’’وہ کوہ کن کی بات‘‘

بے مثال استاذکو باکمال شاگرد کا خراج تحسین

محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

 

نام کتاب : وہ کوہ کن کی بات
مصنف : مولانا نور عالم خلیل امینی
تبصرہ نگار : محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
ناشر : ادارہ علم وادب دیوبند ، یوپی
قیمت : 200 روپے
دنیا بھر میں پھیلے ہوئے زبان وادب کے شیدائیوں کے مقبول ومحبوب مصنف،عربی واردو کے ممتاز قلم کار ،صاحبِ طرز ادیب، دارالعلوم دیوبند کے عظیم استاذاور ماہ نامہ ’’الداعی ‘‘ عربی کے مدیر مولانانورعالم خلیل امینیؒ کی اپنے موضوعات پر منفرد وجامع کتابیں جہاں تاریخ وتحقیق کی نئی باتوں سے مزین ہوتی ہیں،وہیں اسلوبِ نگارش کے اعتبار سے زبان وقلم کی غیر معمولی چاشنی وحلاوت قارئین کو ان کا گرویدہ بنالیتی ہیں۔آپ عربی واردوزبان کے ادیب تھے،آپ کی عربی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے ’’صدرجمہوریہ ایوارڈ‘‘سے بھی نوازا۔
آپ کی بہت سی کتابیں ہیں ،اور ہر کتاب اپنی ریکارڈ مقبولیت بھی رکھتی ہے ،ان ہی میں سے ایک ’’وہ کوہ کن کی بات ‘‘ بھی ہے۔اس موقع پر اسی کے حوالے کچھ باتیں پیش کی جائیں گی کہ اس کتاب کے ذریعہ آپ نے اپنے بے مثال استاذ’’مولانا وحید الزماں کیرانوی ؒ ‘‘کو قابل ِ رشک انداز میں خراج عقیدت پیش کیاہے۔ اس کتاب کے ذریعہ آپ نے ایک مخلص استاذ کی اپنے شاگردوں کے لیے پیہم جدوجہد ،ان کو تراشنے ،سنوارنے ،بنانے اور دنیاکے سامنے بیش قیمت گوہر کی شکل میں پیش کرنے کے لیے جو کوشش تھی اس کو بڑے ہی دلچسپ اور خوبصورت انداز میں بیان کیاہے۔یہ کتاب ہردور کے طلباواساتذہ کے لیے متاعِ گراں مایہ ہے۔اس کتاب کی روشنی میں استاذ اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھ سکتا ہے اور شاگرد اپنے مشفق ومہربان استاذ کی محنتوں کی قدر کرتے ہوئے خود کو راہ ِ علم میں قربان کرسکتاہے۔اس کتاب کے ذریعہ استاذ کو اپنے فرائض سے آگہی بھی حاصل ہوگی اور شاگرد کو چشمہ علم سے سیراب ہونے کا طریقہ بھی ملے گا ۔
دارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم ،سیکڑوں شاگردوں کے مربی ومقبول استاذ،عربی زبان میں منفرد شان رکھنے والا،عربی واردولغات کے معروف مصنف مولانا وحیدالزماں کیرانویؒ کا پندرہ اپریل 1995ء کو انتقال ہوا،اپنے استاذ کی جدائی سے مغموم شاگرد رشید مولانا نورعالم خلیل امینیؒ نے اپنے دل حزیں کی حکایت ،مشفق استاذ کی مہربانیوں کے تذکرے کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیااور ’’وہ کوہ کن کی بات‘‘کے عنوان کے ایک بہترین کتاب تیارکی۔کتاب کا پہلا ایڈیشن جولائی 1995ء پر منظر عام پر آیا،اِس وقت راقم کے پیش نظر کتاب کا پانچواں ایڈیشن(مطبوعہ مارچ2015ء) ہے،ہر ایڈیشن گیارہ سوکی تعداد میں چھپا،جب کہ تیسرا ایڈیشن پانچ ہزار کی تعداد میں منظر عام پر آیا،کتاب محبت میں ڈوب کر لکھی گئی اور اندازِ تربیت اور شفقتوں کو مؤثر انداز میں بیان کیاگیا کہ اہل علم وادب نے اس کی بھر پور پذیرائی فرمائی۔
’وہ کوہ کن کی بات‘ مشاہیر اہل علم کی نظر میں
کتاب کے بارے میں مولانا برہان الدین سنبھلی لکھتے ہیں۔ ’’اسے کتاب کیوں کر کہیے دل کے ٹکڑوں اور جگرکے پاروں کا حسین گلدستہ نام دیجیے، جس کے ذریعہ واقعہ یہ ہے کہ آپ نے حق تلمذاداکردیا،اوریقیناً اس زریں فہرست میں نام لکھالیا،جس میں شاگردوں کے اپنے اساتذہ کے ساتھ والہانہ تعلق کی تاریخ بنانے اور جریدہ ٔعالم پر نقش دوام ثبت کردینے والوں کے نام ہیں۔جس طرح آپ نے اپنے استاذ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’قریبی دور میں ان کی نظیرنہیں ملے گی۔۔۔‘‘اسی طرح میرا تاثر یہ ہے کہ ایسے تلمیذ باتمیز کی بھی قریبی دور میں نظیر نہیںملے گی۔‘‘
مفتی محمد ظفیر الدینؒ کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں۔ ’’آپ کی کتاب کا لب ولہجہ اور بے ساختگی دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ اگر میرا کوئی ایسا شاگرد ہوتا تو مرجانے میں فائدہ تھا۔جو بھی آپ کی کتاب پڑھے گااوراہل دل ہوگا تو وہ ایسے تلمیذرشید کی سعادت مندی پر لازماٌ فخر کرے گا کہ کاش ایسا ہونہار شاگرد مجھے بھی مل جاتا اور میں مرجاتا۔‘‘
کتاب کے اہم اقتباسات پر ایک نظر
مولانا وحیدالزماں کیرانویؒ کا اچھوتے و دلکش انداز میں تعارف کرواتے ہوئے مولانا نورعالم خلیل امینیؒ لکھتے ہیں۔’’اب کسی کوکس طرح بتاؤں کہ نوجوانان مسلم اور عشاقان زبان محمدی وتہذیب ِ حجازی کے لیے مولانا کیاتھے اور کیانہ تھے۔
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلاؤ ،کہ ہم بتلائیں کیا؟
خوابیدہ صلاحیتوں کے لیے مرغ سحر،افسردہ دلوں کے لیے مرغ چمن،مردہ ضمیروں کے لیے حرارتِ نفَس ہائے مسیح،کسل مندوں کے لیے بانگ ِ درا،ناشکیبوں کے لیے ضرب ِ کلیم، شرمندگان ِ ساحل کے لیے بحرِ بے کراں،مغلوبان گماں کے لیے یقین محکم اور اسیران آرزو کے لیے عمل پیہم۔جب بھی جی نہ لگتا تو مولانا کے پاس جاتااورتخم عمل اور نخل فکر ونظر کے لیے ہمیشہ سازگارآب وہوا کی بڑی قسط لے کر واپس آتا،ناامیدجاتااور دل کے لالہ افسردہ کو آتش قبا کرکے واپس آتا۔کوئی خوشی ہویاغم ،ان سےضرورملتا؛کیوں کہ وہ خوشی کودوبالااورغم کے لیے زود اثرمرہم ،ہم دست کردیتے۔‘‘
مولانا وحیدالزماں کیرانویؒ کی وفات پر رنج وملال کاتذکرہ ،اورخسران ونقصان کا ذکراپنے منفرد ودلکش اسلوب میں اس طرح کیا ہے ۔چناں چہ لکھتے ہیں’’مولانا کی رحلت ،تعلیم وتربیت کے میدان کے عام شہ سواروں ،برصغیر کے اسلامی مدرسوں ،جامعات اور دانش کدوں کے دیگر اساتذہ کرام کی رحلت کاکوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں غیر معمولی انقلابی کارناموں والی شخصیت کی رحلت کا ،غیر معمولی اندوہ ناک واقعہ ہے۔جس نے ہزاروں دلوں کو جھنجھوڑکر رکھ دیا،کہ وہ علم وفن سے زیادہ اور تعلیم وتربیت کے سوا بھی متعدد میدانوں میں ،نقوش جاوداں چھوڑگئے اور صرف چاردہوں کی قلیل مدت میں ’’جوانان مکتب‘‘کی بے شمار تعداد کو زبان وادب،تحریر وتقریر،فکر ونظر ،تبلیغ ودعوت اور اخلاق وآداب کے ہتھیاروں سے،اس طرح لیس کردیا کہ اس کی مثال دور آخر میں چشم فلک نے بہت کم دیکھی ہوگی۔۔ان کی تربیت کے نتیجے میں مدرسی زندگی کے دھارے بدل گئے ،ان کے فیضان نہ جانے کیسے کیسے عزائم بیدارہوئے اور کتنے ولولے دلوں میں تڑپنے لگے۔انہوں نے ہمارے خون کو جس خلوص،جاں سوزی اور دل نوازی کے ساتھ رگوں میں دوڑناسکھایا،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج وہ خود ہماری آنکھوں سے ،خون بن کر ٹپک رہے ہیں ۔‘‘
آخری بات
بہرحال اس کتاب کے چند اقتباسات بطور نمونہ پیش کیے گئے ،پوری کتاب اسی والہانہ محبت میں ڈوبی ہوئی ،سطرسطراپنے استاذ سے بے پناہ تعلق کی غماز اور صفحہ صفحہ ہر استاذ وشاگردکے لیے دعوت فکر وعمل ہے۔طلبہ کو بنانے اور ان پر محنت کرنے کاجذبہ ہمارے مدرسوں میں اب کم ہوگیاہے جس کی وجہ سے افرادِ کار کا قحط ہے۔تعلیم کے ساتھ تربیت کا ماحول بھی رخصت ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں مدرسہ میں سالوں پڑھ کر نکلنے والا بھی اخلاق وآداب کے جوہر سے محروم دکھائی دیتا ہے،زبان کی مٹھاس،الفاظ کی شرینی ،خدمت کا جذبہ ،فراغت کے بعد بھی اپنے اساتذہ اور مادرعلمی سے تعلق والفت کافقدان نظر آتا ہے۔مدارس کی فضا سے آج بھی وہی لعل وگوہر نکل سکتے ہیں جنہوں نے اپنے کردار وعمل سے انقلاب برپاکیا،اپنی پاکیزہ فکروں سے ایک جہاں کو متاثر کیا۔لیکن شرط یہی ہے کہ دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی ۔ آج کے زمانے کے ہر استاذ اور طالب علم کو کم ازکم ایک مرتبہ پوری توجہ کے ساتھ اس کتاب کو پڑھنا چاہیے ،اس کے ذریعہ بے شمار آداب واخلاق کا علم ہوتاہے اور ایک استاذصرف چند حروف کو پڑھانے تک کا مکلف نہیں بلکہ پوری دلجمعی اور فکرمندی کے ساتھ اپنے شاگردوں کو تراش کر ہیرے جواہرات بنانے کا ہنر رکھتا ہے،اور ایک شاگرد کا تعلق ورشتہ اپنے استاذ سے صرف درس گاہ کے چند منٹوں تک کا نہیں بلکہ زندگی کے اتارچڑھاؤ میں وہ ان کی قابل ِ رشک زندگی سے اپنے صحیفہ ایام کو سجاسکتا ہے اور اپنے استاذ کے تربیت سے لعل وگہر بن سکتا ہے۔آج کے اس دور میں جہاں بہت سی چیزوں میں زوال آیا ہے وہیں استاذ وشاگردکا رشتہ بھی کمزوری کا شکار ہوگیا،تعلیم کے ساتھ تربیت کا جو حسین سنگم تھا اب بکھر چکا ہے،دونوں طرف سے کوتاہیوں نے علم وتربیت کی دنیا کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔رجال سازی کے ماحول میں غضب کاسناٹاہے،قابل افراد کی کمی نے ہر طور شورمچارکھاہے،بسااوقات حروف ونقوش سے تو آگہی ہوجاتی ہے لیکن تربیت سے محرومی رہتی ہے۔پورے اعتماد کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ جب کوئی ’’وہ کوہ کن کی بات ‘‘کو پڑھے گا،ہرسطر سے نمایاں طور پر ظاہرہونے والی عقیدت ومحبت،فدائیت وفنائیت کے نمونے نظر آئیں گے،ایک طرف آداب وحقوق کی بجاآوری میں مستعد طلباء کی جماعت دکھائی دے گی تو دوسری طرف اپنے تلامذہ پر جان وتن نچھاورکردینے والا،ان کو تیارکرنے کے لیے زندگی کی راحتوں کو قربان کرنے والا باکمال استاذ نظر آئے گا۔ اس کامطالعہ آج کے دورکے استاذ وشاگردکو اپنی ذمہ داری کا احساس بے چین کردے گا۔شاگرد کو رشیدوباکمال بننے کا جذبہ پیداہوگااور استاذ کو نافع ومخلص بننے کی تڑپ بے قرارکردے گا۔
ایسا جاوداں اور رواں قلم رکھنے والا صاحب طرز ادیب مولانا نور عالم خلیل امینی بھی تین مئی 2021ء مطابق بیس رمضان المبارک 1442ھ کو داغ مفارقت دے گیا۔آپ کی رحلت سے علم وادب اورزبان وقلم کی دنیا سونی ہوگئی،
اللہ دونوں مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ملت کو ان کا نعم البدل نصیب فرمائے ۔ آمین
(تبصرہ نگار ، مفتی صادق حسین قاسمی ،القلم فاؤنڈیشن کریم نگر کے ڈائرکٹرہیں)
***

خوابیدہ صلاحیتوں کے لیے مرغ سحر،افسردہ دلوں کے لیے مرغ چمن،مردہ ضمیروں کے لیے حرارتِ نفَس ہائے مسیح،کسل مندوں کے لیے بانگ ِ درا،ناشکیبوں کے لیے ضرب ِ کلیم، شرمندگان ِ ساحل کے لیے بحرِ بے کراں،مغلوبان گماں کے لیے یقین محکم اور اسیران آرزو کے لیے عمل پیہم ۔جب بھی جی نہ لگتا تو مولانا کے پاس جاتااورتخم عمل اور نخل فکر ونظر کے لیے ہمیشہ سازگارآب وہوا کی بڑی قسط لے کر واپس آتا،ناامیدجاتااور دل کے لالہ افسردہ کو آتش قبا کرکے واپس آتا۔کوئی خوشی ہویاغم ،ان سےضرورملتا؛کیوں کہ وہ خوشی کودوبالااورغم کے لیے زود اثرمرہم ،ہم دست کردیتے۔‘‘

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14  اگست 2021