مفسرین ومترجمین قرآن کا تعارف سیریز-2

حضرت شاہ عبد القادرؒ

ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی

 

قرآن کے اولین بامحاورہ اردو مترجم
تیرہویں صدی ہجری کا ابتدائی دور علمی دنیا میں اس لحاظ سے یادگار ہے کہ اس دور میں قرآن مجید کے دو اردو ترجمے پیش ہوئے۔ یہ سعادت خانوادۂ شاہ ولی اللہ کے دو عظیم سپوتوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کو حاصل ہوئی۔ شاہ رفیع الدین نے جو قرآن مجید کا لفظی ترجمہ کیا تھا وہ عام فہم نہیں تھا۔ البتہ شاہ عبدالقادر کا بامحاورہ ترجمہ کافی مقبول ومعروف ہوا۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کے تیسرے صاحبزادے شاہ عبدالقادر سنہ ۱۷۵۳ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔
شاہ عبدالقادر نے اپنے برادر اکبر شاہ عبدالعزیز دہلوی سے تعلیم حاصل کی اور ان سے طریقت کی تعلیم پائی۔ تمام زندگی درس و تدریس میں مشغول رہے۔ دہلی کی اکبر آبادی مسجد میں مقیم تھے۔ ان سے عبد الحئی بڈھانوی، شاہ اسماعیل دہلوی، فضل حق خیر آبادی، شاہ اسحاق دہلوی اور بہت سے لوگوں نے استفادہ کیا۔ شاہ عبد القادر کو صرف ایک بیٹی تھی اور اس کی شادی شاہ صاحب نے اپنے بھتیجے مولوی مصطفیٰ سے کی جس سے ایک بیٹی ہوئی اور اس کی شادی شاہ اسمعیل شہید سے ہوئی۔
’موضح قرآن‘ کے نام سے قرآن مجید کا اُردو ترجمہ تحریر کیا، اس کے علاوہ ان کی اور کوئی قابل ذکر تصنیفی، تالیفی خدمات نہیں ہیں۔ تاہم شاہ صاحب کے نام کو صرف اسی ایک خدمت نے زندہ جاوید کر دیا ہے۔ وہ تفسیر حدیث اور فقہ میں کافی عبور رکھتے تھے۔ شاہ عبدالقادر نے ۶۳ سال کی عمر میں ۱۹ رجب ۱۲۳۰ھ بمطابق ۱۸۱۴ء کو دہلی میں وفات پائی۔ اپنے جد امجد شاہ عبدالرحیم کے پاس ہی دفن ہوئے۔
شاہ عبدالقادر نے موضح قرآن اردو میں پہلا بامحاورہ ترجمہ ۱۷۹۰ء میں لکھا۔ یہ ترجمہ متعدد بار چھپ چکا ہے۔ اس کا ایک ایڈیشن لاطینی رسم الخط میں کلکتہ سے ۱۸۷۶ء میں T.P. Hugh کے دیباچے اور پادری ای۔ ایم ویری E.M. Wherry کے ایڈیشن کے ساتھ شائع ہوا۔ (۱) اس ترجمے کو ان کے بھائی شاہ رفیع الدین کے ترجمے کے مقابلے میں زیادہ صاف اور بامحاورہ سمجھا جاتا ہے۔ شاہ عبدالقادر کا اردو ترجمہ "موضح قرآن” اپنی غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں میں "الہامی ترجمہ” کے نام سے مشہور رہا ہے۔ اور حقیقت میں یہ قرآن کریم کا واحد ترجمہ ہے جو اردو میں پہلا با محاورہ ترجمہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآنی الفاظ کی ترتیب اور اس کے معانی و مفہوم سے حیرت انگیز طور پر قریب ہے۔ شاہ صاحب نے اس ترجمہ کی تکمیل میں تقریباً چالیس سال جو محنت شاقہ اٹھائی ہے وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ قرآن کریم کا یہ ترجمہ اردو زبان کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ شیخ الہند نے اس ترجمہ میں متعدد خوبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے۔
’’شاہ عبد القادر کا ترجمہ جیسے استعمال محاورات میں بے نظیر سمجھا جاتا ہے ویسے ہی باوجود پابندی محاورہ، قلت تغیر اور خفت تبدل میں بھی بے مثل ہے“۔ (۲)
اس ترجمہ کے ساتھ شاہ صاحب نے مختصر حواشی بھی تحریر فرمائی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ترجمہ لا تعداد مرتبہ مستقل بھی طبع ہوا اور متعدد مفسرین نے اپنی تفسیر کے اوپر ترجمہ قرآنی کے لیے اسی کا انتخاب کیا۔ شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ کے متعلق پروفیسر نثار احمد فاروقی کی رائے ملاحظہ فرمایئے تاکہ معلوم ہو کہ انہوں نے کس طرح مثالوں کے ذریعہ اس ترجمہ کی خوبیاں بیان کی ہیں:
’’نثری تراجم میں حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی (وفات ۱۲۳۰ ھ / ۱۸۱۴ ) کا ترجمہ موضح قرآن ۱۲۰۰ھ اردو زبان میں قرآنی مطالب کو فصاحت اور سلاست کے ساتھ آسان اور دلنشین اسلوب میں پیش کرنے کی بہترین کوشش ہے۔ مثلاً انہوں نے ’وکلمۃ اللہ ھی العلیا‘ کا ترجمہ یوں کیا ہے ’اور اللہ ہی کا بول بالا ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ اردو میں اس سے بہتر اور کوئی ترجمہ ان الفاظ کا ممکن نہیں۔ ’اللہ الصمد‘ کا ترجمہ کرتے ہیں ’اللہ نرادھار ہے‘ ،صمد کا مفہوم ادا کرنے کے لئے کوئی لفظ نرادھار سے قریب نہیں مل سکتا۔‘‘ (۳) ایک زمانے تک ان دونوں ترجموں کو اردو والے بڑے شوق و ذوق سے پڑھتے رہے۔ اس کے بعد اردو میں ترجموں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ دیگر علمائے کرام کے قرآن پاک کے مشہور تراجم ہماری تاریخ کے درخشندہ ابواب ہیں۔ شاہ صاحب انتہائی خلوت پسند تھے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے اسی لحاظ سے بعض بزرگوں کے حوالہ سے لکھا ہے کہ شاہ صاحب نے مسجدِ اکبرآبادی میں چالیس برس اعتکاف کی حالت میں ترجمہ قرآن تحریر فرمایا۔ آپ کے اندر کشف کی بڑی قوت تھی۔ شاہ صاحب کے متعلق میں نے جتنی تحریریں پڑھیں ان تمام میں شاہ صاحب کی اس خوبی کا تذکرہ ضرور پایا۔ شاہ عبدالعزیز رمضان المبارک کے شروع ہونے کے بعد یہ معلوم کراتے کہ شاہ عبدالقادر نے پہلی تراویح میں ایک پارہ پڑھا یا سوا پارہ پڑھا۔ اگر آپ ایک پارہ پڑھتے تھے تو شاہ صاحب سمجھ جاتے تھے کہ یہ مہینہ ۳۰ کا ہوگا اور اگر سوا پارہ پڑھا تو ۲۹ کا ہوگا۔
شاہ عبدالقادر کے ترجمہ موضح قرآن کے بارے میں مولانا محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’اگر اردو میں قرآن نازل ہوتا تو شاید اس کی تعبیرات وہی یا اس کے قریب قریب ہوتیں جو اس ترجمہ کی ہیں۔ گویا ان کے نزدیک حضرت شاہ صاحب نے قرآن کو اردو میں پورا پورا منتقل کر دیا ہے کہ وہ عین قرآن تو نہیں مگر مثل مفہوم قرآن بن گیا ہے۔ قرآنی مفہوم جس انداز سے عربی میں ادا ہوا ہے اسی انداز سے وہ اردو میں بھی ادا ہوگیا ہے‘‘۔(۴) مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ شاہ صاحب نے اس وقت قرآن مجید کا ترجمہ کیا جب اردو زبان بالکل طفولیت کی حالت میں تھی۔ (۵) بلاشبہ ایسے دور میں کلامِ الہی کا ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا اور قدرت نے بھی اس عظیم خدمت کی سعادت شاہ عبدالقادر کے حصہ میں لکھی تھی۔
لیکن شاہ صاحب کا ترجمہ پڑھنے کے بعد قاری یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ شاہ صاحب نے اپنے ترجمہ میں ہندی اور سنسکرت کے مخصوص الفاظ استعمال کیے ہیں۔ جبکہ اس دور کی اردو نظم ونثر کے نمونے یہ بتاتے ہیں کہ ہندی الفاظ کا استعمال اس وقت اتنا عام نہ تھا۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ’’صرف ہندو طبقہ میں ان لفظوں کا رواج ہوگا۔ لیکن شاہ صاحب کہیں کہیں چھانٹ چھانٹ کر اونچے اور مشکل ہندی الفاظ کے ذریعہ قرآن کا مفہوم بیان کرتے ہیں‘‘۔ (۶) مولانا قاسمی اس کا مقصد یہ بتاتے ہیں: ’’اور اس کا مقصد صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم طبقہ قرآن کے پیغام سے قریب تر ہو‘‘۔(۷) آپ کے والد شاہ ولی اللہ نے اپنی مشہور کتاب’’حجة البالغہ‘‘میں لکھا ہے:
’’کسی غیر مسلم قوم پر دینِ حق کی تبلیغ اتمام حجت کی حد تک کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس قوم کی زبان میں اسلامی اصول پیش کیے جائیں تاکہ وہ سمجھیں ۔ اگر اس درجہ ابلاغ دین نہ ہوگا تو وہ قوم اصحاب الاعراف کی حیثیت میں ہوگی۔‘‘ (۸) آپ کے بڑے بھائی شاہ عبدالعزیز نے بھی اس موضوع پر اپنے فتاویٰ میں روشنی ڈالی ہے۔
’’مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قوم کو اس کی زبان میں خدا کا پیغام سمجھائیں اور زبانی اور تحریری افہام وتفہیم کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق حسنہ کو بطور دلیل کے ان کے سامنے پیش کریں اور اس طرح کفر واسلام کے درمیان امتیاز قائم کرکے دکھائیں اور اگر کسی قوم پر اس طرح اتمامِ حجت نہ ہوگا تو وہ قوم’ اصحاب فترت‘ کہلائے گی‘‘۔(۹) شاید یہی وہ مقصد ہوگا جس کے لیے شاہ عبدالقادر نے اپنے ترجمہ میں ہندی اور سنسکرت الفاظ استعمال کیے ہیں۔
مولانا اخلاق حسین قاسمی کے یہ الفاظ موجودہ دور میں موضح قرآن کی بہترین عکاسی کرتے ہیں:
’’بلا شبہ حضرت صاحب کا ترجمہ قدیم اسلوب کے لحاظ سے اردوے معلّٰی کا بہترین نمونہ ہے اور آج دو سو برس بعد بھی وہ سدابہار پھولوں کی طرح شگفتہ و تروتازہ ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ نا قابل انکار ہے کہ شاہ صاحب کے ترجمہ اور فوائد میں جو تفسیری نکات اور لطائف پوشیدہ ہیں اہل علم ان سے بڑے غور وفکر کے بعد ہی آگاہ ہوتے ہیں، پھر جب اہل علم سرسری مطالعہ سے شاہ صاحب کے علمی حقائق تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے تو پھر عام مسلمان ان تفسیر حقائق کو کیسے سمجھ سکتے ہیں‘‘۔(۱۱)
مولانا قاسمی نے مستند موضح قرآن کے ذریعہ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ موضح قرآن کو ایک نئی جلا بخشی ہے۔ گویا قرآن فہمی کی ابتدائی مساعی کو انہوں نے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ شاہ عبد القادر کا ترجمہ قرآن صرف دینی خدمت ہی نہ تھی بلکہ اردو نثر کی بھی ایک عظیم الشان خدمت تھی۔ انہوں نے بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
’’عوامی زبان و محاورہ کو قرآن جیسی کتاب کے ترجمے کے لیے استعمال کر کے ایک نئی رفعت دی۔ ترجمے سے ایک طرف دینی مقاصد کو تقویت پہنچی تو دوسری طرف اردو زبان میں اظہار کی غیر معمولی قوت پیدا ہوئی‘‘۔(۱۲)
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو زبان میں آج جتنے بھی ترجمے ہورہے ہیں وہ تمام شاہ عبدالقادر کے موضح قرآن سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس ترجمے کو ہوئے سوا دو سو سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی نئے مترجمین کے لیے یہ ترجمہ بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔
حوالے:
۱۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد ۱۰،ص ۔ ۹۳۵
۲۔ شیخ الہند محمودالحسن، مقدمہ ترجمہ دارالتصنیف۔ کراچی
۳۔ ڈاکٹر حنیف سیف ہاشمی،قرآن مجید کے منظوم اردو تراجم کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ۱۹۹۹ء ص ۔۱۰
۴۔ مولانا قاری محمد طیب،مہتمم دارالعلوم دیوبند :تاثرات، مستند موضح قرآن،مولانا اخلاق حسین قاسمی ،ص۔ ۳۰
۵۔ بحوالہ، مستند موضح قرآن،مولانا اخلاق حسین قاسمی ،ص۔۲۴
۶۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی: مستند موضح قرآن ،ص۔ ۲۶
۷۔ ایضاً،ص۔۲۷
۸۔ مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی:حجتہ البالغہ،باب طبقات الامت ،جلد اول ۔ص ۔ ۱۱۷
۹۔ مولاناشاہ عبدالعزیز:فتاویٰ عزیزی ۔ص۔۱۴۰
۱۰۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی: مستند موضح قرآن ،ص۔ ۲۷
۱۱۔ ڈاکٹر جمیل جالبی: تاریخ ادب اردو، ۲،مجلس ترقی ادب لاہور ، ص۱۰۵۵
***

’’مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قوم کو اس کی زبان میں خدا کا پیغام سمجھائیں اور زبانی اور تحریری افہام وتفہیم کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق حسنہ کو بطور دلیل کے ان کے سامنے پیش کریں اور اس طرح کفر واسلام کے درمیان امتیاز قائم کرکے دکھائیں اور اگر کسی قوم پر اس طرح اتمامِ حجت نہ ہوگا تو وہ قوم’ اصحاب فترت‘ کہلائے گی‘‘۔
(شاہ عبدالقادر)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021