بہار میں مسلم سیاست کا رخ

مسلم پارٹیوں کی بہتات کے باوجود منتخب نمائندوں کے تناسب میں کمی

افروز عالم ساحل

اگرچہ بہار میں مسلمان کبھی اقتدار کے مرکزی دھارے میں نہیں رہے، تاہم یہاں کی سیاست کی مرکزیت میں ہمیشہ مسلمان ہی رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بھی ابتداٗ ہی سے تمام سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کو ’چکرویوہ’ میں گھسیٹنے کی فکر تھی۔ تمام پارٹیاں یہاں تک کہ بی جے پی اور ان کی حلیف پارٹیاں بھی مسلم ووٹروں کو رجھانے کی بھرپور کوشش کرتی نظر آئیں۔ مسلمانوں کے ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نتائج والے دن جب ’مہا گٹھ بندھن’ رجحانات میں کچھ دیر کے لیے سبقت لے گیا، تو ٹی وی چینلوں کے مباحثوں میں اس کے ذمہ دار بھی مسلمانوں ٹھہرائے جانے لگے تھے، اور جب ان رجحانات میں ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس’ (این ڈی اے) نے کانٹے کے مقابلے کے بعد معمولی سبقت حاصل کرلی تب بھی اس کے ذمہ دار مسلمانوں ہی قرار دیے گئے۔ حالاں کہ یہ پہلا موقع تھا جب کئی مسلم سیاسی پارٹیاں بھی میدان میں تھیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بھی اس مرتبہ پورے جوش و خروش سے انتخاب لڑ رہی تھی۔

 

اس انتخاب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ پہلی بار سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر بہار کے مسلم نوجوان ’اپنی قیادت‘ کی، مسلم نمائندگی پر، ’جتنی بھاگیہ داری، اتنی حصہ داری’ کی بات کررہے تھے۔ لیکن ان سب پہلوؤں کے درمیان ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ گذشتہ انتخابات کے مقابلے اس بار بہار کی سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری کم رہی ہے۔

 

بہار کی سیاست میں مسلمانوں کی شراکت کتنی کم ہوئی !

 

انتخابی اعداد و شمار کے مطابق اقتدار میں مسلمانوں کی حصہ داری کم رہی ہے۔ اس بار 19 مسلمان انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے رکن اسمبلی بنے ہیں۔ وہیں 22 حلقوں میں مسلمان امیدوار دوسرے مقام پر رہے۔ جب کہ گذشتہ چناؤ میں 24 مسلمان کامیاب ہوکر رکن اسمبلی بنے تھے اور 15 حلقوں میں دوسرے نمبر پر رہے۔ 2010 میں بھی 19 مسلمان انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے اور 30 حلقوں میں دوسرے نمبر پر رہے تھے۔

 

اس بار جیت حاصل کرنے والے اراکین اسمبلی میں راشٹریہ جنتا دل کے 8، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے 5، کانگریس کے 4 اور بہوجن سماج وادی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ لبریشن) کے ایک ایک امیدوار شامل ہیں۔ حکومت کے لیے منتخب ا(ین ڈی اے) میں ایک بھی مسلم رکن اسمبلی موجود نہیںبہار میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی حکومت بننے جارہی ہے، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس بار حکومت کے لیے منٹخب (این ڈی اے) میں ایک بھی مسلم رکن اسمبلی نہیں ہے۔ بہار کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہو رہا ہے۔ اس صورت حال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب بہار کی اقلیتی بہبود کا قلم دان کس کو سونپا جائے گا؟

 

کس کےکتنے مسلم امیدوار میدان میں تھے؟

 

ملحوظ رہے کہ ’مہا گٹھ بندھن’ کی جانب سے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے اپنی 144 نشستوں میں سے 17 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا۔ اور ان 17 امیدواروں میں سے 8 کامیاب ہوگئے۔ اس کے علاوہ آر جے ڈی کے 7 مسلم امیدوار دوسرے نمبر پر رہ کر بی جے پی کو ٹکر دیتے نظر آئے۔ کانگریس نے اپنی 70 نشستوں پر 12 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا، جن میں سے 4 نے کامیابی حاصل کی اور 5 دوسرے نمبر پر رہ کر لوہا لیتے نظر آئے۔ وہیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ لبریشن) نے اپنی 19 حلقوں میں سے 3 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا، جن میں سے ایک نے جیت حاصل کی ہے اور 2 معمولی ووٹوں کے فرق سے دوسرے نمبر پر رہ گئے۔

 

این ڈی اے کی بات کریں تو جنتا دل یونائٹید (جے ڈی یو) نے اپنے 115 ناموں میں سے صرف 11 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا، ان میں سے ایک بھی جیت حاصل نہیں کر سکا، حالاں کہ اس کے 8 مسلم امیدوار دوسرے نمبر پر ضرور رہے۔ اور یہ جے ڈی یو کے لیےکسی کامیابی سے کم نہیں ہے، کیوں کہ زمینی سطح پر لوگوں کا ماننا ہے کہ خصوصاً جہاں جے ڈی یو کے مسلم امیدوار تھے، وہاں بی جے پی لیڈروں نے اپنے کارکنوں کو ووٹ نہ ڈالنےکا اشارہ کردیا تھا۔ علاوہ ازیں یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جے ڈی یو کو چھوڑ کر این ڈی اے کی کسی بھی حلیف پارٹی نے مسلم امیدواروں پر اعتماد نہیں جتایا۔ یعنی ان کی پارٹی کی طرف سے کوئی مسلم امیدوار میدان میں نہیں تھا۔

 

اس بار آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے اپنے 20 امیدوار کھڑے کیے تھے۔ ان میں 15 مسلمان تھے۔ بی ایس پی نے ایک مسلم امیدوار کو میدان میں اتارا تھا اور اس نے اپنی فتح درج کرلی۔

 

ان دو مسلم امیدواروں نے حاصل کی ریکارڈ ووٹوں سے جیت

 

بہار میں اگر سب سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیت حاصل کرنے والے امیدواروں کی بات کی جائے تو ’ٹاپ فائیو’ میں دو مسلم امیدوار شامل ہیں۔ ضلع کٹیہار کے بلرام پور اسمبلی حلقہ سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسیٹ-لیننسٹ لبریشن) کے امیدوار محبوب عالم وکاس شیل انسان پارٹی کےامیدوار ورُن کمار جھا کو 53،597 ووٹوں سے شکست دے کر بہار کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹوں سے جیت حاصل کرنے والے امیدواروں میں سرِ فہرست ہیں۔ وہیں دوسرے مقام پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی بہار سربراہ اختر الایمان کا نام آتا ہے۔ آمور اسمبلی حلقے سے اختر الایمان نے جے ڈی یو کے صبا ظفر کو 52515ووٹوں سے شکست دی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ صبا ظفر 2015 کے انتخابات میں بی جے پی کے امیدوار تھے، تب کانگریس کے امیدوار عبدالجلیل مستان نے اسی آمور سیٹ پر انھیں 51997 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ لیکن اس بار عبدالجلیل مستان تیسرے نمبر پر رہے اور صرف 17.26 فی صد ووٹ حاصل کرسکے۔

 

غور و فکر والی بات

 

ایک بات یہاں غور کرنے کی ہے۔ بہار میں کل 38 سیٹیں درج فہرست ذاتوں (ایس سی) / درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے لیے محفوظ ہیں۔ تاہم آبادی کے لحاظ سے کئی حلقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ ضلع کٹیہار کی منہاری اسمبلی سیٹ پر مسلم ووٹروں کی آبادی قریب 42فی صد ہے۔ لیکن یہ نشست ایس ٹی امیدواروں کے لیے محفوظ ہے، جب کہ یہاں قبائلی ووٹروں کی تعداد صرف 12 فی صد ہے۔ وہیں دلت ووٹر 8 فی صد ہیں۔کچھ ایسی ہی صورت حال کٹیہار کی کوڈھا اسمبلی حلقے کی بھی ہے۔ یہاں 34 فی صد مسلم ووٹر ہیں۔ لیکن یہ سیٹ ایس سی امیدوار کے لیے محفوظ ہے۔ جب کہ یہاں دلت ووٹروں کی تعداد 13.5 فی صد کے آس پاس ہے۔ قبائلی ووٹروں کی تعداد تقریباً 8 فی صد ہے۔ارریہ کے رانی گنج میں مسلمان ووٹر 28فی صد ہیں۔ اسی طرح مغربی چمپارن کی رام نگر حلقے میں 21 فی صد مسلم آبادی ہے اور مشرقی چمپارن میں ہرسیدھی حلقے میں تقریباً 20 فی صد مسلمان آبادی ہے، لیکن یہ تمام سیٹیں ایس سی برادری کے لیے محفوظ رکھی گئی ہیں۔

بہرحال، 2015 بہار انتخاب کی طرح اس بار بھی پولرائزیشن کی تمام تر کوششیں ہوئیں۔ لیکن این ڈی اے کی جانب سے ووٹوں کی پولرائزیشن کی تمام سازشوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بہار کے مسلمانوں نے اس انتخاب کے ذریعے ملک بھر کی اقلیتوں کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے کہ متحد ہو کر اقلیتوں کے حقوق و انصاف کی بات کرنے والی پارٹیوں پر داؤ لگاؤ۔ تاہم ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ بہار کے مسلمانوں نے کبھی اپنے مسلم شناخت کی حمایت میں ووٹ نہیں دیا، بلکہ وہ ملک کے ماحول کے ساتھ چلے۔ انھوں نے جب محسوس کیا کہ کوئی امیدوار بی جے پی یا اس کے اتحادی امیدواروں کو شکست دے سکتا ہے تو اسی پر اپنا داؤکھیلا۔ لیکن جہاں انھیں بی جے پی کے جیتنے کا کوئی چانس نظر نہیں آیا وہاں اپنے حقوق کی طرف داری کرنے والے کو جتا کر اسمبلی میں بھیجنے کا کام کیا۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ اس پارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی بننے والے یہ عوامی لیڈر اسمبلی میں ان کے حق میں کیا کام کرتے ہیں۔ بہار الیکشن میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بیشتر مسلمانوں نے اس بات پر ووٹ نہیں دیا کہ فلاں امیدوار ان کے مذہب کا ہے، بلکہ اس بات پر دیا کہ کون ان کی طرف سے آواز اٹھا رہا ہے۔ کون ان کو تحفظ فراہم کروا سکتا ہے؟ جس نے بھی یہ کام کیا، مسلمانوں نے انھیں اپنا قائد مان لیا۔ حالاں کہ ایسا کرتے ہوئے وہ کئی بار ٹھگے بھی گئے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ اس بار مسلمانوں نے نتیش کمار کو ووٹ نہیں دیا۔ بیشتر مقامات پر مسلمانوں کا ووٹ نتیش کمار کو بھی گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار جے ڈی یو نے 11 مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے، جن میں سے 5 دوسرے نمبر پر ہیں۔

 

دل چسپ بات یہ ہے کہ بہار کے اکثر مسلم ارکان اسمبلی جیتنے کے بعد سب سے پہلے مسلمانوں کو فراموش کردیتے ہیں اور دوسری برادریوں کو خوش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ویسے یہ بھی درست ہے کہ رکن اسمبلی کو صرف مسلمانوں کا قائد نہیں ہونا چاہیے، بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ امید ہے کہ خصوصاً مسلمانوں کا ووٹ پانے والی تمام سیاسی پارٹیاں ان کے اس تعاون کو نہیں بھولیں گی۔ انتخابات کے بعد بھی ان کے مسائل، ان کی ترجیحات اور ان کی ضروریات کا بنیادی طور پر پورا خیال رکھا جائے گا۔

 

کیا اویسی کی پارٹی نے بگاڑا ’مہا گٹھ بندھن’ کا کھیل؟

 

بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں۔ ’مہا گٹھ بندھن’ کے ساتھ کانٹے کے مقابلے کے بعد نیشنل ڈیموکریٹ الائنس (این ڈی اے) نے 125 نشستوں پر جیت حاصل کرکے معمولی اکثریت حاصل کرلی ہے۔ لیکن اگر اب بھی جس سیاسی پارٹی کا سب سے زیادہ چرچا ہو رہا ہے وہ ہے اسدالدین اویسی کی پارٹی ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین’۔

 

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے بارے میں تمام میڈیا رپورٹوں میں کہا جارہا ہے کہ اویسی کی وجہ سے ’مہا گٹھ بندھن’ کی حکومت نہیں بن سکی۔ ہندی اخبار ’ہندوستان’ نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اس پارٹی کے امیدواروں نے بڑی تعداد میں مسلم ووٹ بٹور کر کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے امیدواروں کی جیت میں بڑی رکاوٹ کھڑی کردی۔ جس سے تقریباً ایک درجن حلقوں میں ’مہا گٹھ بندھن’ کے امیدوار متاثر ہوئے اور وہاں این ڈی اے کو یک طرفہ فائدہ ملا۔ یہی الزام سوشل میڈیا پر کانگریسی نمائندے بھی لگا رہے ہیں۔ اس الزام تراشی کے بعد ہفت روزہ دعوت نے تجزیہ کیا ، کہ کیا واقعی ایسا ہوا ہے یا پھر یہ الزام بے سر و پا ہے۔

 

آگے بڑھنے سے پہلے قارئین کو بتادیں کہ اس مرتبہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین 24 نہیں بلکہ صرف 20 سیٹوں پر انتخابات میں حصہ لیا ۔ اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تمام میڈیا رپورٹوں میں 24 سیٹیں بتائی جارہی ہیں۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مجلس یہ انتخاب سابق مرکزی وزیر دویندر پرساد یادو کی پارٹی ’سماج وادی جنتا دل ڈیموکریٹک’، اوپندر کشواہا کی پارٹی ’راشٹریہ لوک سمتا پارٹی’ اور مایاوتی کی پارٹی ’بہوجن سماج وادی پارٹی’ کے ساتھ متحد ہوکر لڑ رہی تھی۔

 

مجلس 20 سیٹوں پر انتخاب ضرور لڑ رہی تھی، تاہم اس نے اپنی ساری توجہ صرف پانچ سے چھ سیٹوں پر ہی مرکوز رکھی، اور انھی سیٹوں پر اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ اویسی نے پورے انتخاب میں 6 انتخابی میٹنگیں کیں، جن میں بیشتر میٹنگیں مذکورہ حلقوں میں منعقد ہوئیں۔ نتیجے میں پانچ سیٹوں پر زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔

 

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی سربراہ اختر الایمان پہلی بار پورنیہ ضلع کے آمور اسمبلی حلقے سے انتخابی میدان میں اترے تھے اور زبردست ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ انھوں نے اپنے حریف جے ڈی یو کے صبا ظفر کو 52515 ووٹوں سے شکست دی۔ اس کے علاوہ پورنیہ کی ہی بائسی اسمبلی نشست سے سید رکن الدین احمد نے جیت حاصل کی۔ انھوں نے بے جے پی کے ونود کمار کو 16373 ووٹوں سے ہرایا۔ کشن گنج کے بہادرگنج اسمبلی حلقے سے محمد انظر نعیمی نے وکاس شیل انسان پارٹی کے امیدوار لکھن لال پنڈت کو 45215 ووٹوں سے شکست دی، وہیں کوچادھامن اسمبلی سیٹ پر مجلس کے محمد اظہار اسفی نے جے ڈی یو کے رکن اسمبلی مجاہد عالم کو 36143 ووٹوں سے ہرایا۔

ارریہ کے جوکی ہاٹ حلقے کی کہانی تو اس سے بھی دل چسپ ہے۔ یہاں مجلس کے شاہنواز عالم نے اپنے سگے بڑے بھائی سرفراز عالم کو 7383 ووٹوں سے ہرایا۔ واضح رہے کہ یہاں ہارنے اور جیتنے والے دونوں امیدوار آرجے ڈی لیڈر تسلیم الدین کے بیٹے ہیں۔ 2015 اسمبلی انتخاب میں اس جوکی ہاٹ حلقے سے بڑے بیٹے سرفراز عالم نے بطور جے ڈی یو امیدوار 53980 ووٹوں کے فرق سے آزاد امیدوار رنجیت یادو کو ہرایا تھا۔ رکن پارلیمنٹ تسلیم الدین کا 17 ستمبر2017 کو انتقال ہوگیا تھا۔ مارچ 2018 میں ارریہ لوک سبھا سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں بطور آر جے ڈی امیدوار سرفراز عالم نے اپنے حریف کو 57358 ووٹوں کے بڑے فرق سے ہرایا۔ ان کے رکن پارلیمنٹ بننے کے بعد جوکی ہاٹ حلقے میں 28 مئی 2018 کو ضمنی انتخاب ہوا۔ سرفراز عالم کی خواہش تھی کہ اس انتخاب کے لیے ان کے بیٹے کو ٹکٹ ملے، لیکن ان کے چھوٹے بھائی چاہتے تھے کہ یہ انتخاب وہ خود لڑیں۔ کہاجاتا ہے کہ جب یہ لڑائی تھوڑی آگے بڑھی تو آخر میں تسلیم الدین کی بیوی نے اپنے چھوٹے بیٹے شاہنواز کے لیےلالو یادو کو کال کیا اور آرجے ڈی کی طرف سے شاہنواز عالم امیدوار بنے اور انھوں نے جے ڈی یو کےامیدوار مرشد عالم کو 41225 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ ادھر 2019 لوک سبھا انتخاب میں سرفراز عالم کی ہار ہوئی۔ اس سیٹ سے بی جے پی کے پردیپ کمار سنگھ رکن پارلیمنٹ بنے۔ اب 2020 اسمبلی انتخاب میں آر جے ڈی نے شاہنواز کا ٹکٹ کاٹ کر سرفراز عالم کو امیدوار بنایا، اس سے پہلے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے مرشد عالم کو اپنا امیدوار بنایا تھا، تاہم شاہنواز عالم کا آر جے ڈی سے ٹکٹ کٹ گیا اور انھوں نے طے کیا کہ وہ ہرحال میں اپنے بھائی کے خلاف انتخاب لڑیں گے، تب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے مرشد کا ٹکٹ کاٹ کر شاہنواز عالم کو دیا اور اب وہ انتخاب جیت چکے ہیں۔

 

ان پانچ سیٹوں پر جیت کے علاوہ 4 سیٹوں پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے ان 4 سیٹوں میں 3 پر ’مہا گٹھ بندھن’ کے امیدواروں کی جیت ہوئی اور صرف ایک سیٹ پر بی جے پی کامیاب ہوئی اور بی جے پی کے امیدوار کی جیت کا فرق بہت زیادہ تھا اور مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار کا ووٹ محض 2.74 فی صد۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا ووٹ بھی ’مہا گٹھ بندھن’ کے امیدوار کو مل جاتا تب بھی آرجے ڈی کا امیدوار جیت نہیں پاتا۔ یہاں یہ بھی بتادیں کہ جیتنے اور ہارنے والے دونوں امیدوار یادو سماج سے تھے۔ باقی سیٹوں پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدواروں کو بہت معمولی ووٹ ملے تھے اور ان ووٹوں سے کسی کی ہار جیت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ یعنی جو الزام آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین پر لگایا جارہا ہے کہ اس کے انتخاب لڑنے کی وجہ سے ’مہا گٹھ بندھن’ کو بہت نقصان پہنچا، سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔

 

بہار میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی تاریخ

 

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کو پہلی بار 16 اگست 2015 کو کشن گنج کے روئی دھانسا میدان میں منعقد ’کرانتی کاری جن ادھیویشن’ میں بلایا گیا تھا۔ یہ پروگرام بہار کی ’سماجی انصاف فرنٹ’ نامی تنظیم کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا۔ اس کے اصل روح رواں اختر الایمان تھے۔ اختر الایمان راشٹریہ جنتا دل کے ٹکٹ پر پہلی بار 2005 میں اسمبلی پہنچے۔ اگلے انتخاب میں بھی جیت حاصل کی۔ 2014 میں آر جے ڈی چھوڑ کر وہ جنتا دل یو میں شامل ہوئے اور پارٹی نے انھیں کشن گنج سے لوک سبھا کا امیدوار بنایا لیکن نامزدگی کا پرچہ داخل کرنے کے بعد اختر الایمان یہ کہتے ہوئے مقابلے سے الگ ہوگئے کہ انھوں نے یہ قربانی گجرات کے فسادیوں کو روکنے اور سیمانچل میں امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے دی ہے۔ 16 اگست کا یہ پروگرام اویسی کو بہت پسند آیا۔ شدید بارش کے باوجود عوامی سیلاب کا جوش دیکھ کر ہی اویسی نے بہار میں قدم رکھنے کا ذہن بنالیا۔ حالاں کہ اویسی راقم الحروف سے ایک خصوصی انٹرویو میں کہہ چکے تھے کہ’’میں بہار ضرور جا رہا ہوں لیکن پارٹی اس سال بہار کے انتخاب میں حصہ لے گی یا نہیں ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ویسے میرا اپنا خیال ہے کہ بہار میں اس بار انتخاب لڑنا جلد بازی ہوگی۔’ ‘

 

اس کے باوجود مجلس نے بہار کے سیمانچل علاقے کی 6 سیٹوں پر قسمت آزمائی کی۔ لیکن ان کی یہ کوشش بری طرح فلاپ رہی۔ انتخابی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مجلس کو ان 6 نشستوں کے کل ووٹوں میں سے صرف 80248 ووٹ ملے تھے جو جملہ ووٹوں کا صرف 0.2 فی صد تھے حالاں کہ کوچادھامن سیٹ سے اختر الایمان 37086 ووٹ لاکر دوسرے نمبر پر ضرور رہے۔ جے ڈی یو کے مجاہد عالم اس نشست سے 18843 ووٹوں کے فرق سے انتخاب جیتے تھے۔

 

اویسی اور ان کی پارٹی سے جڑے لوگوں نے ہار نہیں مانی۔ خصوصاً اسد الدین اویسی کا کشن گنج آنا جانا جاری رہا۔ ان کو کشن گنج کے عوام 2015 سے پہلے جانتے بھی نہ تھے لیکن آج وہ ان کی پارٹی کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ اس پارٹی نے 2019 میں کشن گنج لوک سبھا حلقے سے اختر الایمان کو کھڑا کیا تھا جنھوں نے 295029 ووٹ حاصل کیے تھے لیکن صرف چند ووٹوں کے فرق سے تیسرے نمبر پر رہے گئے تھے، پھر بھی پارٹی نے ہار نہیں مانی اور اپنی زمینی جدوجہد جاری رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہار کے ضمنی انتخاب میں کشن گنج حلقے سے اویسی کی پارٹی کو جیت ملی۔ یہاں پارٹی کے امیدوار قمر الہدیٰ نے بی جے پی کے امیدوار سیوٹی سنگھ کو 10211 ووٹوں سے ہرایا تھا۔ اور اب 5 سیٹوں پر جیت ملنے کے بعد پارٹی کے حوصلے بہت بلند ہیں، یہاں تک کہ دیگر تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو بھی اپنے لیے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔ انھیں اب اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں ان کا مسلم ووٹ بینک اس پارٹی کی وجہ سے کھسک نہ جائے۔

 

کیا اویسی اپنی پارٹی کو قومی پارٹی بنانا چاہتے ہیں ؟

 

بہار انتخابات میں پانچ سیٹوں پر جیت کے ساتھ ہی اویسی کا ’مشن نیشنل پارٹی’ ایک قدم آگے بڑھ گیا ہے۔ حالاں کہ بہار انتخابات میں اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو 20 سیٹوں پر کل 5،23،279 ووٹ ہی ملے ہیں، جو ان 20 سیٹوں پر ڈالے گئے ووٹوں کے کل کا تقریباً 14.86 فی صد ہے اور پورے بہار میں جملہ ووٹوں کا محض 1.24 فی صد ہے۔

 

انتخابی کمیشن کے رہ نمایانہ خطوط کے مطابق ووٹوں کے لحاظ سے ضروری شرائط کو پورا کرتے ہوئے اویسی کی پارٹی ایک قومی پارٹی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اسی مقصد سے اویسی نے بہار کا انتخاب لڑا ہے۔ اگر باوثوق ذرائع پر یقین کیا جائے تو اویسی کی پارٹی آئندہ انتخابات میں اپنے اسی ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی۔ مستقبل میں اگر ایسا کرنے میں اویسی کامیاب ہوگئے ہوں تو یہ مسلم سیاست میں ایک سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔

 

واضح رہے کہ انتخابی کمیشن کے رہ نما یانہ خطوط کی رو سے کسی بھی سیاسی پارٹی کو نیشنل پارٹی بننے کے لیے اس پارٹی کو لوک سبھا یا اسمبلی انتخابات میں کسی بھی چار یا اس سے زائد ریاستوں میں ڈالے گئے کل جائز ووٹوں کا 6 فی صد حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایک ریاست یا اس سے زائد ریاستوں میں کم از کم چار اسمبلی نشستیں یا لوک سبھا میں کم از کم دو فی صد نشستیں جیتنا ضروری ہیں اور یہ کم از کم تین ریاستوں سے حاصل کردہ نشتیں ہونی چاہئے۔

 

واضح رہے کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، ملک کی آزادی سے بہت پہلے، 12 نومبر 1927 کو قائم ہوچکی تھی، 1984 میں پہلی بار مجلس حیدرآباد لوک سبھا سیٹ سے انتخاب جیت کر لوک سبھا میں پہنچی۔ تب سے یہ نشست مجلس ہی کے قبضے میں ہے۔ اس کے علاوہ 2014 کے تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں مجلس نے 7 نشستیں جیتیں اور ‘اسٹیٹ پارٹی’ ہونے کا درجہ بھی حاصل کر لیا تھا۔ 2018 اسمبلی انتخابات میں بھی یہ سیٹیں برقرار رہیں۔ یہی نہیں، مجلس نے اس بار مہاراشٹرا میں بھی دو سیٹیں حاصل کی ہیں۔ یہاں سے امتیاز جلیل اپنی جیت حاصل کرکے لوک سبھا پہنچ چکے ہیں۔ بہار ضمنی انتخاب میں بھی پارٹی کشن گنج سے کامیاب رہی۔ علاوہ ازیں اتر پردیش میں بھی اویسی تجربہ کرچکے ہیں، اور ایک حد تک وہ اپنے تجربے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ اب اویسی نے بہار میں 5 سیٹیں جیت لی ہیں۔ اس طرح سے اویسی مسلسل اپنا دائرہ اثر وسیع کررہے ہیں۔

 

اب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے نشانے پر مغربی بنگال اور اترپردیش جیسی ریاستیں آگئی ہیں۔ مغربی بنگال میں تقریباً 25 فی صد مسلمان ہیں، جو ترنمول کانگریس کی جھولی میں جاتے رہے ہیں۔ مجلس اب ان ریاستوں میں مسلم ووٹ بینک میں دراڑ لگانا چاہتی ہے اور کم از کم کچھ سیٹیں جیت کر اپنے ‘مشن نیشنل پارٹی’ کو مکمل کرنا چاہتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، اپنے ‘مشن -2022’ کے لیے بھی ایک طرح سے ان ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی خاطر ایک تنظیم کھڑی کر رہی ہے تاکہ وہ لوک سبھا انتخابات میں بھی کچھ منتخب سیٹوں پر امیدوار کھڑا کرکے اپنے مقاصد کو پورا کرسکے۔

 

حالاں کہ بہار انتخابات میں اویسی کو دونوں طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سیکولر پارٹیوں نے انھیں’’ووٹ کٹوا‘‘ قرار دیا، وہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اویسی کی وجہ سے ووٹوں کا پولرائزیشن ہوتا ہے اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اویسی اپنی حکمت عملی جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ آگے آنے والے کچھ انتخابات اس حکمت عملی کا اصل امتحان ثابت ہوں گے۔ تب تک اویسی کی پارٹی کو سنجیدگی سے لینے والے رہنماؤں کا پارٹی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

 

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا بھی میدان میں تھی

 

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے علاوہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی سیاسی پارٹی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا بھی بہار انتخابات میں میدان میں تھی اور پپو یادو کے ذریعے بنائی گئی ’پروگریسیو ڈیموکریٹک الائنس’ کے تحت بہار کی 14 نشستوں پر انتخاب لڑ رہی تھی۔ لیکن نتائج بتاتے ہیں کہ اس کا اثر بہار کی کسی بھی پارٹی پر کہیں بھی نہیں پڑا۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کو 20 سیٹوں پر کل 27,871 ووٹ ملے ہیں، جو ان 14 سیٹوں پر ڈالے گئے ووٹوں کا تقریباً 1.12 فی صد ہے۔ سب سے زیادہ ووٹ پورنیہ اسمبلی حلقے سے حاصل ہوئے۔ یہاں وجئے اوراؤں تھے، انھوں نے یہاں سے5493 ووٹ حاصل کیے۔ پورنیہ کے مقامی لوگوں کی مانیں تو وجئے اوراؤں کو لوگ پہلے سے جانتے ہیں، ان کو ووٹ اپنی پہچان کی وجہ سے ملے ہیں ، ان کی پارٹی کا نام دیکھ کر ووٹ شاید ہی کسی نے دیا ہو۔

 

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے علاوہ متعدد مسلم پارٹیاں اس انتخاب میں میدان میں تھیں۔ جن میں خصوصاً راشٹریہ علما کونسل، پیس پارٹی، آل انڈیامائنارٹیزفرنٹ، بھارتیہ مومن فرنٹ، جنتا دل راشٹروادی، جن سنگھرش دل، انڈین نیشنل لیگ، راشٹریہ سیکولر مجلس پارٹی اور راشٹروادی مائنارٹی پارٹی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

 

بہار کے پسماندہ ترین مسلمانوں کے کروڑپتی ارکان اسمبلی

 

بہار کے مسلمانوں کی بدحالی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ان کی زبوں حالی کے حقائق سچر کمیٹی کی رپورٹ بھی بیان کرچکی ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ حالیہ ریاستی انتخابات میں مسلمانوں کے جو لیڈر منتخب ہوکر آئے ہیں، ان کی حیثیت اس تصویر سے بالکل مختلف ہے۔

 

بہار کی 243 سیٹوں پر اس بار 19 مسلم امیدواروں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن اگر بات بہار کے مسلمانوں کی معاشی حالات کی کریں تو ہمارے مسلم نمائندے بہار کے مسلمانوں کی پسماندگی کی نمائندگی نہیں کرتے۔

 

اعداد و شمار کہتے ہیں کہ جہاں ایک جانب ریاست میں عام مسلمانوں کی حالت بدتر ہوتی جارہی ہے، وہیں ہمارے مسلم لیڈر دن بدن دولت مند ہوتے جارہے ہیں۔ یعنی غریب ترین مسلمانوں کی نمائندگی دولت مندترین لیڈروں کے ہاتھ میں ہے۔اس مرتبہ 19 مسلم ارکان اسمبلی میں سے 10 ارکان کروڑپتی ہیں، تین ارکان کروڑ پتی بننے کے قریب ہیں۔ یہ رپورٹ خود انھی لیڈروں کے ذریعے انتخابی کمیشن کو دیے گئے حلف ناموں کی بنیاد پر پیش کی جارہی ہے۔اس بار جیتنے والے 19ارکان میں سے سر فہرست دولت مند ترین سہرسہ ضلع کے سمری بختیار پور اسمبلی حلقے سے جیتنے والے یوسف صلاح الدین ہیں۔ 2020کے انتخابات میں انھوں نے اپنے حلف نامے میں بتایا کہ وہ 13.65کروڑ کے مالک ہیں۔ اس سے قبل، پانچ سال پہلے، 2015کے اسمبلی چناؤ میں ان کے پاس 2.33 کروڑ کی مالیت کے اثاثے تھے۔

 

اس کے بعد گووندپور کے رکن اسمبلی محمد کامران کا نام آتا ہے۔ محمد کامران کے پاس 2010 میں 12.35 لاکھ کے اثاثے تھے، جو 2015 میں بڑھ کر 1.51 کروڑ ہو گئے۔ 2020 میں اب وہ 5.69 کروڑ کے مالک ہیں۔

 

تیسرے نمبر پر ضلع کشن گنج کے بہادر گنج کے رکن اسمبلی محمد انظر نعیمی کا نام آتا ہے۔ 2010 میں وہ 71.25 لاکھ کے مالک تھے۔ اب وہ 2020 میں 4.67 کروڑ کے مالک ہیں۔وہیں کچھ ایسے ارکان ِ اسمبلی بھی ہیں جو پہلے کے مقابلے غریب بھی ہوئے ہیں۔ 2015میں سمستی پور سے اسمبلی انتخاب لڑتے وقت اخترالاسلام شاہین کے پاس 1.77کروڑ روپے کے اثاثے تھے، 2010 میں ان کے پاس 71.65لاکھ روپے کی مالیت کے اثاثے تھے، اب 2020 میں وہ 67.91 لاکھ کی مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔

 

بعض مسلم ارکان اسمبلی ایسے بھی ہیں جن کی دولت میں اضافہ تو ہوا ہےتاہم اس کے ساتھ ساتھ ان پر قرض میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ضلع مشرقی چمپارن کی نرکٹیا اسمبلی کے رکن اسمبلی شمیم احمد کے پاس 2015 میں 3.93 کروڑ کے اثاثے تھے، لیکن ان کے ذمہ 48.94 لاکھ کا قرض بھی تھا۔ ان کی دولت 2020 میں بڑھ کر 4.59 کروڑ ہوگئی، لیکن ساتھ ہی وہ 62.13 لاکھ کے مقروض بھی ہیں۔

 

سب سے غریب مسلم رکن اسمبلی کی بات کریں تو سب سے پہلا نام کٹیہار کے بلرام پور اسمبلی کے رکن اسمبلی محبوب عالم کا آتا ہے۔ سال 2020 میں ان کے پاس کل دولت 31.77 لاکھ ہے۔ اس سے قبل 2015 میں ان کے پاس صرف 22.96 لاکھ کے اثاثے تھے، جب کہ 2010 میں وہ صرف 2.32 لاکھ کے مالک تھے۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں جہاں سے مسلم ارکان اسمبلی کی جیت ہوئی ہے یا پھر بہار کے وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، عموماً بدحال ہیں۔ اب تک ان علاقوں سے جس نے بھی انتخاب لڑا، ان میں سے اکثر کو یہاں کے لوگوں کے جذبات سے کھیلنا بخوبی آتا ہے۔ مسائل کے نام پر صرف جذبات کو ابھارنے والے ایشوز ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تمام ارکان ِ اسمبلی چناو جیتنے کے بعد عوام کے ان تمام احساسات و جذبات کو بھول جاتے ہیں۔

 

کئی دہائیوں سے جذبات کے اس کھیل اور ارکان اسمبلی کے معاشی حالات میں ہونے والی حیران کن ترقی کے درمیان یہ سوال بہار کی فضاؤں میں آج بھی گونج رہا ہے کہ آخر ان علاقوں کی بدحالی کب دور ہوگی؟ کیا اگلے پانچ برسوں میں یہ علاقے انسانوں کے رہنے کے قابل بھی ہو سکیں گے یا نہیں؟ آخر کیوں مسلمانوں کے نام پر سیاست کرنے والے سیاست دان ترقی تو خیر بڑی چیز ہے، ان کے بنیادی انسانی مسائل تک کو حل کرنے میں ناکام ہیں؟ بنیادی مسائل کی کوئی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ ایسے لاتعداد سوالوں کے جواب نہ جانے بہار کے ان علاقوں کے باشندے کب سے مانگ رہے ہیں، لیکن انتخابی طوطی خانے کے سیاسی شور و غل میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

 

کیا کہتے ہیں بہار کی سیاسی سمجھ رکھنے والے لوگ؟

 

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سنٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈی اِن ہسٹری کے پروفیسر محمد سجاد کہتے ہیں کہ شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) اور لنچنگ کے مسائل پر بہار کی تمام نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیوں نے بولنے کے حد تک بھی ساتھ نہیں دیا۔آر جے ڈی اور کانگریس بھی خاموش نظر آئی۔ ایسی صورت میں جہاں مسلمانوں کو یہ ڈر نہیں تھا کہ سیکولر پارٹیوں کو ووٹ نہ دینے سے بی جے پی جیت جائے گی۔ ان سیٹوں پر انھیں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہتر آپشن نظر آیا۔ اب آرجے ڈی اور کانگریس کی جو لیڈرشپ سیمانچل میں اب تک رہی ہے وہ لیڈرشپ اپنے اندر جھانکے کہ اس کے اندر ایسی کیا کمی رہ گئی کہ جو مسلمان اتنے برسوں سے انہیں ووٹ دیتے آرہے تھے، انہون نے اس بار دوسری طرف جانا کیوں پسند کیا۔

 

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں پروفیسر سجاد کہتے ہیں کہ آر جے ڈی زمانے سے مسلمانوں کے ووٹ پر راج کر رہا ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی غیر یادو چہرا ابھار نہیں سکی۔ حد تو یہ ہے کہ انھیں مسلمانوں کا ووٹ بھی چاہیے اور مسلم چہروں کو سامنے لانے سے بھی ڈرتے بھی ہیں۔ انتخابی منشور جاری کرتے وقت انہوں نے اسٹیج پر کسی مسلم لیڈر کو بٹھایا تک نہیں گیا۔ یہ سوچنا کہ مسلم چہرہ سامنے لائیں گے تو ہندو ووٹ نہیں لے پائیں گے، یہ حکمت عمی کے اعتبار سے تو درست ہو سکتا ہے، تاہم نظریاتی طور پر انتہائی غلط ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ سی اے اے تحریک یا لاک ڈاؤن کے دوران تیجسوی یادو سرگرم دکھائی نہیں دیے، بعد میں اچانک نمودار ہوئے۔ جب یادو سماج کے لوگوں نے تیزی سے ان کی ریلی میں آنا شروع کردیا تو غیر یادووں نے اتنی ہی تیزی سے این ڈی اے کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ یادووں کی بھیڑ کو جب میڈیا دکھا رہی تھی، تو وہ سمجھ رہے تھے کہ سیاسی ماحول گرم ہو رہا ہے، لیکن یہ بات ان کے حق میں نقصان دہ ثابت ہونے لگی، کیوں کہ بہار کےاور پسماندہ طبقات دلت، یادو برادریوں کے بے پناہ غلبے سے ڈرتے ہیں۔ ایسے میں اس کا فائدہ این ڈی اے کو ملا۔

(پروفیسر محمد سجاد کی دو مستقل کتابیں Muslim Politics in Bihar اور مظفر پور کے مسلمانوں پر 1857 سے 2012 تک کا احاطہ کرنے والی کتاب Contesting Colonialism and Separatism شائع ہوئی ہیں۔ ان کی کتابوں کے اردو تراجم پچھلے سال قومی اردو کونسل نے شائع کیے ہیں۔)

 

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کے شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر افروز عالم کے مطابق 2015 بہار اسمبلی انتخابات کی طرح مسلمانوں نے اس بار یک طرفہ ووٹ نہیں دیا ہے۔ ان کا ووٹ الگ الگ پارٹیوں میں بٹ گیا۔کیونکہ الگ الگ حلقوں میں الگ الگ عوامل کارفرما ہیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین پر جو الزام تراشی کی جارہی ہے، وہ ان الزامات کو خارج کرتے ہیں۔

 

پروفیسر افروز کہتے ہیں کہ بہار میں تمام برادریوں کی سیاست ایک جیسی رہی ہے، لیکن مسلمانوں کا ووٹ سب کو چاہیے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایک دو پارٹیاں ہی مسلمانوں کے ووٹوں کے ٹھیکیدار بنی ہوئی تھیں ، اس بار یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ بی جے پی سے ’ڈرانے’ کی سیاست کا دور ختم ہوگیا۔ اس ’ڈر’ کی مسلمانوں کو عادت ہوچکی ہے۔ اب ان کو اور زیادہ نہیں ڈرایا جا سکتا۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے بھی انھی امیدواروں کو ووٹ ملا جو مناسب اور بھروسے کے لائق تھے، اور سب سے بڑی بات، عوام کے درمیان رہتے ہیں۔ عالیہ یونیورسٹی، کولکاتا میں شعبہ ماس کمیونیکیشن اینڈ جرنلزم کے سربراہ محمد ریاض کا کہنا ہے کہ بہار میں این ڈی اے کی جیت کے لیے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو مورد الزام ٹھہرانا حقیقت میں مسلمانوں کا خود کو اپنی شکست کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔ یوپی بہار کی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ہمیشہ اپنی شکست کے بعد ’قربانی کے بکرے’ کی ضرورت پڑتی ہے، اور وہ بکرا مسلمانوں سے بہتر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ لوگوں کو یہ یاد ہوگا کہ مایاوتی نے 2014 میں اپنی شکست کے بعد کتنے مضحکہ خیز انداز میں اپنی شکست کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹہھرایا تھا۔ جب مسلم ووٹ اتنے اہم نہیں ہوتے تو وہ عام طور پر اپنی شکست کا الزام ای وی ایم، یا دونوں عوامل کو دیتے ہیں۔ اس بار بائیں بازو والے ای وی ایم پر کوئی الزام نہیں لگائیں گے کیوں کہ ان کے بہت سے امیدوار جیت چکے ہیں۔

 

وہ مزید کہتے ہیں کہ سیکولر پارٹیوں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی شکست کی اصل وجہ یہ ہے کہ سنگھ پریوار نے کئی برسوں کے دوران ہندوؤں کی ہر ذات اور طبقے میں مضبوط نیٹ ورک تیار کر دیا ہے جو نظریاتی طور پر چلائے جارہے ہیں۔ انتخاب میں اس نیٹ ورک کے سامنے عوامی مسئلے کوئی معنی نہیں رکھتے، انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ملک کی صورت حال کیا ہے، یا معیشت کتنی خراب چل رہی ہے، بلکہ انھیں لگتا ہے کہ ہمیں بس اپنے نظریے کو مضبوط کرنا ہے، ہندوتوا کو مضبوط کرنا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو اب یہ مان لینا چاہیے کہ ان کے سامنے اصل مسئلہ ہندوتوا کا نظریہ ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی انتخاب میں سافٹ ہندوتوا کارڈ کھیلنے لگتی ہیں۔ میرا یہ کہنا ہرگز نہیں ہے کہ آر ایس ایس کی خواہش کے مطابق تمام ہندو بی جے پی یا ان کے نظریاتی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، بلکہ اب بھی ملک میں ایک بڑی آبادی ہندوتوا سیاست سے آزاد ہے۔

 

ہفت روزہ دعوت نے بہار کی کچھ سیٹوں سے سینیئر یا مشہور مسلم لیڈروں کی ہارنے کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی۔ دربھنگہ شہر سے تعلق رکھنے والے اور بہار کی سیاست پر نظر رکھنے والے ادیب طارق اقبال بتاتے ہیں کہ دربھنگہ گرامین اسمبلی سیٹ سے فراز فاطمی جے ڈی یو کے امیدوار تھے۔ یہاں مسلم ووٹ 25 فی صد سے زائد ہیں ۔ لیکن مسلمانوں نے فراز کو سی اے اے، این آر سی کو دھیان میں رکھتے ہوئے ووٹ نہیں کیا۔ ان کا ووٹ کھل کر آر جے ڈی امیدوار للت کمار یادو کو گیا۔ لیکن اس کے برعکس کیوٹی اسمبلی سیٹ پر یادو برادری نے آر جے ڈی امیدوار عبدالباری صدیقی کو ووٹ نہیں دیا۔ وہ یہاں بی جے پی امیدوار مراری موہن جھا کے ساتھ گئی۔واضح رہے کہ کیوٹی اسمبلی سیٹ پر قریب 33 فی صد مسلم ووٹر ہیں جو یک طرفہ آرجے ڈی کے کھاتے میں گیا۔ یہ پوچھنے پر کہ آپ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ یادوؤں نے عبدالباری صدیقی کو ووٹ نہیں دیا تو اس پر طارق اقبال کہتے ہیں کہ یہاں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اشوک یادو ہیں، وہ گھوم گھوم کر لوگوں میں کہتے تھے کہ للت یادو کو مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیا ہے، اس لیے یادو بھی عبدالباری صدیقی کو ووٹ نہ کرے۔ یہ بی جے پی کا اپنا ایجنڈا تھا۔ یادو ان کی بات میں آگئے۔ طارق مزید یہ بھی بتاتے ہیں کہ بی جے پی لیڈروں نے یادو برادری کے درمیان یہ بات بھی پھیلائی بلکہ کھل کر بی جے پی امیدواروں نے میڈیا انٹرویو میں کہا کہ یادو کرشن بھگوان کے خاندان سے آتے ہیں۔ اور اس بار چناؤ نہیں ’دھرم یدھ’ چل رہا ہے۔ بی جے پی کے اس ایجنڈے سے یادو برادری شروع ہی سے متاثر تھی۔

 

جالے اسمبلی سیٹ پر کانگریس کی جانب سے ڈاکٹر مشکور عثمانی امیدوار تھے اور طارق کے مطابق کانگریس کے تمام مقامی لیڈر ان کے خلاف تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی جیت ہو، کیوں کہ مشکور کو یہ سیٹ یہاں کے ایک مقامی کانگریسی لیڈر کا ٹکٹ کاٹ کر دیا گیا تھا۔ کانگریس کے اس لیڈر ہی نے مشکور کو جناح وادی کہہ کر وہاں کے ووٹوں کو پولرائز کردیا تھا۔ اور یہاں بھی یادو این ڈی اے کے ساتھ تھے، کیوں کہ یہ کیوٹی اور جالے دونوں حلقے اشوک یادو کے پارلیمانی حلقہ میں آتے ہیں۔ حالاں کہ مسلمانوں نے یک طرفہ ہوکر مشکور عثمانی کو جتانے کی کوشش کی تھی۔ بتادیں کہ یہاں بھی قریب 33 فی صد مسلمان ووٹر ہیں۔

 

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ پولیٹیکل سائنس سے بہار کی سیاست پر پی ایچ ڈی کرنے اور ارریہ ضلع سے تعلق رکھنے والے محمد عرفان بھی طارق اقبال باتوں سے متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پورے ارریہ ضلع میں یادو برادری نے مہا گٹھ بندھن کو ووٹ نہیں دیا۔ عرفان ایک ایک سیٹ کی مثال دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین صرف دو نشتوں جوکی ہاٹ اور ارریہ اسمبلی پر انتخاب لڑ رہی تھی۔ جوکی ہاٹ حلقے سے تو مجلس کی جیت ہوئی لیکن ارریہ سیٹ سے کانگریس جیتی ہے۔ باقی تمام نشستیں این ڈی اے کی جھولی میں گئی ہیں۔ اس ضلعے میں کل 6 سیٹیں ہیں۔