اور ان کی کمزور معیشت و سماجی حالت کو بہتر بنانے کا کام کرتا ہے۔
مدھیہ پردیش میں22ایسے اضلاع ہیں جہاں آدیواسی اکثریت میں ہیں۔ ان اضلاع میں ان کی آبادی60فیصد سے90فیصد تک ہے۔ ریاست کے جنوب مغربی علاقے میں مختلف قبائل مثلاً بھیل ، بھلالا، باریل اور پھٹیلیا آدیسواسی رہتے ہیں اور جنوب مشرقی علاقے میں گونڈ، کورکو، بھریا، حلبا اور سہریا و دیگر آدیواسی آباد ہیں۔ ان سے اظہار یگانگت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے مذکورہ این جی او کے اراکین انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کی بستیوں میں جاتے ہیں اور ان سے ملاقاتیں کرکے صورت حال پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے این جی او نے ایک کوچنگ سینٹر بھی کھولا تھا اور انہیں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی طرف متوجہ کیا تھا ۔2014-2017 میں دس کوچنگ سینٹر کھولے گئے جن سے 1310آدیواسی بچوں نے استفادہ کیا۔ نیز یہ این جی او سرکاری اسکولوں میں آدیواسی بچوں کے داخلے کی حوصلہ افزائی میں مسلسل لگا ہوا ہے ، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس وقت زیادہ تر گھروں میں ان کے بچے پانچویں سے نویں کلاس تک پڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں بیداری لانے کی کوششوں کا نتیجہ سامنے آرہا ہے اور نوجوان لڑکے اسکول میں پڑھ کر شہروں کی طرف جارہے ہیں جبکہ گائوں میں رہنے والے لوگ جنگلوں سے لکڑیاں لاکر بیچنے کا کام کرتے ہیں۔سرکار نے ان کی حالت میں سدھار لانے کے لیے بہت ساری اسکیمیں بنائی ہیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ سبسڈی دیتی ہے ۔ بینک بھی انہیں کم سے کم انٹریسٹ پر قرض فراہم کرتا ہے مگر ان اسکیموں کے بارے میں انہیں کوئی پتہ نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذاوہ ان اسکیموں سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں۔ یہ این جی او ان کے پاس جاکر انہیں ان اسکیموں کے بارے میں بتاتا ہے اور استفادہ کرنے میں زیادہ سے زیادہ تعاون دیتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ آدیواسی سماج کے کمزور اور پچھڑے لوگ جو مین اسٹریم سے دور حاشیے پر دھکیل دیئے گئے ہیں، انہیں بیدار کرکے انہیں تعلیمی اور سماجی اعتبار سے ترقی دی جائے ۔ ضرورت پڑنے پر ان کی مالی معاونت بھی کی جاتی ہے۔تعاون عامہ کے تحت جہاں پینے کے پانی کے لیے ہینڈ پائپ نہیں ہے اور بستی کے لوگ ہینڈ پائپ لگانے کی حیثیت میں نہیں ہیں، تو کسی فائونڈیشن سے بات کرکے وہاں ہینڈ پائپ لگوایا جاتا ہے ۔ مذکورہ سمیتی کے توسط سے 2014-2020کے دوران کل 85ہینڈ پمپ لگائے گئے جن میں شہری علاقے میں 29اور دیہی علاقے میں 56ہینڈ پائپ لگائے گئے۔اسی طرح تین اضلاع کے ایک شہر اور چھ گائوں میں 2015-2020کے دوران 890فوڈ کٹس تقسیم کیے گئے جن سے مسلم اور قبائلی دونوں طبقے نے استفادہ کیا۔2018میں اسکولی بچے اور بچیوں میں 220اسکولی بیگ تقسیم کیے گئے۔ سردی کا موسم آرہا ہے۔ ایسے موسم میں جو خاندان یا فرد گرم کپڑے خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے،انہیں گرم کپڑا ، کمبل وغیرہ فراہم کیا جاتا ہے۔ 2016-2019میں 150مرد، 120عورتیں اور250بچوں کو گرم کپڑے فراہم کرائے گئے۔ عام طور پر ہندو اعلیٰ ذات کے لوگ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، پوجا کرنا اور کھانے پینے میں شرکت کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ لہٰذا سمیتی کے ممبران ان سے اظہار یگانگت اور مساوات کا احساس دلانے کے لیے رمضان میں ان کے ساتھ بیٹھ کر افطار کرتے ہیں، عید ملن میں ان کو مدعو کرتے ہیں اور سب مل کر سیویاں کھاتے ہیں۔ 2018-19میں سمیتی نے کل 9عید ملن پروگرام کیے تھے۔ ان مواقع پر آدیواسی سماج کے عام لوگوں کے علاوہ لیڈر بھی شامل ہوتے ہیں ۔ کبھی کوئی سوشل پروگروم منعقد کیا جاتا ہے تو اس میں آدیواسی کے کسی فرد کو چیف گیسٹ بنا کر سامنے لایا جاتا ہے۔ ان سب کا مقصد صرف ایک ہے کہ ان کو جذباتی اور سماجی اعتبار سے احساس کمتری سے باہر نکالا جائے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ان کا رجحان تعلیم کی طرف بڑھا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں ان کے ذہن میں جو غلط فہمیاں تھیں ،وہ بہت کم ہوگئی ہیں۔
سمیتی کے جنرل سکریٹری جناب ارشا احمد قریشی نے بات چیت کے دوران کہا کہ سمیتی کی کوششوں سے اب ان کا ذہن بہت حد تک صاف ہوچکا ہے اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے اندر جو غلط فہمیاں بھر دی گئی تھیں ، ان میں بہت کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ذہن کو پراگندہ کرنے میں مسلم مخالف تنظیموں کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ مسلم مخالف تنظیموں نے ان کے کان بھر کر 2002میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرائی تھی۔ تب انہیں لگتا تھا کہ مسلمان ان کے دشمن ہیں اور ان کی اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں مگرسمیتی سے میل ملاپ کے بعد آدیواسی لیڈرس اس بات کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ یہ سب ان کی غلط فہمیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رہنمائوں کے جنم دن یا کسی اور تہوار کے موقع پر سمیتی کے ممبران و دیگر مسلمانوں کو مدعو کرتے ہیں اور ان سے اور دیگر مسلم برادری سے اظہار اپنائیت کرتے ہیں۔ بلکہ ایک تنظیم ’’ آدیواسی مسلم کوآرڈینیشن سمیتی ‘‘ کے نام سے تشکیل بھی دی گئی ہے جس میں دونوں طرف کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں۔جناب ارشاد قریشی کا کہنا ہے کہ وہ آدیواسیوں میں نہ صرف سوشل بیداری لانے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ اسلام کے بارے میں انہیں واقفیت بھی دیتے ہیں۔ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ وقفہ وقفہ سے کچھ لوگ ایک ساتھ آدیواسی اکثریتی خطے کا دورہ کریں، ان کے یہاں ٹھہریں ۔ اس بستی میں سب لوگ اذان دیں، جماعت سے نماز پڑھیں۔ ایسا کرنے سے وہ اسلامی ارکان کی ادائیگی کو دیکھیں گے تو متاثر ہوں گے اور استفسار کا جذبہ بیدار ہوگا۔ ان میں سے جن میں اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق ہوگا، انہیں ہم بتائیں گے۔ ظاہر ہے اس عمل کو انجام دینے میں اخراجات ہیں اور سمیتی کے پاس اتنا بجٹ نہیں ہوتا ہے کہ اجتماعی طور پر اتنے لوگوں کو ساتھ لے کر بستی کا دورہ کرسکے۔ اگر مخیر حضرات اپنے اخراجات پر اس خطے کا دورہ کریں اور اسلامی حقائق سے انہیں واقف کرائیں تو اسلام کے تئیں غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مزید مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں سمیتی کے جنرل سکریٹری سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ویسے سمیتی حسب استطاعت ان خدمات کو انجام دے رہی ہے اور کئی گائوں کا دورہ کرکے سرگرمی جاری رکھے ہوئی ہے۔ قریشی صاحب نے گفتگو کے دوران آدیواسیوں سے قربت پڑھانے کی اہمیت و ضرورت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پسماندہ علاقہ ہے، اگر یہاں کے لوگوں کو ’’ سیلف ہیلپ گروپ ‘‘ کی بنیاد پر کچھ رقم دے کر چھوٹے موٹے کاروبار کرنے کا موقع فراہم کیا جائے، مثال کے طور پر ضرورت مند خاندان کو مد د کے طور پر دو بکریاں دے دی جائیں اور ان سے معمولی منفعت واپس کرنے کا معاہدہ کرلیا جائے تو اس سے ایک تو انہیں اپنی خانہ داری کے اخراجات میں آسانی ہوگی اور جو منافع ملے گا اسے کسی اور تعمیری مقصد کے لیے استعمال کیاجاسکے گا۔ بہر کیف سرکاری سطح پر اور تنظیمی سطح پر ان آدیواسیوں کو تعلیمی، معاشی اور سماجی اعتبار سے بیدار کرنے اور مین اسٹریم میں لانے سے ملک و قوم کا ہی بھلا ہوگا۔ اسی لیے یہ تنظیم، دیگر مسلم تنظیمیں اور وابستہ افراد اس راہ میں موثر اقدامات کررہے ہیں۔
***

وکاس سیوا سمیتی کی کوششوں سے آدی واسیوں کا ذہن بہت حد تک صاف ہوچکا ہے اور جو غلط فہمیاں ان کے ذہنوں میں بھر دی گئی تھیں ، ان میں بہت کمی آئی ہے۔ 2002میں بعض تنظیموں کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے سبب انہوں نے مسلمانوں کو اپنا دشمن نیز ان کی اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا تھا لیکن سمیتی سے میل ملاپ کے بعد آدی واسی قائدین اس بات کا اعتراف کرنے لگے کہ یہ سب ان کی غلط فہمیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رہنمائوں کے جنم دن یا کسی اور تہوار کے موقع پر سمیتی کے ممبران و دیگر مسلمانوں کو مدعو کرتے ہیں اور ان سے اور دیگر مسلم برادری سے اظہار اپنائیت کرتے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020