دعوت، مسلمان اور غیر مسلمین

کار نبوت کے لیےسوز دروں کے ساتھ پیہم جدوجہد درکار

ابو فہد، نئی دلّی

 

دعوت کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے تجربے اور مشاہدے یا علم کی بنیاد پر یہ جانتا ہے کہ فلاں راستے پر رکاوٹ ہے یا کوئی خطرہ ہے تو وہ اپنا اخلاقی فرض سمجھ کر دوسرے راہ گیروں سے کہتا ہے کہ فلاں راستے پر مت جاؤ کیونکہ وہاں خطرہ ہے یا راستہ بند ہے۔ ایسا کرنے والا ہر طرح سے ایک اچھا عمل کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح دین اسلام کی طرف دعوت دینے والا ہر مسلمان ہر طرح سے غیر مسلموں کے لیے اچھا عمل کرنے والا ہے، ان کا خیر خواہ ہے اور ان کے لیے دنیوی بھلائی کے ساتھ ساتھ ان کی آخرت کی بھلائی بھی چاہتا ہے۔ پھر یہ ان کے اوپر ہے کہ وہ اس کی اچھی بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں۔ قرآن میں ایسے شخص کی تحسین اس طرح فرمائی گئی ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (فصلت۔33)
’’اور اس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے، نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں‘‘
قرآن کی اس تحسین کا ہر وہ مصلحِ امت بھی مستحق ہے جو مسلمانوں کو گناہوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور انہیں اچھے اعمال کی ترغیب دیتا ہے، اپنی زبان سے بھی اور اپنے عمل سے بھی۔بے شک بھلائی کے کام ہزاروں اور لاکھوں ہو سکتے ہیں اور ہیں بھی، مگر لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا تمام بھلے اور اچھے کاموں میں سب سے اچھا اور بھلا کام ہے۔ تاہم اللہ کی طرف بلانے میں رفاہ عام کے تمام کام بھی شامل ہیں، اسی لیے مذکورہ آیت میں ’عمل صالح‘ کا ذکر بھی ہے اور پھر مسلم ہونے کا بھی۔ دراصل عمل کی ترتیب یوں ہے: ’’ایمان، عمل صالح اور پھر دعوت‘‘ اس طرح دیکھیں تو آیت میں اس شخص کی بات کی تحسین فرمائی گئی ہے جو پہلے خود اللہ پر ایمان لائے، نیک عمل کرے اور پھر دوسروں کو بھی اللہ کی طرف بلائے اور انہیں نیک اعمال کی ترغیب دلائے۔
پوری خوش دلی اور قلبی اطمینان کے بعد ہی اسلام قبول کرنا چاہیے:
اگر آپ غیر مسلم ہیں اور اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں یا مسلمان ہی ہیں اور ہمیشہ مسلمان ہی رہنا چاہتے ہیں تو دونوں طرح کے لوگوں کا یہ عمل عقل وشعور کی سطح پر ہونا چاہیے نہ اس لیے کہ آپ جذبات سے مغلوب ہوگئے ہوں یا دلائل سے ہار گئے ہوں یا کسی کی فلسفیانہ گفتگو سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیے ہوں یا پھر کسی طرح کا کوئی لالچ یا کوئی خوف دامن گیر ہے کہ اسلام کے سائے میں آکر خوف جاتا رہے گا اور لالچ کی بنیاد پر پیدا ہونے والی خواہش پوری ہو جائے گی۔ اسلام قبول کرنے کی ان میں سے کوئی بھی وجہ گرچہ کسی نہ کسی معنیٰ میں درست ہو اور بہت ممکن ہے کہ ایسے اسلام کے بھی بہت سے فوائد ہوں۔ یا پھر یہی ایک سنہری امید ہو کہ دھیرے دھیرے لالچ، خوف اور جذباتی مغلوبیت کے اثرات ختم ہو جائیں گے اور قلب ونگاہ اخلاص وللٰہیت تک پہنچ ہی جائیں گے۔ پھر بھی اس طرز کا اسلام کم از کم ابتدائی دور میں حسن وکمال نہیں رکھتا اور انجام کا کیا ہے اس کا تو کسی کو نہیں معلوم۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان محض معاشرے کے دباؤ سے مسلمان رہنا چاہتا ہے وہ کھل کر اپنے اسلام کی نفی نہیں کرسکتا تو یہ بھی دیانت داری نہیں ہے گرچہ اس میں بھی یہ امکانی صورت موجود ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مضر چیزیں زائل ہوجاتی ہیں اور ایسے مسلمان کا دل محض توفیق الٰہی سے کامل ایمان اور اخلاص سے بھر جاتا ہے۔ کیونکہ انسان کے قلب و ذہن کی کیفیت ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے۔ کیا معلوم آج کا بے عمل وبے توفیق مسلمان کل کو جب اپنی زندگی کے آخری پڑاؤ پر پہنچ جائے تو با توفیق اور باعمل بن جائے اور اللہ اس کے حق میں بہتر فیصلہ فرمادے۔ یہی حال اسلام قبول کرنے والوں کا بھی ہے، ممکن ہے قبول اسلام کے وقت ان کی نیت کا قبلہ درست نہ ہو تاہم زندگی کے کسی پڑاؤ پر یا پھر آخری پڑاؤ پر پہنچ کر توفیق الٰہی سے نواز دیے جائیں۔
آج دعوت کا کام پہلے سے زیادہ آسان ہے:
آج کی دنیا میں غیر مسلموں میں دعوتِ اسلامی کا کام کرنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہے، آج وسائل کی فراوانی بھی ہے اور لوگوں کو تبدیلیِ مذہب کی کسی نہ کسی درجے میں آزادیاں بھی حاصل ہیں۔آج کی دنیا میں تبلیغِ دین کو داعی کا جائز حق تسلیم کرلیا گیا ہے اور اسی طرح مدعو کے لیے کسی بھی دین کو اپنانے کا حق بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ان سب کے پیچھے جو بھی مقاصد رہے ہوں تاہم یہ اصول مسلمانوں کے لیے بھی دعوت کے میدان میں نہایت کشادگی اور فراخی لے کر آئے ہیں اور اسلام کو پھلنے پھولنے کے مواقع بھی حاصل ہوئے ہیں۔ مستزاد برآں سائنسی علوم کی ترقی نے بھی انسان کے ذہن میں کشادگی پیدا کی ہے اور آج کے انسان کو جس بات میں یا دعوت میں لاجک (logic) نظر آتی ہے یا اسے لگتا ہے کہ فلاں دین فطرت سے زیادہ قریب ہے تو وہ اس دین کو اپنانے میں زیادہ دقت محسوس نہیں کرتا۔
البتہ آج جو چیزیں نہیں ہیں اور جن کا اثر براہ راست دعوت قبول کرنے والے کی ذہنیت پر پڑتا ہے ان میں سے ایک تو خود داعی کے اندر علم وعمل اور ایمان ویقین کی کمی ہے دوسرے علم وفن کے تمام میدانوں میں مسلمانوں کا پچھڑا پن ہے اور تیسری چیز یہ ہے کہ مسلمانوں کی پشت پر اقتدار کی طاقت موجود نہیں ہے۔ بے شک اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کی پشت پر ایسی کوئی طاقت نہیں تھی مگر اس وقت رسول اللہﷺ بنفس نفیس امت کے اندر موجود تھے اور زمین سے آسمان کے رشتے مستحکم تھے۔ خود رسول اللہﷺ کے لیے اور صحابہ کرام ؓ کے لیے یہ چیز بڑی قوت اور سہارا تھی، پھر بعد کے زمانے میں خلافت راشدہ کا رعب ودبدبہ اور پھر اس کے بعد طاقتور مسلم قیادت کا سہارا تبلیغ دین کو حاصل رہا۔ ایک بڑی قوت مسلمانوں کے اجتماعی اخلاق بھی تھے۔ مگر آج ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی سلبی شناخت ساری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ معاشرتی اور تمدنی زندگی میں مسلمانوں کی اخلاقی قوت بھی کمزور پڑ گئی ہے۔ فیملی سسٹم بھی کمزور ہوا ہے۔ اب اگر کوئی چیز باقی ہے جو غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرسکتی ہے تو وہ اسلامی تعلیمات ہیں قرآن کریم کی حقانیت ہے اور اسلامی تہذیب کے باقی ماندہ اثرات ہیں اور بس۔ آج ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے جو اسلام کی دعوت دینے والے کے لیے اضافی سہارا بن سکے اور آڑے وقت میں اسکی پشت پناہی کرسکے۔ اس کا نتیجہ راست طور پر یہ نکلتا ہے کہ جب کسی غیر مسلم کو دعوت دی جاتی ہے تو اس کے ذہن میں پہلا سوال یہی ابھرتا ہے کہ جب اس کا دین اتنا ہی اچھا ہے اور اتنا ہی فطری ہے اور اتنا ہی ترقی یافتہ ہے جتنا یہ ہمیں بتا رہا ہے تو پھر اس دین نے خود اس کی قوم کی تقدیر کیوں نہیں بدلی، مسلم معاشرہ بدحالی کی طرف کیوں گامزن ہے اور یہ کہ خود اس کے اپنے دین میں اتنی تفرقہ بازیاں، گروہ بندیاں اور افراتفریاں کیوں ہیں؟ جب بھی کسی سادہ ذہن رکھنے والے پڑھے لکھے انسان کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے تو اس کے دماغ میں اسی قسم کے سیکڑوں سوالات کا خود رو جنگل اُگ آتا ہے اور وہ اسلام کی طرف آنے سے کترانے لگتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے زمانے میں ایسی آزادی کا کوئی تصور نہیں تھا کہ آدمی اپنی پسند اور مرضی سے جو چاہے دین اپنا لے۔ اسی لیے ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جب بھی کوئی اسلام قبول کرلیتا تو سب سے پہلے اس کے گھروالے، بعد ازاں محلے والے اور پھر بستی کی سرکردہ شخصیات اس پر دباؤ بناتی تھیں کہ وہ اسلام کو چھوڑ دے اور اگر وہ دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتا تھا تو اس کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں۔ اس معاشرے میں جو انسانی آزادیوں پر یقین نہیں رکھتا تھا یہاں تک بھی ہوا کہ بستی کے تمام لوگوں نے مل کر ایمان لانے والوں کا، جن کی تعداد اس وقت بہت کم تھی، حقہ پانی بند کردیا اور انہیں بستی سے دور پہاڑوں کی طرف رگید دیا، جہاں انہوں نے کم وبیش تین سال اس طرح گزارے کہ کھانے پینے کے بھی لالے پڑے ہوئے تھے، یہاں تک کہ وہ پیڑوں کی چھال اور پتے کھانے پر بھی مجبور ہوئے۔ یہ بڑا ہی بے رحمانہ اور ظالمانہ بائیکاٹ تھا، کئی اہل ایمان اس جان لیوا بائیکاٹ کی نذر ہوگئے اور جاں سے گزر گئے۔ خود رسول اللہ ﷺ بھی اس بڑی آزمائش سے گزرے۔ اُس معاشرے میں دعوت دینا اور دعوت قبول کرنا بہت ہی خطرناک کام کرنے جیسا تھا، جس میں جان ومال دونوں کا نقصان تھا۔ مگر آج کی دنیا میں کم از کم ایسی صورت حال نہیں ہے، مسائل بہر حال موجود ہیں، تاہم مواقع بھی ہیں اور راستہ یہی ہے کہ مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اور مواقع کو بھناتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں۔
دعوت نہ اکراہ ہے اور نہ جبر:
قرآن میں ہے ’’ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ‘‘یعنی دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں۔ جو اپنی مرضی سے دین کو قبول کرنا چاہے وہ کرلے اور جو قبول نہ کرنا چاہے وہ نہ کرے۔ مگر دعوت سب کو دی جائے گی۔ اور دعوت اپنے اسلوب اور طریقہ کار کے اعتبار سے کسی بھی طرح ’اکراہ‘ یعنی جبر نہیں ہے۔ اس لیے دعوت کو بہلانے پھسلانے اور برین واشنگ جیسی تعبیرات اور الفاظ سے معنون نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دعوت بالغ اور ہوش مند انسان پر پیش کی جاتی ہے اور اسے دعوت قبول کرنے یا رد کر دینے کا پورا اختیار ہوتا ہے۔ دعوت کے پورے پروسس میں تالیف قلب کے طور پر غیر مسلمانوں کی مادی مدد کرنے یعنی راشن پانی، علاج معالجہ اور نقدی وغیرہ سے تعاون کرنے کی اجازت ہے مگر یہ عمل لالچ دینے دلانے سے مختلف ہے۔
اسلام کی دعوت دیگر ادیان کی تبلیغ سے بہت مختلف ہے، اس میں نہ یہ جائز ہے کہ لوگوں کو خوف میں مبتلا کیا جائے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں اور نہ ہی اس کا کچھ جواز ہے کہ انہیں کسی قسم کا لالچ دے کر احسان مند رکھا جائے کہ وہ احسان مندی کے جذبات سے مغلوب ہوکر اسلام کی طرف راغب ہوں۔ اسلام میں ایسا کچھ بھی جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اس اختیار کی آزادی سلب ہو جاتی ہے جو اللہ نے اپنے ہر بندے کو دے رکھی ہے کہ دنیا میں وہ اللہ کو اپنا رب تسلیم کرے یا نہ کرے۔
قرآن میں اس آزادی اور اختیار کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ(الکہف: 29)
’’اے محمد! آپ لوگوں میں یہ اعلان کر دیجیے کہ ان کے رب کی طرف سےحق، یعنی قرآن آگیا ہے، اب جو چاہے اس پر ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے۔‘‘
کسی انسان کے ایمان لانے یا کفر پر قائم رہنے کی آزادی کے صریح اعلان کے بعد کسی بھی مسلمان، داعی یا حاکم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کی آزادیاں سلب کرے اور انہیں زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے لیے توڑ جوڑ کرے، لالچ دے یا خوف کا ماحول پیدا کرے۔ ان احکامات کی روشنی میں اسلام اور مسلمانوں پر اس الزام کی کچھ بھی حقیقت نہیں رہ جاتی ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا یا گیا ہے یا کسی قسم کے جبر واکراہ سے کام لیا گیا ہے۔
دعوت تو بس درد و تڑپ اور جدوجہد ہے:
دعوت تو صرف درد و تڑپ اور جدوجہد ہے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور سرخروئی کاجذبہ ہے۔ دعوت دینے والے کے اندر وہی درد اور جذبہ ہونا ضروری ہے جو ہمیں رسول اللہ ﷺ کی ذات میں دکھائی دیتا ہے۔ جس کی ترجمانی قرآن میں اس طرح کی گئی ہے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿الکہف:٦﴾
’’تو کیا آپ ان کے پیچھے شدتِ غم میں اپنی جانِ تک بھی گھلا دیں گے اگر وہ اس قرآن پر ایمان نہ لائے ‘‘
رسول اللہ ﷺ کے اسی درد وتڑپ اور شدت جذبات کا پتہ مسلم شریف کی اس حدیث سے بھی چلتا ہے جس میں آپ نے ایک مثال کے ذریعے اپنی قلبی کیفیت اور دردو تڑپ کو بیان فرمایا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اِسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا اَضَائَ تْ مَا حَوْلَھَا جَعَلَ الْفَرَاشُ وَ ھٰذِہِ الدَّوَابُّ الَّتِیْ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا، وَ جَعَلَ یَحْجُزُھُنَّ وَ یَغْلِبْنَہٗ فَیَتَقَحَّمْنَ فِیْھَا قَالَ فَذٰلِکُمْ مَثَلِیْ وَ مَثَلُکُمْ اَنَا اَخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا۔(رَوَاہُ مُسْلِمٌ)
حضرت ابوؓ ہریرہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی پھر جب اس کے گرد روشنی ہوگئی تو پتنگے اور کیڑے جو آگ پر مرے پڑتے ہیں آگ میں گرنے لگے اور وہ شخص ان کو روکنے لگا لیکن پتنگے اس پر غالب آگئے اور آگ میں گرتے چلے گئے۔ یہی میری اور تمہاری مثال ہے میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر جہنم سے بچا رہا ہوں اور آواز دے رہا ہوں آگ سے دور رہو، آگ سے دور رہو، لیکن تم مجھ پر غالب آگئے اور آگ میں گرتے چلے گئے۔‘‘ ***

اسلام کی دعوت دیگر ادیان کی تبلیغ سے بہت مختلف ہے، اس میں نہ یہ جائز ہے کہ لوگوں کو خوف میں مبتلا کیا جائے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور ہوجائیں اور نہ ہی اس کا کچھ جواز ہے کہ انہیں کسی قسم کا لالچ دے کر احسان مند رکھا جائے کہ وہ احسان مندی کے جذبات سے مغلوب ہوکر اسلام کی طرف راغب ہوں۔ اسلام میں ایسا کچھ بھی جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اس اختیار کی آزادی سلب ہو جاتی ہے جو اللہ نے اپنے ہر بندے کو دے رکھی ہے کہ دنیا میں وہ اللہ کو اپنا رب تسلیم کرے یا نہ کرے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020